• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ظفر آہیر

‎قیام پاکستان کے بعد سے ہی ہم سب یہ سنتے اور پڑھتے آ رہے ہیں کہ ہماری معیشت کا زیادہ تر دارو مدار زراعت پر ہے ،زراعت پاکستان کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، ملک کی 60فیصد سے زائد آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے، ملکی زرمبادلہ میں زراعت کا حصہ بائیس فیصد ہے،پاکستان میں پیدا ہونے والی کپاس، گندم، گنا اور چاول کی فصل بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور ملک ان فصلوں کی بدولت قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔لیکن۔۔۔جب ان ساری باتوں پر غور کیا جائےتو صورتحال بالکل مختلف نظر آتی ہے ،حقیقت یہ ہے کہ زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار نہایت سست ہے۔

ہمارے مقابلے میں دنیا کے دیگر ممالک زیادہ پیداوار دے رہے ہیں۔ہمارے کاشتکار اور کسانوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہے اور انہیں جدید طریقوں سے آگاہی حاصل نہیں ہے۔ انھیں جراثیم کش ادویات کے استعمال، معیاری بیجوں کے انتخاب اورمصنوعی کھاد کے مناسب استعمال کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہے، وہ کاشتکاری کے صرف ان روایتی طریقوں پر یقین رکھتے ہیں جو انھوں نے اپنے بزرگوں سے سیکھے ہیں۔ 

نئی اور جدید ٹیکنالوجی جس کا استعمال کرکے ‎کسان بہتر پیداوار حاصل کر سکتے ہیں اس کے لئے کسانوں اور کاشتکاروں کو سرےسے آگاہی ہی نہیں ہے اور نہ ہی حکومت اس سلسلے میں کوئ ٹھوس اقدامات کرتی نظر آرہی ہے ۔ ہمارے کسان اور کاشتکار آج بھی روایتی ہل، گوبر کی کھاد، غیر تصدیق شدہ مقامی بیج اور کاشتکاری کے قدیم طریقے استعمال کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ نہیں ہورہا ہے ہمارے کسان مہنگائی کے بوجھ تلے پھنسے جارہے ہیں، ہمہ قسمی کھادیں نہ صرف مہنگی ہو رہی ہیں بلکہ کاشت کے دنوں میں ناپید ہو جاتی ہیں ، دیگر زرعی لوازمات بھی ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگے ہو رہے ہیں۔ 

حالیہ دنوں میں یوریا ،ڈی اے پی کی اوسط قیمت آسمان سے باتیں کرتی نظر آئیں،نہ صرف یہ بلکہ کسان پیسے لیکر پھرتے رہے لیکن کھادیں نہیں مل رہی تھیں ۔ہماری حکومت نے زرعی ٹیکس اور دیگر کئی صورتوں میں زرعی اشیاء کو شدید مہنگا کر دیا ہے۔ موجودہ حالات میں کسان کھیتی باڑی کی بجائے اپنی زرعی زمینیں فروخت کرکے شہروں میں منتقل ہو رہے ہیں۔ جاگیر دارانہ نظام کی باقیات نہایت بہیمانہ شکل اختیار کر چکی ہیں۔ آبپاشی کی سہولتیں ناکافی ہیں ۔زرعی آلات اتنے مہنگے ہیں کہ کسان کی استطاعت سے باہر ہیں۔ مہنگی ہونے کے ساتھ جعلی زرعی ادویات بھی پاکستانی کسان کا ایک بنیادی مسئلہ ہیں۔ 

سودی زرعی قرضے اور وہ بھی زیادہ شرحِ سود پر، غریب کسان کیلئے کسی عذاب سے کم نہیں ہیں اور اگر یہی حالات رہے تو ملکی زرعی صورتحال مکمل طور پر ٹھپ ہو جائے گی لیکن ہر دور کے حکمرانوں نے زرعی شعبے کو ترقی دینے اور کاشتکاروں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے زبانی جمع خرچ اور جھوٹے دعوؤں کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔آپ حکومت پاکستان کے اپنے جاری کردہ اقتصادی سروے 2020-21ء کو غور سے پڑھیں تو نام نہاد زرعی ترقی کے جھوٹے دعوؤں کا بخوبی علم ہو جائے گا۔ اس سرکاری سروے کے مطابق، اس وقت پاکستان میں22.15 ملین ہیکٹر رقبہ زیر کاشت ہے جبکہ 9.40 ملین ہیکٹر رقبہ ایسا ہے جس میں گزشتہ سال کے دوران کم از کم ایک فصل کاشت ہوئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 8.29 ملین ہیکٹر رقبہ ایسا ہے جو قابلِ کاشت تو ہے لیکن اس پر کاشتکاری نہیں ہو رہی۔ 

یہ رقبہ اس وقت کے کل زیر کاشت رقبے کا تقریباً 30 فیصد سے زائد بنتا ہے۔ اگر ہم اس 8.29 ملین ہیکٹر قابلِ کاشت رقبے کے صرف 25 سے 30 فیصد حصے پر کاشت کر لیں تو ملک میں یقینا ًزرعی انقلاب آ سکتا ہے ۔لیکن ایسا کرے گا کون اور کیوں کرے گا؟ اس سروے کے مطابق، گزشتہ20برسوں میں ہماری زیر کاشت رقبے اور قابلِ کاشت پڑے رقبے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس سے آپ حکومتوں کی زراعت سے عدم دلچسپی اور عدم توجہی کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

زراعت کی تباہی آج کا قصہ نہی، بلکہ پاکستان میں گزشتہ پانچ دہائیوں میں زرعی شعبے کی کارکردگی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ فنانس ڈویژن کے مطابق ساٹھ کی دہائی میں اس شعبے کی گروتھ 5.1 فیصد تھی، ستر کی دہائی میں 2.4 فیصد، اسی کی دہائی میں 5.4 فیصد، نوے کی دہائی میں 4.4 فیصد اور موجودہ صدی کی پہلی ،دوسری دہائی میں 3.2 فیصد رہی ہے۔پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پچھلے بیس برسوں میں اس شعبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

حکمرانوں نے اپنے مختلف ادوار میں سات سے آٹھ فصلوں کی بجائے امدادی قیمت کو صرف گندم اور گنے تک محدود کر دیا تو اس کے ساتھ کھاد پر سبسڈی کو بھی ختم کر دیا۔ کاٹن جو ہماری اہم نقد آور فصل تھی اور جس سے ہم اربوں ڈالر زرمبادلہ کماتے تھے اس کا ہم نے ستیاناس کردیا اور اب حالات یہ ہیں کہ پاکستان کو ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداوار کے لیے ریکارڈ کاٹن بیرون ملک سے درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔ 

موجودہ سال میں جنوری کے مہینے کے اختتام تک پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 55 لاکھ کاٹن کی گانٹھیں جننگ فیکٹریوں میں پہنچیں جبکہ گزشتہ سال یہ تعدادتقریباً 85 لاکھ گانٹھیں تھیں۔ یہ 30 سال میں کاٹن کی کم ترین پیداوار ہے۔ پنجاب اور سندھ میں بالترتیب 34 اور 38 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پاکستان میں کاٹن کی پیداوار میں ریکارڈ کمی اگرچہ رواں سال واقع ہوئی ہے تاہم ماہرین اور اس شعبے سے وابستہ افراد اس کی کافی عرصے سے نشاندہی کر رہے ہیں کہ ملک میں اس فصل کی کاشت میں مسلسل گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی زرعی شعبے پر اپنی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں کپاس کاشت کرنے کے رقبے میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے اور اب یہ صرف 22 لاکھ ہیکٹر رقبے پر کاشت ہوتی ہے جو 1982 کے بعد اس کے زیر کاشت رقبے کی کم ترین سطح ہے۔ پاکستان میں ساہیوال (پنجاب) سے لے کر حیدرآباد (سندھ) کا علاقہ کراپ زوننگ لا کے تحت کاٹن زون قرار دیا گیا تھا اور اس زون میں کوئی نئی شوگر مل نہیں لگ سکتی اور نہ ہی پہلے سے کام کرنے والی شوگر مل اپنے پلانٹ میں توسیع کر سکتی ہیں۔ تاہم اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس زون میں صرف رحیم یارخان کے علاقے میں گزشتہ دس پندرہ برسوں میں تین نئی شوگر ملیں لگ چکی ہیں تو دوسری جانب پہلے سے کام کرنے والی دو شوگر ملوں میں توسیع ہو چکی ہے۔

ان شوگر ملوں کی وجہ سے پاکستان کے کاٹن زون میں کپاس کی فصل کی بجائے گنے کی کاشت کی جا رہی ہے جو کپاس کی فصل کی کاشت میں کمی کی وجہ بنی ہے، نہ صرف یہ بلکہ یہ علاقہ جو پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہے یہاں گنے کی کاشت سے زمینیں بنجر ہونے لگی ہیں چونکہ گنے کو دیگر فصلات کی نسبت زیادہ پانی چاہیے ہوتا ہے اس لئے ٹیوب ویل لگا کر گنے کو پانی دیا جارہا ہے جس سے زیر زمیں پانی کی سطح کم ہوگئی ہے ۔ملک میں کاٹن کی پیداوار میں کمی نے نا صرف ٹیکسٹائل کے شعبے کو متاثر کیا ہے بلکہ دوسری جانب اس کے منفی اثرات ملک میں خوردنی تیل کے شعبے پر بھی آئے ہیں۔ 

پاکستان میں کاٹن کی فصل کا ایک بائی پراڈکٹ کاٹن سیڈ ہے جس سے بنولے کا تیل نکلتا ہے جو پام آئل کے ساتھ خوردنی تیل کا ایک اہم جزو ہے۔ کاٹن کی پیداوار میں کمی سے بنولہ آئل کی پیداوار میں بھی کمی آ رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو مزید مہنگا خوردنی تیل درآمد کرنا پڑرہا ہے۔ کپاس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ فصل حاصل کرنے کے بعد اس کا پودا جلانے کے کام آتا ہے لیکن اب اس کے متبادل کے طور پر درخت کاٹ کراستعمال میں لائے جارہے ہیں جس سے ماحولیات کو خاصا نقصان ہوا ہے۔ یہ ناقص پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ما ضی میں کپاس برآمد کرنے والا ملک پاکستان آج چار ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کی کپاس باہر سے منگوارہاہے جو ایک خطرناک ترین صورتحال ہے۔

کپاس کے بعد ہماری دوسری اہم نقد آور فصل گندم ہے لیکن پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گزشتہ کئی برسوں سے گندم کی درآمد پر انحصار کر رہا ہے۔ گندم پاکستان میں خوراک کا اہم جُزو ہے اور ہر پاکستانی اوسطاً 124 کلوگرام گندم سالانہ کھا لیتا ہے۔ گندم کا پودا اسخت جان ہوتا ہے اور یہ کہ گندم کے حوالے سے جرمنیشن 90 سے 100 فیصد تک ہوتی ہے۔ پاکستان بالخصوص سندھ اور پنجاب کا موسم اور زمین گندم کے لئے انتہائ موزوں ہیں ،لیکن کپاس کی طرح گندم کا بھی بیڑا غرق کردیا گیا ۔کسانوں کو ان کی اجناس کی معقول قیمت نہیں ملتی۔ 

حکمرانوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی بڑی بیوروکریسی بھی کسانوں کو لوٹنے پر لگی ہو ئی ہے۔ کسان کو ہر فصل کم ازکم 25000 فی ایکڑ نقصان دیتی ہے۔ حالیہ گندم کی فصل پر جس طرح کسانوں کی تذلیل کی گئی اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ ملک وقو م کیلئے اناج اُگا نے والا کسان محکمہ خوراک کے دفتر کے باہر جانوروں کی طرح سارا سارا دن لائن میں کھڑا رہنے کے بعد خالی گھر کو لوٹ جاتا ہے، مگر اس کو اپنی فصل بیچنے کیلئے باردانہ نہیں ملتا۔ آخر مجبور ہوکر اپنی فصل کوڑیوں کے بھاؤ مافیا کو بیچتا ہے۔ اور اب اس وقت صورتحال یہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے دعویدار پاکستان کو تیس لاکھ ٹن گندم درآمد کرنی پڑرہی ہے۔ 

اور یہ درآمد ایک ایسے وقت میں کرنی پڑ رہی ہے کہ جب دنیا میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی وجہ سے گندم کی عالمی قیمتیں اپنی بلند ترین سطح پر موجود ہیں ،کیونکہ دنیا میں گندم سپلائی کرنے والے دونوں بڑے ملک یوکرین اور روس ہی ہیں۔ پاکستان کو درآمدی گندم اس لیے بھی مہنگی پڑ سکتی ہے کہ ایک طرف ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر نیچے کی طرف گامزن ہیں تو دوسری جانب پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں گرتی ہوئی قیمت درآمدی گندم کو پاکستانیوں کے لیے مزید مہنگا کر دے گی۔ اگر گندم کی بلند قیمت اور روپے کی کم قیمت برقرار رہی تو درآمدی گندم پاکستانیوں کے لیے آٹے کی قیمت کو مزید بڑھا دے گی جو ملک میں پہلے سے موجود مہنگائی کی بلند سطح کو مزید اوپر کی جانب لے جائے گی۔

یہی کچھ ہم نے چاول کے ساتھ کیا ایک وقت تھا دنیا پھر میں پاکستانی باسمتی چاول کی شدید طلب تھی لیکن پچھلے چند برسوںمیں حالات یکسر بدل گئے۔ دو ہزار دس تک پاکستان چاول کی ایکسپورٹ سے سالانہ تین ارب ڈالر سے زیادہ کمارہا تھا لیکن اب چاول کی ایکسپورٹ میں بتدریج کمی آگئی ہے، نہ صرف یہ بلکہ چاول کی اوسط پیداوار بھی کم ہوئی ہے۔ انڈیا میں اس وقت کسان ایک ایکڑ سے ایک سو بیس من پیداوار حاصل کررہا ہے جبکہ پاکستان میں فی ایکڑاوسط پیداوار پچاس من سے بھی کم ہے۔ 

اس کی وجہ جدید تحقیق سے دوری ہے ۔انڈیا میں پچیس سے زائد یونیورسٹیاں چاول پر تحقیق کررہی ہیں جبکہ ہمارے ہاں پانچ ادارے بھی نہیں ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں ہندوستان کا باسمتی چاول بک رہا ہے ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انڈیا یورپ میں اپنا چاول ایکسپورٹ نہیں کرسکتا اور پاکستانی تاجر انڈیا سے چاول منگوا کر یورپ بھیج رہے ہیں ۔حتیٰ کہ چین بھی انڈیا سے چاول لیتا ہے۔

زراعت کا سب سے اہم شعبہ لائیو سٹاک بھی حکومت کی ناقص پالیسیوں کا شکار ہو چکا ہے حالانکہ پاکستان لائیو سٹاک کی دولت سے مالا مال ہے۔ ہمارے پاس 42.4 ملین بھینسیں، 51.5 ملین گائے، 80.3 ملین بکریاں اور 31.6 ملین بھیڑیں بھی موجود ہیں ،لیکن دنیا کی حلال گوشت کی مارکیٹ میں ہمارا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا میں دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کا چوتھا نمبر ہے لیکن اس کے باوجود ہم دودھ اور اس سے بنی ہوئی مصنوعات کی درآمد پر ہر سال اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ہم بیج کھاد، کرم کش ادویات اور زراعت سے متعلقہ کئی اشیاء کی درآمد پر لگے ہوئے ہیں۔ افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پاس زرعی تحقیق کے لیے مناسب فنڈز بھی موجود نہیں ہیں۔ حکومت یہ بات یاد رکھے اگر ہم نے اپنے زرعی شعبے خاص کر لائیو سٹاک کے لیے بجٹ میں وافر رقم مختص نہ کی تو زرعی انقلاب اور زرعی خودکفالت کا ہمار خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں خوراک کے طور پر سب سے زیادہ آلو استعمال ہوتا ہے اور مارکیٹوں میں ہر وقت اس کی طلب موجود رہتی ہے۔پاکستان میں کئی برسوں سے ضرورت سے زیادہ آلو پیدا ہو رہا ہے لیکن آلو کی ایکسپورٹ کے لیے ہمارے پاس نہ توکوئی منصوبہ بندی ہے اور نہ ہی ہمارے پاس مناسب مارکیٹ انٹیلیجنس ہے، یعنی مقامی پیداوار کی صورتحال واضح نہیں ہوتی جس بنا پر اکثر اوقات آلو ایکسپورٹ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ 

ایکسپورٹ کے لیے سب سے سے ضروری چیز تحقیق اور مناسب اعدادوشمار کی دستیابی ہے۔اس سلسلے میں آلو کے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ دنیا ہمارے انتظار میں نہیں بیٹھی کہ ہم بمپر فصل لائیں گے تو وہ ہم سے خریدیں گے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں سودے پہلے ہی طے ہو جاتے ہیں۔اگر ہمیں پتا ہواور ساتھ یہ یقین ہو کہ فصل بمپر ہو رہی ہے تو ہم بھی بین الاقوامی مارکیٹ سے اچھا حصہ وصول کرتے۔گزشتہ برسوں میں بڑی تعداد میں آلو افغانستان بھیجا جاتا رہا ہے ،مگر اس سال یہ تعداد بہت کم ہو چکی ہے جس کا بہت برا اثر پڑرہا ہے۔

پاکستان کے سرکاری اور چائے کے کاروبار سے منسلک اداروں کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً دو کھرب روپے کی چائے قانونی طور پر درآمد کی جاتی ہے جبکہ محتاط اندازوں کے مطابق قانونی طور پر درآمد ہونے والے چائے کے علاوہ لگ بھگ ایک کھرب کی چائے پاکستان میں غیر قانونی طور پر لائی جا رہی ہے۔پاکستانی اگر چائے پینا چھوڑ نہیں سکتے کم تو کر سکتے ہیں، اس بارے میں مختلف آرا ہیں ۔اس بحث کو سوشل میڈیا تک ہی چھوڑتے ہیں۔ تاہم یہ بات مسلمہ ہے کہ چائے پینا کم کر کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بچایا جا سکتا ہے۔یہاں پر ہم جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان کو چائے درآمد کیوں کرنا پڑتی ہے اور پاکستان اب تک چائے کی کاشت کے قابل کیوں نہیں ہو سکا۔

ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چائے کی کاشت بالکل ممکن ہے اور اس کے کامیاب تجربے بھی ہو چکے ہیں۔پاکستان میں پہلی مرتبہ چائے کی کاشت کا کامیاب تجربہ نیشنل ٹی ریسرچ انسٹیٹیوٹ شنکیاری، جو کہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں واقع ہے، کے بفہ نامی علاقے میں کیا گیا تھا۔پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں چائے کی کامیاب کاشت ہوئی ،اس وقت ایک برطانوی ڈاکٹر برابنٹ چائے کی کاشت کے ماہر تھے۔ وہ اس وقت کے قائم کردہ پاکستان ٹی بورڈ کی معاونت کر رہے تھے۔ انھوں نے 1958-59میںمقامی کاشتکاروں کے ساتھ مل کر اس وقت کے مغربی پاکستان میں چائے کی کاشت کے کامیاب تجربات کیے تھے۔

ڈاکٹر برابنٹ نے کئی مرتبہ پاکستان دورے کیے۔نیشنل ٹی ریسرچ سینٹر شنکیاری سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق چائے کی کاشت کے لیے تیزابی زمین، کم از کم سالانہ بارش 40 انچ اور ایسی ڈھلوانی زمین چاہیے ہوتی ہے جہاں پر پانی کھڑا نہ ہوتا ہو۔ اس کے علاوہ نہری پانی سے بھی استفادہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ چائے کے ایک پودے پر زیادہ سے زیادہ سو ڈیڑھ سوروپے لاگت آتی ہے اور پودے کی تیاری میں چار سے پانچ سال کا عرصہ لگتا ہے۔فی ایکڑ اراضی پر اس وقت ڈیڑھ سے دولاکھ روپے سالانہ تک اخراجات آتے ہیں۔

تاہم پانچ سال بعد جب چائے کی فصل کا آغاز ہو جاتا ہے تو آمدہ دو سے چار سال میں زمین تمام اخراجات کاشت کار کو واپس لوٹا دیتی ہے جس کے بعد 120 سال سے 200 سال تک انتہائی کم اخراجات پر چائے کا باغ فصل دیتا رہتا ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستانی علاقوں مانسہرہ، بٹگرام، ایبٹ آباد، سوات، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، اور مری کے مختلف علاقوں میں ایک لاکھ 58 ہزار ایکڑ علاقہ ایسا موجود ہے جہاں پر چائے کی کاشت ممکنہ طور پر کامیاب ہو سکتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اگر اس سارے رقبے پر چائے کی کاشت کر دی جائے تو اس وقت ہم اپنی چائے کی درآمد کا 45 سے 50 فیصد تک حاصل کر سکتے ہیں۔

زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان خوردنی تیل درآمد کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہےجو ہر سال300 ارب روپے سے زائد کا خوردنی تیل درآمد کرتا ہے۔ پاکستان میں خوردنی تیل اور تیل دار اجناس کی درآمدات سے منسلک اداروں کی تنظیم پاکستان وناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن ( پی وی ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سالانہ 2.6 ملین ٹن خام اور ریفائن خوردنی تیل درآمد کرتا ہے اس کے علاوہ سالانہ 2.2 ملین ٹن تیل دار اجناس بھی درآمد کی جاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت ملکی ضروریات کا صرف 12 فیصد خوردنی تیل پاکستان خود پیدا کرتا ہے جبکہ خوردنی تیل کی مقامی طلب کو پورا کرنے کےلئے 88 فیصد درآمدات پر انحصار کیا جاتا ہے۔ 

پاکستان میں خوردنی تیل کی فی کس سالانہ کھپت 16 کلوگرام جبکہ ملک کی مجموعی سالانہ کھپت کا تخمینہ 3.9 ملین ٹن تک ہے۔زرعی ماہرین نے کہا ہے کہ تیل دار اجناس کینولہ، توریا، سرسوں، تارامیرا، السی اورسورج مکھی زیتون کی کاشت کرکے خوردنی تیل کی درآمدات میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے جس سے نہ صرف کاشتکار طبقہ کے معیار زندگی اور دیہی معیشت میں بہتری آئے گی بلکہ اس سے سالانہ اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بھی بچایا جا سکے گا جو قومی معیشت کی ترقی اور فروغ میں معاون ثابت ہوسکتا ہے ۔یہی حال دالوں کی کاشت کا ہے زرعی ملک ہونے کے باوجود مالی سال 2019-20کے جولائی تا فروری کے دوران 58ارب 43کروڑ 40 لاکھ کی دالیں درآمد کی گئیں جبکہ مالی سال 2020-21میں جولائی تا فروری کے دوران 61ارب چالیس کروڑ اسی لاکھ روپے کی دالیں درآمد کی گئیں یعنی ایک خطیر رقم زرمبادلہ کی صورت ضائع کردی گئی ۔

ان تمام بحرانوں کے پس منظر میں وہی ایک ہی طرح کے عوامل کارفرما دکھائی دیتے ہیں، یعنی مستقبل میں پیدا ہونے والی صورتحال کا اندازہ کرنے میں ناکامی، بحرانوں سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کا فقدان اور طاقتور عناصر کی غیر قانونی سرگرمیوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا۔پاکستان میں ماہ و سال تو بدلتے رہے لیکن حالات ہمیشہ ایک جیسے رہے ۔ اس سارے عرصہ میں بشمول” پی پی “،’’ن لیگ‘‘اور’’ق لیگ‘‘دور حکمرانی میں محسوس ہی نہ ہوا کہ ہم نے ملک کے دیگر معاملات پر بھی توجہ دینی ہے ۔ہم نے یہ بھی نہ سوچا کہ جب امریکہ کو ہماری ضرورت نہیں رہے گی تو اس کے بعد ہم کھائیں گے کہاں سے ۔نہ ہم نے انڈسٹری لگائی اور نہ ہی ایکسپورٹ پر توجہ دی اور اس دوران جو اس وقت کے حکمرانوں نے سب سے بڑا ظلم کیا وہ زراعت کی تباہی تھی ۔۔ ضیاءالحق کے مارشل لا ء سے مشرف حکمرانی کے اختتام تک (1977-2008)تک ہماری معیشت ’’وار اکا نومی ‘‘پر انحصار کرتی رہی۔ 

ہم امریکہ کی لڑائی لڑتے رہے، روس کو افغانستان روکنے کے نام پرہم نے ڈھیروں ڈالر لیے جو کچھ ملک پر خرچ ہوئےاور کچھ اللوں تللوں پرجب پاکستان’’ وار اکانومی‘‘کو بنیاد بناکر افغان جنگ پر ہی سارا انحصار کر رہا تھاتب کسی کو خیال نہیں آیا کہ ہم اپنی زراعت اور انڈسٹری پر ہی توجہ دے لیں ۔ایکسپورٹ ہی بڑھا لیں تب ہم نے پراپرٹی اور کنسٹرکشن کو بنیادی کار وبار بناکر زراعت کو تباہ کیا حکمرانوں نے ڈالروں سے شوگر ملیں لگائیں جبکہ اربوں ڈالر زرمبادلہ دینے والی کپاس کو برباد کیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ شوگر ملوں کا جال بچھانے اور زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم،کپاس چینی درآمد کرنی پڑرہی ہے۔

‎اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم آئی ایم ایف سے ساڑھے چھ ارب ڈالر کا قرضہ لینے جا رہے ہیں۔ جبکہ کپاس اور دیگرفصلوں کی مد میں ہم دس ارب ڈالر سے زائد ہر سال خرچ کر تے ہیں۔ہمارے پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ اِدھر اُدھر ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائےاپنی بنیاد یعنی زراعت پر انحصار کریں اور اس کو بہتر بنائیں ۔کاشتکاروں بالخصوص کپاس کے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کریں۔ ہمیں اپنے کاشتکار کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرکے انہیں دوبارہ زراعت کی طرف لانا ہوگا۔ جس کیلئے ہمیں کسان کوزیادہ سے زیادہ سہولیات دینا ہوں گی ۔کپاس کی چنائی کرنے والی خو اتین کو ہر سال سوا ارب روپے سے زائدہ معاوضہ دیا جاتا ہے۔ زیادہ فصل ہونے سے معاوضہ بھی بڑھے گا جس سے دیہی علاقوں میں خوشحالی آئےگے ،اس کے علاوہ بلوچستان کے قابل کاشت رقبہ پر توجہ دے کر اس پر کپاس کاشت کرائیں۔ لوگوں کوسکیورٹی دیں۔ 

موسمی ماحول کی وجہ سے وہاں اُگنے والی کپاس کا ریشہ بھی بڑا اور فصل بھی زیادہ ہوسکتی ہے ۔عملی اقدامات کرے۔ زیادہ پیداوار دینے والے بیج کی تیاری اورکھادوں کی پیداوار میں اضافے کیلئے ہنگامی بنیادوں پرکام کرے۔ کھاد بیج اور زرعی ادویات میں ملاوٹ کے خاتمے کیلئے موجودہ قوانین کو مزید سخت بنائے۔ جدید زرعی تحقیق کو کاشتکاروں کے کھیتوں تک پہنچائے۔ انہیں مشینی کاشت کی طرف لانے کیلئے زرعی آلات سستے کرے۔ خاص طور پر ٹریکٹر کی پیداوار میں تقریباً 50  فیصد کی ریکارڈکمی ہونے کے اسباب کا جائزہ لے۔ 

ناہموار کھیتوں کو ہموار کرنے کیلئے کاشتکاروں کو لینڈ لیولر اور لیزز کی سہولتیں رعایتیں کرائے پر دی جائیں، آبپاشی کیلئے پانی کو ٹیل یعنی آخری کونے تک پہنچانے کیلئے کھالوں، راجباہوں اور نہروں کی بھل صفائی کی جائے، کاشتکاروں کو کاشت کی اپنی ضروریات پورا کرنے کیلئے بلاسود قرضے دئیے جائیں۔ تصدیق شدہ بیج،خالص کھاد، ملاوٹ سے پاک زرعی ادویات اور ڈیزل کی فراہمی اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں اور ان درج بالا زرعی مداخل کی موجودہ قیمتوں میں کم ازکم 30 سے 40  فیصد کی کمی کی جائے۔

کاشتکاروں کی زرعی پیداوار کی بروقت فروخت کیلئے حکومت طریقہ کار وضع کرے تاکہ کاشتکارکو اپنی اگلی فصل کاشت کرنے کیلئے مالی وسائل فراہم ہو سکیں۔‎ہماری زرعی یونیورسٹیز اور زرعی سائنسدانوں کا فرض ہے کہ وہ مختلف فصلوں، سبزیوں، پھلوں اور پھولوں کے بیچوں کی نئی نئی ایسی اقسام بنائیں جو نہ صرف بیماریوں کے خلاف زبردست قوت مدافعت رکھتے ہوں بلکہ ان کی پیداوار بھی زیادہ ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت آبپاشی کیلئے دستیاب پانی کی مقدار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ اس لیے زرعی سائنسدانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ کاشتکاروں کی رہنمائی کرے اور انہیں کم پانی کے باوجود زیادہ پیداوار لینے کی ٹیکنالوجی سے آگاہ کریں۔ 

ہماری حکومت اور اس کے مالی و معاشی ماہرین یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ معیشت کی مضبوطی،ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا ہر راستہ زراعت اور کسان سے منسلک ہے۔ اس لیے زراعت اور کسان کے مسائل ہر صورت میں ترجیحی بنیادوں پر حل ہونے چاہیں اس کے علاوہ ہمارے دیہات میں زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں اور دیہی عوام کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلائی جائے اور یہاں کے گھپ اندھیروں کو ختم کیا جائے۔ حکومت یہ بات یاد رکھے کہ آئین اور قانون کی رائے میں شہری اور دیہی عوام کے حقوق ایک جیسے ہیں، لہٰذا انہیں صحت، تعلیم، پینے کا صاف پانی، نکاسیِ آب، ملاوٹ سے پاک اشیائے ضروریہ، روزگارکے فراہمی اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے کی طرف حکومت کو فوری توجہ دینا چاہیے۔

ماہرین کے مطابق ماضی وحال کی حکومتیں مالی خسارے میں کمی، سرکاری اداروں میں اصلاحات، بجلی و تیل کی قیمتوں پر سرکاری رعایتوں میں بتدریج کمی لانے میں ناکام رہی ہیں۔پاکستانی حکومتیں گزشتہ75 برسوں سے آئی ایم ایف کے سہارے ہی ملک چلاتی آرہی ہیں۔جبکہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ایسے ہی ہے، جیسے مریض کو ہنگامی طبی امداد کے لیے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل کرایا جاتا ہے اور پھر اسے نارمل وارڈ منتقل کرنے کے بعد صحت یابی پر گھر منتقل کر دیا جاتا ہے لیکن پاکستانی معیشت ایک ایسا مریض ہے، جو ہمیشہ ہی ایمرجنسی وارڈ میں رہا ہے۔اگر ہماری زراعت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے تو ہمیں آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔