یہ 1979ء کی بات جب میں پہلی بار ہندوستان گیا۔ اس وقت میں جامعہ کراچی کا طالب علم تھا۔ ٹرین میں سفر کے دوران پتا ہی نا چل سکا کب لاہور اور پھر دلی پہنچ گئے سارے راستے سوچتا رہا آج کتنے سکون سے جارہے ہیں مگر 1947ء میں جب ٹرینوں کے ذریعہ لاکھوں افراد نے سفر کیا ہوگا یا ہجرت کی ہوگی ایک آزاد فضا میں سانس لینے کے خواب میں تو کیا منظر ہوگا۔ یہاں سے بھی بہت سے لوگ تقسیم ہند کے بعد بھارت چلے گئے جن میں مشہو رصحافی کلدیپ نائر صاحب بھی شامل تھے۔
اس دورہ میں جامع مسجد دلی بھی جانے کا موقع ملا اور کئی تاریخی مقامات۔ چونکہ ہر سفر کا بہرحال ایک اختتام ہوتا ہے لہٰذا واپسی میں بھی سوچتا رہا وہ کیا عوامل ہوں گے جو تقسیم کا باعث بنے شاید معاشی، سیاسی اور مذہبی۔ میں پاکستان بننے کے کوئی 11سال بعد 1958ء میں سندھ کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہوا۔ میرے یا مجھ جیسے لوگوں کا جو تقسیم ہند یا قیام پاکستان کے بعد پیدا ہوئے ان کے اور ان لوگوں کے جنہوں نے ہجرت کی سوچنے کا انداز شاید مختلف ہو مگر منقسم خاندانوں میں آج بھی ملنے کی تڑپ نظر آتی ہے۔ راستے کھولتے ہیں ویزہ ملتے ہیں تو لاکھوں لوگ ہر سال ایک دوسرے سے ملنے جاتے ہیں۔ سلسلہ رکتا ہے تو انتظار رہتا ہے کب دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوں۔
پاک بھارت تعلقات کا ماضی بہت تلخ ہے، 75برس تک دشمنی کرچکے، اب اچھے پڑوسی بن کر بھی دیکھ لیں
بدقسمتی سے آج کا ہندوستان ’’ہندوتوا‘‘ کی منہ بولتی تصویر جو 1947ء کی یاد دلا رہا ہے۔ خود بھارت کے لوگ خاص طور پر دانشور، ادیب، صحافی کہ مسلمان اقلیت کے لئے زمین تنگ کی جارہی ہے۔ جب سے گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والا نریندر مودی وزیر اعظم بنا ہے اس نے پہلا حملہ ہی وہاں کے ’’سیکولرازم‘‘ پر کیا۔ دوسرا حملہ اس نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اور وہاں بدترین ریاستی جبر کرکے کیا۔ ایسے میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری ایک خواب ہی نظر آتی ہے کیونکہ جہاں نفرت کی بنیاد پر سیاست کرنے والے کو ایک نہیں دوبارہ وزیر اعظم بنا دیا جائے وہاں نام نہاد جمہوری سوچ پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ بقول ہمارے ایک بھارتی دوست ’’اب یہاں ہر ادارے میں حد کے عدلیہ میں بھی یہیں سوچ پائی جارہی ہے۔ تعلیم ہو یا نوکری ہر طرح کے دروازے بند کئے جارہے ہیں مسلمانوں کے لئے‘‘۔ لگتا ہے انتہا پسندی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔
ایسے میں میں سوچتا ہوں میری 90سالہ خالہ کا کیا ہوگا جو آج بھی چاہتی ہیں کہ وہ ایک بار اپنے پیاروں سے مل آئیں یا وہ یہاں آجائیں۔ ایسی ان گنت خاندان ہیں جہاں ایسی ہی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ چند سال پہلے ہمارے ایک جاننے والے ستار بھائی کا انتقال ہوا کراچی میں۔ ان سے جب بھی ملتا یہیں کہتے کہ 11سال 11ماہ اس انتظار میں گزارتا ہوں کہ کب ایک ماہ اپنے گائوں اور ہندوستان میں رشتے داروں سے مل کر آنا ہے۔
کلدیپ نائر نے اپنی کتاب ’’ایک زندگی کافی نہیں‘‘ میں لکھا، ’’میرے لئے ہندوستان کی تقسیم ایک تدریسی موضوع نہیں جس پر غیرجانبداری سے بحث کی جائے یا اس کا تجزیہ کیا جاسکے‘‘۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ماضی بہت تلخ ہے اور تقسیم کے زخم بہت گہرے مگر کیا انہی زخموں کے سہارے زندہ رہنا ہے یا آنے والی نسلوں کے لئے کچھ راہیں بھی نکالنی ہیں۔ 75سال میں لڑکر اور نفرت کرکے دیکھ لی کیا آئندہ کے کم از کم 25سال اچھے پڑوسی بن کر بھی دیکھ لیں شاید اس خطے میں غربت میں پسے ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کے چہرے پر خوشحالی کے آثار دکھائی دیں کہ امن اور ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا احترام، برداشت ہی ترقی کا راستہ ہے جس سے شاید ہم بھٹک گئے ہیں۔
1995ء یا 1996ء میں ایک امن مشن کے ساتھ ایک بار پھر بھارت جانے کا موقع ملا۔ اب ہم صحافی ہوگئے تھے۔ میرے ساتھ میرا دوست امر ضیاء بھی تھا آج بھی ہم وہ لمحات شیئر کرتے ہیں۔ اس کانفرنس میں کلدیپ نائر، شیکر گپت، جاوید نقوی اور دیگر بھارتی صحافی اور دانشوروں کے ساتھ ہماری طرف سے جناب ڈاکٹر مبشر حسن، آئی اے رحمٰن اور عاصمہ جہانگیر جیسی نامور شخصیت تھیں۔ اس زمانے میں کیونکہ صحافی جونیئر بھی ہوتے تھے تو ہم جونیئر کو بھی کچھ بات کرنے کا موقع مل گیا۔
میرا نکتہ کچھ دوسری طرف ہونے والی تقاریر جن میں پاکستان میں انتہا پسندی اور مقبوضٗہ کشمیر میں ’’دخل اندازی‘‘ جیسے الزامات پر تھا، ’’جی آپ لوگوں نے درست کہا کہ انتہا پسندی بڑھ رہی ہے مگر دونوں ملکوں میں فرق یہ ہے کہ ایک طرف مذہبی انتہا پسند جماعتوں کو ووٹ نہیں پڑتا تو دوسری طرف ایک انتہا جماعت تیزی سے مقبولیت حاصل کررہی ہے (میرا اشارہ بی جے پی کی طرف تھا)‘‘۔ دوسرا نکتہ مقبوضہ کشمیر پر تھا ’’آپ ہم سے زیادہ جمہوری سوچ رکھنے والے لوگ ہیں۔ کیا کشمیر کے لوگ یا پاکستان وہاں اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ریفرنڈم کا مطالبہ کررہا ہے تو یہ غیر جمہوری مطالبہ ہے‘‘۔
میں اپنی مختصر تقریر کرکے نیچے آیا اور نشست کی طرف جانے لگا تو کلدیپ نائر صاحب نے کہا، ’’ویل ڈن بوائے‘‘ ان کے منہ سے یہ الفاظ میرے لئے بہت اہمیت کے حامل تھے۔ میں ’’تھینک یو سر‘‘ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
آج اگر سیاست اور صحافت کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے 75سالہ تعلقات پر نظر ڈالوں تو غلطیاں دونوں جانب سے نظر آتی ہیں۔ بدقسمتی سے امن کی بات کرنے والوں کو ’’غداری‘‘ کے القاب سے نوازا گیا۔ کوئی RAWکا ایجنٹ تو کوئی ISI کا۔ سب سے افسوس ناک یہ کہ سیاست میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے بیانیہ کے ذریعہ ووٹ حاصل کیا جاتا ہے یہ رجحان بھارت میں زیادہ پایا جاتا ہے۔
1971ء کی جنگ کے زخموں نے پہلے کے زخموں کی بھی یاد تازہ کردیا۔ گو کہ بنیادی سیاسی غلطی تو ہماری اپنی تھی مگر بھارت نے اس کا فائدہ اٹھایا اور قیام پاکستان کے 24سال بعد ہی ہماری اکثریت ہم سے الگ ہوگئی اور ایک نیا ملک بنگلہ دیش معروض وجود میں آگیا۔ ورنہ تو 60ء کی دہائی تک تعلقات بہت بہتر تھے۔ بقول علی سردار جعفری، جنگ مسئلوں کا حل کیا دے گی۔ جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے۔
وہ شیخ مجیب الرحمان جو قیام پاکستان کے وقت مسلم لیگ کا رکارکن تھا ایوب خان کے صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح کا پولنگ ایجنٹ تھا آخر کیسے ’’بھارتی ایجنٹ‘‘ بنادیا گیا۔ یہ اور ان جیسے جوڑے ہوئے سوالات کے جواب ہمیں تلاش کرنے ہیں۔ دشمن تو آپ کی غلطیوں سے فائدہ اٹھاتا ہی ہے۔ مگر جو بیج وہ بو رہے تھے اس سے وہ خود کیسے محفوظ رہ سکتے تھے۔ آسام، ناگا لینڈ اور خالصتان کی تحریکیں وہاں بھی سر اٹھا رہی تھیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کی ایک وجہ اس کا بھارت مخالف بیانہ تھا جس کی پذیرائی اسے خاص طور پر پنجاب میں بہت ملی۔ 1972ء میں کچھ برف پگھلی جب بھٹو صاحب نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر بھارت کا دورہ کیا اور وہاں کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ تاریخی ’’شملہ معاہدہ‘‘ کیا۔ اس کے نتیجے میں 90ہزار فوجی و شہریوں کی رہائی عمل میں آئی اور پاکستان کا علاقہ بھی واپس مل گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس بنیاد پر امن کی نئی راہیں کھولی جاتیں مگر پھر بھارت نے چین کے ساتھ اپنی کشیدگی کو بہانہ بناکر ایٹمی دھماکہ کردیا جس کا بدقسمتی سے بین الاقوامی ردعمل ویسا نہیں آیا جیسا کہ آنا چاہئے تھا۔
ایسے میں بھٹو نے ’’گھاس کھائیں گے گے ایٹم بم بنائیں گے‘‘ کا نعرہ لگا دیا اور ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ مئی 1998ء کو جب بھارت نے پانچ ایٹمی دھمکے کئے تو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان میں چھ دھماکوں کا اعلان کیا۔ یوں بھارت کی سابقہ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جس ایٹمی دوڑ کا آغاز 50سال پہلے کیا تھا اس نے دونوں ملکوں کو ایٹمی قوت تو بنادیا مگر ہم معاشی محاذ پر بہت پیچھے رہ گئے۔ ہم نے ایٹم بم اپنی حفاظت کے لئے بنایا تھا اب ہم اس کی حفاظت کررہے ہیں۔ بھارت بڑی مارکیٹ سے دنیا کی طاقتیں بشمول اسلامی ممالک اسے نظرانداز نہیں کرسکتے۔ یہ وہ نکتہ تھا جو ہمیں ہمیشہ سے غور و خوص کی دعوت دیتا ہے مگر ہم سوچتے کہاں ہیں۔
دوسرے بھارت سیاسی عدم استحکام کا شکار نہیں ہوا وہاں الیکشن وقت پر ہوتے ہیں اور ماسوائے اندرا کی چند سال کی ایمرجنسی کے وہاں کبھی بھی فوجی مداخلت نہیں ہوئی اسی لئے معاشی استحکام بھی حاصل رہا۔
مگر بھارت سے کچھ بنیادی نوعیت کی غلطیاں سرزد ہوئیں۔ وہاں کے عوام نے ہندو انتہا پسندانہ سوچ کو ووٹ دینا شروع کردئیے۔ کرکٹ، ہاکی، ثقافت، صحافی، ادیبوں، فنکاروں کی آمد و رفت کو مقبوضہ کشمیر میں مبینہ دخل اندازی کو ختم کرنے سے مشروط کردیا۔ یہ ماضی کی بھارتی پوزیشن سے ’’یوٹرن‘‘ تھا۔ یعنی ایک زمانہ تھا جب پاکستان یہ کہا کرتا تھا کہ پہلے مسئلہ کشمیر کا مسئلہ حل کرو پھر کچھ اور۔
جنرل ضیاء الحق کے 11سالہ مارشل لا کے دوران ’’کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ کی اصطلاح سامنے آئی جب ضیاء الحق پاک۔ بھارت ٹیسٹ میچ دیکھنے نئی دلی گئے اور تمام تر شکوک و شبہات کے باوجود صورت حال بہت زیادہ خراب نہیں تھی کم از کم دونوں طرف کے عوام کے آنے جانے کے راستے کھلے تھے اور پاکستان میں تو خیر کبھی بھی عوامی سطح پر ویسی نفرت نہیں دیکھنے کو ملی اس زمانے میں وہاں بھی شاعروں، ادیبوں، لکھاریوں اور کھلاڑیوں، فنکاروں کی پذیرائی ہوتی تھی۔
1989ء میں مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کے نتائج تو خود بھارت نے قبول نہیں کیا تو جدوجہد آزادی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا جس کی قیادت جموں کشمیر لیبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) نے کی جس کے ایک رہنما یاسین ملک کو حال ہی میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ گوکہ JKLF کشمیر کو آزاد اور خودمختار بنانے کی جدوجہد کررہے تھے جبکہ کچھ دوسرے گروپ مثلاً حزب المجاہدین وغیرہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں لڑ رہے تھے مگر وہاں کی تمام جماعتیں بھارتی تسلط کے خاتمہ کے حق میں تھیں اسی لئے مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا گیا جس میں سید علی گیلانی مرحوم، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک وغیرہ سب شامل تھے کہ حریت کانفرنس کا نام دیا گیا۔ بھارتی حکمرانوں کی تنگ نظر سوچ نے ان کو دہشت گرد اور علیحدگی پسندقرار دے کر کبھی تسلیم نہیں کیا۔
دوسری طرف پاکستان ایک بہتر اور جیتے ہوئے مقدمہ کا مضبوط وکیل کا کردار ادا نا کرسکا۔ ایک طرف ہم سفارتی محاذ پر ناکام رہے۔ دوسری طرف بہت سے انتہا پسند گروپ کو بھی قابو نہ کر سکے۔ ہماری سیاسی واخلاقی حمایت کمزور پڑتی چلی گئی۔ آج اگر ہم ٹھنڈے مزاج اور کھلے دماغ سے جائزہ لیں تو ہماری 1989کے بعد کی کشمیر پالیسی سے نقصان زیادہ نظر آتا ہے۔
پاکستان میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت قائم ہوئی تو 1998میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کا دورہ کیا ۔وہ بذریعہ بس آئے اور مینار پاکستان پر پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کیا۔یہ ایک نئے دور کا آغاز تھا حالانکہ ان کا اپنا تعلق بھی BJPسے تھا مگر وہ پڑھے لکھے اور دانشور انسان تھے۔ ابھی بات آگے ہی بڑھی تھی کے ’کارگل‘ ہو گیا جس نے صورتحال کو خوفناک حد تک بدل دیا۔ایک بار پھر ہم اسی طرف لوٹ گئے جہاں سے کچھ حاصل ہوا تھا نہ وصول۔ میرے نکتہ نظر سے یہ بحث فضول ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کو اعتماد میں لیا تھا یا نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ اس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان نے اپنا کیس مضبوط کیا یا کمزور ۔
12اکتوبر1999کو ایک بار پھر فوج نے ٹیک اوور کر لیا جس کا بہرحال نقصان اندرون اور بیرون ملک بھی ہوا۔ میں نے اکثر پاکستان کے حوالے سے غیر ملکی سفارت کاروں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے سویلین حکومتوں کے بارے میں کے ’’ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں بات کس سے کی جائے کیونکہ ’’پاور سینٹر اسلام آباد نہیں راولپنڈی ہے ‘‘ میاں نواز شریف پر ان کے طرز حکمرانی اور کرپشن کیس کےحوالے سےتنقید کی جاسکتی ہے مگر انہوں نے بھارت کے حوالے سے اس مذاکرات کی عملی کوشش کی اور پنجاب میں مزاج بھی بدلا۔
جنرل(ر) پرویز مشرف کو بھارت میں کارگل کے’’ ولن‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا تھا مگر 2001میں ’’آگرہ سمٹ‘ میں انہوں نے خود بھارتی سیاست دانوں اور بھارتی صحافیوں کو حیران کر دیا۔وہ دونوں ملکوں کے درمیان امن کی خاطر بہت آگے تک جانے کوتیار تھے یہاں تک کے انہوں نے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے کہا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد کے علاوہ بھی آپشن پر بات ہو سکتی ہے۔ اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ آئندہ جب بھی پاک بھارت مذاکرات ہوں،وہیں سے شروع ہو سکتے ہیں۔
اس وقت جنرل مشرف سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ مشترکہ پریس کانفرنس سے پہلے انہوں نے بھارتی مدیروں اور سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں کچھ زیادہ ہی بول دیا جس کی وجہ سے اہم پیش رفت کھٹائی میں پڑ گئی۔ بھارتی وزیر اعظم اپنے میڈیا اور جماعت کے انتہا پسندوں اور اپوزیشن کے دباؤ میں آ گئے۔
بہرحال تاریخ میں جنرل مشرف بھی ان پاکستانی حکمرانوں کی فہرست میں آئیں گے،جنہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان امن کی کوششوں کو آگے بڑھایا۔ بعد میں آنے والے تمام پاکستانی حکمرانوں سابق صدر آصف علی زرداری ،وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ،نواز شریف اور عمران خان نے عملی طور پر امن کی کوششیں کیں۔ عمران نے تو2018کے الیکشن میںکامیابی کے بعد تقریب حلف برداری میں بھارت کے سابق کرکٹر سنیل گواسکر ،کپل دیو، اور سدھو کو دعوت دی ۔بھارت کی پوری ٹیم نے اپنے دستخطوں کے ساتھ کرکٹ بیٹ تحفے میں خان صاحب کو بھیجا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سدھو کو گلے لگانے کی تصویر کی بڑی شہرت ہوئی۔ جس کا سامنا انہیں واپس جا کر انتہا پسند بھارتی میڈیا سے کرنا پڑا۔ اسی طرح ’’کرتار پور راہداری ‘‘ کے افتتاح کے موقع پر سابق بھارتی وزیر سشماء سراج کی شرکت سے یہ امید چل پڑی تھی کہ بات آگے بڑھے گی مگر یہ ہو نا سکا۔
دراصل بھارتی جنتا پارٹی ( بی جے پی) نے جب پہلی بار گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام میں مبینہ طورپر ملوث وہاں کے وزیر اعلیٰ مودی کو وزیر اعظم کے لئے نامزد کیا تو ’’امن‘ کی خواہش رکھنے والے دونوں ملکوں کے لوگوں کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ حالانکہ انہوں نے اپنی تقریب حلف برداری میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بلایا اور پھر ایک بار اچانک افغانستان سے واپسی پر لاہور میں میاں صاحب کی نواسی کی شادی میں شرکت کیلئے پہنچ گئے۔ جس پر میاں صاحب پر تنقید بھی ہوئی۔
نریندر مودی کی سیاست کی موت ہوئی لہٰذا معاملہ بھارت کی نیوی کےحاضر افسر اور جاسوس کلبھوشن کے نیٹ ورک کا ہو جو پکڑا گیا یا بھارتی پائلٹ ابھی نندن کا ہو بھارت نے پاکستان سے امن کے تمام راستے بند کر دیئے۔ بات یہیں تک رہتی تو بھی غنیمت تھی خود اپنے ملک میں مذہبی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کر دی جس پر خود بھارت سے کئی آوازیں اب بھی بلند ہوتی ہیں۔ حال ہی میں ایک بھارتی صحافی صباءنقوی کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا ہے صرف ایک ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنے پرکیں۔
عمران خان وزیر اعظم بنے تو پہلی تقریر میں بھارت سے امن کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر صرف کشمیر کا مسئلہ وہاں کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق حل ہو جائے تو اس خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے، غربت، ختم ہو سکتی ہے۔ اور معاشی طور پر دونوں ملک مضبوط ہو سکتے ہیں۔
مگر دوسری طرف بھارت کے کچھ حکمرانوں نے سنجیدہ کوششیں کیں،جن میں واجپائی اور من موہن سنگھ شامل ہیں مگر مودی سرکار نے نا صرف ان سب پر پانی پھیر دیا بلکہ مقبوضہ کشمیر کی متنازع حیثیت کو ختم کر کے بھارت میں ضم کرنے کا خوفناک کھیل کھیلا۔ پچھلے چند سالوں سے خاص طور پر جو حالات ہیں اس پر خود پر امریکہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی رپورٹس میں انتہائی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
پاکستان کی طرف سے بڑی غلطی شاید کارگل کا ایڈونچر اور کچھ ماضی میں جہادی تنظیموں کی حوصلہ افزائی تھی جس سے خاص طور پر 9/11 کے بعد کشمیر کو بے انتہا نقصان پہنچا۔ ایک بہت بڑا مسئلہ جو کے بڑی آسانی سے حل ہو سکتا تھا اور اب بھی ہے وہ دونوں ملکوں کے ماہی گیروں کا ہے جو بعض اوقات مچھلیاں پکڑتے پکڑتے ایک دوسرے کی سمندری حدود میںداخل ہو جاتے ہیں اور سزا کے طور پر سالوں جیلوں میں گزارتے ہیں۔ حالانکہ یہ مسئلہ ہفتوں نہیں تو مہینوں میں حل ہو سکتا ہے۔
میرا ہمیشہ سے یہ ماننا ہے کہ کھیل خاص طور پر کرکٹ دونوں ملکوں کے کروڑوں افرادکو قریب لانے میں سب سے بہتر سفارت کاری ہے۔مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب بھارتی انتہا پسند گروپ شیوسینا کے حامیوں نے دلی کی پچ اکھاڑ دی تھی تو پاکستانی ٹیم کا دورہ کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔ غالبًا یہ 1998کی بات ہے اس کے باوجود میاں صاحب نے ٹیم کو جانے کی اجازت دے دی۔ اتفاق سے یہ خبر AFPسے سب سے پہلے میں نے ہی بریک کی تھی اس وقت کے کھیلوں کے وزیر مشاہد حسین سے بات کرتے ہی اس پر فوراً واجپائی صاحب کا خیر مقدمی بیان آیا کہ ’’ کھیلوں کو سیاست سے دور رہنا چاہئے ‘‘
اگر آج بھی مندرجہ ذیل طریقے اپنائے جائیں تو ہم آگے بڑھ سکتے ہیں مگر اس سب کا دارومدار نیت اور اعتماد پر ہے۔
(1) کشمیر کا مسئلہ وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے۔ دنیا بھر میں ریفرنڈم ایک جمہوری طریقہ ہے۔ مگر وہ کیسے رہنا چاہتے ہیں یہ ان کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔
(2) اس مسئلہ پر معنی خیز بات چیت کا فوراً آغاز کیا جائے اور سلسلہ آگرہ میں ہونے والی پیش رفت سے شروع کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ بات چیت نتائج آنے تک جاری رہنے چاہئیں۔
( 3)دونوں ملک اقلیتوں کے ا حترام کے بین الاقوامی چارٹر پر عمل کریں خاص طور پر اس وقت جو بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کو فوراً روکا جائے اور اقوام متحدہ اس میں عملی کردار ادا کرے۔
(4)دونوں ملکوں کے ماہی گیروں کو نا صرف فوری طور پر آزاد کیا جائے بلکہ اس مسئلے کو ہمیشہ کیلئے ،ختم کرنے کے سلسلے میں عملی اقدامات کئے جائیں جس کے لئے کوئی راکٹ سائنس نہیں چاہیں۔ سمندری حدود کی خلاف ورزی پر چند دنوں یا ہفتوں میں فیصلے ہو سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ برسا برس سے چل رہا ہے مگر شاذ و نادر ہی اس میں کوئی جاسوس پایا گیا ہو۔
(5) ٹریک ٹو ڈپلومیسی نہ صرف دوبارہ شروع ہو بلکہ اس کو معنی خیز بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اور شاید آج اس کی اشد ضرورت ہے۔ دونوں ملکوں کی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے ملکوں میں ایک دوسرے کے خلاف جذبات ابھارنے کی بجائے معاشی ترقی کے لئے قریب آنے کو منشور کا حصہ بنائیں۔یہ بات شاید آئیڈیل اور عملی طور پر مشکل نظر آئے مگر پی جے پی جیسی جماعتیں اگر خود اپنے ملک کو ہی سامنے رکھیں تو اندازہ ہو گا کہ آگ پھیلی تو وہ خود بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔
(6) کھیلوں کے ذریعہ بڑی تبدیلی خود رویوں میں آ سکتی ہے۔ کھیل صحت مندانہ رجحان کو فروغ دیتے ہیں۔ کرکٹ دونوں ملکوں کے کروڑوں افراد کو جوڑتی ہے، مقابلے میں اپنے اپنے ملکوں کے عوام بھلے قوم نظر آئیں مگر اس میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت نہیں مقابلے کی دوڑ ہوتی ہے۔
(7) اراکین پارلیمینٹ اور سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے درمیان حکومتوں سے ہٹ کر بھی بات چیت ہو سکتی ہے اور کوئی’ چارٹر اف فرینڈ شپ‘ کی بنیادی پڑ سکتی ہے۔
(8) دونوں طرف کے دفاعی تجزیہ کاروں کے درمیان بھی یہ سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
(9) وقت نے ثابت کیا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنا چاہتے ہیں مگر وہ سیاست دانوں، حکمرانوں اور انتہا پسند سوچ جو خاص طور پر مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد پیدا ہوئی ہے کہ یرغمال ہیں۔ ورنہ آج ویزا میں آسانی ہو تو جواب خود مل جائے گا۔
صرف دوستی بس سروس چلانے سے اس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہوگا جب تک ایک دوسرے پر سے بداعتمادی ختم نہیں ہو گی۔ آج کی صورتحال میں یہ معاملہ اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کا بھارت سیکولر نہیں رہا اور یہ بات خود وہاں کے دانشور کہتے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گردی اورانتہا پسندی کے خلاف عملی جنگ لڑی ہے اور ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
(11) معاشی حالات دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے ذریعہ بہتر ہو سکتے ہیں اگر چیزیں چوری یا دو نمبری سے آ رہی ہیں تو ایک نمبری کے ساتھ قانونی طور پر تجارت کیوں نہیں ہو سکتی۔
اصل مسئلہ نیت کا ہے۔ تصور کریں کہ اگر ایک نوجوان کا ’کبوتر‘ بارڈر کراس کرکے دوسری طرف چلا جاتا ہے اور لڑکا اسے پکڑتے پکڑتے بارڈر پار کر لیتا ہے تو مہینوں رہائی میں لگ جاتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں ایک پاکستانی نوجوان کے ساتھ ہوا۔
مقبوضہ کشمیر میں چلنے والی جدوجہد یاسین ملک کو عمر قید دینے سے دہائی نہیں جا سکتی ۔ حریت کانفرنس مسئلے کا سیاسی حل چاہتی ہے جمہوری انداز میں اور یہیں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا چیلنج ہے۔ ہمارے لئے ان کی سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رہنی چاہیں مگر کسی بھی طرح یہاں کے انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہئے۔
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے،جب بھی ہم دوست بن جائیں تو شرمندہ نہ ہوں