• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کورونا وائرس کے بعد پچھلے دو ڈھائی سال میں مسلسل تجارتی، زراعتی اور معاشرتی مشکلات کا شکار رہی ہے لیکن اس برس روس، یوکرائن پر حملے کے بعد ان مشکلات میں اضافہ  دو چند ہوگیا ہے،جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے عوام غذائی قلت کا بھی شکار ہورہے ہیں اور مہنگائی نے تو ویسے ہی لوگوں کی کمر توڑی ہوئی ہے۔ جولائی کے آخری ہفتے میں صدر اردوان کی ثالثی کی بدولت روس اور یوکرائن میں ایک تاریخی معاہدہ طے پایا ہے جس کی بدولت امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ گندم کی عالمی قیمتیں کم ہوجائیں گی۔

22 جولائی کو روس اور یوکرائن کے نمائندوں نے ترک صدر اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے سامنے ایک جیسے دو الگ الگ معاہدوں پر دستخط کیے۔مسلۂ یہ ہے کہ بحیرہ اسود کی یوکرائنی بندرگاہوں سے جنگ کے باعث جہاز رانی بالکل بند ہوگئی تھی اب اناج کی برآمدات کے لیے انہیں دوبارہ کھولنے کا معاہدہ ہوگیا ہے۔ روسی حملے سے ایک ایسی صورت حال پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں بین الاقوامی طور پر خوارک کا بحران پیدا ہوگیا۔ یوکرائن پر روسی حملے کو پانچ ماہ گزر چکے ہیں اور شروع کے تین ہے۔ ماہ تک شدید جنگی صورت حال کے نتیجے میں باہمی گفت وشنید بند تھی، پھر دو ماہ قبل مئی میں بات چیت شروع ہوئی ،جس کے نتیجے میں ہونے والے معاہدے کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوت ریس نے پیکج کہا ہے۔ 

اس معاہدے کی رو سے ماسکو جسے سخت مغربی پابندیوں کا سامنا ہے اس بات پر راضی ہوگیا ہے کہ یوکرائن اناج کی برآمد کو بحال کردے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یوکرائن نے روس سے براہ راست معاہدہ کرنے کی بجائے ترکی اور اقوام متحدہ کے ساتھ کرنے کو ترجیح دی اس طرح دونوں ملکوں نے ثالثوں کے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ اگر یہ معاہدے نہ ہوتے یا اب بھی اس پر پوری طرح عمل نہ ہوا تو گندم کی قیمتیں عالمی منڈی میں بڑھتی رہیں گی۔ یہ معاہدہ فی الحال 120 دنوں کے لیے ہے، جس میں اوڈیسا، چرنومورسک اور پِوڈینیی جیسی بندرگاہوں سے گندم کی ترسیل کی اجازت دی گئی ہے۔

اب امید ہے کہ معاہدہ خوارک کے عالمی بحران کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس طرح اس وقت دنیا کو دو بنیادی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اُن میں ایک خوارک کی فراہمی دوسرا مہنگائی پر قابو پانا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دو کروڑ بیس لاکھ ٹن گندم ،مکئی اور دیگر اجناس یوکرائن کے ساحل سے مال بردار جہازوں کے زریعے پوری دنیا میں منتقل کی جا سکیں گی۔ اصل میں معاہدے کا فائدہ روس کو بھی ہوگا؟ کیوں کہ بحرہ اسود اس کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے اور جنگ کے باعث جہاں یوکرائن سے اناج کی ترسیل متاثر ہوئی وہیں روس کے لیے بھی مشکلات پیدا ہوئی تھیں۔ دراصل بین اقوامی مہنگائی اور غذائی قلت کا انحصار صرف اس معاہدے پر نہیں ہے۔ 

تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے نے بھی خاصا اہم کردار ادا کیا ہے۔روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد یورپ کو گیس کی فراہمی خطرے میں پڑگئی، جس کے لیے ایک پائپ لائن نارڈ اسٹریم ون یا " پہلا شمالی راستہ " موجود ہے۔ یورپ اپنی گیس کی ضرورت کا چالیس فیصد روس سے حاصل کرتا ہے۔ مغربی ممالک نے جب روس پر پابندیاں لگائیں تو روس نے دھمکی دی کہ وہ یورپ کو گیس کی فراہمی روک سکتا ہے اور دس جولائی کو پائپ لائن کی سالانہ مرمت کے جواز پر گیس بند بھی کردی۔ 

بحرہ بالٹک کے زریعے آنے والی پائپ لائن بند ہوئی تو خدشہ ہوا کہ اب کیا ہوگا۔ لیکن روس نے دس دن بعد گیس کو اس انتباہ کے ساتھ بحال کردیا کہ وہ گیس کی فراہمی مکمل یا جزوی طور پر بند کر سکتا ہے۔ مغربی یورپ کا سب سے بڑا ملک جرمنی یوکرائن پر روس کے حملے سے پہلے اپنی ضرورت کی گیس کا 55 فی صد روس سے خریدتا تھا۔ اب روس نے عارضی تعطل کے بعد گیس کی فراہمی شروع تو کردی ہے لیکن مقدار پہلے کے مقابلے صرف چالیس فی صد ہے۔ یاد رہے کہ روس نے نارڈ اسٹریم ٹو کا منصوبہ بھی 12 ارب ڈالر کی لاگت سے مکمل کرلیا تھا لیکن اب اس پر عمل کو وقتی طور پر روک دیا گیا ہے۔

عالمی طور پر تیل اور گیس کے بحران کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ روس پہلے ہی بلغاریہ, پولینڈ, ڈنمارک, ہالینڈ اور فن لینڈ کو گیس کی ادائیگی کے طریقہ کار پر اختلاف کے باعث گیس بند کرچکا ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ جنگ اور اس کے نتیجے میں لگنے والی پابندیوں کے بعد روس نے فوری ردعمل کے طور پر یورپ کو گیس کی فراہمی بند نہیں کی ورنہ پوری دنیا اس سے بھی بڑے بحران کا شکار ہوتی اور ظاہر ہے اس کا سب سے زیادہ اثر عوام پر پڑتا جو پہلے ہی مہنگائی اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 

اس پر مزید کساد بازاری سے تو حالات بہت خراب ہوجاتے۔جنگ کا آغاز ہونے کے بعد بھی یورپی یونین نے پچھلے میں روس کو ایندھن کی مد میں ساٹھ ارب یورو ادا کیے ہیں یعنی کہ ہر ماہ بارہ ارب یورو روس یورپ سے حاصل کرتا ہے یعنی مغربی طاقتیں خود اپنے مفاد کے لیے تو روس سے لین دین بھی کررہی ہیں اور رقوم بھی ادا کررہی ہیں لیکن دنیا کے غریب عوام اور ممالک کا شکار کررہی ہیں کہ وہ روس سے تجارت نہ کریں۔ یعنی انہیں عوام کی بھوک اور مہنگائی کی فکر نہیں، بل کہ اپنے سیاسی مفادات زیادہ عزیز ہیں۔ یاد رہے کہ یورپ نے روس کو حال ہی میں جو ادائیگیاں کی ہیں وہ یوکرائن کو دی جانے والی امداد سے 35 گنا زیادہ ہیں ،جب کہ روس کے وفاقی بجٹ میں 45 فی صد رقم تیل اور گیس کے محصولات سے لی جاتی ہے۔

اس عالمی بحران کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یورپی یونین اپنی توانائی کی ضروریات کا اکسٹھ فی صد درآمد کرتا ہے جس میں صرف گیس کا اکتالیس فی صد روس سے آتا ہے۔ اب یورپ دیگر ممالک سے خریدنے کی کوشش کررہا ہے جس سے عالمی سطح پر قیمتیں بڑھتی چلی جارہی ہیں اور اس کا نقصان پاکستان جیسے ملکوں کو ہورہا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک اس بحران کی لپیٹ میں کیسے آئے اس کا اندازہ ہم سری لنکا پر ایک نظر ڈال کر کرسکتے ہیں اور اس کا نشانہ بھارت بھی بن رہا ہے۔ سری لنکا میں جاری حکومت مخالف احتجاج میں جہاں لوگوں نے ایک طرف سابق صدر گوتا بایا راجا پکشے اور اُن کے خاندان کے خلاف نعرے لگائے وہیں دیگر ممالک کے خلاف بھی نعرے بازی کی، جن میں بھارت سرفہرست ہے۔ 

مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ امریکا اور بھارت کے ہاتھوں سری لنکا کو نہ بیچا جائے اور یہ نعرہ بھی کہ سری لنکا ایک خود مختار ملک ہے ، یہ کسی اور ریاست کا حصہ نہیں ہے جو اس پر حکم چلائے۔ اسی قسم کے نعرے ہم پاکستان میں سابق وزیراعظم عمران خان کی زبانی بھی سُن چکے ہیں کہ کیا ہم کوئی غلام ہیں جو دوسرے کہیں وہ کرلیں۔ لیکن خود مختاری کا انحصار بڑی حد تک معاشی حالات پر ہوتا ہے اگر پاکستان یا سری لنکا جیسے ممالک  معاشی طور پر محتاج رہیں گے تو انہیں بیرونی طاقتوں کی شرائط ماننی ہی پڑے گی۔ جیسا کہ اب ہورہا ہے۔

اصل میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں بحران صرف سیاسی نہیں ہیں ان کے پیچھے معاشی حالات کا بڑا عمل دخل ہے۔ کئی ممالک اس وقت گہرے اور غیر معمولی معاشی بحران میں پھنسے ہوئے ہیں جن میں پاکستان اور سری لنکا سرفہرست ہیں جہاں ضروریات زندگی ناقابل برداشت حد تک مہنگی ہوچکی ہیں۔ دونوں ممالک قرضے تو کئی سال سے لے رہے ہیں لیکن اب وہ قرضے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ بنیادی اشیاء جسے خوراک، تیل اور ادویات کے بھی لالے پڑ گئے ہیں۔ظاہر ہے عوام ان بحرانوں کا ذمہ دار اپنے حکم رانوں کو ہی قرار دیتے ہیں جن کے اَلَلّے تَلَلّے ہی نہیں ختم ہوتے نہ عیاشیوں میں کوئی کمی آتی ہے۔

پھر اُن ممالک میں کچھ سیاسی گروہ اپنے پڑوسی ممالک کو ایک حوّے کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ عوام کی توجہ بٹائی جاسکے اور پڑوسی ممالک کو ان مسائل کا ذمہ دار قرار دیا جائے، گو کہ اب سری لنکا خود بھارت سے مدد لینے پر مجبور ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی اور ملک یا ادارے نے سری لنکا کی اتنی مدد نہیں کی جتنی پچھلے سال بھارت نے کی تھی۔ ایک الزام چین پر بھی لگایا جاتا ہے کہ اس نے بنیادی ڈھانچے یا انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لیے قرضے دینے اور اس سے اپنے اثر ورسوخ میں اضافہ کیا لیکن ان سے عوام کا کچھ براہ راست فائدہ نہیں ہوا، بل کہ تجارت میں چین کا پلّہ بھاری رہا۔

پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک بہت سی اشیاء چین سے درآمد کرتے ہیں جن میں ایسی مصنوعات بھی شامل ہیں جن کا مقامی صنعتیں مقابلہ نہیں کرسکتیں اور بند ہوجاتی ہیں۔ اس سے ایک طرف تو مقامی صنعتوں کو نقصان پہنچتاہے اور دوسری طرف طرف زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ پھر جیسے جیسے روپے کی قدر میں کمی ہوتی ہے زرمبادلہ میں ادائیگی مزید بھاری پڑتی ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق چین نے سری لنکا کو اب تک پانچ ارب ڈالر سے زیادہ قرض دیا ہے جو سری لنکا کے بیرونی قرضوں کا تقریباً دس فی صد ہے۔ بحران کا شکار ممالک یہ سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ مسائل سے نمٹنے کے لیے اضافی قرضوں کا حصول وقتی سہولت تو مہیا کرسکتا ہے ،مگر یہ کوئی حتمی حل نہیں ہے۔ 

ایندھن کی قلت اور مہنگائی ایک مسلسل مسئلہ ہے ،جس کے حل کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے توانائی کے دیگر ذرائع۔ مثلاً ہوائی قدرت سے بجلی کی پیداوار اور شمسی توانائی کے حصول کے لیے منصوبے بنانا، مگر اُن پر وسائل خرچ کرنے ہوتے ہیں، جو میسر نہیں ،جس کے باعث گردشی قرضہ بھی بڑھتا رہتا ہے اور کوئی حتمی حل نہیں نکل پاتا۔ خوراک کی قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں اور عوام پس رہی ہوتی ہے۔ دوست ممالک ايندھن یا خوراک عارضی طور پر تو فراہم کرسکتے ہیں مگر ہمیشہ نہیں۔

اگر صرف سری لنکا کی بات کی جائے تو بھارت کی ابتدائی امداد کے بعد دونوں ممالک نے شمالی  ٹرنکومالی بندرگاہ میں دوسری جنگ عظیم کے دوران تعمیر کیے گئے 61 بڑے تیل کے زخیروں کو مشترکہ طور پر چلانے پر اتفاق کیا ہے، اسی طرح بھارت کے اڈانی گروپ کو کولمبو بندرگاہ پر مغربی کنٹینر ٹرمینل کی تعمیر اور چلانے میں اکثریتی حصہ ملا ہے۔ سری لنکا کے اس حالیہ بحران کے بعد بین الاقوامی مالیاتی ادارے ( آئی ایم ایف ) نے خبردار کیا ہے کہ دیگر ممالک بھی اسی طرح کی صورت حال میں آسکتے ہیں۔ اس حالیہ معاشی،غذائی اور مہنگائی کے بحران کے باعث جن ملکوں نے بہت قرضے لے رکھے ہیں انہیں اپنی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ 

جو ممالک غیر پیداواری اخراجات زیادہ کرتے ہیں اُن کے پاس کوئی وسائل یا ذخائر ایسے نہیں بچتے جن پر وہ مشکل وقت میں انحصار کرسکیں اس کے لیے پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر رکھنا بہت ضروری ہوتے ہیں ورنہ دفاعی اخراجات ہی اتنے زیادہ ہوجاتے ہیں کہ غریب عوام اپنا پیٹ کاٹ کر انہیں پورا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی, بے روزگاری اور بھوک یعنی غذائی قلت کے خاتمے کے لیے عالمی پیمانے پر کیا قدم اٹھانے چاہئیں؟ سب سے پہلی بات تو یہ کہ اس معاشی بحران کے شکار ممالک کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اب مزید معیشت کو سیاسی مقاصد کے لیے قربان نہیں کیا جاسکتا۔

زیادہ بحران کا شکار وہ ہی ممالک ہیں جہاں ہر آنے والی حکومت نے اگلی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھانے کا کام کیا یعنی اس کے بجائے کہ معیشت کو وسیع سماجی مکالمے کے لیے نئی راہ پر ڈالا جائے حکم ران گروہ اپنے مفادات کے لیے فیصلے کرتے رہے جس سے معیشت کو نقصان ہوا۔پھر کچھ ممالک میں حکم ران اور مختلف سیاسی و مذہبی گروہ اور حتیٰ کہ ریاستی ادارے بھی طرح طرح کے کارڈز استعمال کرتے ہیں مطلب مذہب کارڈ، نسلی کارڈ، قومیتی کارڈ، حب الوطنی کارڈ وغیرہ۔ پاکستان, لاؤس اور سری لنکا جیسے ممالک کو نجی سرمایہ کاری کی شدید ضرورت ہوتی ہے، جس کے لیے سیاسی استحکام اور جمہوریت کا تسلسل اہم کردار کرتے ہیں۔

غذائی قلت اور مہنگائی کی ایک بڑی وجہ درآمدات پر انحصار ہے ،حتیٰ کے دوائیں یا اُن کو تیار کرنے کے سامان بھی باہر سے آتے ہیں جن سے دوائیں مہنگی یا نایاب ہوجاتی ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی بھی اپنا منفی کردار ادا کرتی ہے۔ اگر آبادی زیادہ ہو اور وسائل کم تو اُن ممالک کو دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے ہی پڑتے ہیں۔ اگر آپ بڑی حد تک خود کفیل ہوں تو ان مسائل سے بہتر نمٹ سکتے ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں اور مختلف طرح کے بحران عالمی طور پر زراعت کو وباؤ کا شکار کررہے ہیں جن کا سامنا کرنے کے لیے کئی محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ،جو معیشت اور زراعت سے لے کر طب اور صحت کے شعبوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ سیاسی بحران توہر جگہ پر ہیں، جو دنیا کے مختلف خطوں کو بے حد متاثر کررہے ہیں۔حکمراں اپنے عارضی مفادات سے ہٹ کر عوام کے لیے سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ پسے ہوئے لوگ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔