چند دن قبل میری جرمنی کے پارلیمانی وفد سے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آبادمیں ملاقات ہوئی، اس موقع پر دوطرفہ تعلقات سمیت باہمی دلچسپی کے مختلف موضوعات زیربحث آئے۔ آج یورپ کی اہم طاقت جرمنی دنیا کی مستحکم ترین معیشتوں میں سے ایک ہے،جرمنی یورپ کا وہ واحد ملک ہے جس نے پاکستان کے ساتھ جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے بعد دوطرفہ تجارت میں بہت زیادہ تعاون کیا ہے، آج پاکستان کی جرمنی کے ساتھ امپورٹ ایک اعشاریہ تین بلین ڈالر اور ایکسپورٹ دو اعشاریہ پانچ بلین ڈالر سالانہ تک پہنچ گئی ہے۔مجھے یادآیا کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب پاکستان نے مغربی جرمنی کو ساٹھ کی دہائی میں صدرایوب خان کے دورِحکومت میں بارہ کروڑ روپے کا قرضہ جاری کیا تھا اور جرمن حکومت نے ایک سرکاری خط میں باقاعدہ طور پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا تھا۔تاہم وقت کا پہیہ چلتا رہا، مشرقی اور مغربی جرمنی متحد ہوکر ایک بڑی طاقت فیڈرل ریپبلک آف جرمنی بن کر عالمی منظرنامہ پر چھا گئے جبکہ پاکستان کا مشرقی حصہ ہم سے جدا ہوکر بنگلہ دیش بن گیا جبکہ آج نوبت یہ آگئی ہے کہ ڈھاکہ میں پاکستانی سفارتخانے کو اپنے آفیشل فیس بک پیج پر پاکستان اور بنگلہ دیش کا ایک ساتھ پرچم لگانے کی اجازت نہیں۔یہ سوال بار بار میرے ذہن میں گونجتاہے کہ اکیسویں صدی میں جب ماضی کے دشمن ممالک اقتصادی طور پر مضبوط قوت بننے کیلئے ایک دوسرے کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں توہم ابھی تک اندرونی چپقلش اور غیریقینی صورتحال کا شکار کیوں ہیں؟ اسکی سب سے بڑی وجہ میری نظر میں ہمارا وہ طرزعمل ہے جس کے تحت ہم دوسروں کو تعصب کی نظرسے دیکھتے ہیں، قیامِ پاکستان کے وقت غیر مسلم آبادی لگ بھگ ایک چوتھائی حصے پر مشتمل تھی اور آج 2017ء کی مردم شماری کے مطابق غیر مسلم کمیونٹی کُل آبادی کے چار فیصد سے بھی کم ہے جن میں ہندوؤں کی تعداد 2اعشاریہ 14فیصداور کرسچیئن کمیونٹی ایک اعشاریہ 22فیصدپر مشتمل ہے۔قائداعظم نے پاکستان بننے سے پہلے ہی واضح کردیا تھا کہ مسلمان اکثریتی ملک کا ہر باسی اکثریت اقلیت سے بالاتر ہوکر ملکی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرسکے گا، بانی پاکستان نے اپنے عملی اقدامات سے محب وطن غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کیا جسکی ایک مثال ہندو سیاستدان جوگندرناتھ منڈل کی بطور وزیرقانون تعیناتی اور دوسری مثال اپنے زمانے کے مشہور ہندو شاعر جگن ناتھ آزاد سے پاکستان کا قومی ترانہ تیارکروانا ہے۔ اتفاق سے چند دن قبل 24جولائی کو موجودہ پاکستان کے ضلع میانوالی کے مشہور علاقے عیسیٰ خیل میں جنم لینے والے جگن ناتھ آزاد کی اٹھارویں برسی تھی،جگن ناتھ آزاد کے والد محترم تلوک چند محروم بھی اردو ادب کا بہت بڑا نام ہیں، آزادکو اردو زبان سے عشق تھا، انہوں نے ستر سے زائد کتابیں تحریر کیں جن میں شاعری،نظمیں اور سفرنامے شامل تھے، انہیں شاعرِمشرق علامہ اقبال کی زندگی، فلسفہ اور شاعری پر ایک اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا، وہ انڈیا میں اقبال میموریل ٹرسٹ کے صدر بھی رہے،وہ انتقال کے موقع پر انجمن ترقی اردو (ہند)کے صدر کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔جگن ناتھ صحافت کے میدان میں زمانہ طالب علمی میں ہی آگئے تھے وہ راولپنڈی کے گورڈن کالج کے اسٹوڈنٹس نیوزپیپر گورڈینیئن کے ایڈیٹر مقرر ہوئے، وہ لاہور سے شائع ہونے والے اردو کے ماہنامہ ادبی دنیا کے مدیر بھی رہے۔ آزادکو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اردوادب میں سفرنامے متعارف کرائے، انکا سویت یونین کا سفرنامہ اردو ادب میں ایک اعلیٰ شاہکار مانا جاتا ہے۔ قائداعظم کی دِلی خواہش تھی کہ پاکستان میں اردو زبان کو قومی زبان کا درجہ ملے اور اردو زبان کی ترویج و ترقی کیلئے قائداعظم کی نظر میں بہترین انتخاب جگن ناتھ آزاد تھے، قائداعظم چاہتے تھے کہ دنیا کو ایک واضح پیغام دیا جائے کہ پاکستان مذہب کے نام پر ضرور معرض وجود میں آیا ہے لیکن مذہبی بنیادوں پر کسی قسم کی تفریق کو کوئی گنجائش یہاں نہیں۔ ازل سے تاریخ کا یہ سبق ہے کہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی لیکن ہمارا المیہ ہے کہ ہم تاریخ کو مسخ کرنے سے باز نہیں آتے، ہم آج بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان بنانے کا اصل مقصد کیا تھا؟ ہمارے تابناک ماضی کی لاتعداد عظیم نامور شخصیات ایسی ہیں جنہیں ہم نے صرف اپنے تعصب کی بناء پر انہیں فراموش کردیاہے، اگلے ماہ 14اگست کو ہم آزادی کی 75ویں سالگرہ منائیں گے، اس موقع پر ہمیں ضرور سوچنا چاہئے کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں جنکی وجہ سے ہم ہر سال پیچھے سے پیچھے جارہے ہیں جبکہ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ملک مضبوط اقتصادی قوت بن رہے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)