یہ جون 2022ء کا پہلا ہفتہ تھا۔ میں آکسفورڈ یونین کی دعوت پر برطانیہ کے مشہور شہر آکسفورڈ پہنچا۔ آکسفورڈ یونین کی طرف سے مجھے ایک مباحثے میں شرکت کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ اس مباحثے سے ایک دن قبل مجھے یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے بلائوٹنگ اسکول آف گورنمنٹ میں لیکچر دینا تھا۔ سائوتھ ایشیا سوسائٹی کے زیراہتمام میرے لیکچر کا موضوع تھا۔ ’’جنوبی ایشیا میں میڈیا کی آزادی کو درپیش خطرات۔‘‘ لیکچر ختم ہوا تو مجھے بہت سے بھارتی پاکستانی اور بنگلہ دیشی طلبا و طالبات نے گھیر لیا۔ زیادہ تر طلبا پبلک پالیسی پڑھ رہے تھے اور جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے علاوہ سیاسی نفرتوں میں شدت پر بھی پریشان تھے۔
اس لیکچر کے اہتمام میں نئی دہلی کی ایک ہندو طالبہ اور سرینگر کے ایک مسلمان طالب علم کا اہم کردار تھا۔ جب یہ دونوں آکسفورڈ میں مجھے ملے تو بھارت میں مسلمانوں کی طرف سے بی جے پی کے دو رہنمائوں کی طرف سے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے خلاف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ اگلے روز آکسفورڈ یونین میں مباحثہ تھا جس کا عنوان ’’برطانوی راج ابھی ختم نہیں ہوا۔‘‘ میں نے عنوان کے حق میں تقریر کی اور کہاکہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں آج بھی بہت سے ایسے نو آبادیاتی قوانین موجود ہیں جو ہمیں برطانوی راج کی یاد دلاتے ہیں۔
بھارتی ریاست ’’تامل ناڈو‘‘ کے وزیر خزانہ ڈاکٹر تھیاگا راجن نے میرے مؤقف کو رد کیا لیکن جب آکسفورڈ یونین کی روایت کے مطابق ہال میں موجود شرکاء سے رائے لی گئی تو اکثریت نے میرے مؤقف کودرست قراردیا۔ مباحثہ ختم ہوا اور میں آکسفورڈ یونین کے تاریخی ہال سے باہر آیا تو بھارتی طلبا وطالبات نے مجھے گھیر لیا۔کچھ سلفیاں بنا رہے تھے۔ کچھ تعریفیں کررہے تھے۔ ایک طالبہ نے بڑی شستہ انگریزی میں مجھے کہاکہ سر یہاں آکسفورڈ میں ہم نہ بھارتی ہیں نہ پاکستانی، نہ ہندو ہیں نہ مسلمان ہم صرف طالب علم ہیں لیکن جب ہم اپنے وطن واپس جائیں گے تو اپنی غلط تاریخ کے قیدی بن جائیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی آگ برسائیں گے۔ اس طالبہ نے مجھے کہاکہ بھارت اور پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہمیں غلط اور نامکمل تاریخ پڑھائی جاتی ہے، یہ غلط تاریخ ہم میں غلط فہمیاں پیدا کرتی ہے، آپ اس غلط تاریخ کے خلاف آواز بلند کریں۔ وہاں موجود سب بھارتی اور پاکستانی طلبا نے اپنی ساتھی کے مؤقف کی تائید کی۔ یہ میرے لئے ایک خوشگوار حیرت تھی۔ جنوبی ایشیا کی نئی نسل فیک نیوز سے آگے بڑھ کر فیک ہسٹری کے خلاف شکایت کر رہی تھی۔
یہ تحریر فیک ہسٹری کے خلاف ازالے کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ بھارت اور پاکستان میں چند تاریخ دانوں نے تاریخ کی آبروریزی کے خلاف آواز بلند کی ہے لیکن یہ آواز میڈیا پر بہت کم سنائی دیتی ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ایک دوسرے کے ساتھ مذہبی، نسلی، لسانی اور سیاسی بنیادوں پر نفرت کرنے والوں کو چند ہزار یا چند سو سال پرانی تاریخ تو دور کی بات ، چند سال پرانی تاریخ سے بھی آگاہی نہیں۔ آئیے سب سے پہلے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ برصغیر میں اسلام کیسے آیا، یہ سوال اس لئے بہت اہم ہے کہ ایک طویل عرصہ سے بھارت کے ہندو انتہا پسند یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ برصغیر میں اسلام تلوار کے زور پر پھیلا، ہندو قوم پرست شہاب الدین غوری، محمود غزنوی اور مغل بادشاہوں کو اسلام پھیلانے کا ذمہ دار قراردیتے ہیں جبکہ پاکستان میں ایسی کتابیں موجود ہیں جن میں محمد بن قاسم کو اسلام پھیلانے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔
تاریخی سچائی بالکل مختلف ہے۔ برصغیر میں اسلام نہ تو غوری اور غزنوی لائے اور نہ ہی محمد بن قاسم لائے نہ ہی کوئی اور حملہ آور اسلام لیکر آیا۔ برصغیر پاک و ہند میں اسلام تاجروں کے ذریعہ پھیلا۔ یہ تاجر سمندر کے ذریعہ عرب ممالک میں آتے جاتے تھے۔ برصغیر میں پہلی مسجد نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی کیرالہ میں بنائی گئی۔ بھارت کی معروف تاریخ دان پروفیسر رومیلا تھا پڑنے اپنی کتاب "The Past as Present" میں ٹھوس تاریخی شواہد سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ برصغیر میں ہندو مسلم نفرت کی اصل وجہ وہ برطانوی تاریخ دان ہیں جنہو ں نے مخصوص نو آبادیاتی ایجنڈے کے تحت تاریخ کو مسخ کیا اور دو مذاہب کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑا کر کے ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا۔
رومیلا تھاپڑ نے برطانوی مصنف جیمزمل کی کتاب ’’دی ہسٹری آف برٹش انڈیا‘‘ میں پیش کئے گئے اس بیانیے کو مسترد کیا کہ اسلام بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ آیا۔ رومیلا تھاپڑ لکھتی ہیں کہ محمود غزنوی نے سومنات کے ایک مندر پر 1026ء میں حملہ کیا۔ اس علاقے میں اسلام پہلے سے موجود تھا اور جس ہندو راجہ نے محمود غزنوی کا مقابلہ کیا اس کی فوج میں مسلمان بھی موجود تھے۔ رومیلا تھاپڑ لکھتی ہیں کہ سومنات پر محمود کے حملے کے دوسو سال بعد 1264ء میں ایران کے ایک تاجر نورالدین فیروز نے سومنات میں ایک مسجد کی تعمیر کے لئے مقامی راجہ شری چڈا سے زمین خریدی۔ زمین کے یہ کاغذات سنسکرت اور عربی زبانوں میں تیار کئے گئے جن کا ترجمہ رومیلا تھاپڑ نے اپنی کتاب میں شامل کیا۔ تمام مستند بھارتی تاریخ دان متفق ہیں کہ کیرالہ اور بھارتی گجرات میں اسلام تلوار سے نہیں تجارت سے پھیلا۔ مسلمان تاجروں نے یہاں شادیاں کیں اور یہیں بس گئے جبکہ غوری اور غزنوی بہت بعد میں آئے۔
محمد اسحاق بھٹی کی کتاب ’’ برصغیر میں اسلام کے اوّلین نقوش‘‘ میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی کریم ؐ کی زندگی میں عرب تاجر برصغیر آیا کرتے تھے۔ بلکہ ہندوستان کے جاٹ مدینہ منورہ میں بھی موجود تھے۔ بھٹی صاحب نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک دفعہ کسی ہندوستانی راجے نے نبی کریمؐ کو زنجیل (سونٹھ) کا تحفہ بھیجا جو آپؐ نے صحابہ کرام میں بانٹ دیا۔ نبی کریم ؐ کے وصال کے بعد حضرت عمر فاروق ؓ کے دور خلافت میں حضرت حکیم بن ابوالعاص ؓ کا لشکر ممبئی کے قریب ’’تھانہ‘‘ نامی بندرگاہ پرآیا تھا۔
خطہ برصغیر میں نبی کریم ؐ کے پچیس صحابہ کرام تشریف لائے۔ بارہ حضرت عمر ؓ کے دور میں، پانچ حضرت عثمان کے دور میں، تین حضرت علی ؓ کے دور میں اور باقی حضرت معاویہ ؓ کے دور حکومت میں آئے۔ ان سب کے بعد محمد بن قاسم سندھ آئے اور اس وقت ان کی عمر اٹھائیس سال تھی۔ محمد اسحاق بھٹی لکھتے ہیں کہ محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے اَٹھہتر سال قبل مسلمان برصغیر میں پہنچ چکے تھے۔ یہ وہ حقائق ہیں جو بھارت اور پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی تاریخ میں شامل نہیں۔ بھارت اور پاکستان نے1947ء میں برطانوی راج سے آزادی حاصل کر لی لیکن دونوں نے ابھی تک برطانوی مصنفین کی لکھی گئی جھوٹی تاریخ سے آزادی حاصل نہیں کی۔
جب ہندو قوم پرست ممبئی یا دہلی میں مسلمانوں پر الزام لگاتے ہیں کہ تم نے تلوار سے اسلام پھیلایا تو مسلمانوں کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں ہوتا کیونکہ انہیں اپنی اصل تاریخ سے آگاہی نہیں 1857ء میں برطانوی فوج کے ہندو اور مسلمان سپاہیوں نے برطانوی افسروں کے خلاف بغاوت کی تو اس کے بعد برطانوی راج نے دونوں کو ایک دوسرے سے لڑایا۔1867ء میں انگریزوں نے ہندوئوں کے ساتھ مل کر برصغیر سے فارسی اور اُردو زبان کو ختم کرنے کی کوشش کی تو سرسید احمد خان نے اس کوشش کے خلاف مزاحمت شروع کی۔ سرسید احمد خان ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے۔ لیکن فارسی اور اُردو کے خاتمے کو مسلم تشخص پرحملہ سمجھتے تھے۔
انہوں نے مسلمانوں کوجدید علوم حاصل کرنے اور ا نگریزی سیکھنے کی ترغیب دی تاکہ مسلمان اپنے حقوق کا دفاع کرسکیں۔ اسی زمانے میں ایسی تحریکیں شروع ہوگئیں جس کا مقصد مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانا تھا۔ انہی میں شدھی تحریک بھی تھی جس کا مقصد پروفیسر کے تمام مسلمانوں اور مسیحیوں کو ہندو بناکر رام راج قائم کرنا تھا۔ رام راج کا دوسرا نام اکھنڈ بھارت ہے جس میں بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، برما اور سری لنکا کے علاوہ افغانستان کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ شدھی تحریک کے باعث پڑھے لکھے مسلمانوں نے ایک علیحدہ وطن کا خواب دیکھنا شروع کیا۔ جہاں وہ اپنا مذہبی و سماجی تشخص برقرار رکھ سکیں۔
اسی مقصد کے تحت 1906ء میںآل انڈیا مسلم لیگ نے ڈھاکہ میںجنم لیا۔ جب مسلم لیگ بنی تو علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم ؒ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے لیکن انڈین نیشنل کانگریس سیکولر ازم کے نام پر مسلمانوں کو دھوکہ دے رہی تھی۔ لہٰذا علامہ اقبال ؒ اور قائداعظم ؒ نے اپنے مؤقف پر نظرثانی کی اور علیحدہ وطن کامطالبہ شروع کردیا۔ کچھ دانشور دعویٰ کرتے ہیں کہ قائداعظم ؒ نے برطانوی سرکار کے کہنے پر پاکستان کا مطالبہ کیا ۔ یہ دعویٰ محض ایک جھوٹ اور فریب ہے۔ علیحدہ وطن کا مطالبہ پہلی جنگ عظیم میں شروع ہو گیا تھا۔
جب عبدالجبار خیری اور عبدالستار خیری نے یو پی، سندھ، کرناٹک، میسور اوردہلی کو ایک علیحدہ مسلم ریاست بنانے کا مطالبہ کیا۔ 1928ء میں مولانا اشرف علی تھانوی نے یہی مطالبہ کیا۔ 1928ء میں ایک صحافی غلام حسن کاظمی نے ایبٹ آباد میں ہفت روزہ پاکستان کے ڈیکلریشن کیلئے درخواست دی۔ کچھ سال بعد چودھری رحمت علی نے ’’پاکستان‘‘ کے نام سے اسکیم پیش کی۔اس میں جو لفظ تھا اُس کے الفاظ میں ’’آئی‘‘ نہیں تھا۔ بلکہ یہ Pakistanتھا۔ بعد میں قائداعظم ؒ نے اس میں لفظ ’’آئی‘‘ شامل کرایا۔ اُستاد اور محقق ڈاکٹرانیس احمد کی تحقیق کے مطابق چودھری رحمت علی کی سکیم میں ’’پی‘‘ پنجاب کیلئے ’’اے‘‘ افغانیہ، ’’کے‘‘ کشمیر، ’’ایس‘‘ سندھ اور ’’ستان‘‘ بلوچستان کے لئے تھا۔
قائداعظم ؒ نے اس میں لفظ ’’آئی‘‘ شامل کرا کر اسے PAKISTANبنایا اور ’’آئی‘‘ اسلام کا ترجمان جو باقی تمام خطوں کو ایک دوسرے سے جوڑ رہا تھا۔ ڈاکٹر انیس احمد کے خیال میں قیام پاکستان کے بعد ہماری یونیورسٹیوں میں نوآبادیاتی تاریخ پڑھائی جاتی رہی۔ اس نو آبادیاتی سوچ نے ہم میں نسلی و لسانی اختلافات پیدا کئے۔ فوجی ڈکٹیٹروں نے قومی سوچ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو کمزور کیا جس کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹ گیا۔ وہ گمرا ہ لوگ جو قائداعظمؒ کو انگریزوں کا ایجنٹ قراردیتے ہیں۔
بھول جاتے ہیں کہ 23مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ لاہور میں جو قراردادیں منظور ہوئیں ان میں ایک قرارداد فلسطینی مسلمانوں کے حق میں بھی تھی۔ اُس زمانے میں برطانوی راج فلسطین کو تقسیم کرنے کی سازش کر رہا تھا۔ قائداعظم ؒ کا فلسطین مسلمانوں کے نمائندے مفتی امین الحسینی سے رابطہ رہتا تھا۔ قائداعظم ناصرف باقاعدگی سے یوم فلسطین مناتے بلکہ فلسطین فنڈ کے نام سے رقم جمع کرکے مفتی امین الحسینی کو بھجوائے۔ مفتی امین الحسینی کو برطانوی راج نے دہشت گرد قراردیدیا تھا لیکن قائداعظم اُنہیں حریت پسند سمجھتے تھے۔
افسوس کہ آج کی نسل کو یہ نہیں پتہ کہ 23مارچ 1940ء کو قائداعظم ؒ نے نہ صرف ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ فلسطین کو تقسیم کرنے کی مخالفت بھی کی۔ برطانوی راج کی اس سازش کی مزاحمت کرنے والے قائداعظم ؒ کو انگریزوں کا ایجنٹ کہنا چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح بھارت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کشمیر کی تحریک آزادی کا تعلق پاکستان سے جوڑتے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی اکثریت واقعی پاکستان سے محبت کرتی ہے لیکن کشمیر کی تحریک آزادی پاکستان قائم ہونے سے بہت پہلے شروع ہوگئی تھی۔ آج بھی پورے جموں و کشمیر میں ہرسال تیرہ جولائی کو یوم شہدائے کشمیر منایا جاتا ہے۔
یہ وہ دن تھا جب 1931ء میں سرینگر کی سینٹرل جیل میں ملاکنڈ کے ایک پختون عبدالقدیر کے خلاف ایک قابل اعتراض تقریر کرنے کے الزام میں مقدمہ چل رہا تھا۔ سرینگر کے مسلمانوں نے اپنے اس پختون بھائی کے حق میں جلوس نکالا اور جیل کی دیوار پرچڑھ کر اذانیںدیں تو اُن پر فائرنگ کردی گئی۔ درجنوں مسلمان شہید ہوگئے۔ اس واقعے کے خلاف 14؍اگست 1931ء کو باغ بیرون گیٹ لاہور میں ایک جلسہ منعقد ہوا۔ جس کی صدارت علامہ اقبال ؒ نے کی اور یہاں پہلی دفعہ کشمیر کی آزادی کے نعرے لگائے گئے۔ پاکستان 14؍اگست 1947ء کو قائم ہوا لیکن کشمیر کی تحریک آزادی کا اعلان علامہ اقبال ؒ دونوں کشمیر سے بہت محبت کرتے تھے۔
قائداعظم ؒ نے کئی مرتبہ موسم گرما کی چھٹیاں کشمیرمیں گزاریں ان کے پرائیویٹس سیکرٹری کے ایچ خورشید کا تعلق بھی سرینگر سے تھا۔ اقبال ؒ اور قائداعظم ؒ کی کشمیر و فلسطین کے ساتھ وابستگی کو عوام سے چھپایا گیا۔ اقبال ؒ کا تعلق ایک سنی العقیدہ گھرانے سے تھا۔ قائداعظم شیعہ گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن دونوں فرقہ وارانہ سوچ سے آزاد سادہ سے مسلمان تھے۔ دونوں پر انتہا پسندوں نے کفر کے فتوے لگائے۔ دونوں نے مغربی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی۔ دونوں انگریزی لباس پہنتے تھے۔ دونوں وکیل تھے۔ دونوں کا تعلق مڈل کلاس سے تھا لیکن دونوں مسلمانوں کو غیروں کی معاشی و سیاسی غلامی سے آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ افسوس کہ ہم نے اقبال ؒ اور قائداعظم کو مڈل کلاس کیلئے رول ماڈل بناکر پیش نہیں کیا۔
دونوں کوفرقہ واریت کے خلاف مثال نہیں بنایا۔ عشق رسول ؐ اور ناموس رسالت ؐ کے نام پر سیاست کرنے والوں نے ہمیں ایک دوسرے سے لڑایا حالانکہ اقبال ؒ اور قائداعظم ؒ نے ایک گستاخ رسول ؐ کے قاتل غازی علم دین کی کھل کر حمایت کی تھی۔ ہم نے عشق رسول ؐ اقبال ؒ اور قائداعظم ؒ سے سیکھا اور ان دونوں نے عشق رسول ؐ اُن صوفیاء سے سیکھا جنہوں نے برصغیر میں اسلام پھیلایا۔ برصغیر میں اسلام داتا گنج بخش ؒ، عبداللہ شاہ غازی، لعل شہباز قلندر، سچل سرمست، بابا فرید گنج شکرؒ، شاہ عبداللطیف بھٹائی، غلام فرید ؒ، رحمان بابا ؒ، مست توکلی مری ؒ اور دیگر سینکڑوں صوفیاء نے پھیلایا۔ لاہور میں بی بی پاک دامن کی درگاہ حضرت رقیہ بنت علیؒ سے منسوب ہے اور یہ محمود غزنوی سے بہت پہلے کی ہے۔ ہم نے غزنوں اور غوری میزائل بناکر اپنی تاریخ میں دشمنی کارنگ بھردیا حالانکہ اقبال ؒ نے کہا تھا۔
چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
کم لوگوں کومعلوم ہے کہ اقبال ؒ اور قائداعظم ؒ دونوں کوحضرت داتا گنج بخش ؒ سے بڑی عقیدت تھی۔ اقبال تو باقاعدگی سے داتا گنج بخش کے مزار پر حاضر دیتے تھے جبکہ قائداعظم بھی کئی مرتبہ اپنی بہن فاطمہ جناح ؒ کے ہمراہ ان کے مزار پر گئے۔ اقبال ؒ کی حضرت مجددالف ثانیؒ (شیخ احمد سرہندی) سے محبت ڈھکی چھپی نہیں لیکن قائداعظم ؒ کے خاندان کو بھی اس بزرگ سے بڑی عقیدت تھی۔ قائداعظمؒ کے آبائو اجداد نے حضرت مجدد الف ثانی ؒ سے بیعت کر رکھی تھی اور یہ وہ بزرگ تھے جنہوں نے مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کے ’’دین الٰہی‘‘ کو مسترد کیا۔
یہی وجہ تھی کہ جب 14؍اگست 1947ء کو متحدہ ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں اکبر کی رواداری کا ذکر کیا تو قائداعظم ؒ نے اُسے جواب میں کہاکہ ہم نے رواداری کا سبق اکبر نہیں بلکہ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا۔ افسوس کہ ہماری یونیورسٹیوں میں قائداعظم ؒ کی یہ تقریر نہیں پڑھائی جاتی۔ مائونٹ بیٹن نے ہمارا تعلق اکبر سے جوڑنے کی کوشش کی لیکن ہمیںاپنا تعلق داتا گنج بخش ؒ اور مجد د الف ثانی ؒ سے جوڑنا ہے۔ ہمیںاپنی اصل تاریخ کی طرف لوٹنا ہے۔ جسے برطانوی راج میں بگاڑ دیا گیا۔ ہمیں صرف آئی ایم ایف سے نہیں بلکہ نو آبادیاتی تاریخ سے بھی آزادی حاصل کرنی ہے۔