• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلو بجائے خود بہت توجہ طلب ہے کہ ایک ایسا ملک جو آئینی زرائع اور قانونی مباحث کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا ، آزادی کے بعد مستقل آئینی بحرانوں سے دوچار رہا ہے۔آزادی کے بعد کے تئیس چوبیس سال تو ملک کو سرزمینِ بے آئین بھی کہا جاتا رہا۔ایسا نہیں ہے کہ اس زمانے میں آئین نہیں تھا بلکہ اس عرصے میں جو آئین بنے وہ جاری نہیں رہ سکے اور ایک قابل عمل مستقل آئین کی تلاش کا عمل جاری رہا۔ آزادی کے بعد کے نو برس 1935ء کا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ملک کے عبوری دستور کی حیثیت سے نافذ رہا۔ 1956ء میں پہلا آئین بنا جو عوام کے براہ راست منتخب کردہ نمائندوں کے بجائے ایک ایسی آئین ساز اسمبلی نے بنایا جس کے اراکین کا انتخاب بالواسطہ طور پر، یعنی صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے سے کیا گیا تھا۔

1962ء کادستور فیلڈ مارشل ایوب خان نے بنوایا اور نافذ کیا۔بعد ازاں اس کی توثیق قومی اسمبلی سے کروائی گئی جو خود بھی بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب نہیں ہوئی تھی بلکہ بالواسطہ طور پر بنیادی جمہوریتوں کے نظام کے ذریعے اس کا انتخاب ہوا تھا۔1969ء میں اس آئین کو خود اس کے خالق جنرل ایوب خان نے منسوخ کردیا۔بعد ازاں ایک بڑے بحران سے گزر کر جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوا،ہم ایک دستور بنانے میں کامیاب ہوئے جو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اور براہ راست طور پر منتخب ہونے والی اسمبلی نے بنایا تھا اور جس کو اسمبلی میں موجود جملہ سیاسی جماعتوں کی تائید حاصل تھی۔

1973ء کے اس دستور کا بننا بظاہرآئینی بحرانوںسے گلوخلاصی اور نجات کا پیغام لے کر آیا تھا لیکن ایسا ممکن نہیں ہوا۔ یہ دستورگوکہ توڑاتو نہیں گیامگر دو مرتبہ معطل ضرور ہوا۔یہی نہیں بلکہ1973ء کے آئین سے پہلے اور اس کے بعد بھی ملک جن آئینی بحرانوں سے دوچار رہا ، ان پر غائر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگاکہ آئینی نظام کی عدم موجودگی تو بحران کا ایک واضح سبب تھی ہی مگر آئین کے بننے کے بعد بھی بحرانوں کا تسلسل ہماری ریاست کے چند بنیادی نقائص اور تضادات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو 1973کے آئین پر دستخط کرتے ہوئے
ذوالفقار علی بھٹو 1973کے آئین پر دستخط کرتے ہوئے 

پاکستان میں آئینی بحرانوں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے توبنیادی طور پر چار قسم کے آئینی بحران ہمارے سامنے آتے ہیں۔اول، وہ بحران ہیں جو مستقل آئین کی عدم موجودگی ، یا کسی آئین کے معطل کیے جانے کے بعد ، متعارف کیے جانے والے عبوری نظاموں کا نتیجہ تھے ۔ مثلاً 1954ء میں دستور ساز اسمبلی کا توڑا جانا جبکہ یہ اسمبلی ایک مستقل دستور بنانے کے بہت قریب پہنچ چکی تھی، ایک بڑے بحران کا سبب بنا۔اسی طرح 1970ء میں آئین ساز اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے مگر یہ اسمبلی متحدہ پاکستان کے لیے دستور نہیں بنا سکی یا اس کو دستور بنانے سے باز رکھا گیا۔یہاں تک کہ ملک دو لخت ہوا اور آبادی کے لحاظ سے اس کا سب سے بڑا صوبہ علیحدہ ہوکر ایک الگ ملک بن گیا۔

دوم ، وہ بحران ہیں جو ملک میں چار مرتبہ فوج کی جانب سے آئینی نظام کو ختم کرکے یا اس میں خلل ڈال کر اقتدار میں آنے کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔1958ء ، 1969ء اور 1977ء کے فوجی شب خون، مارشل لاء کے نام سے آئے جبکہ 1999ء کے فوجی شب خون نے مارشل لاء کا لفظ استعمال نہیں کیا۔اسی طرح ابتدائی دو مارشل لاء آئین کے خاتمے کے بعد نافذ ہوئے جبکہ 1977ء اور 1999ء کے فوجی اقتدار نے آئین کو ختم کرنے کے بجائے اس کے معطل کیے جانے کا اعلان کیا۔ماضی کے یہ چاروں فوجی اقدامات شدید نوعیت کے آئینی بحرانوں کی شکل میں ظاہر ہوئے اور ان میں ملک کی عدالتوں کو ایک کردار ادا کرنا پڑاجو بحیثیت مجموعی ان اقدامات کی توثیق اور ان کو قانونی جواز فراہم کرنے کا وسیلہ بنا ۔ان عدالتی فیصلوں کے حوالے سے کچھ مزید گفتگو ہم آگے چل کر کریں گے ۔

سوم ، وہ آئینی بحران جو آئین بننے کے باوجود اس پر عملدرآمد کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا نتیجہ تھے۔اس ضمن میں خاص طور سے 1973ء کے دستور کے متعارف کیے جانے کے بعد ابھرنے والے ان بحرانوں کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے جو ہمارے آئین کی دَرونی اور داخلی کمزوریوں کا شاخسانہ بھی تھے اور آئین کے بنیادی فلسفے سے انحراف کا نتیجہ بھی ۔کسی بھی آئین میں تضادات بھی ہوسکتے ہیں اور متناقض شقیں بھی ۔بعد میں آنے والے ان بے قاعدہ اور غیر ہم آہنگ شقوں کی اصلاح کرسکتے ہیں اور اس کے لیے ہر آئین میں ترمیم کا ایک باقاعدہ طریقۂ کار بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں ایسے تضادات کو بعض صورتوں میں حل بھی کیا گیا ہے مگر بہت سے تضادات اب بھی آئین کے اندر موجود ہیں جو شاید مستقبل میں ترامیم کا موضوع بنیں۔

جہاں تک آئین کے بنیادی فلسفے پر عملدرآمد کے نہ کیے جانے کا تعلق ہے ،اس کی بھی بہت سی مثالیں ہمیں اپنی تاریخ میں مل جاتی ہیں ۔ہمارا آئین بنیادی طور پر ’تقسیمِ ثلاثی‘(Trichotomy of powers) کے فلسفے پر استوار ہوا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ مقننہ (Legislature)، انتظامیہ (Executive) اور عدلیہ (Judiciary) اپنا علیحدہ وجود رکھتی ہیں اور ان کے دائرہ ہائے کار دستور میں واضح کردیے گئے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ چونکہ ملک نے پارلیمانی طرز حکومت کو اختیار کیا ہے لہٰذا مقننہ اور انتظامیہ کے درمیان ایک تعلق اور رشتہ ہمہ وقت موجود رہتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دائرہ کار میں غیر ضروری طور پر مداخلت بھی کرتے رہیں۔

عدلیہ کا تو انتظامیہ اور مقننہ کے مقابل اپنا ایک بالکل واضح دائرہ کار ہے جو اس کو انتظامیہ اور مقننہ کے معاملات میں مستقل مداخلت سے روکتا ہے ۔ انتظامیہ کے بعض فیصلے اوراقدامات یقیناً عدالتوں میں زیر بحث آسکتے ہیں لیکن عدالتیں براہ راست طور پر کابینہ اور انتظامیہ کے کاموں مداخلت نہیں کرتیں۔یہی صورت مقننہ کی بھی ہے جس کی کاروائی اور فیصلے عدلیہ کی مداخلت سے محفوظ ہوتے ہیں ،سوائے ایسے فیصلوں اور اقدامات کے جو آئین سے متصادم ہوں۔

چہارم، ملک کی تاریخ میں ایسے بھی بہت سے بحران آتے رہے ہیں جو براہ راست طور پر آئین سے یا آئین شکنی سے تو متعلق نہیں تھے لیکن جن کا تعلق عدلیہ سے ضرور تھا جو آئین کی پاسدار ہونے کے ناطے ایک بہت اہم کردار کی حامل ہے۔ عدلیہ سے متعلق بحران خود اس کے کردار اور اس کے داخلی مسائل کا نتیجہ رہے ہیں۔ ججوں کا خلاف ضابطہ تقرر ،اس تقرر میں سینیارٹی کے اصول کی عدم پاسداری ،کسی مقدمے کو سننے کے لیے ،چیف جسٹس کی طرف سے اپنی صوابدید پر بنچ تشکیل دینے کا اختیار اور اس کے مضمرات، ججوں کی برادری کے باہمی اختلافات یا کسی ایک یا دوسرے جج کا انتظامیہ کی طرف سے ہدف بن جانا ، ایسے بحران کو جنم دے سکتا ہے جس کا اثر پورے عدالتی نظام پر ، عدلیہ اور انتظامیہ کے تعلقات پر ، اور سب سے بڑھ کر تقسیم ثلاثی کے اصول پر پڑ سکتا ہے ۔پاکستا ن میں جسٹس سجاد علی شاہ کا بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں سے جھگڑااور جسٹس افتخار چوہدری کا جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ہدف بنایا جانا ، اس کی مثالیں ہیں۔

مذکورہ بالا چاروں قسم کے بحرانوں میں سب سے اہم، دوررس نتائج کے حامل، اور ریاست کے سارے تاروپود کو ہلا ڈالنے والے بحران وہ رہے ہیں جو آئینی نظام کو ختم کرنے یا اس میں خلل ڈالنے کے فوجی اقدامات کا نتیجہ تھے ۔ایسے اقدامات کیونکہ ملک میں چار مرتبہ ہوئے لہٰذا انہی سے متعلق چار بحران ہماری آئینی تاریخ کے سب سے بڑے بحران کہے جاسکتے ہیں لیکن ملک کے عمومی سیاسی و جمہوری ارتقا کے تناظر میں 1954ء کے دستور ساز اسمبلی کو توڑے جانے کے اقدام کو بھی ملک کے اہم ترین آئینی بحرانوں میں شمار کیا جانا چاہیے۔یہاں ہم اس بحران اوربعد کے ، فوجی مداخلت سے متعلق بحرانوں کا تذکرہ کریں گے ۔

آئین ساز اسمبلی کی تحلیل

آزادی کے سات سال بعد 27اکتوبر1954ء کو گورنر جنرل غلام محمد کی طرف سے آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کا اقدام پاکستان کے پہلے بڑے آئینی بحران کا سبب بنا۔ اس اقدام کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ جہاں ایک طرف آئین سازی میں اس وجہ سے تاخیر ہورہی تھی کہ مختلف صوبوں ، خاص طور سے پنجاب اور مشرقی بنگال کے درمیان نمائندگی کے مسئلے پر اتفاق رائے نہیں ہوپارہا تھا، وہاں