راحیلہ صدیقی
دنیا میں کچھ لوگ اپنے نام اورکچھ اپنے کام سے پہچانے جاتے ہیں۔ کچھ اپنے لیے اور کچھ دوسروں کے لیے جیتے ہیں۔ پاکستان اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہے کہ اسے ایسے تین حقیقی بڑے لوگ ملے جو اپنے لیے نہیں بلکہ عوام کی خدمت کے لیے جیئے اور تینوں نے عوام کی خدمت کے لیے بڑے ادارے قایم کیے۔ عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر رُتھ فائو اور ڈاکٹر ادیب رضوی انسانیت کی خدمت کے شعبے کے درخشندہ ستارے ہیں۔ پاکستان کے پچھتر برس کی کہانی ان کے تذکرے کے بغیر کیسے مکمل ہوسکتی ہے۔
عبدالستار ایدھی
عبدالستار ایدھی پاکستان کے عوام کی بے لوث خدمت کا دوسرا نام ہے۔ خدمت کی اس ان مول داستان کا آغاز دوسری عالمی جنگ میں استعمال ہونے والی ایک کھٹارا ایمبولینس سے ہوا تھا۔
بابائے خدمت، معروف سماجی رہنما، عبدالستار ایدھی 28 فروری 1928 کو بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نےگیارہ برس کی عمر میں اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو ذیابطیس میں مبتلا تھیں۔ عبدالستار ایدھی نے صرف پانچ ہزار روپے سے اپنے پہلے فلاحی مرکز، ایدھی فانڈیشن کی بنیاد رکھی۔ لاوارث بچوں کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور بے سہارا خواتین اور بزرگوں کے لیے مراکز قایم کیے۔
قیام پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے بھارت سے پاکستان آ کر کراچی کے علاقے کھارادر میں سکونت اختیار کی ۔1951میں انہوں نے ایک چھوٹے سے کلینک کے ذریعے خدمت خلق کا آغاز کیا۔1957 میں پہلی بار بڑے پیمانے پر لوگوں کی مدد کی جب شہر میں فلو کی وبا پھیلی اور متعدد لوگ متاثر ہوئے۔ عبدالستار ایدھی نے متاثرین کے لیے رقوم جمع کیں اور نہ صرف ان کے علاج معالجے کا انتظام کیا بلکہ شہر کے مضافات میں خیمے بھی لگائے۔بعد ازاں انہیں ان کے کام کی وجہ سے عطیات ملنے لگے تو جس عمارت میں انہوں نے ڈسپنسری کھولی تھی اسے خرید لیا اور وہاں میٹرنٹی ہوم اور نرسوں کی تربیت کا ادارہ قایم کیا جس سے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز ہوا۔
آگے چل کر انہوں نے ایمبولینس سروس کا آغاز کیا ۔ ایک ایمبولینس سے شروع ہونے والی ایمبولینس سروس آج دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروسز میں سے ایک ہے۔گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ 1987 کے مطابق اس وقت ان کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس تھی۔
2006 میں انہوں نے ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کے قیام کااعلان کیا، جس کے تحت دنیا کے کسی بھی ملک کو ایمبولینس عطیہ کی جاتی ہیں اور انہیں ہدایت کی جاتی ہے کہ پانچ سال تک انہیں استعمال کرنے کے بعد فروخت کر دیں اور حاصل ہونے والے رقم کو سماجی خدمات کے لیے استعمال کریں۔ ان کی سماجی خدمات کے صلے میں انہیں متعدد قومی اور بین الاقوامی اعزازت سے نوازا گیا۔
عبدالستار ایدھی کا آٹھ جولائی 2016 کو 88 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔انہیں نہ صرف سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا بلکہ ان کے انتقال پر ایک روزہ قومی سوگ کا اعلان بھی کیا گیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے عبدالستار ایدھی کی خدمات کے اعتراف کے طور پر مارچ 2017 میں پچاس روپے کا یادگاری سکہ جاری کیا تھا۔
بلقیس ایدھی کے مطابق پاکستان آنے کے بعد ابتدا میں ایدھی صاحب شادیوں میں برتن دھونے جاتے، دودھ اور اخبار فروخت کرتے اور اس سے جو بھی آمدن ہوتی وہ چھوٹی موٹی فلاحی سرگرمیوں پر لگا دیتے۔ فلاحی کاموں سے ان کی وابستگی کو دیکھتے ہوئے جلد ہی انہیں تھوڑا بہت چندہ ملنا شروع ہو گیا تھا۔کراچی آ کر ایدھی صاحب نے جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے کراچی کے علاقے میٹھادر میں ایک چھوٹے سے کمرے میں ڈسپنسری قائم کی جہاں آس پاس کے علاقوں باالخصوص لیاری میں رہایش پذیر غریب افراد کو طبی سہولیتیں فراہم کی جاتی تھیں۔1954یا 1956میں پہلی ایمبولینس خریدی (بعض تاریخی حوالوں کے مطابق یہ 1956تھا)۔ وہ دراصل ایک پرانی 'ہل مین وین‘ (Hill man van) تھی جو دوسری عالمی جنگ استعمال ہوئی تھی۔بلقیس ایدھی کے مطابق یہ دو ہزار روپے میں خریدی گئی تھی اور بعدازاں اس کا انجن ناکارہ ہونے پر اس میں نیا انجن ڈلوایا گیا تھا۔
جب فلو کی وبا آئی تو بہت لوگ مرنے لگے۔ ایدھی صاحب نے چارپائیوں والا کیمپ لگایا، وہ مریضوں کو گھروں سے لاتے اور سول اسپتال میں جو ڈاکٹر اور عملہ زیر تربیت تھا اُن کے پاس جا کر انہیں ساتھ اپنے کیمپ لے آتے اور مریضوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرواتے ۔ اس کے بعد ان کا خدمتِ خلق کا جنون روز بہ روز بڑھتا ہی گیا اورایک روز ان کا کام پورے ملک میں پھیل گیا۔
وہ بلا شبہ تمام پاکستانیوں کے لیے ایک غیر متنازع ہستی تھے۔ ہر دل میں ان کی عزت و احترام پایاجاتا ہے۔ یہ ایدھی صاحب ہی تھے کہ جب ہمارے بے حس معاشرے میں بسنے والے بعض سنگ دل لاوارث بچوں کو سڑک کے کنارے پھینک رہے تھے توانسانی ہم دردی کے جذبے سے سرشار عبدالستار ایدھی ان لاوارثوں کے وارث بن کرانہیں سائبان فراہم کر رہےتھے، جب ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کے بل پر لاتعداد افراد سے جینے کا حق چھینا جا رہا تھااس وقت ایدھی صاحب کی نجی ایمبولینس سروس لوگوں کی اکھڑتی سانسیں بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔
لوگوں نے یہ بھی دیکھا کہ جب کبھی یتیم بچوں کے لیے یہ دنیا تنگ ہوجاتی اور ان کا جینا دوبھر ہوجاتا توکہیں نہ کہیں سے ایدھی صاحب کا دست شفقت ان کے سروں پر پہنچ جاتا اور نتیجتاً ان میں جینے کی امنگ پیدا ہو جاتی۔اسی طرح جب ماں جیسی محبت کرنے والی ہستی کے لیے ممکن نہ رہتا کہ وہ اپنے بچوں کےلیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر سکے تو ایدھی صاحب کا لنگر ان یتیموں، غریبوں ، بیواؤں کو کھانا کھلاتا۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں کسی خاتون پر اس کا شوہر ظلم کرتا اور اسے گھر سے نکال دیتا یا ضعیف والدین کو ان کی اولاد اپنے گھر سے نکال باہر کرتی اور ان پر دروازے بند کردیتی تو اس وقت ایدھی کے شیلٹر ہومز کے دروازے ان پر کسی معاوضے کے بغیر وا ہو جاتے۔
1957 میں ایک پک اپ سے شروع ہونے والی امدادی سروس اب دنیا کی بڑی ایمبولینس سروس بن چکی ہے۔ اس وقت ملک بھر میں ان کے امدادی مراکز کی تعداد 335 ہے۔ سیلاب اور سمندری حادثات کے موقعے پر امداد فراہم کرنے کے لیےاٹھائیس کشتیاں اور عملہ اس کے علاوہ ہے۔ اس کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن ایئر ایمبولینس کی خدمات بھی فراہم کرتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ملک کے بڑے شہروں میں کل سترہ ایدھی ہومز ہیں، جن کے علاوہ ایدھی شیلٹرز، ایدھی ولیج، ایدھی چائلڈ ہوم، بلقیس ایدھی میٹرنٹی ہوم، ایدھی اینیمل ہاسٹل، ایدھی فری لیباریٹری، ایدھی فری لنگر بھی کام کر رہے ہیں۔
اتنے بڑا امدادی نظام کا تانا بانا چلانے والے عبدالستار ایدھی کی زندگی سادگی کا نمونہ تھی۔ ان کے پاس ملیشیا کے سستے ترین کپڑے کے صرف دو جوڑے تھے۔ ایک میلا ہو جاتا تو وہ دوسرا پہن لیتے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے اصول بنایا کہ زندگی بھر سادگی رکھوں گا اور کپڑے ایک قسم کے پہنوں گا۔ وہ اپنی اہلیہ بلقیس ایدھی کے ساتھ ایدھی فاؤنڈیشن کے دفتر سے متصل دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے تھے جس میں کسی قسم کی پرتعیش اشیا کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ وہ 2013سے گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔ انہیں آصف علی زرداری نے بیرونِ ملک علاج کرنے کی پیش کی تو یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ کہیں نہیں جاوں گا اور ملک میں رہ کر سرکاری اسپتالوں سے علاج کراوں گا۔یہ تھا ایک حقیقی بڑے آدمی کا’’ بڑا پن‘‘۔ایس آئی یو ٹی میں ڈاکٹر ادیب رضوی آخری وقت تک ان کا علاج کرتے رہے۔
ڈاکٹر رُتھ فاؤ
اب سے ساٹھ، ستّر برس قبل پاکستان میں جذام یا کوڑھ کےمرض کو اللہ تعالی کا عذاب اور لاعلاج تصوّر کیا جاتا تھا۔ ملک میں جذام کے مریضوں کی حالت بہت خراب تھی کیوں کہ انہیں ان کے پیارے بھی تنہا چھوڑ دیتے تھے۔ لوگوں کو ایسے مریضوں کے پاس جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا کہ کہیں یہ مرض انہیں بھی نہ لگ جائے۔ علاج کی سہولتیں بھی نہیں تھیں۔ ان حالات میں جذام کے مریض زندہ لاش بن جاتے تھے۔
لوگ سگے رشتے بھلا دیتے تھے۔ والدین اس مرض میں مبتلا اپنی سگی اولادکو اور بچے، ماں باپ کو پیٹھ پر بٹھا کر شہر سے باہر ویرانے میں چھوڑ آتے تھے۔جذام کے مریضوں کی الگ بستیاں آباد تھیں جہاں کوڑھ میں مبتلا ہزاروں مریض غیر انسانی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ غلاظت اور گندگی کے بیچوں بیچ جھونپڑیوں میں آباد یہ لوگ بجلی، پانی اور علاج کی بنیادی سہولتوں سے محروم تھے۔ اُن کے جسم سے بہتا خون اور زخموں سے رِستی پیپ چوہوں کی غذا بنتی تھی۔
اس مرض کی وجہ سے مریضوں کے ہاتھ ،پیر اور چہرہ خراب ہو جاتاہے۔ہاتھ ،پیروں کی انگلیاں گل کر جھڑنے لگتی ہیں۔ اس وقت میکلوڈ روڈپر ان کی ایک بستی قایم تھی۔ ایک روز جرمنی سے تعلق رکھنے والی تیس سالہ نوجوان ڈاکٹر پاکستان آئیں اور جذام کے مریضوں کی حالتِ زار دیکھ کراس قدر متاثر ہوئیں کہ انہوں نے باقی زندگی ان دھتکارے اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کا علاج کرنےکے لیے وقف کردی۔اُس نوجوان ڈاکٹر کا نام روتھ فاؤ تھا۔
ڈاکٹر رُتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ جرمنی میں 1929میں پیدا ہوئی تھیں اور دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں کے درمیان آنکھ کھولی تھی۔ اُن کے خاندان کو دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی تسلط والے مشرقی جرمنی سے فرار پر مجبور ہونا پڑا۔ مغربی جرمنی آکر رُتھ فائو نےطب کی تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا اور 1949میں’’مینز‘‘ سے ڈگری حاصل کی۔ زندگی میں کچھ کرنے کی خواہش ڈاکٹر رُتھ فائو کو ایک کیتھولک مشنری تنظیم ’’ڈاٹرز آف دی ہولی ہارٹ آف میری‘‘تک لےگئی اور انہوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات قرار دے لیا۔ 1958ء میں اُنہوں نے پاکستان میں جذام کے مریضوں کے بارے میں ایک دستاویزی فلم دیکھی تو تڑپ اٹھیں۔
یادرہے کہ جذام یا کوڑھ اچھوت مرض ہے جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے۔ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور اس کے ساتھ انسان کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے۔ مریض کے جسم سے شدید بو بھی آتی ہے۔اس کے مریض اپنے اعضاءبچانے کے لیے ہاتھوں، پیروں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں۔ یہ مرض پہلے لا علاج سمجھا جاتا تھا چناں چہ جس انسان کویہ لاحق ہو جاتااسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا تھا اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔ پاکستان میں 1960ء تک جذام کے ہزاروں مریض موجود تھےاور یہ مرض تیزی سے پھیل رہا تھا۔ملک کےمخیرحضرات نے کوڑھیوں کےلیے شہروں سے باہر رہایش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں،جنہیں ’’کوڑھی احاطے‘‘کہا جاتا تھا۔
لوگ آنکھ، منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتےتھے۔لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے۔ملک کے تقریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطے موجودتھے۔اس کے شکار مریض کے پاس محض دوراستے ہوتے تھے۔ پہلا یہ کہ سسک سسک کر جان دے دے ۔دوسرا یہ کہ خود کشی کر لے۔ 1960 کے دوران مشنری تنظیم نے ڈاکٹر رُتھ فائو کو پاکستان بھیجا۔ یہاں آکر انہوں نے جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھی تو واپس نہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ کے ساتھ واقع کوڑھیوں کی بستی میں چھوٹےسےمفت کلینک کا آغاز کیا جو ایک جھونپڑی میں قائم کی گئی تھی۔
میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر کے نام سے قائم ہونے والا یہ شفاخانہ جذام کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ان کے لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا۔ اسی دوران ڈاکٹر آئی کے گل اس کام میں شامل ہوگئے۔ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر 1963 میں صدر کے علاقے میں ایک جگہ خرید کر باقاعدہ کلینک کا آغاز کیا گیا جہاں کراچی ہی نہیں، پورے پاکستان بلکہ افغانستان سے آنے والے جذام کے مریضوں کا علاج کیا جانے لگا۔ کام میں اضافے کے بعد کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے کلینک قائم کیے گئے اور ان کے لیے عملے کو تربیت بھی ڈاکٹر رُتھ فائو ہی نے دی۔
صدر کے علاقے میں پچاس بستروں پر مشتمل اسپتال،یعنی ’’میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر‘‘آج بھی قایم ہے جہاں دوائیں، ٹیسٹ اور دیگر تمام سہولتیں پہلے دن کی طرح آج بھی بالکل مفت ہیں۔ یہ ادارہ ’’جرمن لیپروسی ریلیف ایسوسی ایشن‘‘ کی معاونت اور صحت کے صوبائی محکموں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔اِس وقت ملک بھر اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس کے تحت157 مراکز کام کر رہے ہیں۔ اِس کے علاوہ یہ ادارہ جذام کے مرض سے متعلق ڈاکٹروں اور طبی عملے کو تربیت بھی فراہم کر رہا ہے۔
ڈاکٹررُتھ فاؤکی خدمات سے واقف افراد جانتے ہیں کہ اگر وہ نہ ہوتیں توآج بھی پاکستان میں جذام کے مریض سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہوتے اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ یہ ڈاکٹر فاؤ تھیں جو گھروں سے جذام کے مریضوں کو لے کر آتیں اور اُن کا علاج کرتی تھیں۔ وہ اُن کی مالی ضروریات، مثلا گھر کا کرایہ، آنے جانے کا خرچ اور دیگر اخراجات بھی پورے کرتی تھیں۔ان کی انتھک محنت کی وجہ سے پاکستانیوں میں جذام کے مرض کے بارے میں غلط فہمیاں دور ہوئیں اور آگاہی میں اضافہ ہوا۔
اُن کا مشن تھا کہ پاکستان کے کونے کونے میں جذام کے مریضوں کے لیے مراکز قایم کیےجائیں تاکہ مریضوں کو علاج کی سہولتیں باآسانی اُن کے گھر کے قریب مل سکیں۔ 1968میں اُنہوں نے حکومتِ پاکستان کو نیشنل لیپروسی کنٹرول پروگرام شروع کرنے کی طرف راغب کیا جس کے تحت ملک بھر میں جذام کے علاج کے لیے مراکز قایم کیے گئے۔ ڈاکٹر فاؤ خود ملک کے چپّےچپّے میں گئیں اور جذام کے مریضوں کا علاج کیا۔ تھرپارکرکے ریگستان ہوں یا خیبرپختون خوا کے دشوار گزار پہاڑ، ملک کا کوئی علاقہ ایسا نہ تھا جہاں وہ نہ پہنچی ہوں۔
پاکستان میں1996میں جذام پر قابو پا لیا گیا تھا۔ پاکستان اس خِطّے کا پہلا ملک تھا جس نے اِس مرض کو شکست دی۔ ماہرین کے مطابق آج بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جذام کا مرض پاکستان سے مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ اِس سطح پر پہنچنے میں ابھی چند دہائیاں اور لگ سکتی ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر ڈاکٹر روتھ فاؤ انتھک محنت نہ کرتیں تو ہم اس مقام تک بھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔ یہ سہرا ان ہی کےسر ہے۔ انہوں نے زندگی کی پانچ دہائیاں پاکستان میں جذام کے خاتمے کی جنگ لڑتے ہوئے گزار دیں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ اُن کی پیدائش کا ملک بےشک جرمنی ہے، لیکن دل کا ملک پاکستان ہے اور اُن کا دل صرف پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے۔
جذام کے خلاف جنگ میں خاطر خواہ کام یابی حاصل کرنے کے بعد بھی وہ رکی نہیں، بلکہ خدمت کا دائرہ مزید وسیع کردیا۔ جذام پر قابو پانے کے بعد’’میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر‘‘ نے جذام کے ساتھ ٹی بی اور آنکھوں کے امراض کا علاج بھی شروع کیا۔ اب یہ ادارہ ماں اور بچے کی صحت کے شعبے میں بھی خدمات انجام دے رہا ہے۔
انہوں نے پاکستان میں اپنے کام پر جرمن زبان میں چار کتابیں لکھی ہیں، جن میں سے 'ٹو لائیٹ اے کینڈل کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ انہیں پاکستان میں ستارہ قائد اعظم، ستارہ ہلال سے نوازا گیا۔ ان کی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے1979میں انہیں وفاقی محکمہ صحت نے جذام کے بارے میں معاون مقرر کیا۔
پاکستان کی مدر ٹریسا کہلانے والی اس مسیحا نے دس اگست 2017کو یہ دنیا چھوڑی تو سرکاری اعزازکے ساتھ کراچی میں اُن کی آخری رسومات ادا کی گئیں اور انہیں گورا قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ آخری رسومات میں اس وقت کے صدرِ پاکستان ممنون حسین، آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور گورنر سندھ کے علاوہ دیگر اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔ اس دوران ڈاکٹر رُتھ کواکّیس توپوں کی سلامی بھی دی گئی تھی۔
ڈاکٹر ادیب رضوی
بات گردے سے شروع ہوئی تھی، جگر سے ہوتی ہوئی اب کینسر کے علاج تک پہنچ چکی ہے۔ بات ایک وارڈ سے شروع ہوئی تھی، اب ایک جہازی سائز کمپلیکس بھی کم پڑ گیا ہے۔ بات دہائیوں پہلے چند مریضوں سے شروع ہوئی تھی، اب ضرورت مندوں کی قطاریں ہیں کہ ختم ہونےکونہیں آتیں۔ یہ سب کچھ جس شخصیت نے ممکن بنایا اس کا نام ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ہے۔وہ گردے کی بیماریوں میں مبتلا لاکھوں مریضوں کے مسیحا ہیں۔ اُن سے پیار کرنے والے انہیں ایدھی ثانی بھی کہتے ہیں۔
اُنہوں نے اُس زمانے میں گردوں کے امراض کےعلاج کا آغاز کیاجب ان کا علاج کرنے والا کوئی اور نہیں تھا۔ 1971ء میں آٹھ بستروں کے ساتھ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن، (ایس آئی یوٹی )کا آغاز کیاگیا تھا اور اب کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں آٹھ کڈنی سینٹرز کام کررہے ہیں جو رنگ، نسل، فرقے اور مذہب کی تفریق کے بغیر انسانوں کی خدمت کرتے ہیں۔
ایس آئی یوٹی ، نہ صرف سندھ بلکہ پورے پاکستان میں واحد مثالی ادارہ ہے جو گردوں کی بیماریوں میں مبتلا غریب مریضوں کا سہارا ہے۔ ایدھی فائونڈیشن کی طرح اس کا نصب العین بھی طبقاتی اور ہر طرح کی تفریق سے بالاتر ہوکر انسانی خدمت کرنا ہے۔ ایس آئی یوٹی کے قیام سے اب تک ڈاکٹر ادیب اور ان کی ٹیم نے لاکھوں لوگوں کا مفت علاج کرکے ایدھی ازم کا عملی مظاہرہ کیاہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کا کمال یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں انہوں نے ایسا ادارہ بنایا جہاں امیر غریب، مرد عورت، ہندو مسلم، شیعہ سنی کی کوئی تفریق نہیں، جہاں انسان کا علاج خیرات کے طور پر نہیں بلکہ عزّتِ نفس کے ساتھ اس کا حق سمجھ کر کیا جاتا ہے۔
ادیب الحسن رضوی سترہ برس کے تھے توبھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے۔ خاندان کے بغیر انہیں کراچی کے مختلف ہاسٹلز میں رہنا پڑا۔ یہاں طب کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ لندن چلے گئے۔ دس سال سرجری کی فیلوشپ حاصل کرنے میں صرف کیے۔ 1971ء میں واپس کراچی آکر اسسٹنٹ پروفسر تعینات ہوئے۔یہاں زمینی حقایق دیکھ کرانہیں اندازہ ہوا کہ ہیلتھ کیئر مہیا کرنا اتنا آسان کام نہیں۔ کچھ دوستوں سے چندہ اکٹھا کیا اور کچھ ساتھی ڈاکٹروں کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا اور استعمال شدہ مشینیں لندن سے منگوائیں۔
اتنی جان فشانی سے کام شروع کیا کہ عوام نے بہت جلد ان کی نیک نیتی کوپرکھ لیا اور امداد دینا شروع کردی۔ وقت کے ساتھ اسپتال کو نئے آلات سے مزین کیا جاتا رہا۔ اسپتال کی توسیع کے لیے ڈاکٹر ادیب رضوی نے لندن اور امریکا کا دورہ کیا اور 1980ء میں واپس آکر مزید ڈاکٹرز، نرسز اور ٹیکنیشنز بھرتی کیے۔ آج ایس آئی یوٹی پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوب مشرقی ایشیا میں گردوں کے علاج کے لیےایک مستند ادارہ مانا جاتا ہے۔ یہاں غریبوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں :’’مفت علاج ہر انسان کا بنیادی حق ہے‘‘۔
ایس آئی یو ٹی میں گردے کی پیوندکاری کے ہر سال تقریبا پانچ سو پچپن آپریشن ہوتے ہیں۔ ہر سال 30 لاکھ مریضوں کا او پی ڈی میں علاج کیا جاتا ہے۔لاکھوں مریض ہر سال مختلف شعبوں میں علاج کے لیے داخل کیے جاتے ہیں۔ہر روز نو سو کے قریب مریضوں کا ڈائیلیسز کیا جاتا ہے۔ ادارے میں اب تک آٹھ لاکھ سے زیادہ مختلف نوعیت کے آپریشن کیے جاچکے ہیں۔ ڈاکٹر رضوی کی کوششوں سے اب تک ایک کروڑ سے زاید افرادطبّی سہولتوں سے مستفید ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر ادیب رضوی اور ان کی ٹیم نے پاکستان میں گردوں کا پہلا ٹرانسپلانٹ 1985ء میں کیا تھا۔ اُس وقت سے اب تک ایس آئی یو ٹی میں گردوں کے ساڑھے پانچ ہزار سے زاید مفت ٹرانسپلانٹ ہوچکے ہیں۔ پاکستان کے اس کرشمہ ساز مسیحا کا ایک انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ وہ جن دنوں ڈی جے سائنس کالج میں زیر تعلیم تھے، ان دنوں ایک تحریک بہت زور و شور سے جاری تھی۔ اس تحریک کا نعرہ تھا: ’’تعلیم اور صحت ہر شخص کا بنیادی حق ہے‘‘۔ شروع میں ہم صرف نعرے لگاتے تھے لیکن آگے جاکر احساس ہوا کہ اس پر عمل بہت ضروری ہے۔ جب میڈیکل کی تعلیم لینا شروع کی تو لوگوں کی پریشانیاں دیکھیں کہ کس طرح وہ اپنے عزیز و اقارب کو اسپتال میں داخل کرانے کے لیے پریشانیاں اٹھاتے تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے غریب خواتین کو کانوں کی بالیاں اور دیگر ساز و سامان بیچتے دیکھا تو ان مسائل کا شدّت سے احساس ہوا۔ جب میں سوچتاتھاکہ لوگوں کو بلامعاوضہ صحت کی سہولتیں ملنی چاہییں تو لوگ کہتے تھے کہ ایسا کرنے کا تصوّر صرف خام خیال ہے۔ لیکن آج اپنے خواب کو عملی شکل میں دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں۔ ڈاکٹر رضوی کے بہ قول انہیں لفظ ’’چیریٹی‘‘ ناپسند ہے۔ ان کے مطابق ابتدا صرف گردوں کے امراض سے کی تھی، وقت کے ساتھ سہولتوں اور شعبہ جات میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس وقت ایس آئی یوٹی میں یورولوجی، نیفرولوجی، جی آئی، پیڈیا ٹرک، کینسر اور ٹرانسپلاٹیشن کے شعبے بھی کام کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی ہر ممکن یہی کوشش ہوتی ہے کہ جو کرسکتے ہیں وہ کریں اور جو کریں وہ بلامعاوضہ، مگر عزت نفس کو ملحوظ رکھتے ہوئے کریں۔
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی جیسا مسیحا لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں میں ایک ہوتا ہے۔ ایسا مسیحا جو اسّی برس کی عمر میں بھی ہر روز اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران مسکراتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دوست کہتے ہیں کہ ان کی حالت ایک مکڑی جیسی ہےجو جالے بُنتی چلی جاتی ہے اور پھر اسی میں پھنستی چلی جاتی ہے۔ ان کے مطابق ہر روز، ہر لمحہ مریضوں کی تعداد اتنی ہوتی ہے کہ کوئی اور سوچ ذہن میں نہیں آتی۔ اب تو زندگی کا ایک ہی کام ہے کہ ہر وقت مریضوں کا علاج کرتا رہوں، اسی میں بہت سکون اور آرام نصیب ہوجاتا ہے۔
پاکستان کے اکثر سرکاری اسپتالوں کے برعکس ایس آئی یو ٹی کوجو بات خاص بناتی ہے وہ ہر خاص و عام کے لیے علاج کی یک ساں سہولتیں ہیں۔ یہاں آنے والے ایسے مریضوں کا علاج بھی پوری ذمے داری، محبت اور شفقت سے کیا جاتا ہے، جو مالی مشکلات کے باعث اپنا معیاری علاج کروانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ادیب کی سربراہی میں 2016ء ہی میں جگرکی پیوند کاری یا لیور ٹرانسپلانٹ کابھی کام یاب آپریشن کیا گیا۔ اس طرح اب ایسے مریضوں کو بھی پاکستان ہی میں علاج کی سہولت میسر آگئی ہے جو اب تک اس مقصد کے لیے چین، بھارت اور یورپ جانے پر مجبور تھے۔
ڈاکٹر ادیب نے سول اسپتال میں ملازمت اختیار کی تو گردے کے علاج کےلیے آٹھ بستروں کے وارڈ سے اپنے مشن کا آغاز کیاتھا۔ انہوں نےنوجوان ڈاکٹروں کی ٹیم جمع کی جن کا مقصد ایک چھوٹے سے وارڈ کو عظیم الشان میڈیکل کمپلیکس میں تبدیل کرنا اور ہر مریض کا اس کی عزت نفس مجروح کئے بغیر علاج کرنا تھا۔ آج ایس آئی یو ٹی کا دیوان فاروق میڈیکل کمپلیکس جس کے لیے زمین حکومت سندھ نے عطیہ کی تھی،چھ منزلہ جدید عمارت کی شکل میں موجود ہے جس میں تین سو بستر کا اسپتال ،متعدد جدید آپریشن تھیٹرز، لیکیچرز ہال، اوپی ڈی وغیرہ کی سہولتوں کے ساتھ جدید آڈیٹوریم بھی موجود ہے۔ نیز گردے کے کینسر کے علاج کےلیے حنیفہ بائی حاجیانی کمپلیکس بھی موجود ہے۔