سطح زمین کے نیچے ہر جگہ سطح آب موجود ہے جو سیر شدہ اور ناسیر شدہ چٹانوں کی حد بندی کرتا ہے۔ یہ حتمی طور پر بارش کے پانی سے براہ راست منسلک ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رستے ہوئے وہاں موجود چٹانوں کے مساموں میں مرکوز ہو کر مسامی پانی (Pore Water) بن جاتا ہے جسے ذخیرہ اندوز پانی بھی کہتے ہیں۔
یہ پانی چٹانی جسم میں پیوست ہوکر منسلک مساموں (interconnected pores) کے ماتحت ایک فارمیشن ( متعد چٹانی تہوں کی قرینے سے ترتیب) سے دوسری فارمیشن تک رسائی حاصل کرتے ہیں، جس کی وجہ سے کرئہ ارض پر متحرک پانی کا ایک آبی چکر ہر وقت جاری رہتا ہے لیکن یاد رہے کہ اس پانی کی نایاب اور ایک بڑی مقدار لاکھوں سال پہلے رسوب کی تہہ نشینی کے دوران جب رسوبی چٹانوں کی تشکیل اور بناوٹ ترتیب پا رہی تھی تو کسی طرح سے چٹانی تہوں کے اطراف موجود مساموں، جوفوں، دراڑوں اور غیر مطابقت (unconfrimity) ساخت کی تشکیل کے دوران لامتناہی طور پر مقید یعنی پھنس کر محفوظ اور غیر متحرک ہوگیا ،پھر جب سمندری فرش سست رفتاری کے ساتھ بلند ہوتا گیا اور آخرکار سمندر کا حصہ بن گیا تو تہوں کے بیچ پھنسے ہوئے پانی کے لامحدود ذخائر بھی ان کے ساتھ بلند ہوتے گئے اور آخرکار خشکی کا حصہ بن گئے۔ اس صورت حال میں پانی کے پھنسے ہوئے ذخائر بھی ان کے ساتھ ہی بلند ہوتے گئے اور اس طرح مقید پانی چٹانی تہوں کا اٹوٹ انگ بن گئے۔
اس غیر متحرک مقید اور محفوظ پانی کو آج دنیا ’’آب بہم رستہ‘‘ (Connate water) کے نام سے تسلیم کرتی ہے۔ اس پانی کا فضا سے بالکل کوئی رابطہ نہیں ہوتا، کیوں کہ یہ زمین میں 5کلومیٹر سے زیادہ گہرائی میں پھنسا ہوتا ہے جہاں کا درجۂ حرارت 150ڈگری سینٹی گریڈ تک معلوم کیا گیا ہے۔ یہ پانی اپنی کثافت کے حوالے سے( 1.00) کی بنیاد پر سب سے نچلی تہوں میں قیام کرتا ہے، جب کہ اس کے اوپر تیل (کثافت.97) اور سب سے بلائی جانب گیس (کثافت) (.95) کی تہہ موجود ہوتی ہے، چوں کہ یہ تینوں چٹانی دبائو کی وجہ سے ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہیں، اسی وجہ سے انفرادی طور پر الگ نہیں ہوسکتے لیکن جیسے ہی ایک مطلوبہ تیل بردار ساخت ملتی ہے تو یہ دباؤ کی زد سے باہر نکل کر اور اپنی کثافت کی بنیاد پر الگ الگ ہوجاتے ہیں۔
اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ برف کے بڑے بلاک کو پانی میں دبا کر رکھتے ہیں تو وہ اوپر نہیں آسکتا لیکن جیسے ہی دباؤ کو ہٹاتے ہیں، برف پانی کے اوپر تیرنے لگتی ہے ،کیوںکہ برف پانی کے مقابلے میں کم کثافت کی حامل شے ہوتی ہے۔ اس کثافتی اصول کے تحت تیل و گیس ’’آب بہم رستہ‘‘ کے اوپر آجاتے ہیں، جس ذخیرہ اندوز علاقے میں گیس موجود ہو، وہ گیس پانی پول (Pool) کہلاتا ہے ۔مثلاً سوئی گیس پول بلکہ گیس، تیل اور پانی کی صورت میں آئل پول کی تکمیل ہوتی ہے۔
دونوں صورتوں میں ’’آب بہم رستہ‘‘ کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گیس، تیل اور پانی کو مجموعی طور پر ’’پیٹرولیم‘‘ کہتے ہیں۔ اگر یہ پانی نہ ہو تو کنواں خشک ہوجاتا ہے یا پھر غیر معیاری بعض مسلم ارضیات اس پانی کو ’’رکازی پانی‘(fossil fuel)کے نام سے تسلیم کرتے ہیں ،کیوں کہ جس طرح ’’رکاز‘‘ یعنی نامیاتی اشیاء کے نرم، سخت یا نشانات رسوب کاری کے دوران دب کر محفوظ ہوگئے اور دوران کھدائی چٹانی تہوں میں پیوست اور محفوظ حالت میں ملتے ہیں، اسی طرح ’’آب بہم رستہ‘‘ میں ڈرلنگ کے دوران ’’پیٹرولیم‘‘ کے ساتھ سطح زمین پر آجاتا ہے۔
اس کی ایک عام مثال وہ نمکین پانی ہے جو عموماً تیل کے کنویں سے نکلتا ہے۔ اس حوالے سے اعدادوشمار فی الفور تو حاصل نہیں کرسکتے، البتہ بالواسطہ مشاہدوں سے کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں جن میں حاصل شدہ ’’آب بہم رستہ‘‘ کا تجزیہ اور تحقیق ’’کور‘‘ (Core) کے (زیر زمین ڈرلنگ سے حاصل شدہ کالم نما نمونہ) معمول اور شکستہ گڑھوں کا مشاہدہ جن میں کنویں کی گہرائی سے حاصل شدہ نمونوں کا سطح زمین پر جانچ پڑتال پیداواری کنویں سے حاصل شدہ نمونوں کا تجزیہ اور ذخیرہ کی تفصیل یعنی روزانہ، ہفتہ وار، ماہانہ اور سالانہ ذخیرہ کے دبائو، تہئی اور کیمیائی خصوصیات میں فرق اور شمولیت میں پیدا ہونے والی تفرقات شامل ہوتی ہیں۔
عام طور پر حاصل شدہ ’’آب بہم رستہ‘‘ اعلیٰ شوریت زدہ پایا گیا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پیدائشی طور پر سمندری ماحول میں ہوتا ہے، جس کی وجہ سے شوریت سوڈیم کلورائیڈ کی فی صد مقدار زیادہ ہونے کی وجہ بلند (35؍پارٹ پر ہزار گرام) ہوتی ہے لیکن ایسے شواہد بھی پائے گئے ہیں جو قدیم ارض سمندر مثلاً ’’ٹیھیس‘‘ سمندر کی بھی شمولیت ظاہر کرتے ہیں۔
آتشی خاک یا زیرآب گیس اور ملبے بھی مختلف ارضیاتی دور میں شامل ہوتے رہے ہیں ،جس نے شوریت اور دیگر تہیٔ خصوصیت میں تفرق پیدا کرتے ہیں۔ گویا ’’آب بہم رستہ‘‘ کی کارکردگی، رسوب کی معدنی ترکیب، اعلیٰ درجۂ حرارت (80-100) ڈگری سینٹی گریڈ کی کیفیت اور حل پذیر گیس خصوصی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کی معیار اور مخفی توانائی اور کی قوت پر انحصار کرتا ہے۔
آب بہم رستہ یا رکازی پانی جو آئل فیلڈ میں دریافت ہوئے ہیں، وہ پیٹرولیم کی پیداوار کے حوالے سے دوررس نتائج فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً دوہرازئی کی تاریخ تیل کی پیدائی مقام سے ہجرت یا سفر اور ذخیرہ اندوز چٹان کی تیل بردار ساخت میں کرازیت شامل ہوتی ہیں۔ یہاں پر ’’دوہرازئی‘‘ سے مراد وہ تمام کیمیائی عمل ہے جو کسی رسوب میں یا معدنی ذرّات اور ان پر غالب آنے والے پانی کے درمیان وقوع پذیر ہوتا ہے۔
مثلاً جب تیل و گیس کے کنویں سے برآمد ہونے والے پیٹرولیم کے ہمسایہ رسوب پر تخفیفی ماحول یعنی ہوا غیر موجود اور آکسیجن کے بغیر بیکٹیریا کا اثر نمایاں نظر آتا ہے جو دوہرازئی کے ضمن میں ایک معروف کیمیائی عمل ہے ۔مثلاً تیل و گیس کے حصول کردہ ’’کور‘‘ میں پائیرائیٹ کچ دھات کی خوردبینی قلموں کی موجودگی سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ ’’پیٹرولیم‘‘ تخلیق بھی تخفیفی ماحول میں ہوئی ہے۔ ’’پیٹرولیم‘‘ کی ہجرت کے حوالے سے بھی جو میکنیزم کارفرما ہوتا ہے، اس میں عمل جمائو کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ،کیوں کہ اس عمل سے ذرّات کے درمیان موجود پانی مسامی دبائو میں اضافہ ہوتا ہے۔
ذرّات کے درمیان خلاء کو مسام کہا جاتا ہے جو زمین کی گہرائی میں اضافے کے ساتھ جمائو کی وجہ سے اپنے مسام اور حجم میں کمی کرنا چاہتا ہے۔ ایک پرسکون ماحول میں ریت کے ذرات 40سے 50ہزار اپنے حجم میں مسامی خلاء (pore spaces) موجود رکھتے ہیں لیکن جیسے جیسے پرانے ذرّات کے بالائی جانب تازہ ترین ذرّات تھک در تھک جمع ہونے لگتے ہیں تو اس کیفیت میں تمام ذرّات چہار طر فہ دبائو کی زد میں آجاتے ہیں، جس کی وجہ سے مسامی خلاء کی کل مقدار میں کمی ہونے لگتی ہے اور اس صورت حال میں ذرّات کے درمیان پیکنگ مضبوط ہوجاتی ہے۔ اس مرحلے پر ذرّات ایک دوسرے کے قریب آکر مسامداری خلاء کو کم سے کم کرتے چلے جاتے ہیں اور آخرکار گہرائی میں اضافے کے ساتھ معدوم پڑ جاتی ہے۔
مثلاً جس طرح اوپری دبائو کی وجہ سے چکنی مٹی (کلے) سے پانی کا اخراج ہوجاتا ہے اور وہ تہہ دار کلے یعنی شیل میں بدل جاتا ہے، جس سے اس کے حجم میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ اس تجزیئے سے لگایا جاسکتا ہے کہ مڈ (Mud) اور کلے میں جو حجم میں کمی ہوتی ہے، وہ 20فی صد 1000فٹ، 35فی صد، 2000فٹ، 40فی صد 3000فٹ اور 47فی صد6000فٹ پر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی شعری عمل (capillary pressure) درجۂ حرارت اور تقطیری عمل ذخیرہ اندوز کالم کے دباؤ میں اضافے کا باعث بنتی ہیں، چوں کہ تمام منسلک قسم کی پوٹینشیل رکھنے والی ذخیرہ اندوز چٹانوں میں پانی بشمول تیل و گیس سے لبریز ہوتی ہیں، جس سے ایک مستقل دباؤ نظام پیدا ہوجاتا ہے جب ’’آب بہم رستہ‘‘ سکون کی حالت میں ہوتا ہے تو کالم کے چاروں طرف آبی ’’سکون دباؤ‘‘ غالب ہوتا ہے، جس کے زیراثر تیل و گیس کمزور زون سے سطح زمین پر رستے ہوئے فضائی رابطے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ تیل و گیس کے اس طرح رسائو سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس علاقے میں چھوٹے یا بڑے پیمانے پر تیل کے ذخائر موجود ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں پنجاب کے گائوں ’’گندل‘‘ میں تیل کمزور زون سے باہر آگیا ہے اور ’’آب بہم رستہ‘‘ کے اوپر تیرتا ہوا براہ راست نظر آرہا ہے لیکن یہ کیفیت ہر جگہ نہیں پائی جاتی ،کیوں کہ ذخیرہ اندوز تیل برداز ساخت کے بالائی جانب اپنی غیر منسلک مساموں پر مشتمل چٹان پائی جاتی ہے جو تیل و گیس کو اندرونی حصوں میں مقیداوت تحفظ فراہم کرتی ہیں گویا یہ قدرتی حفاظتی تہہ ہوتی ہے ،جسے ’’کیپ راک ‘‘( cap rock) کہتے ہیں جو تیل و گیس کو مزید ہجرت کرنے کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔یہ حفاظتی تہہ تبخیری معاون کی ہو تی ہیں لیکن شیل چٹان اس حوالے سے زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔
کیوں کہ ایک طرف ‘‘شیل‘‘ غیر منسلک مساموں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ابتدائی تحقیق کے دوران نامیاتی اشیا ’’پروٹو پیٹرولیم ‘‘یعنی پیٹرولیم جیسی شکل میں تبدیل ہو کر پختگی کی منزل طے کرتے ہیں تو دوسری طرف تیل و گیس کو ذخیرہ اندوز چٹان سے مزید ہجرت نہیں کرنے دیتے، جس کی وجہ سے تیل وگیس تجارتی پیمانے پر مرکوز ہو جاتے ہیں۔ یہ خام تیل ہوتا ہے جسے ڈرلنگ کے ذریعے حاصل کرتے ہیں اور کسری کشیدگی (fractional distillation) سے گزار کر مختلف محاصل حاصل کرتے ہیں، جس میں سب سے ہلکا اور معیاری ہائیڈرو کاربن بھی شامل ہے جسے ’’پیٹرول‘‘ کہتے ہیں۔