• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اے خدائے ذوالجلال

ہم اپنی نئی صبح کاآغاز تیرے شکر سے کرتے ہیں۔ اس سب پر جو تو نے ہمیں دیا۔75برس قبل تو نے ہمیں ایک سر زمین دی جہاں تیری رحمت سایہ فگن تھی۔ ہم نے سفر کا آغاز کیا تو نے ہمیں اُن سب خوشیوں سے مالامال کیا جن کی ہم سب کو ضرورت تھی، جو رنگ بدل بدل کر بارش کی بوندوں کی طرح ہمارے دامن میں برستی رہیں، مگر ہم انجانے میں مٹھیاں کھول کھول کر ان موتیوں کو خاک میں ملاتے رہے، تب ہی تو آج ہمارے قدموں پر گرد ہی گرد ہے اور ہماری آنکھوں میں بن برسے بادلوں کی پیاس ہے۔

اے ربِ کائنات

ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں خوشیوں کو سمیٹنے، سنبھالنے اوراُنہیں برتنے کا حوصلہ و سلیقہ ہی نہیںآیا، جب ہی تو آج ہم ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں، ہم بہت کچھ بننے کی کوشش میں تو لگے رہے لیکن ایک قوم نہ بن سکے۔ ہم منزل سے ناآشنا تھے تو نے ہمیں قیادت دی ، وطن دیا، لیکن ہم نے کیا کیا، ہم ایک بار پھر بکھرے ہوئے نظرآرہے ہیں۔ یقینا ’’یہ وہ پاکستان نہیں جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا،جسے حقیقت کا لباس قائداعظم نے پہنایا تھا اور جس کے حصول کیلئے جب ملت اسلامیہ شکست خوردگی سے پسپا و پس ماندہ، غلامی کے طوق تلےتہی دامن اور نااُمیدی کا شکار تھی، سرسید نے قوم کو اُمید دکھلائی، یکجہتی کا پیغام دیا۔ مسابقت کے جذبے کو اُبھارا، سراٹھا کر چلنے کا احساس دلایا۔ یقینا ’’پاکستان کا قیام اس باب کا شان دار اختتام تھا، جس کی ابتداء میںاُجڑی ہوئی دلی کا ایک عالی نژاد سید کاسہ ٔ گدائی لئے قوم کی خاطر دردر دست ِ سوال پھیلائے نظرآتا اور نوحہ کناں حال کی درد میں ڈوبی آواز آسمانوں کا سینہ چیرتی ہوئی بلند ہوتی۔

اے خاصہ ٔ خاصانِ رُسل وقت دعا ہے

اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

اور جس کی انتہا پر خیبر سے چاٹگام تک دس کروڑ افراد پر مشتمل ایک قوم جذبۂ قربانی سے سرشار اور فتح مند ی کے عزم کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے یہ نعرہ لگاتی، پاکستان کا مطلب کیا۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ سر زمین پاک پر قدم رکھتی ہے۔

سرسجدہ ریز ہوگئے۔ پیشانیاں مسرت سے دمکنے لگیں۔ رخساروں پرشبنمی قطرے رقص کناں، آنکھوں میں اُمید کے چراغ جل اُٹھے ، یہ آزادی کے چراغ ہی تو تھے لاکھوں لوگوں نے اپنے پیاروں کی جانوں کا نذرانہ دے کر وطن حاصل کیا تھا۔

منزل مقصود کو پانے کی تمنا میں قلب مضطرب کی کیفیت بیان کرنا آسان نہیں۔آج 75سال بعد، زخموں سے پھر خون رسنے لگا اور نظریہ پاکستان فضا میں تحلیل ہو چکا ۔ شہیدوںکا لہو پکار رہا ہے کہ وہ اُمیدیں جن میں اسلامی انقلاب کا رنگ جھلکتا تھا۔ وہ قربانیاں جو تحریک پاکستان کی جدوجہد کی روشنی تھیں، ان کے ثمرات کہاں ہیں؟ اس نظریاتی حُسن کو کس نے چرا لیا؟۔ یہ حرص و ہوس کی آندھیاں کیوں چلنے لگیں؟۔ ایثار و محبت، خلوص، پیار اور جذبہ حب الوطنی کہاں غائب ہوگئے؟ چاروں طرف کہیں روشنی دکھائی نہیں دیتی۔ 

آخرکیوں پیاراوطن جب سے وجود میں آیا ہے، خطرات اور انقلابات کی زد ہی میں رہا ہے۔ کبھی داخلی افراتفری، بحران کی شکل اختیار کر گئی اور کبھی خارجی عوامل حملہ آور ہوئے۔ یہ ہماری کیسی بدقسمتی ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال، ایٹمی طاقت سے لیس ایک وسیع و عریض ملک دنیا میں جگ ہنسائی کا محور بنا ہوا ہے۔

75برس ایک انسان کی تقریباً پوری زندگی ہے۔ لیکن اس طویل عرصے میں بھی ہم اُس منزل تک نہیں پہنچ سکے جس کے وعدے کرکے اور جس کی چاہ میں ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ہم نے پون صدی تک اُن نظریات کو عمل کی روح بخشنے کا کوئی اقدام نہ کیا جو ہمارے جداگانہ وجود کے استحکام کا باعث تھے۔ صرف زبانی مدح اور ستائش ہمارا شعار رہا۔ لسانی، علاقائی اور صوبائی تعصبات کی ہول ناک ظلمتیں موج درموج اُمڈ تی رہیں۔ ہم نے دشمن کو اچھا موسم اور زرخیز زمین فراہم کی اور اُس نے ہمیں دونیم کر دیا، اب جو ہمارا آدھا وجود رہ گیا، اس پہ بھی فتنوں کی بجلیاں کوند رہی ہیں۔کسی قوم کے حصار وجود میں ایک بار شگاف پڑ جائے تو فتنوں کا سیلاب در آتا ہے جو اس حصار کی بنیادوں اور دیواروں کو ہلا کر دیکھ دیتا ہے۔

75سالہ قوم، جس نے ہر طرح کے سیاسی و سماجی تجربات کر لئے ہوں، جس نے پایا کم، کھویا بہت ہو، جس کے چہار جانب نفرتوں، عداوتوں اور کدورتوں کے ہمالیائی سلسلے کھڑے ہوں۔ جس کے طارق اسپین کے سنگلاخ ساحل سے پہلے ہی دلدل میں کشتیاں جلا چکے ہوں۔ جس کو جینے کی اُمنگ ہو نہ مرنے کا حوصلہ ہو، جو جہالت اور ذہنی پس ماندگی کی دھند میں منزل سے دُور بھٹک رہی ہو۔ جو کردار و عمل کے گوہر سے خالی سیپ کی مانند بے یقینی کے گہرے سمندر میں سفر کر رہی ہو،جس کے حکمراں اقتدار کے خاطر ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے رہتے ہوں ، اس کے اہل فکر و نظر کا اب بھی اس طرح وقت ضائع کرنا کسی طور پر بھی زیب نہیں دیتا، ورنہ فاصلے بڑھتے جائیں گے اور افہام و تفہیم کے راستے مسدود ہو جائیں گے۔ بقول محشر

اتنا بھی نہ ہو صحن کہ در تک میں پہنچ کر

در کھولوں تو درویش دعا گو ہی چلا جائے

کاش کوئی ایسا پاکستان بنا سکے، جہاں فرات کے کنارے اگر کتا بھوکا سوئے تو حاکم روئے، جہاں تنہا عورت سفرکرے اور اُسے کوئی خوف نہ ہو بجز خوف خدا کے، جہاں حاکم وقت اپنی حفاظت کے بجائے اقدار اور نظریات کی حفاظت کی فکر کر ے۔ جہاں انسان صرف انسان ہو اور بس! شاید اسی آرزو میں ہماری گزشتہ کئی نسلیں خواب دیکھتی رہی ہیں، قربانیاں دیتی رہی ہیں۔ اب وقت ِدعا ہے۔ اے پیارے لوگو ! اس ملک کی قدر کرو سوچو اس میں کیا کچھ نہیں ہے ، ہمارا رب تو پکار پکار کر پو چھ رہا ہے فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذبٰن

آئیے ہاتھ ’اٹھائیں ہم بھی

ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں

ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا

کوئی ’بت کوئی خدا یاد نہیں

آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی

زہرِاِمروز میں شیرنئی فردا بھر دے

وہ جنہیں تابِ گراںباریء اِیّام نہیں

’ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے

جن کی آنکھوں کو ’رخِ صبح کا یارا بھی نہیں

’ان کی راتوں میں کوئی شمع منّور کر دے

جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں

’ان کی نظروں پہ کوئی راہ ’اجاگر کر دے

جن کا دیں پیرویء کِذب و ریا ہے ’ان کو

ہمتِ کفر ملے، ’جرّاتِ تحقیق ملے

جِن کے سر ’منتظرِ تیغِ جفا ہیں ’ان کو

دستِ قاتِل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے

عشق کا سرِنہاں،جانِ تپاں ہے جس کو

آج اقرار کریں اور تپش مِٹ جائے

حرفِ حق دِل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح

آج اِظہار کریں اور خلش مِٹ جائے

(فیض احمد فیض)