ظفراللہ خان
کیمیا دان بتاتے ہیں کہ ہیرے اورکوئلہ کا اساسی جز کاربن ہے۔ خام رہ جاگا تو کوئلہ… کندن ہو جائے تو ہیرا… پاکستان کے قیام کی تاریخ بتاتی ہے کہ نوآبادیاتی نظام سے نجات کی تحریک کے کامیاب ترین لمحات خالصتاً سیاسی اور پارلیمانی تھے۔ 1946ء کے انتخابات کے نتائج نے حتمی منزل کا تعین کیا۔ تاریخ کا دھارا پارلیمانی اداروں میں بدلا۔ پنجاب اور بنگال کے بٹوارے کا فیصلہ وہاں کی اسمبلیوں میں ہوا۔ پنجاب، بنگال اور سندھ کی اسمبلیوں نے پاکستان میں شمولیت کیلئے ووٹ دیا۔ برٹش بلوچستان میں ایسا فیصلہ شاہی جرگہ نے کیا۔ سلہٹ اور اُس وقت کے صوبہ سرحد (آج کے خیبر پختونخوا) میں ریفرنڈم ہوا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ رقبہ اور وسائل بلوچستان کی ریاستیں… قلات، لسبیلہ، مکران اور خاران ، پنجاب میں ریاست بہاولپور، سندھ میں میر پور اور خیرپور، سرحد میں سوات، دیر، چترال، امبھ وغیرہ پاکستان سے الحاق کے معاہدوں کی صورت میں لائیں۔ 14؍اگست 1947ء کو انتقال اقتدار کے مراحل بھی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس جو کہ سندھ اسمبلی کی عمارت میں منعقد ہوا، میں طے ہوئے، کہا جا سکتاہے کہ پاکستان ایک سیاسی اور پارلیمانی پراڈکٹ ہے اور ہاں پاکستان کے استحکام اور اچھے مستقبل کا سافٹ ویئر ہے۔
بانیان ِ پاکستان، قائداعظم سے لیکر علامہ اقبال تک اور دیگر درجنوں قائدین نو آبادیاتی نظام کے تحت قائم ہونے والے پارلیمانی اداروں کا حصہ تھے۔ یہ تمام تر باتیں اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ پاکستان کا خمیر جمہوری سیاست کی مٹی سے گندھا ہے اور اس کے بہترین مستقبل کی تشکیل اور تعمیر پارلیمانی اداروں کے ذریعہ ہونی تھی۔ عجب اتفاق ہے کہ 1972ء میں جب پاکستان کی سلور جوبلی منانے کا وقت آیا تو ہم ایک المیہ سے گزر کر… کرچیاں چُن چُن کر نیا پاکستان بنانے کی تگ و دو میں تھے۔ 1997ء میں پاکستان کی گولڈن جوبلی کا جشن آیا تو ہمارا سیاسی نظام ٹوٹتی بنتی اسمبلیوں کے بھنور میں تھا اور کنٹرولڈ جمہوریت کی چھتری تلے نئی راہوں کا متلاشی تھا۔ 2022ء میں ڈائمنڈ جوبلی مناتے ہوئے بھی سیاسی ہلچل عروج پر ہے۔ کیا ہم ابن خلدون کے سائیکل آف ہسٹری کے مصداق پر 25سال بعد مختلف النوع چیلنجز کا سامنا اور مقابلہ کرتے ہیں۔
بلاشبہ ہر نسل کی اپنی اپنی جہد مسلسل ہے تاہم کیا یہ دائروں کا سفر کبھی تھم سکے گا؟۔ پاکستان کے سیاسی نظام کو استحکام، معیشت کو ٹھوس بنیادیں اور سماج کو تحفظ، اچھی تعلیم، صحت ماحول اور خوشیاں نصیب ہو پائیں گی۔ ماضی کا مرثیہ اچھی بات لیکن مستقبل کی بڑی تصویر کا تصور اور اس میں اپنی ذہانتوں، ہنر اور محنتوں کے رنگ بھر کر ہم یقینا آگے بڑھ سکتے ہیں۔
پاکستان کے 75سالوں کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو کوتاہیوں اور کج رویوں کے گھنے جنگل نظر آتے ہیں۔ 1947ء سے لیکر 23مارچ 1956ء تک ہم دستور کی جستجو میں رہے یہ تمام تر عرصہ فکری، نظریاتی اور سیاسی سمجھوتوں کا عہد تھا۔ اس عرصہ میں پاکستان میں ون یونٹ کے ذریعہ صوبوں کی شناخت ختم ہوئی۔ مصنوعی سیاسی مساوات کے فارمولوں کے ذریعہ ’’ایک فرد ایک ووٹ‘‘ اور مساویانہ سیاسی نمائندگی سے انحراف کی راہیں تلاش کی گئیں۔ اس دورکے سیاستدانوں نے افسر شاہی کی نہ صرف معاون بیساکھیاں آزمائیں بلکہ ’’ذہانت کی کابینہ‘‘ نے ایسے تصورات کے ذریعہ اُنہیں سیاسی ایوانوں کا حصہ بنا ڈالا۔ اکتوبر1958ء میں ملک پہلی پہلی بار جمہوری پٹڑی سے اُترا مگر اُس سے پہلے کے حقائق اچھے خاصے تلخ ہیں۔ اس عرصے میں ملک میں سات وزیراعظم آئے اور گئے مگر ایک کے بھی انتخاب اورگھر بھیجے جانے کے عمل میں اسمبلیوں کا صفرکردار تھا۔
اس عرصہ میں ہم نے وفاقی اور صوبائی سطح پر اسمبلیوں کی ٹوٹ پھوٹ اور ری پبلکن پارٹی کنگ پارٹی بنتے دیکھی۔ گویا یہ فقط محلاتی سازشوں کا دور تھا۔ جس دستور کو بنانے میں نو سال لگے وہ نو سو دن بھی نہ چلا۔ ہم جمہوریت کو مغربی تصور گردان کر جب اپنی مقامی سیاسی، کھیتی باڑی میں الجھے تو فردِ واحد کا آئین آیا کروڑوں کی آبادی میں سے فقط 80ہزار بنیادی جمہوریت کے نمائندوں کو صدر اور مجبور ترین اسمبلیاں چننے کا حق دیا گیا۔ یہ نظام ڈگمگایا تو اس کا سبھی کچھ اس کے تخلیق کار ہی ساتھ لے گئے لیکن سماج کو بدتر سماج اور سیاسی تقسیم کی دلدل میں چھوڑ گئے۔ 1970ء میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات ہوئے تو اہل سیاست اور نگہبان ریاست نتائج نہ ہضم کر سکے۔ تاریخ کے اس آزمائشی لمحے احساس ہوا کہ پاکستانی سیاست کتنی کمزور ہو چکی ہے اور یہ مکالمے، ڈائیلاگ اور سمجھوتے کا فن بھول چکی ہے۔ 70کی دہائی میں اچھی بری جمہوریت رہی ملک کو متفقہ دستور ملا ۔ ادارے بنے، ترقی کا سفر شروع ہوا لیکن سیاسی سافٹ ویئر پر 1977ء میں دھاندلی کے وائرس نے سبھی کچھ برباد کردیا اس کے بعد منتخب وزیراعظم کو پھانسی کا پھندا چومنا پڑا۔ سیاسی جماعتوں کا وجود غیر اسلامی قرار پایا۔ سماج میں کلاشنکوف، ہیروئن اور دہشت کا کلچر آیا۔ 1977ء کے نو ستاروں نے جمہوریت کو ڈی ریل کیا تو 1980ء کی دہائی میں اُن میں سے اکثر تحریک بحالی ٔ جمہوریت میں سرگرم نظر آئے۔
75سالوں بعد بھی سیاست خام ہے، اس دوران ہم نے صرف اور صرف اپوزیشن کرنے کا فن سیکھا ہے
ان سانحات کے بعد جمہوری جدوجہد کا طویل سفر ملتا ہے۔ جب 1980ء میں جمہوریت بحال ہوئی تو سماج سیاسی طور پر منقسم تھا۔ متعدد جعلی پلیٹ فارم بن چکے تھے جن کی کہانی اب کسی سے پوشیدہ نہیں ’’مہران گیٹ‘‘ ، ’’مڈ نائٹ جیکال‘‘ کے عدم اعتماد کے لمحوں میں بیرونی امداد وغیرہ، غرض متعدد کہانیاں ہیں، تاہم 90ء کا عشرہ اچھی، بری نمائشی جمہوریت ہی رہی۔ یہ تو 2006ء میں منکشف ہوا کہ کس طرح اہل سیاست کو مقتدر قوتوں نے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا۔2006ء میں چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد امکان پیدا ہوا کہ ہم شاید میچور جمہوریت کے ٹریک پر آجائیں گے لیکن پھر ’’تیسری سیاسی قوت‘‘ کی تخلیق کا پراجیکٹ آن دھمکا۔21ویں صدی کے 22ویں سال میں پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی مناتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ہمارے اہل سیاست کو ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے تاکہ ملک کو پائیدار سیاسی نظام نصیب ہو سکے۔ ہمارے اہل سیاست نے گزشتہ 75سالوں میں صرف اور صرف اپوزیشن کا فن سیکھا ہے۔
انتخابات جیت کر اچھی حکمرانی ہنوز ان کے بس کی بات نہیں۔ اہل سیاست کو احساس کرنا ہوگا کہ پاکستان ایک کثیر فکری سیاسی مملکت ہے اور حکمران جماعت ملک کی واحد وارثت نہیں ہوتی جو ریاست حکومت اور پارٹی پاور کو گڈمڈ کرکے ہر چیز کی مالک بن بیٹھے۔ دوسرا یہ کہ سیاسی سمجھوتے کا فن انتہائی اہم ہے کوئی بھی سیاسی جماعت اکیلے متنوع پاکستان وفاق میں ہر جگہ حکمران نہیں ہو سکتی لہٰذا آئین پاکستان کے تحت چلنے کا ہنر انتہائی اہم ہے۔ آئین میں مشترکہ مفادات کونسل، قومی مالیاتی ایوارڈ اور نیشنل اکنامک کونسل جیسے دستوری فورم موجود ہیں جن کے مؤثر استعمال اور فعالیت سے فنگشنل جمہوری کلچر کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔
پاکستان کی منقسم اور تلخیوں بھری سیاست کو دفن کرنے کیلئے چارٹر آف ڈیموکریسی میں سچائی اور مفاہمت کمیشن کے قیام کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا ہماری سیاست اور سیاستدان ماضی کے اسیر رہیں گے اور سچ صرف موقعہ پرستی کی حد تک بولا جائے گا۔ یہ کمیشن اس لئے بھی ضروری ہے کہ سیاستدانوں کو احساس ہو کہ انتخابات اور اقتدار ایک صحت مند سیاسی اور جمہوری مقابلہ ہے۔ جس کے لئے ایک دوسرے کی جان کا دشمن ہونا قطعاً ضروری نہیں۔ وجوہات بھلے جو بھی ہوں سیاست دان سیاسی جماعتیں، جنہیں جمہوریت کے بچے کہا جاتا ہے کو مضبوط اور مستحکم ادارہ نہیں بنا سکے۔
سیاسی جماعتیں افراد اور وہ بھی لیڈر کے گھرانے کے اردگرد ہی محدود رہتی ہیں۔ پاکستان میں اپوزیشن کی سیاست کرنے کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ مقدمات، جیلیں اور معاشی مشکلات شاید یہی وجہ ہے کہ ہر سیاست دان کے مفت مقدمات لڑنے والے وکیل اکثر سینیٹر بن جاتے ہیں۔ ہمیں مستحکم جمہوریت کیلئے سیاسی جماعتوں کو سانس لینے کی گنجائش دینا ہوگی اور اپوزیشن کا غیر ضروری تعاقب کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے کلچر کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ گزشتہ 75سالوں میں پارلیمنٹ سے طاقت پاکر اقتدار میں پہنچنے والے اکثر رہنمائوں نے پارلیمنٹ کی مضبوطی اور اسے سیاست کا مرکز نقل یا سینٹر اسٹیج بنانے کی کوئی سعی نہیں کی۔ جس دن اہل سیاست نے پارلیمنٹ کو مضبوط ادارہ بنا دیا اس دن کے بعد عوام کا منتخب وزیراعظم اقتدار کی تکون میں اجنبی نہیں رہے گا۔ آج تک کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وزیراعظم اقتدار کی تکون میں سب سے کمزور رکن ہے۔ اگر صورتحال یہی رہی تو سیاسی نظام افسرشاہی اور بین الاقوامی مالیاتی قرضوں کے سامنے ہمیشہ سرنگوں رہے گا۔
پاکستانی سیاستدانوں نے ملک کے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر سال کے 365دنوں میں 24گھنٹے احتجاجی اور مزاحمتی سیاست ہوتی رہتی ہے حالانکہ دنیا کے تمام جمہوری ممالک میں یہی کام صرف الیکشن کے موسم میں ہوتا ہے اور باقی تمام تر عرصہ گورننس پر توجہ دی جاتی ہے۔ کیا ہمارے سیاستدان اس بات پر اتفاق رائے نہیں کر سکتے کہ مہم جوئی کی سیاست صرف الیکشن کے دنوں میں ہوگی جبکہ گورننس کے عرصہ میں پارلیمانی اپوزیشن اپنا بھر پور کردار ادا کرے گی اور نظام کی تمام تر کوتاہیوں اورکمزوریوں میں اصلاحات پارلیمنٹ کے ذریعہ ہوں گی۔
ہمارے ہاں چارٹر آف جمہوریت کی طرز پر کبھی چارٹر آف اکانومی اور کبھی کسی اور چارٹر کی بات آئے روز ہوتی رہتی ہے کیا ہم ایک ہی چارٹر جوکہ ملک کے بہتر جمہوری اور عوام پر توجہ دینے والے مستقبل کے حوالے سے ہو پر اتفاق رائے قائم نہیں کر سکتے جس کے تمام تر نکات پاکستان میں پائیدار جمہوریت اور عوام دوست معیشت کیلئے ہوں۔ آج پاکستان کے مجموعی ڈیولپمنٹ ماڈل کی تشکیل میں اہل سیاست اور ملک کے جمہوری اداروں کا انتہائی محدود کردار ہے۔ اہل سیاست چند ترقیاتی اسکیمیں لیکر چپ ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً ملک میں ترقی خراب محسوس ہوتی ہے۔
75سالوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ہماری قومی زندگی کے29فیصد حصہ میں عوام کے منتخب ادارے موجود ہی نہ تھے۔ اکتوبر 1958ء سے لیکر جون 1962ء تک نہ کوئی وزیرازعظم تھا نہ پارلیمنٹ، مارچ 1969ء سے اپریل 1972ء تک تھی۔ یہی صورتحال رہی۔ جولائی 1977ء سے لیکر مارچ 1985ء تک بھی کہانی ایسی ہی تھی۔ اکتوبر 1999ء سے لیکر نومبر 2002ء تک بھی نہ اسمبلیاں تھیں نہ وزیراعظم باقی سالوں میں بھی پاکستانی سیاست ہائبرڈ نظام کا شکار رہی۔ ایسے میں اہل سیاست کا زیادہ تر وقت جدوجہد میں رہا۔
اگر ملک کو بدن کے استعارے سے سمجھنے کی کوشش کریں تو آئین اس کی روح ہے۔ جسے ہم نے کئی بار تبدیل اور بار بار پامال کیا پھر بھٹکی روح ہونے کا شکوہ کیا۔ جمہوریت اس کا لہو ہے تو کنٹرولڈ اور دھاندلی شدہ انتخابات میںلہو کہاں سے لائیں گے۔ ستم تو یہ ہے کہ بار بار کی سیاسی انجینئرنگ سے ہمارا سیاسی ڈی این اے ہی بدل ڈالا ہے۔ پارلیمنٹ کو دماغ کھا گیا تو ہم طویل عرصہ دماغ کے بغیر رہے اب اگر نظام فالج زدہ ہے تو شکوہ کیا؟
(مضمون نگار پاکستان انسٹیٹیوٹ برائے پارلیمانی خدمات کے سربراہ اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے ممبر اسلام آباد رہے۔ آج کل وہ تھنک ٹینک ویژن 2047 کے سربراہ ہیں)