• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ،جو ایک جمہوری اور آئینی جدوجہد کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا لیکن یہاں نہ جمہوریت پروان چڑھی نہ آئین کی حکمرانی کو تسلیم کیا گیا۔ جہاں پہلا صدر میجر جنرل اسکندر مرزا اور دوسرا فیلڈ مارشل ایوب خان، وہاں کیسی سویلین بالادستی ،بس یوں سمجھ لیں کہ یہاں سیاست کم، سیاسی ہیرا پھیری، زیادہ رہی، شائد یہی وجہ ہے کہ 75 سال بعد بھی ہمیں انتظار ہے کسی ایک وزیراعظم کا جو اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرے۔پون صدی کے سفر میں صرف تین بار پُرامن انتقالِ اقتدار ہوا۔ اب ایسے میں جس سیاست دان نے ’اصل حکمرانوں‘ کو چیلنج کیا وہ یا تو ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پھانسی چڑھ گئے یا لیاقت علی خان اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح شہید کردیئے گئے یا پھر محترمہ فاطمہ جناح کی طرح سیاست سے ہی کنارہ کش ہوگئے۔

اس پس منظر میں جب سیاسی تاریخ کاجائزہ لینا شروع کیا تو یقین جانیں قیام پاکستان کے پہلے 10 سال ہی سر چکرانے کے لیے کافی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شائد بانیان پاکستان نے مسلم لیگ اور قائداعظم کی قیادت میں ملک تو بنالیا مگر 1948 میں جناح کی اچانک موت کے بعد سمجھ ہی نہیں آیا کہ ملک کو کس سمت لے کر جانا ہے۔ 

ان کے انتقال کے بعد سے ہی ’محلاتی سازشوں‘ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہم 1971 میں نہیں 1954 میں ہی تقسیم ہوگئے تھے جب پہلے انتخابات میں بائیں بازو کے اتحاد ’جگتو فرنٹ‘ نے ایک واضح فیصلہ دے دیا مگر یہ حکومت آٹھ ماہ بھی نہیں چلنے دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے 26 نکات 1971 میں چھ نکات بن گئے۔ ان آٹھ ماہ میں بھی انہوں نے جاگیردارای نظام کو ختم کردیا۔

جہاں قائداعظم کے بعد اسکندر مرزا اور غلام محمد جیسے گورنر جنرل رہے ہوں وہاں لیاقت علی خان کو تو شہید ہونا ہی تھا مگر کھیل بھی ایسا کھیلا گیا کہ گولی چلنے کے چند منٹ بعد ہی جلسہ گاہ میں ہی گولی چلانے والے کو بھی گولی مار دی گئی اور یوں ’پاکستان کی سیاست کی فائل ہی بند کردی گئی‘۔ اس کے بعد تو صرف ’نظریہ ضرورت‘ کی فائل سے ہی ملک چلا۔ بات دو ماہ کے حکمران مسٹر آئی آئی چندریگر کی ہو یا ملک فیروز خان نون یا اس سے پہلے اور بعد میں آنے والے چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین یا محمد علی بوگرہ کی ،بس یوں سمجھ لیں کہ طاقت کا سرچشمہ یا تو گورنر جنرل غلام محمد اور اسکندر مرزا رہے یا آرمی چیف اور وزیر دفاع ایوب خان۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جون 1958 کو اسکندر مرزا نے جنرل ایوب کی معیار ملازمت میں دو سال کی توسیع کی۔ اس کے بعد 1956 کے آئین کے تحت ہونے والے انتخابات بھی ملتوی کردیئے گئے اور چند ماہ بعد ہی اکتوبر 1958 کو ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کردیا۔

پاکستان میں سیاسی ہیرا پھیری کی ایک خوبصورت مثال جناب قدرت اللہ شہاب نے اپنی مشہور کتاب ’شہاب نامہ‘ میں بیان کی ہے۔ ’’اسکندر مرزا صاحب کو گورنر جنرل بنے تین روز ہوے تھے کہ شام پانچ بجے مجھے گھر پر مسٹر سہروردی کا فون آیا۔ پرائم منسٹر کے طور پر میرا حلف لینے کے لئے کون سی تاریخ مقرر ہوئی ہے۔ یہ سوال سن کر مجھے تعجب ہوا اور یہی بات جب میں نے ان سے کہی تو بہت غصہ ہوئے کہ تم کس طرح کے سیکریٹری ہو، فیصلہ ہوچکا ہے ، تفصیلات کا انتظار ہے، جائو گورنر جنرل سے معلوم کرو‘‘۔

شہاب صاحب آگے جاکر لکھتے ہیں ’’میں اسکندر مرزا صاحب کے پاس گیا۔ وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ برج کھیل رہے تھے۔ موقع پاکر میں انہیں کمرے میں لے گیا اور انہیں سہروردی والی بات بتائی تو وہ خوب ہنسے اور اندر جاکر اپنے ساتھیوں سے کہا وہ حلف لینے کا وقت مانگ رہا ہے۔ اس پر سب نے پتے میز پر زور سے مارے اور قہقہے بلند کیے، کچھ دیر بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اسے بتادو کہ حلف برداری کی رسم پرسوں سے اور چوہدری محمد علی وزیراعظم کا حلف لے رہے ہیں‘‘۔

چوہدری صاحب نے 11؍اگست 1955 کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور دو ماہ بعد ہی ’ون یونٹ‘ کا قیام عمل میں آیا اور گو کہ انہوں نے پہلی بار اپنی کابینہ میں چند ماہ پہلے تک ’غدار‘ کہلانے والے ’شیر بنگال‘ مولوی فضل الحق کو وزیر بنایا مگر ون یونٹ نے پاکستان کے پہلے ہی سے کمزور نظام کا حلیہ بگاڑ دیا جس کے خلاف مشرقی پاکستان سے لے کر سندھ تک بھرپور سیاسی مزاحمتی تحریک چلی اور 1970 میں ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور آئین کی غیر موجودگی میں ایک لیگل فریم ورک آڈر کے تحت الیکشن کرائے گئے جو پہلی بار ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر ہوئے۔ گو کہ چوہدری محمد علی کا ایک کارنامہ1956 کے آئین کو کہا جاتا ہے مگر ون یونٹ کے قیام نے خلیج پیدا کردی تھی،یہی وجہ ہے کہ مولانا بھاشانی سے لے کر سہروردی تک سب نے اس آئین کو متنازع کہا اور اس کے خلاف تحریک چلی۔

سیاست کے اسی گورکھ دھندے میں 13 ماہ بعد ہی چوہدری محمد علی وزارت عظمیٰ کے عہد ےسے مستعفی ہوگئے۔ اس کے بعد مزیدتین حکومتیں مرکز میں اقتدار میں آئیں۔

جس طرح 1958 کے مارشل لا کا کوئی جواز نہیں تھا مگر کیا کریں ’اقتدار کی لذت‘ ہی کچھ ایسی ہوتی ہے۔ حاضر سروس چیف وزیر دفاع بھی رہے پھر مارشل لا لگاکر فیلڈ مارشل بھی بن گئے۔ 1968 میں اپنے ہی بنائے ہوئے 1960 کے آئین کو توڑ کر اقتدار اسپیکر قومی اسمبلی کو دینے کے بجائے اس وقت کے آرمی چیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو دے دیا۔

1970 کو ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تو مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کو بے مثال کامیابی ملی ،گو کہ مغربی پاکستان سے اسے کوئی نشست نہیں ملی امیدوار بھی برائے نام ہی تھے مگر اقتدار ملنا اس کا حق تھا۔ ایک بار پھر ’محلاتی سازشوں‘ کے ذریعے اقتدار منتخب جماعت کو دینے کے بجائے ملک کو توڑنا مناسب سمجھا گیا۔ جس طرح 1954 میں ’جگتو فرنٹ‘ کی جیت کو دل سے تسلیم نہیں کیا گیا اسی طرح 1970 میں عوامی لیگ کے ساتھ کیا گیا۔ اس وقت 26 نکات تھے جن میں 70 کے الیکشن میں چھ رہے گئے اور پھر اکثریت نے اقلیت سے الگ ہوکر ایک نیا دیش بنگلہ دیش بنا ڈالا۔

یہ نتیجہ تھا اس سیاسی ہیرا پھیری کا جس کا آغاز قائداعظم کی وفات کے فوراً بعد ہی شروع ہوگیا تھا۔ پڑوسی ملک بھارت میں جس طرح کانگریس برقرار رہی، بنیادی اصلاحات کیں جاگیرداری نظام ختم کیا مسلم لیگ تاش کے 52 پتوں کی طرح 52 جماعتوں میں تقسیم ہوگئی مفادات اور نظریات میں تقسیم ہوگئی۔ قیام پاکستان کے پہلے 24 سال میں ہی دو مارشل لا لگ گئے اور آدھا ملک ہی گنوابیٹھے۔ اب الزامات لگاتے رہیں۔ جو سویلین ادوار رہے اس دوران اس کے دو بھیانک کردار فالج زدہ گورنر جنرل غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے لوگ رہے۔

سویلین حکومتوں اور حکمرانوں کی ایک سب سے بڑی ناکامی اختیارات کو نچلی سطح تک نہ لے جانا رہی۔ آئین ساز اور قانون ساز اداروں یا اسمبلیوں کا کام آئین سازی اور قانون سازی ہوتی ہے باقی کام بلدیاتی اداروں کے ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے یہاں اراکین اسمبلی وہ اختیارات نچلی سطح تک دینے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے تھے، بلکہ رکاوٹ بنے رہے۔ دوسری طرف آمریت نے بلدیاتی الیکشن کروائے ضرور مگر چونکہ نیت میں فتور تھا اس لئے انہوں نے بھی ادارے نہیں بنائے بس ان فورم کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔

آج پاکستان میں قدرتی آفات زلزلہ، سیلاب، طوفان، سونامی حد تو یہ ہے کہ اگر تیز بارشیں بھی ہوجائیں تو اس کی نہ کوئی تیاری ہوتی ہے نہ انتظام جس کی بڑی مثال ہر سال مون سون میں بارشیں ہیں۔ نہ ہم نے پانی محفوظ کرنے کے لئے ڈیم بنانے نہ ہی مضبوط بلدیاتی ادارے۔ اس میں جمہوری اور آمرانہ ادوار دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔

البتہ یہ کریڈٹ سویلین حکمرانوں کو جاتا ہے کہ انہوں نے ملک کو آئین بھی دیا اور قانون سازی بھی کی۔ 18ویں ترمیم یا چارٹر آف ڈیموکریسی دونوں پر ہی اگر عمل درآمد ہوجاتا تو ایک بہتر کی امید تھی۔ ان دستاویزات میں واضح طور پر لکھا ہے اختیارات کو بلدیاتی اداروں تک لے جانے کے حوالے سے مگر سیاست دانوں اور اراکین اسمبلی نے صرف اس وجہ سے ان کو دینے سے انکار کردیا کیونکہ پھر ’ترقیاتی فنڈ‘ ختم ہوجاتے۔

لہٰذا اگر آمریت نے آئین اور قانون کو توڑ کر اس ملک کا حلیہ بگاڑ دیا تو سویلین حکمرانوں نے جمہوریت کی سب سےبڑی نرسری ’بلدیاتی نظام‘ کو پروان چڑھنے ہی نہیں دیا اس تمام پس منظر میں جائزہ لیتے ہیں سویلین حکومتوں کی کارکردگی کا۔

ایک بات ان تمام سویلین ادوار میں مشترکہ نظر آتی ہے اور وہ ’خراب گورننس‘ اور اداروں کو مضبوط کرنا۔ رہ گئی بات کرپشن اور احتساب کی تو اس کو بھی ’سیاسی مقاصد اور مفادات‘ کے لیے زیادہ استعمال کیا گیا اور آج تک کوئی مضبوط اور طاقتور ادارہ نہیں بنایا گیا لہٰذا کرپشن اوپر سے نیچے تک پھیل چکی ہے دیمک کی طرح اور ایک ادارہ بھی قابل اعتبار نہیں۔ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں، ذیل میں چند ادوار کے سویلین حکم رانوں کے کاموں اور غلطیوں کا مختصر جائزہ ملاحظہ کریں۔

بھٹو کا دور (سے1972 1977)

پاکستان کے تمام سویلین ادوار میں یہ دور سب سے زیادہ سیاسی ہلچل کا دور رہا۔ بہت سے مثبت اور منفی اقدامات لئے گئے۔ پہلے چند ماہ میں ہی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کرنے کی سازش پکڑی گئی جن آرمی اور ایئرفورس کے کچھ افسران شامل تھے جن کو کورٹ مارشل کرکے سزا دی گئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کورٹ مارشل کے سربراہ اس وقت کے بریگیڈیئر ضیاء الحق تھے جو بعد میں جنرل ضیاء الحق بنے اور سات جنرلوں پر فوقیت دے کر آرمی چیف ہوئے۔ پھر انہوں نے ہی 5؍جولائی 1977 کو ان کی حکومت کا خاتمہ کیا اور ملک میں 11 سال حکومت کی۔ 

بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا پُرکشش نعرہ دیا۔ اس کے یے پہلی بار لیبر اور مڈل کلاس کو مڈل ایسٹ میں نوکری ملنا شروع ہوئیں جس کے لیے پاسپورٹ کا حصول آسان بنایا گیا۔ کئی لاکھ افراد کو نوکریاں ملیں۔ اس دور کے ا یک سال کے اندر اندر پہلے عبوری آئین نافذ ہوا پھر 14؍اگست 1973 کو پاکستان کی تاریخ کا پہلا متفقہ آئین نافذ ہوا جس پر دو اراکین کے سوا تمام سیاسی اکابرین بشمول بھٹو کے سخت ترین مخالفین کے دستخط ہیں۔ (آئندہ سال ہم اس آئین کی گولڈن جوبلی منائیں گے۔) بدقسمتی سے خود بھٹو صاحب نے دوسرے دن ہی اس آئین کے تحت دیئے گئے بنیادی حقوق معطل کردیئے اور اپنے ادوار میں اپنے سیاسی مخالفین اور پریس کے خلاف اقدامات کیے جس کی ان کو ضرورت نہیں تھی۔ اس میں سب سے بڑی غلطی بلوچستان میں بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کا خاتمہ تھا جس پر JUI-NAP کی خیبرپختونخواہ کی حکومت نے احتجاج کے طور پر استعفیٰ دے دیا۔

بعد میں بلوچستان میں فوج کشی نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی اور یوں نہ صرف بھٹو خود سیاسی طور پر کمزور ہوگئے بلکہ ملک سیاسی عدم استحکام کی طرف چلا گیا۔ خود ان کی اپنی جماعت کے کئی روشن خیال لوگ الگ ہوگئے اور جیل گئے، جن میں نمایاں نام جے ایم رحیم اور معراج محمد خان کا ہے۔

بھٹو دور میں بڑی انڈسٹری اور تعلیمی اداروں کو قومیائے جانے کی پالیسی بھی متنازع رہی۔ کہتے ہیں چین کے دورے میں اس وقت کے سربراہ چواین لائی نے انہیں مشورہ دیا تھاکہ ابھی جلد بازی نہ کریں، کیونکہ اس وقت نہ تعلیم کے شعبہ میں نہ انڈسٹری کے لئے حکومت کے پاس وہ کیڈر موجود تھا،البتہ تعلیم اور صحت کو ریاست کی ذمہ داری تسلیم کرنا خود ایک بڑا اقدام تھا۔ مگر نجی شعبہ نے اسے قبول نہیں کیا اور تعلیم، صحت کا معیار گرنے لگا۔ بدقسمتی یہ کہ جب یہ واپس نجی شعبوں کو دیا گیا تو تعلیم اور صحت عام آدمی کی پہنچ سے ہی دور ہوگئی جبکہ کاروباری طبقہ سیاست میں آگیا پہلے ان کاروباری اور بزنس مینوں نے 1977 میں بھٹو مخالف تحریک کی مالی امداد کی پھر خود سیاست میں آگئے۔

اس دور کے بڑے کارناموں میں پاکستان اسٹیل اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کا قیام، ملک میں زرعی اصلاحات، نیشنل بک فائونڈیشن کا قیام، فلم انڈسٹری کا فروغ اور سب سے بڑھ کر سیاست کو ڈرائنگ روم سے نکال کر سڑکوں پر لانا اور عام آدمی کو زبان دینا۔ پاکستان کے معاشی حب کراچی میں جو بنیادی کام اس دور میں ہوئے بعد میں بہت کم نظر آئے ہیں مگر بدقسمتی سے سندھ میں سندھی لینگویج بل اور کوٹہ سسٹم نے لسانی فسادات کو جنم دیا گو کہ جلد ہی بھٹو صاحب نے اردو بولنے والے ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ ایک معاہدہ بھی کیا احساس محرومی دور کرنے کے لئے مگر جو خلیج بڑھ گئی اس کو بعد میں آنے والے حکمرانوں اور جماعتوں نے اپنے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔

1973 کے آئین کی طرح اس وقت کے بھٹو مخالفین نے یہ تسلیم کیا ،خاص طور پر مذہبی جماعتوں نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا اور پہلا ایٹمی پروگرام شروع کروانا بھٹو کے بڑے کارناموں میں یاد رکھا جاتا ہے۔

بھٹو کا ایک اور بڑا کارنامہ ملک کو آزاد اور خودمختار خارجہ پالیسی، جس کا اعتراف اس کے سخت ترین مخالفین بھی کرتے ہیں۔ آج عمران خان بھی اگر کسی دور کی خارجہ پالیسی کو آزاد کہتے ہیں تو وہ اس دور کی اور بھٹو کی بہادری کے معترف بھی نظر آتے ہیں۔

اس دور میں نہ صرف یہ کہ پاکستان امریکی سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدوں سے باہر آیا بلکہ غیرجانبدار تحریک کا حصہ بنا۔ کمیونسٹ روس اور سوشلسٹ چین کے قریب آیا تو دوسری طرف بھٹو کو اس وقت کے ’اسلامی بلاک‘ کا معمار سمجھا جاتا ہے جس کی سب سے بڑی مثال 1974 میں لاہور کی اسلامی سربراہ کانفرنس سے جس نے پہلی بار PLO کو نمائندوں جماعت تسلیم کیا۔ کون تھا جو اس کانفرنس میں نہیں آیا۔ اس کے مالی اخراجات سعودی عرب کے شاہ فیصل نے شیئر کیے۔ 

وہ یقینی طور پر تیسری دنیا، غیر جانبدار تحریک اور اسلامی دنیا کے ایک بڑی لیڈر کے طور پر اُبھرا اور یہی بات امریکہ کے لیے خطرہ کی گھنٹی تھی۔ امریکہ کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اسلام آباد میں بھٹو سے ایک ملاقات میں باقاعدہ دھمکی دی کہ اسے اور پاکستان کو نشانہ عبرت بنادیا جائے گا اگر پاکستان نے اپنا ایٹمی پروگرام ترک نہیں کیا۔ ایک امریکی سفارت کار سے میں نے کئی سال بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ پوچھا تو اس نے اس کی تصدیق کی تھی، بلکہ یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ پاکستان میں پچاس کی دہائی میں بائیں بازو کے خلاف ایکشن کو بھی امریکہ نے حمایت کی تھی۔

غرض یہ کہ بھٹو کے اندر ایک انقلابی بھی تھا اور ایک جاگیردار بھی اگر وہ اپنے اندر کے جاگیردار کو مارنے میں کامیاب ہوجاتے،تو وہ 1973 کے آئین، بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ اور کئی اقدامات میں اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے ،ذہانت میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ بعد میں وہ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کمزور ہوگئے تو دوسری طرف پارٹی کے جاگیرداروں کے نرغے میں آگئے جو ان کے زوال کا باعث بنا۔ 

ایک سال پہلے قبل از وقت الیکشن اور زرعی اصلاحات پر مکمل عمل نہ کرنا اور دائیں بازو کی طرف جھکائو نے بھٹو صاحب کو سیاسی طور پر نقصان پہنچایا کیونکہ آگے جاکر انہی جاگیرداروں اور مفاد پرست ٹولے نے نہ صرف ان کا مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ ا، بلکہ مارشل لا کے بعد جنرل ضیاء سے سازباز کرکے تختہ دار تک پہنچا دیا۔

بھٹو کی چار سالہ کارکردگی پر دو رائے ہوسکتی ہیں، مگر بقول شیخ رشید احمد جو اس کے سخت ناقدوں میں سے ہیں، ’’اس پر یہ الزام لگ سکتا ہے سوائے کرپشن کے۔ کاش پی پی پی کی آنے والی قیادت اسی سے سبق سیکھ لیتی‘‘۔

محمد خان جونیجو

1983 میں تحریک بحالی جمہوریت، ایم آر ڈی کی تحریک بھٹو کی پھانسی کے بعد پہلا بڑا احتجاج تھا ،جس کا قدرتی اثر سندھ میں زیادہ نظر آیا اور کئی سو لوگ فوج اور قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ تصادم میں ہلاک ہوئے، گو کہ یہ تحریک جنرل ضیاء کی حکومت کا خاتمہ نہ نہ کر پائی مگر اسے کمزور بہت کردیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے 1984 میں ضیاء نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے اپنی نویت کا منفرد ’ریفرنڈم‘ کرایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اگر آپ ملک میں اسلامی نظام چاہتے ہیں تو ہاں کی صورت میں وہ پانچ سال کے لئے صدر منتخب قرار۔ لوگوں نے ضیاء کی اس چال کو مسترد کردیا اور اکثریت نے ووٹ نہیں دیئے پھر بھی دو فیصد ووٹ کو 95 فیصد قرار دیا گیا۔

بات نہیں بنی تو 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کا اعلان ہوا، مقصد پی پی پی کی قیادت کو الیکشن سے باہر رکھنا تھا۔ ایم آر ڈی نے الیکشن کا بائیکاٹ کا غلط فیصلہ کیا کیونکہ اس سے پہلے اپوزیشن 1979 اور 1983 کے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں حصہ لے چکی تھی اور اسے کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔ بے نظیر بھٹو جو جلاوطن تھیں آخر وقتوں تک اس فیصلے پر تنقید کرتی تھیں۔بہرحال جنرل ضیاء دباؤ میں تھے، لہٰذا انہوں نے سندھ سے ہی ایک غیر معروف سیاسی شخصیت محمد خان جونیجو کو وزیراعظم کے لئے نامزد کیا اور اراکین اسمبلی کو اجازت دی کہ وہ اپنی سیاسی جماعت بناسکتے ہیں، یوں ایک اور مسلم لیگ بن گئی۔ 

جونیجو نے اپنی پہلی تقریر میں ہی ضیاء کو الرٹ کردیا جب انہوں نے اعلان کیا کہ ’’جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔‘‘ اس وقت جنرل مجیب سیکریٹری اطلاعات تھے انہوں نے وزیراعظم کی قومی اسمبلی میں پہلی تقریر کا یہ حصہ ’سینسر‘ کردیا۔ شام کو جب جونیجو صاحب کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے ان کو بلایا اور وضاحت طلب کی۔ انہوں نے تسلیم کرنے کے ساتھ وضاحت کی کہ وہ سمجھتے تھے کہ صدر صاحب ناراض ہوجاتے، اسی رات ان کا تبادلہ کردیا گیا اور یوں انہوں نے افسران کو ایک سخت پیغام دیا۔

مدت ملازمت تو ان کی تقریباً دو یا ڈھائی سال رہی 1985 سے 1988 اور زیادہ اختیارات صدر کے پاس ہی رہے مگر کفایت شعاری کی جو مثال جونیجو نے قائم کی وہ اس سے پہلے یا بعد میں آنے والا کوئی حکمران قائم نہیں کرسکا۔ اس نے پہلی بار تمام وزیروں، سرکاری افسران یہاں تک کہ جنرلوں کے حوالے سے حکم جاری کیا کہ سب 800 سی سی کی گاڑیوں میں سفر کریں گے۔ اس فیصلے سے ضیاء صاحب ناراض ہوئے حالانکہ انہوں نے خود ایک سائیکل پر سفر کیا تھا مگر وہ جونیجو کا فیصلہ تھا۔

سویلین حکمرانی کے اس دور میں پہلی بار شہری آزادیوں، پریس کی آزادی اور جلاوطن سیاسی رہنمائوں کو واپس آنے کے حوالے سے بھی مثبت پیغامات دیئے جس نے بے نظیر بھٹو کی واپسی کی راہ ہموار کی۔ بین الاقوامی حالات خاص طور پر افغانستان میں روس کی واپسی کے حوالے سے جب جینوا میں مذاکرات شروع ہوئے اور معاہدہ طے پایا تو جانے سے پہلے جونیجو نے تمام سیاسی اکابرین بشمول بے نظیر بھٹو اور ولی خان کو اعتماد میں لیا۔ یہ ویسا ہی فیصلہ تھا جس طرح بھٹو نے شملہ جانے سے پہلے قومی اسمبلی کو اعتماد میں لیا تھا۔ یہ بات بھی جنرل ضیاء اور اس وقت کے ISI چیف جنرل حمید گل کو پسند نہ آئی۔

اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی جونیجو سے ’اوجڑ ی کیمپ‘ کے واقعہ میں جس میں کئی سو لوگ اسلام آباد اور پنڈی میں مارے گئے تھے اعلیٰ سطح کی تحقیقات پر ناراض تھی ان کے جینوا جانے اور ریکارڈ کے خلاف تھی۔ اس لئے جب انہوں نے انکار کیا اور سیاسی اکابرین کو اعتماد میں لے کر گئے تو ان کوہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ۔28؍مئی 1988 کو جب وہ غیر ملکی دورہ سے واپس پہنچے تو ان کی حکومت کو صدر نے 58-2(B) کے تحت برطرف کردیا۔ جنرل ضیاء الحق یہ ترمیم لائے ہی اسی وجہ سے تھے۔ بعد میں اس ترمیم کا شکار بے نظیر بھٹو کی دونوں حکومتیں اور نوازشریف کی ایک حکومت ہوئی۔

بے نظیر بھٹو

(1988 سے 1990 اور 1993 سے 1996)

سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پاکستان کے ان چند صف اول کے سیاست دانوں اور سویلین حکمرانوں میں سے ہیں جنہیں ’گیٹ نمبر‘ کی پیدوار نہیں کہا جاسکتا بلکہ سب سے مشکل وقت اور تاریخی جدوجہد کی بدترین آمریت کے خلاف جس میں کچھ ایسے واقعات بھی ہیں جو نہ بیان کیسے جاسکتے ہیں نہ قابل اشاعت ہیں، انہیں حکمرانی کرنے ہی نہیں دی گئی۔ جب وہ 1986 میں واپس آئیں اور لاکھوں افراد نے استقبال کیا تو اسی وقت طاقتور اداروں نے ان کو روکنے کا فیصلہ کرلیا تھا جس کی بڑی واضح مثال 1988 کے انتخابات سے پہلے ISI کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کی سرپرستی میں اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) کا قیام ہے جس کا اعتراف انہوں نے خود بھی کیا اور میرے ساتھ ایک انٹرویو میں بھی ،یہاں تک کہا ’’بے نظیر کے بے مثال استقبال سے فوج کے اندر ان خدشات نے جنم لیا کہ وہ اپنے والد کا بدلہ لے سکتی ہیں لہٰذا اس مسئلے سے کیسے نمٹا جائے۔ البتہ جب میں ان سے ذاتی طور پر ملا تو میں نے ان کو ایک محب وطن اور سچا پاکستانی پایا‘‘۔

بے نظیر شائد 1988 میں ایک کمزور حکومت بنانے جہاں انہیں غلام اسحاق خان کو صدر منتخب کروانے کی شرط کے ساتھ اقتدار دیا گیا ہو، بہتر تھا وہ اپوزیشن میں بیٹھ کر دبائو ڈالتیں۔ نواب زدہ نصراللہ خان کے بجائے غلام اسحاق کو ووٹ ڈلوائے گئے۔

بات یہیں تک رہتی تب بھی غنیمت تھی مگر چند ماہ بعد ہی عدم اعتماد کی تحریک آگئی۔ اس کو کامیاب بنانے کے لیے سب سے زیادہ سرگرم غلام اسحاق، جنرل اسلم بیگ تھے جو اس وقت میاں نوازشریف کو وزیراعظم بنانے کے خواہش مند تھے۔ 1988 کے الیکشن کے بعد پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد ایک قابل ذکر اور قابل عمل معاہدہ ہوا۔ معاملات بہتر انداز میں آگے بڑھ رہے تھے۔ پی پی پی نے دو تہائی اکثریت کے باوجود ایم کیو ایم کو ساتھ ملایا مگر یہ اتحاد پنڈی اور اسلام آباد کے اصل حکمرانوں کو پسند نہیں آیا۔ 

لہٰذا اس وقت بانی متحدہ پر دبائو ڈال کر نوازشریف سے خفیہ معاہدہ کروایا گیا ،جس کے لئے کلفٹن کے ایک گھر میں خفیہ ملاقات ہوئی جس میں اس وقت کے ’نیوٹرل‘ بھی موجود تھے۔ اس سب کے باوجود عدم اعتماد دو ووٹوں سے ناکام ہوگئی اور بعد میں سب سے زیادہ نقصان ایم کیو ایم کا ہوا۔ پھر انہیں ’امن و امان‘ خراب کرنے کی ذمہ داری دی گئی اور اس کو بہانہ بناکر 6؍اگست 1990 کو حکومت برطرف کردی گئی۔

اس دوران بھی دو بڑے کام ہوئے ۔ایک پہلا وومن بینک کا قیام دوسرا وومن پولیس اسٹیشن۔ اس کا واحد مقصد خواتین کے لئے نوکری کے ذرائع اور تحفظ کے اقدامات تھے۔مہران بینک یا اصغر خان کیس نے ثابت کیا کہ 1990 میں حکومت کے خاتمہ اور پھر نوازشریف کو وزیراعظم بنانے میں کس کا ہاتھ تھا۔

بے نظیر کا دوسرا دور (1993-96)

یہ دور بھی پچھلے دور کی طرح زیادہ نہ چل سکا۔ جب حکومت ملی تو سندھ میں پہلے سے ہی فوجی آپریشن چل رہا تھا ۔19؍جون 1992 کو کراچی میں ایم کیو ایم کے مبینہ دہشت گردوں کو پکڑا جارہا تھا مگر ساتھ میں ایک گروپ (حقیقی) کو کھڑا کردیا گیا۔ پی پی پی اور ایم کیو ایم میں اعتماد کی فضا پہلے ہی ختم ہوچکی تھی۔ رہی سہی کثر اس دور میں پوری ہوگئی۔ فوج نے آپریشن کی ذمہ داری رینجرز اور پولیس کو دے دی، بعد میں 1995 میں اس وقت کے وزیر داخلہ نصیراللہ بابر نے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا کہ چونکہ ان دہشت گردوں کو عدالتوں سے سزا دلوانا ناممکن ہے لہٰذا ان کو سزا ماورائے عدالت ہی دی جائے۔ 

اس وقت کے IG سندھ جناب افضل شگری نے اس کی سخت مخالفت کی کہ اس طرح پولیس کو کھلا اختیار دینا خطرناک ہوگا۔ جب بات نہیں مانی گئی تو انہوں نے اپنا ٹرانسفر کروالیا۔ اس آپریشن میں کئی سو لوگ مارے گئے ،جن میں مبینہ دہشت گرد بھی تھے اور سیاسی کارکن بھی۔ اس آپریشن کا اختتام بدقسمتی سے 20؍ستمبر 1996 کو خود وزیراعظم کے بھائی میرمرتضی بھٹو کے ماورائے عدالت قتل سے ہوا۔

کچھ عرصہ بعد امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو بہانہ بناکر پی پی پی کے نامزد صدر جناب فاروق لغاری نے حکومت برطرف کردی۔ لغاری صاحب اور آصف علی زرداری کے درمیان تعلقات میں پہلے ہی کشیدگی آگئی تھی۔پاکستان کا میزائل پروگرام شروع کرنے والی بے نظیر نے جب بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانےکی کوشش کی تو الزام لگا کہ انہوں نے راجیو گاندھی کو ’سکھوں کی لسٹ‘ دی ہے اور یہ الزام وزیر داخلہ اعتراض احسن پر لگایا گیا جس کی تردید وہ آج تک کرتے ہیں۔

27؍دسمبر 2007 کو جب شائد بے نظیر تیسری بار وزیراعظم بننے جارہی تھیں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک منظم خودکش حملے میں تاریخی لیاقت باغ میں شہید کردی گئیں۔

بے نظیر بھٹو کے دو ادوار آزادی صحافت کے حوالے سے بھی یاد رکھے جائیں گے۔ ان میں اپنے والد کے مقابلے میں برداشت تھی وگرنہ جو مہم ان کی ذات کے حوالے سے چلائی ، وہ قابل افسوس ہی نہیں قابل مذمت بھی ہے۔ پہلے دور میں پہلی بار PTV اور ریڈیو پاکستان سے اپوزیشن کی سرگرمیوں کی کوریج کی اجازت دی گئی۔، تاہم دوسرے دور میں 1996 میں کراچی کے چھ شام کے اخبارات پر پابندی لگائی گئی مگر صحافی تنظیموں اور مدیر مالکان کی مزاحمت کی وجہ سے چند دنوں بعد واپس لے لی۔

بے نظیر بھٹو کے دور میں شائد ان کی بڑی سیاسی غلطی اپنے شوہر آصف علی زرداری کو سیاسی رول دینا تھی اور 1989 کے بعد وہ تنقید کا خاص نشانہ بنے اور مسٹر ’ٹین پرسنٹ‘ کے طور پر اپوزیشن اور میڈیا کا حدف رہے۔ ان پر ان سالوں میں سنگین نویت کے الزامات بھی لگے، جن میں اغوا اور قتل کے الزامات بھی شامل ہیں۔ یہ ایسے بھی نہیں کہ سب کو رد کیا جاسکے مگر آخری فیصلہ تو بہرحال عدالتوں نے کرنا ہوتا ہے مگر ہمارا نظام عدل ’نظریہ ضرورت‘ پر چلتا ہے۔

میاں محمد نواز شریف

تین ادوار (1990 سے 1993، 1997 سے 1999 اور 2013 سے 2016)

نواز شریف پاکستان کی سیاست میں آئے نہیں لائے گئے۔ وہ شائد حکمرانی کے حوالے سے سب سے زیادہ برسرے اقتدار رہے ،بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب 1985 میں پھر وزیراعظم اور 1997 میں تو ان کے پاس دوتہائی اکثریت تھی مگر ان کے تینوں ادوار تنازعات کا شکار رہے ،خاص طور پر فوج اور عدلیہ سے ورنہ شائد ان کی حکمرانی کو کوئی خطرہ نہ ہوتا۔ دوسرے دور حکومت میں ان کے پاس بڑے مواقع تھے مگر انہوں نے 58-2(B) ختم کرواکر آنے والی حکومتوں کو بھی اس دبائو سے نکالا۔ 

تاہم جنرل جہانگیر کرامت ، چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور صدر فاروق لغاری کے معاملے پر غیر ضروری اور جلد بازی میں فیصلوں نے اسٹیبلشمنٹ کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا اور پھر ان کو اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی تاہم انہیں بھی آصف زرداری کی طرح سنگین کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا جس کی بڑی وجہ شریفوں کا بنیادی فیصلہ تھا کہ اقتدار خاندان کے اندر ہی رہے ورنہ شائد اگر صرف یہ دو بھائی ہی رہتے تو غنیمت تھا۔

البتہ موٹروے اور میٹرو بس دو ایسی اسکیمیں رہیں جن کا فائدہ نہ صرف عوام کو ہوا بلکہ انڈسٹری کو بھی ہوا کیونکہ روڈ اور ٹرانسپورٹ ترقی کے لئے انتہائی ضروری ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آنے والے حکمرانوں نے ان پروجیکٹس کو بند نہیں کیا بلکہ وسعت دی اور آج ملک کا بڑا حصہ موٹروے کے ذریعے جڑ گیا ہے۔ اگر اتنی ہی توجہ ریلوے کو بہتر بنانے پر دی جاتی تو عوام کو بڑی سہولتیں میسر آتیں۔

میاں صاحب کے دور میں بھارت کے ساتھ تعلقات آگے بڑھے بعد میں ان پر اسی حوالے سے سنگین الزامات بھی لگے، حالانکہ انہوں نے بھی بھارت کے ساتھ تجارت کی بات کی، کھیلوں کے فروغ اور مسئلہ کشمیر کو بات چیت سے حل کرنے میں پیش رفت بھی ہوئی۔ یہ بات بعد میں خود جنرل پرویز مشرف نے بھی کی آگرہ میں مگر میاں صاحب کو معافی نہ ملی۔ 

جلد بازی میں وہ غلط سے غلط فیصلے کرتے گئے اور 12؍اکتوبر 1999 کو ان کی دو تہائی اکثریت منٹوں میں ختم کردی گئی۔ اس کا سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ نہ مارشل لا لگا نہ ایمرجنسی لگی بس آرمی چیف کی تبدیلی کا فیصلہ قبول نہیں کیا گیا۔ چند فوجی افسران وزیراعظم ہائوس گئے اور ’کان پکڑ‘ کر باہر کردیا۔ اس کو بھی 2001 میں ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت تحفظ مل گیا۔

میاں صاحب کا تیسرا دور 2013 میں شروع ہوا۔ اس دور میں ان کی سب سے بڑی غلطی غیر ضروری طور پر عمران خان سے محاذ آرائی تھی جس میں خیر خود خان صاحب بھی ذمہ دار ہیں۔ اب اگر انہوں نے چار حلقے کھولنے کی بات کی تھی اور میاں صاحب بات مان جاتے، خود وہاں اپنے لوگوں سے استعفی دلواکر الیکشن کروا دیتے تو شائد مسلم لیگ وہ جیت جاتی۔ پورا ایک سال دھرنے کی نظر ہوگیا بعد میں خود میاں صاحب ’پانامہ پیپرز‘ کی نظر ہوگئے اور نہ صرف نااہل قرار پائے بلکہ مجرم بھی اور اب وہ اپنی سزا لندن میں کاٹ رہے ہیں۔

آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف یہ ہے پی پی پی کا مکمل دور

(2008 سے 2013) تک

اس دور میں طاقت کا سرچشمہ ایوان صدر زیادہ رہا ،حالانکہ زداری صاحب نے صدر کے تمام اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کردیئے۔ تاہم ان کی بڑی غلطی میثاق جمہوریت اور بوربن معاہدہ پر عمل درآمد نہ کرنا تھا جس سے اچھی خاصی سیاسی فضا خراب ہوئی۔ اگر 2007 کی ججز کی تحریک کے مطابق سابق چیف جسٹس بحال کردیئے جاتے تو اپنے پہلے ہی سال مسلم لیگ (ن) کابینہ سے نہ نکلتی، پنجاب میں گورنر راج نہ لگتا اور پھر لانگ مارچ نہ ہوتا آخر میں بحال کرنے پڑے وہ بھی آرمی چیف جنرل کیانی کی گارنٹی پر۔ اس سے پی پی پی کی ساکھ کو نقصان ہوا۔

زرداری صاحب اور ان کی ٹیم کو پورے پانچ سال ملے اچھی آئینی اور قانون سازی بھی ہوئی اور تمام چاروں صوبائی حکومتیں چلتی بھی رہیں مگر کوئی ایک بھی مستحکم ادارہ نہ بن سکا۔ گورننس کی اچھی مثالیں قائم نہ ہوسکیں اور پھر ایک خط سوئس حکومت کو نہ لکھنے پر یوسف رضا گیلانی نااہل قرار پائے۔ کراچی میں امن و امان خراب رہا۔ ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بنے مگر ان پر اور گیلانی صاحب پر بھی کرپشن کے الزامات لگے۔

تاہم پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بارصدر اور حکومت نے پورے پانچ سال پورےکئے اور پرامن طریقہ سے اقتدار منتقل ہوا۔زرداری صاحب کے دور میں پہلی بار صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرکے خیبرپختونخواہ رکھا گیا۔ بلوچستان کو بڑا پیکیج ملا مگر ماضی کی طرح کرپشن کے گرداب کے گرد ان کی حکومت پھنسی رہی۔ تاہم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایک کامیاب پروگرام رہا جسے بعد میں آنے والوں نے مختلف ناموں سے آگے بڑھایا۔

عمران خان کا دور (2018 سے 2022)

کرکٹ کی دنیا کے سپر اسٹار عمران خان نے اپنی سیاست کا آغاز 1996 میں کیا۔ شروع میں لوگ صرف انہیں دیکھنے جاتے تھے ورلڈ کپ 1992 کے ہیرو کے طور پر۔ 1997 میں الیکشن کا اعلان ہوا تو پہلی بار پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن میں حصہ لیا اور کراچی سمیت ملک بھر میں ہونے والی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1999 میں جنرل مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو عمران نے 2002 تک ان کی حمایت کی اس غلط فہمی میں کہ وہ نوازشریف اور بے نظیر، آصف زرداری کا احتساب کریں گے انہوں نے ان دونوں کو الیکشن سے باہر بھی رکھا اور ملک سے باہر بھی، مگر خان صاحب کا خیال تھا کہ مشرف صاحب ان پر اور ان کی جماعت پر ہاتھ رکھیں گے، تاہم اس وقت انہیں سخت مایوسی ہوئی جب وہ پارٹی سیکریٹری جنرل کے کمارا مشرف سے ملنے گئے تو وہاں گجرات کے چوہدری بیٹھے ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی کے بجائے مسلم لیگ (ق) کو بی ٹیم بنادیا گیا۔ بقول معراج محمد خان جو سیکریٹری جنرل تھے ’’میں عمران کو منع کررہا تھا مشرف سے اتنا قریب نہ ہو، اب جب وہ ملاقات کر کے باہر نکلے تو سخت غصہ میں تھے کہ اس نے بھی چوروں اور ڈاکوئوں سے اتحاد کرلیا ہے‘‘۔

اب اسے آپ قدرت کی ستم ظریفی کہیں یا کیا 20 سال بعد عمران کے نامزد کردہ پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی ہیں ۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ اک دم نہیں ہوتا

عمران کی جدوجہد جاری رہی اور 2013 میں ان کی جماعت کو پہلی بڑی کامیابی KP میں حاصل ہوئی اور وہاں ان کی صوبائی حکومت آج تک قائم ہے اور اب بھی وہاں کی مضبوط ترین جماعت اور حکومت ہے۔2018 میں عمران خان پہلی بار ملک کے وزیراعظم بنے مگر پی پی پی اور مسلم لیگ کی حکومتوں کی طرح پانچ سال پورے نہ کرسکے اور 10؍اپریل 2022 کو عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں حکومت ختم کردی گئی اور اب وہ واپسی کی جدوجہد کررہے ہیں اور الیکشن میں کامیابی کے حوالے سے پُرامید ہیں خاص طور پر پنجاب میں بڑی تبدیلی کے بعد۔ان کے دور حکومت میں بہت سی مثبت اسکیمیں آئیں مثلاً احسا س پروگرام، ہیلتھ کارڈ، کسان کارڈ، روشن ڈیجٹل پاکستان، کورونا کا مقابلہ بھی احسن طریقے سے کیا مگر سب سے غلط فیصلہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طور پر ایک کمزور شخص عثمان بزدار جو الیکشن سے کچھ پہلے ہی پارٹی میں آیا تھا وزیراعلیٰ بنانا۔ 

دوسری بڑی غلطی KP کی طرح پنجاب اور ملک بھر میں پولیس ریفارم نہ کرنا۔ تیسری بڑی غلطی نشاندہی کے باوجود حکومت کے اندر سے آنے والے اسکینڈلز کو نہ روکنا بلکہ KP میں تو احتساب کمیشن ہی ختم کردیا۔ BRT ہو یا دوائوں کا اسکینڈل ہو یا گندم کا۔ اگر صرف خان صاحب نیب کو ایک بااختیار اور خودمختار ادارہ بنا جاتے اور سیاسی انتقال کے لئے استعمال نہ کرتے تو وہ شریفوں اور زرداری کو سزا دلوانے میں شائد کامیاب ہوجاتے۔

آخر میں خان صاحب نے وہی غلطی کی یا یوں کہیں کہ وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ سویلین وزیراعظم طاقتور ہوتا ہے۔ اکتوبر 2021 تک انہوں نے اپوزیشن کی ساری کوششوں کو ناکام بنادیا۔ مگر جو دراڑ ISI کے سابق چیف جنرل فیض حمید کے تبادلے کے تنازع پر پڑی وہ دوبارہ ’سول۔ملٹری‘ تعلقات کو ایک صفحہ پر نہ لاسکی۔ باقی آپ سب لوگ سمجھ دار ہیں۔75سال میں سویلین ادوار پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ، ممکن ہوہم نے بہت سے پہلو چھوڑ دیئے ہوں مگر اگر اس ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو اپنے اپنے دور کی غلطیوں سے سیکھنا پڑے گا۔ بدقسمتی سے بھٹو سے لے کر عمران خان تک کسی نے اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں کئے ورنہ شائد ہمیں کئی اچھے کارکن اور لیڈر ملتے اور شہریوں کو ہر بارش، زلزلے یا دیگر قدرتی آفات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف نہ دیکھنا پڑتا۔