• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ سال عالمی معیشت کو بہت سی مخالف تیز ہواؤں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جیسے جیسے ہم کووڈ کی وبا سے چھٹکارا پارہے ہیں تو کئی بحران بیک وقت ہمارےسامنے ابھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اجناس کا غیر معمولی چکر جس کے بارے میں 1970 کی دہائی کے بعد کبھی نہیں سنا گیا، اجناس کے درآمدکنندگان پر دباؤ ڈال رہا ہے اور دنیا بھرمیں مہنگائی کو کئی عشروں کی بلند ترین سطحوں تک لے جارہا ہے۔ ترقی یافتہ معیشتوں کے مرکزی بینکوں کی جانب سے شرح سود میں اس قدر بھاری اضافوں، جو گزشتہ 30برسوں میں نہیں دیکھے گئے، کی وجہ سے امریکی ڈالر 20سال کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا ہے اوریہی ابھرتی ہوئی منڈیوں سے سرمائے کی منتقلی اور کرنسی کی قدر میں کمی کا باعث بھی بنا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں پہلی بار تنازعے کاآغاز جو دنیا بھر میں غذائی اور توانائی کے خطرات کو جنم دے رہا ہے ، جنگ کے بعد عالمی نظام کو مستقل طور پر تباہ کرسکتا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بحران تنہا بھی ہوتا تو بہت بڑا چیلنج ہوتا ،تاہم ان سب نے مل کر ایک مکمل طوفان کو جنم دیا ہے جسے آئی ایم ایف نے ’’ہماری زندگی کا سب سے زیادہ پھیلاہوا پیچیدہ پالیسی ماحول‘‘ قرار دیا ہے۔

دنیا کے تمام ممالک کی طرح پاکستان بھی اس طوفان کی زد میں ہے۔ یہ طوفان ہمارے ساحلوں سے ایک بڑے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، تقریباً 15برسوں کی بلند ترین مہنگائی، فروری کی بہتر سطح کے بعد سے زر مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی، روپے کی قدر میں تاریخی کمی اور ہمارے بین الاقوامی بانڈز کے منافع کی پریشان کن سطح تک بڑھ جانے کی صورت میں ٹکرایا۔ اگرچہ یہ دباؤ زیادہ تر عالمی وجوہات سے آیا ہے، تاہم اس میں ملکی عوامل بھی ، اگلے بارہ مہینوں کے دوران ہمارے بیرونی قرضوں کی صورت شامل ہوگئے ہیں۔ اول اقساط کا بدقسمتی سے جمع ہوجانا۔ دوم، سیاسی بے یقینی کی وجہ سے فیصلہ سازی میں تاخیر اور پالیسی کے حوالے سے کوتاہیاں ہونا۔ یہ کوتاہیاں زیادہ تر مالیاتی سطح پر تھیں۔ پچھلے سال ایک ایسے وقت بجٹ میں غیرشامل شدہ توسیع جب معیشت کو اضافی تحریک کی ضرورت نہ تھی اور ساتھ ساتھ سبسڈی ایک غیرہدفی توانائی کی دے دینا۔ ان دونوں نے ایک ایسے وقت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو بڑھایا جب اجناس کی عالمی قیمتیں پہلے ہی ہمارے درآمدی بل پر دباؤ ڈال رہی تھیں۔ انہی کوتاہیوں کے باعث ہمارے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں طویل تاخیر ہوئی۔ نتیجتاً بیرونی رقوم جن کی بے پناہ ضرورت تھی معطل ہوگئیں جبکہ بیرونی قرضے کی واپسی کی رقوم بڑھتی رہیں جس سے فروری سے اب تک ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر میں 7 ارب ڈالر کی بھاری کمی آئی۔ یہ سب کا سب خودبخود نہیں ہوا۔ ہماری مشکلات کا یہ حصہ ہمارا اپنا پیدا کردہ ہے۔

نسبتاً کم بری خبریں یہ ہیں کہ پاکستان کو بھی اگرچہ اگلے بارہ مشکل مہینوں کا سامنا ہے تاہم اس طوفان سے مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کی پوزیشن نسبتاًبہترہے۔عالمی مارکیٹ میں افرا تفری کی موجودہ حالت کئی ملکوں کے لیے واقعی پریشان کن ہے۔ اگرچہ کچھ لوگ ہمیں بھی اُن ملکوں میں شمار کررہےہیں جو قرضے کے بحران سے دو چار ہیں۔ لیکن یہ خیال خام ہے ۔پاکستان کے حالات خدا نخواستہ انگولا، چاڈ، ایتھوپیا، گھانا، سری لنکا جیسے نہیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس خطرے سے کہیں دور ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ہمارا ملکی داخلی قرضہ جو جی ڈی پی کا تقریباً 70 فیصد ہے بہت زیادہ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ہمارا بیرونی قرضہ، جو جی ڈی پی کا 40 فیصد ہے، بھی قدرے کم ہے۔ تیسری بات یہ کہ جو چیز ملکوں کو مشکل میں ڈالتی ہے۔وہ قلیل مدت کا بیرونی قرضہ ہوتا ہے جو تجارتی شرائط پر نجی شعبہ لیتا ہے۔ ان تمام معاملات میں پاکستان کی صورتِ حال بری نہیں ہے۔ ہمارا تقریباً 95فیصد بیرونی قرضہ درمیانی یا طویل مدت کا ہے۔ ہمارا 80 فیصد بیرونی قرضہ کثیر فریقی(ملٹی لیٹرل) اداروں اور چین، سعودی عرب اور پیرس کلب جیسےسرکاری دو طرفہ فریقوں سے لیا گیا ہے، اس میں سے بھی بیشتر رعایتی شرائط پر لیا گیا ہے۔ ہمارا کمرشل قرضہ جو غیرملکی بینکوں یا بانڈز کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے بہت کم ہے۔ ہمارا تقریباً تمام بیرونی قرضہ سرکاری شعبے کا ہے۔ چوتھی بات یہ کہ اگلے بارہ ماہ کے دوران ہمارے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو اوربیرونی قرضے کی ادائیگی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے جتنی بیرونی رقوم کی ضرورت ہے وہ اگرچہ ہمارے اپنے ماضی کے معیار کے لحاظ سے خاصی بلند ہے لیکن اتنی بھی بلندنہیں جتنی دوسرے بہت سے ملکوں کی ہے۔

سب سے اہم بات جو خطرات سے دوچار دوسرے ملکوں سے پاکستان کو الگ اور ممتاز کرتی ہے وہ ہمارا آئی ایم ایف کا جاری پروگرام ہے۔ کئی ماہ جاری رہنے والے مشکل مذاکرات کے بعد ہم 13 جولائی کو آئی ایم ایف کے اسٹاف کے ساتھ معاہدے کے اہم سنگِ میل تک پہنچ گئے جو پروگرام کے اگلےجائزے کی تکمیل کے بارے میں تھا۔ اس طرح آئی ایم ایف بورڈ کے لیے راہ ہموار ہوگئی کہ وہ پروگرام کے تحت اگلے ماہ نئی قسط جاری کردے۔ چونکہ اقتصادی دباؤ کے اس دور میں عالمی تحفظ فراہم کرنے والا آخری ادارہ آئی ایم ایف ہے، اس لیے اُس نے اگلے 12 ماہ کے لیے ہمیں تحفظ فراہم کیا ہے۔ یہ وقت بھی گزر جائے گا لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں اور طوفان کے ٹل جانے کا انتظار کریں؟ ہرگز نہیں۔ہمیں اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہم آئی ایم ایف پروگرام کے تحت اپنے وعدے پورے کریں، خصوصاً جن کا تعلق مالیاتی سطح پر کمر کسنے، غیرہدفی توانائی پر سبسڈی ختم کرنے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قابو کرنے اور اپنے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھانے سے ہے۔ اسکے لیے ثابت قدمی سے عملدرآمداور اجتماعی قربانیوں کی ضرورت ہوگی۔

حتمی تجزیہ یہ ہے کہ ہماری موجودہ مشکلات ایک بنیادی خرابی کی بھی علامت ہیں جسے زیادہ دیر تک ٹالا نہیں جا سکتا۔ یہ خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب پیداوار میں اضافے کے بجائے ایک ایسی نمو پر انحصار کیا جائے جس میں بچت اور سرمایہ کاری کو نظرانداز کرکے کھپت پر غیر صحت مندانہ انحصار کیاجائے اور ٹیکس ادا نہ کیا جائے جس کے نتیجے میں سڑکوں، نوکریوں، صحت اور تعلیم کی شکل میں اہم عوامی خدمات فراہم نہ کی جاسکیں۔ کامیاب ممالک اس طرح نہیں چلتے۔ ان موضوعات پر کسی اور مضمون میں بات کی جاسکتی ہے لیکن اب ہم ان عوامل کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ دنیا کے پانچویں بڑےملک کی حیثیت سے پاکستان کو مستقل نمو کی ضرورت ہے تاکہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق ترقی کا آغاز کرسکے۔ ہمارا نمو کا موجودہ نمونہ اس مقصد کیلئےموزوں نہیں ہے۔ یہ بحران طویل عرصے سے نظر انداز ان مسائل کی طرف ہماری توجہ مبذول کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ہمیں اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے۔

امید ہے قارئین یہاں مجھے اپنی ایک ذاتی بات کرنے پر معاف کردیں گے۔ میں اس مضمون کا اختتام ایک شعر پر کروں گا جو میرے نانا نے پاکستان کی تاریخ کے مشکل ترین دور میں کہا تھا یعنی تحریک آزادی کے دوران۔ اس مالیاتی طوفانی موسم میں عمل پر ابھارنے کے لئے اس سے زیادہ موزوں کوئی اورچیز نہیں سوجھتی:

تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

(صاحبِ تحریر قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک ہیں)

تازہ ترین