• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ڈوب رہا ہے اور یہاں صورت حال یہ ہے کہ جمہوریت بچانے کے لئے’’ یا ضمیر فروشی تیرا ہی آسرا ‘‘ہے۔ گزشتہ کالم میں پنجاب میں ضمنی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے واضح طور پر نشان دہی کی گئی تھی کہ اگر(ن) لیگ اور تحریک انصاف نے اقتدار پر قبضے کی جنگ میں عوام کی رائے کا احترام نہ کیا اور ووٹ کو عزت نہ دی گئی تو پھر پاکستان کی سلامتی کی دعا کریں۔ اب جو حالات نظر آرہے ہیں جس طرح ڈالر اُڈاریاں مار رہا ہے خدا نخواستہ وہ لمحہ زیادہ دور نہیں کہ ہم کو بعد میں پچھتانا پڑے!پنجاب میں ڈالر کے بھاؤ کے ساتھ ساتھ بے ضمیروں کی بولیاں بھی بڑھ چڑھ کرلگیں ۔ آج تحریک انصاف کا ٹکٹ اور بلا کامیابی کا نشان سمجھا جارہا تھا تو پھر یہ ضمیر فروش اراکین پنجاب اسمبلی کہاں سے نکل آئے؟ کون ہے جو اس وقت لوٹا بن کر تحریک انصاف کو چھوڑ کر (ن) لیگ کی کشتی میں سوار ہونا چاہے گا؟ سیاسی جوڑ توڑ ،وزارتوں ، مراعات کی پیش کش پر خاموشی اختیار کرنے کی بات تو سمجھ آتی ہے لیکن یہ پچاس پچاس کروڑ کی بولیاں وہ بھی غیر یقینی حالات میں کہ پنجاب اور وفاق میں اتحادیوں کی حکومت رہتی ہے یا نہیں کون یہ جواکھیلے گا۔ کھیل تو اسی دن شروع ہو گیا تھا جب چوہدری پرویز الٰہی نے (ن) لیگ کی طرف سے آصف زرداری کی ٹھوس گارنٹی کے باوجود وزارت اعلیٰ کی پیش کش قبول کرکے آخری لمحات میں ٹھکرا دی تھی۔ اُسی دن یہ تاثر بن چکا تھا کہ دال میں کچھ تو کالا ہے ا ور کہیں نہ کہیں وزیر اعظم خان کی حکومت گرائے جانے پر اختلاف رائے ضرور پایا جاتا ہے اور اقتدار کی یہ تبدیلی دل سے قبول نہیں کی گئی اور کچھ قوتیں خان اعظم کے ساتھ بدستور کھڑی ہیں اور وہ چوہدری پرویز الٰہی کو مہرہ بنا کر اس جنگ میں جلتی پرتیل چھڑکنے کا کام ضرور کریں گی۔ دراصل یہ مبینہ امریکی سازش ہم خود اپنے خلاف برپا کئے ہوئے ہیں۔ دانش مندی کا تقاضا تویہی تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی (ن) لیگ کی حمایت سے وزارتِ اعلیٰ کی پیش کش قبول کرلیتے اور (ن) لیگ کے ساتھ مل کر پنجاب اور وفاق میں مستحکم حکومت چلانے کی پوزیشن میں ہوتے لیکن ایسا نہیں ہونے پایا۔ اعلیٰ عدلیہ کے بعض فیصلے اور معزز جج صاحبان کے ریمارکس سے بھی یہ تاثر قائم ہوا کہ جو نظر آرہا ہے حقیقت میں وہ نہیں۔ خصوصاً حمزہ شہباز کابطور وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب بارے منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کرنا لیکن ان ارکان کے ووٹ گنتی میں شمار نہ کرنا اور حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ پربھی برقرار رکھنا ایک ایسا فیصلہ تھا کہ جس کے بارے میں عام آدمی بھی یہ رائے رکھتا تھا کہ جب تک عملی طور پر جرم سر زد نہ ہوتو سزا نہیں دی جاسکتی۔ معزز اعلیٰ عدلیہ نے رانا ثناءاللہ توہین عدالت کیس میں بھی کچھ اسی طرح کے ریمارکس دیئے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہوا اور اسکے اثرات سیاسی انتشار کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔ یہ بھی تاثر عام ہے کہ طاقت وروں کی سوچ میں بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے اور یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ آج یہ صورت ہے کہ پورا سیاسی و معاشی نظام مکمل طور پر یرغمال بن چکا ہے۔ مغوی عوام اس مصیبت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن طاقت وروں کی کیا سوچ ہے اس بارے میں لب خاموش ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ دو بڑے سیاسی ہاتھی نواز شریف اور عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک صفحے پر ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جو بیانہ نواز شریف نے اپنایا تھا اسے شہباز شریف کی مفاہمتی پالیسی نے ملیامیٹ کردیا جبکہ یہی بیانہ عمران خان نے اپنی پروپیگنڈا مہم(سوشل میڈیا مہم) میں ایسااٹھایا کہ جسے ختم کرنا ممکن نظر نہیںآتا،یہ وقت ہی بتائے گا کہ اس جنگ میں اگر تمام ادارے نیوٹرل ہوگئے تو پھر خان اعظم کہاں کھڑے ہوں گے۔ فی الحال تو اداروں کی سوچ میں اختلاف کا فائدہ خان اعظم بہت مہارت سے اٹھا رہے ہیں۔یہ مسئلہ سیاسی بحران سے زیادہ انتظامی بحران کا ہے۔ فریقین کی نظر نومبر میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ اور نئی تقرری پر لگی ہے اورسب نے اسی سے اپنا سیاسی مستقبل جوڑ رکھا ہے۔ جب تک نئی تقرری کا باضابطہ اعلان نہیں ہو جاتا یہ بحران ٹلتا نظر نہیں آرہا۔

یہی وجہ ہے کہ خان اعظم فوری انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں تاکہ وہ دوبارہ منتخب ہو کر اپنی مرضی کا تعیناتی کرسکیں جبکہ حکومتی اتحاد کی ترجیح یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح نومبر تک وقت گزارا جائے، کچھ ایسی ہی صورت حال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے ہے کہ سنیارٹی لسٹ کی بنیاد پر آئندہ چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر ان کا نام سرفہرست ہے اور یہ نام بہت سے لوگوں کو قبول نہیں۔ موجودہ معاشی و سیاسی بحران ٹالنے کے لئے ضروری ہے کہ فیصلے میرٹ پر کئے جائیں۔ اگر نومبر میں ہونے والی تقرری کا قبل از وقت باضابطہ اعلان کرکے تبدیلی نومبر میں ہو جائے تو توقع رکھی جاسکتی ہے کہ موجودہ سیاسی و معاشی بحران کسی حد تک قابو میں آجائےگا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین