سپریم کورٹ کے ایک اور جج نے جوڈیشل کمیشن کے گزشتہ روز کے اجلاس پر خط لکھ دیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد جسٹس سردار طارق مسعود نے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اور جوڈیشل کمیشن کے ارکان کو خط لکھا ہے۔
خط میں سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس شروع ہوا تو چیف جسٹس نے اپنے نامزد ججز کے کوائف کے بارے میں بتایا۔
انہوں نے خط میں بتایا کہ جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی نے 4 ججز کی تقرری کے حق میں اور ایک کے خلاف رائے دی۔
جسٹس طارق مسعود نے خط میں لکھا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ نے چیف جسٹس کے ناموں کی منظوری دی۔
اُن کا کہنا تھا کہ میں نے بھی اپنی باری پر رائے دی اور جسٹس اطہر من اللّٰہ کی سپریم کورٹ میں تقرری کا کہا۔
سپریم کورٹ کے جج نے مزید لکھا کہ میں نے بھی سندھ ہائی کورٹ کے 3 اور لاہور ہائی کورٹ کے 1جج کی نامزدگی نامنظور کی۔
انہوں نے خط میں بتایا کہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز میں جسٹس اطہر من اللّٰہ سینئر ترین جج ہیں، اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور بار کونسل کے نمائندوں نے مجھ سے اتفاق کیا۔
جسٹس طارق مسعود نے یہ بھی لکھا کہ اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور بار کونسل نمائندوں نے 4 نامزد ججز کی تقرری نامنظور کی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی میری رائے سے اتفاق کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ معاملہ واضح ہوگیا تھا کہ کمیشن کے 5 ارکان نے نامزدگیوں کو نامنظور کردیا تھا۔ چیف جسٹس رائے سننے کے بعد فیصلہ سنانے کی بجائے اچانک میٹنگ سے اٹھ گئے۔
جسٹس طارق مسعود نے خط میں سپریم کورٹ کے پی آر او کی پریس ریلیز کو حقائق کے برعکس قرار دیا اور کہا کہ چیف جسٹس باقاعدہ میٹنگ کو ختم کرنے کی بجائے ملتوی کہہ کر اٹھے۔
انہوں نے خط میں لکھا کہ 3 گھنٹے میٹنگ جاری رہی، اس دوران کسی نے بھی اجلاس موخر کرنے کا نہیں کہا، اجلاس اچانک ختم کردیا گیا جیسا میں نے ابتدا میں بتایا۔
سپریم کورٹ کے جج نے خط میں بتایا کہ اجلاس میں ارکان نے 4-5 کے تناسب سے 5 ناموں کو مسترد کیا، جس کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ کمیشن میں سے 5 ارکان نے نامزدگیوں کو نامنظور کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا ترجمان جوڈیشل کمیشن کا ممبر ہے اور نہ ہی سیکریٹری ہے، تو حقائق کے برعکس پریس ریلیز کیسے جاری ہوئی؟
جسٹس طارق مسعود نے خط میں لکھا کہ چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن اجلاس کے درست منٹس فوری جاری کریں کیونکہ تفصیلی منٹس پبلک کرنے سے ہی افواہوں کا خاتمہ ہوگا۔