• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ایک سوال بڑے تواتر سے پوچھا جاتا ہے: ہم ایک قوم کیوں نہیں بن سکے؟ یا ہم کبھی ایک قوم بن بھی سکیں گے؟ ٹیلی وژن چینلز کی بحث تکرار ہو، نجی محفلیں ہوں، دفتر ہوں، دانش گاہیں ہوں یا ہمارے مقتدر سیاسی و انتظامی ادارے،یہ سوال ہر جگہ صبح و شام زیر بحث رہتا ہے۔ شاید یہی ایک ایسا موضوع ہے جس پربے تکان گفتگو کرتے رہنے پر شاید پورے ملک میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم ایک قوم نہیں بن پائے ہیں اور ہم نے اسی کیفیت میں زندگی کے پچھتر سال بھی گزار دیے ہیں۔

ان پچھتر برسوں میں ملک دو لخت بھی ہوگیا لیکن اس کے باوجود ہم اس سوال کا جواب تلاش نہیں کرسکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کے ایک قوم بننے کی راہ میں حائل دشواریاں کوئی ایسا سربستہ راز نہیں ہیں جس تک رسائی نہ ہوسکے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم اس سمت میں سوچ بچار نہیں کرنا چاہتے، ہمیں آسان حل چاہیے۔ ہمارے دانشوروں نے ،ہمارے ذرائع ابلاغ اور قومی رہنمائوں نے ہمیں یہی باور کرانا چاہا ہے کہ خوشنما دعووں اور حب الوطنی پر مشتمل بیانیوں سے قومیں بن جاتی ہیں۔ بعض اوقات ہمارے ارد گرد ایسے سیاستدان ابھر آتے ہیں جو لفاظی کے مشّاق ہوتے ہیں، جو جذبات کو گرم کرسکتے ہیں،جو اپنی نصیحت آموز گفتگو اور چند تاریخی مثالوں کی تکرار کے ذریعے ہم میں ایک قومی روح بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وقتی طور پر ہمیں یہ گمان ہوبھی جاتا ہے کہ ہم ایک قوم بن چکے ہیں لیکن یہ گمان جلد ہی رفع بھی ہوجاتا ہے۔اکثر قومی اہمیت کے دن مناتے وقت ہمارے نعرے اور نغمے، ٹیلی وژن کے رنگا رنگ پروگرام یا پھر کھیلوں کے عالمی مقابلوں کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہماری صفوں میں ایک طرح کا قومی اتحاد کااحساس نمایاں کرکے دکھایا جاتا ہے لیکن ان سارے مناظر کا رنگ جلد ہی پھیکا پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔

یہ وقتی نوعیت کا قومی پیرہن گذشتہ پچھتر برسوں میں ہم نے سینکڑوں مرتبہ پہنا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری اجتماعی زندگی، ہمارے معاشرتی رو یے، ہماری ریاست، ہمارے معاشرے اور ریاست کا رشتہ، ہمارا نظم حکمرانی کا اسلوب، ہمارے مختلف النوع آئینی اور سیاسی ادارے، یہ سب ایک پاکستانی قومی وجود کی عکاسی کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ اور ملک میں اختلافات کو گفتگو اور مکالمے کے ذریعے کم یا ختم کرنے کے بجائے، ان کا ماردھاڑ، اور تشدد کے ذریعے حل نکالنے کا رجحان، عام ہوچکا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ہماری امیدیں کوئی تجسیم کیوں حاصل نہیں کرپاتیں؟ ہمارے نیک اور ارفع عزائم حقیقت کا روپ کیوں نہیں دھار پاتے۔عجیب اتفاق ہے کہ قیام پاکستان کے وقت معروف سیاسی مفکر ریوپرٹ ایمرسن (Rupert Emerson) نے ہم جیسے ملکوں کے بارے میں کیسی درست بات لکھی تھی کہ یہ ملک ابھی صرف امید میں قوم ہیں، ان کا حقیقت میں قوم بننا ابھی باقی ہے۔

پاکستانیوں کے ایک منتشر ہجوم کے بجائے ایک قوم بننے کی راہ میں بنیادی رکاوٹ یہی حائل ہے کہ ہم قوم سازی کے عمل کو صرف خواہشات اور نیک تمنائوں ہی کا حاصل سمجھتے ہیں۔ ہم نے ذرا سی بھی زحمت نہیں کی کہ دنیا کے دوسرے ملکوں کو دیکھیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ اگر ملکی سطح پر قوم بننے میں کامیاب رہے ہیں تو ایسا کیونکر ہو پایا ہے۔ اگر ہم یہ دیکھنے کی زحمت کرتے اور دنیا کی تاریخ سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہتے اور پھر اسی سبق کی روشنی میں اپنے معروضی حالات اور کوائف کا معروضی تجزیہ کرتے تو ہماری نظروں میں قوم سازی کی راہیں روشن ہوسکتی تھیں۔

پاکستان ہم عصر تاریخ میں ایک منفرد پس منظر کا حامل ملک رہا ہے۔۱۹۴۷ء میں پاکستان کا قیام متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں عمل میں آیا۔جس زمانے میں پاکستان آزاد ہوا، اس زمانے میں دنیا کے اور بہت سے ملک استعمار کے شکنجے سے آزاد ہوئے۔ لیکن یہ وہ ملک تھے جن کی اکثریت بیرونی غلامی کا شکار ہونے سے قبل اپنا ایک جداگانہ تشخص رکھتی تھیں۔ ان کی علاقائی، نسلی ، ثقافتی، غرض ایک نوع کی قومی حیثیت پہلے بھی موجود تھی۔ یہ ملک بیرونی استعمار کا شکار بنے اور برسہا برس کی جدوجہد کے بعد یہ غلامی کا طوق اتارنے میں کامیاب ہوگئے۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، انگریز کے ہندوستان پر تسلط حاصل کرنے کے وقت نہ تو پاکستان کے نام کا کوئی خطہ یہاں موجود تھا اور نہ ہی وہ خطے جو بعد میں پاکستان قرار پائے وہ اُس وقت اپنا کوئی علاقائی، لسانی اور نسلی وحدت کا تشخص رکھتے تھے۔۱۹۴۷ء میں آزاد ہونے والا پاکستان ایک نیا ملک تھا جو برصغیر کے وسیع و عریض جغرافیے میں سے چند علاقوں کو کاٹ کر وجود میں لایا گیا تھا۔ پاکستان کا قیام متحدہ ہندوستان کے پس منظر میں مسلم علیحدگی پسندی (Muslim separatism)کا حاصل تھا۔ اس مسلم علیحدگی پسندی کا سیاسی ایجنڈا ایک طویل عرصے تک اس خواہش پر استوار ہوا تھا کہ مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان کے اندر ایک ایسی قابل لحاظ اقلیت کے طور پر تسلیم کرلیا جائے جس کو ہندو اکثریت کے غلبے کا خوف باقی نہ رہے۔

یہ خواہش پوری نہ ہوپائی تو مسلم لیگ اور اس کے مقبول رہنماقائداعظم محمد علی جناح نے مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ مملکت کے قیام کے خیال پر صاد کیا۔ گویا پاکستان جن علاقوں پر مشتمل قرار پایا انہوں نے ہندو اکثریت پر مشتمل وفاق سے ہٹ کر اپنا الگ وفاق بنانے کافیصلہ کیا۔قیام پاکستان کے بعد ہندو اور مسلم کی وہ تفریق جس نے جدید ہندوستان کی تاریخ میں دو بڑی جمعیتوں کے درمیان مستقل تناؤ کی کیفیت پیدا کردی تھی وہ تفریق اور تنائو ختم ہوا اور مسلم شناخت کی بنیاد پر قوم سازی کا وہ بیانیہ جو متحدہ ہندوستان کے تناظر میں مسلمانوں کو دوسروں سے متمیز کرنے کی خاطر تیار ہوا تھا اور جس کی بابت قائداعظم نے گاندھی کے ساتھ اپنی مراسلت میں یہ واضح کردیا تھا کہ وہ جس مسلمان قوم کی بات کررہے ہیں وہ متحدہ ہندوستان کے تناظر ہی میں کی جارہی ہے۔

سو پاکستان بننے کے بعد جب نئی مملکت میں ہندو مسلم مناقشہ ختم ہوگیا تو لامحالہ طور پر یہاں موجود دوسری شناختیں جو مختلف علاقوں اور مختلف صوبوں میں برسہا برس سے پروان چڑھتی رہی تھیں، نئے منظرنامے میں غیر معمولی اہمیت کی حامل بن گئیں کہ اب نئی مملکت میں اس کی سب وحدتوں کو اپنے جائز مقام، حقوق اور اپنے وسائل پر تصرف کو یقینی بنوانا تھا۔

پاکستان میں ایک پاکستانی قوم کی تشکیل کے نہ ہو پانے کا پہلا اور بنیادی سبب تو یہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ ہمارے کارپردازانِ ریاست و حکومت اس بات کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکے یا انہوں نے عمداً اس کو نظر انداز کیا کہ پاکستانی معاشرہ اپنی نوعیت میں ایک کثیر اللسانی اور کثیر الثقافتی معاشرہ تھا۔ اس معاشرے کی تکثیریت کو ماضی میں بھی کسی نہ کسی سطح پر تسلیم کیا گیا تھا لیکن اب جبکہ ان خطوں کا اپنا وفاق وجود میں آیا تو ان کی اپنی جداگانہ شناختوں اور ا ن سے مربوط سیاسی و اقتصادی مفادات پر اصرار نہ صرف عین فطری تھا بلکہ پاکستان کے اتحاد اور یہاں تعمیر و ترقی کی واحد ضمانت بھی تھا۔

بدقسمتی سے پاکستان کے قیام کے بعد ہمارے رہنما اس خیال کے اسیر بن گئے کہ وہ ماضی کے مذہبی جوش و خروش ہی کی بنیاد پر پاکستانیوں کو ایک قوم بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ان کی یہ سوچ ان کی خوش گمانی اور کم نظری ہی کا مظہر نہیں تھی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح ہوتا چلا گیا کہ یہ سوچ ان کے شدید قسم کے مرکزیت پسندانہ تصورات کی مظہر بھی ہے۔ دنیا کے وہ ملک جو آج اپنے آپ کو ایک قوم کے طور پر پیش کرتے ہیں ان کے پاس اپنی اُن کاوشوں اور جدوجہد کا ایک ریکارڈ بھی موجود ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے کس طرح آئین، نظم حکمرانی، معیشت اور تعلیم، غرض جملہ شعبہ ہائے زندگی میں مادی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس طرح اپنے معاملات طے کیے کہ ملک میں بسنے والے مختلف نسلی و لسانی گروہوں اور تہذیبی اکائیوں کے درمیان اپنے مفادات کے تحفظ کا یقین پیدا ہوااور اشتراک ِ عمل کے نتیجے میں اُن کے اندر یک گونہ تسکین کا سامان پیداہوا۔

جب ملک کے اندر بسنے والی مختلف ثقافتی اور نسلی وحدتیں، جن کو قومیتوں کے طور پر تسلیم کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کیا گیا، ایک عرصہ اشتراک اور افہام و تفہیم کی فضا میں رہیں تو اُن کے اندر نفسیاتی سطح پر ایک ہونے کا احساس پروان چڑھتا چلاگیا، یہی نہیں بلکہ ان کے اندر مختلف قومیتوں یا وحدتوں کے وجود کو تسلیم کرنے کا حوصلہ یا رویہ پیدا ہوا۔ اس تناظر میں دیکھیں تو پاکستان کے مادی حقائق کی طرف متوجہ ہونا ضروری تھا۔تب ہی ہم اپنے تکثیریت پسند معاشرے میں اتفاق رائے اور بقائے باہمی کے راستے تلاش کرسکتے تھے۔

ایک ایسا متنوع معاشرہ جہاں مختلف لسانی اور ثقافتی وحدتیں بستی ہوں وہاں معاشی اور سیاسی نظام اس امر کے متقاضی ہوتے ہیں کہ ان میں سب کے جداگانہ وجود کا اعتراف موجود ہو، سب کے اقتصادی مفادات محفوظ ہوں اور سیاسی سطح پر سب کو اپنے حق کے مطابق نمائندگی حاصل ہو، اور یہ نمائندگی ریاست کے سب ہی اہم اداروں کے اندر یقینی بنائی گئی ہو۔ یہ اہتمام کیا گیا ہو تو ایک عرصے کے بعد یہی جداگانہ وحدتیں ایک وسیع تر قومی وجود کا حصہ بن سکتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ان حقائق سے چشم پوشی کی جاتی رہی۔ ملک میں ایسے آمرانہ نظام مسلط رہے جو شدید مرکزیت پسندی کے حامل تھے اور ملک کے مختلف صوبوں کو اختیارات جوکہ ان کا حق تھے، دینے کے روادار نہیں تھے۔

ہمارے یہاں طویل آئینی بحرانوںکا سبب بھی بنیادی طور پر یہی تھا کہ ہم ایک وفاقی معاشرہ ہوتے ہوئے بھی ایک قابل عمل وفاقی، سیاسی نظام پر اتفاق رائے پیدا نہیں کرسکے۔۱۹۷۱ء میں ملک کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کی علیحدگی کے بعد ۱۹۷۳ء میں ایک آئین بنا تو لیا گیا لیکن اس میں بھی صوبائی حقوق کا دائرہ خاصا محدود تھا۔ یہی نہیں بلکہ بدقسمتی سے آئندہ برسوں میں یہ دستور بھی دو مرتبہ معطل ہوا جس کے نتیجے میں وفاقی اکائیوں کے درمیان دوریوں میں اضافہ ہوا۔۲۰۱۰ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کے دائر ہ اختیار میں قابل ذکر اضافہ ہوا لیکن بعض مستحسن اقدامات کے باوجود بحیثیت مجموعی اٹھارہویں ترمیم سے اتنے فوائد حاصل نہیں کیے جاسکے جتنے کیے جاسکتے تھے۔ اس ناکامی کے دو بنیادی اسباب تھے۔ ایک طرف ماضی کی مرکزیت پسندانہ سوچ برقرار رہی اور دوسری طرف صوبوں کی حکومتوں نے دستیاب وسائل کے ذریعے عوام کی داد رسی کا ماحول پیدا نہیں کیا ۔سو ہماراوفاقی نظام آج بھی مختلف النوع کمزوریوں کا حامل ہے جس کے مظاہر ہم آئے دن دیکھتے ہیں۔

پاکستان میں قوم سازی کی راہ میں ایک اور اہم سیاسی و عمرانی مسئلہ یہ درپیش رہا ہے کہ آزادی کے وقت ہمیں جو معاشرہ ملا وہ بڑی حد تک ایک پرانا اور روایتی معاشرہ تھا۔ اس معاشرے میں فیوڈل ازم اپنی بدترین شکل میں موجود تھا۔ ملک کے بہت سے حصوں میں قبائلی نظام مضبوط جڑیں رکھتا تھا ۔فیوڈل ازم اور قبائلی دروبست سے وابستہ اقتصادی اشرافیہ سیاسی طاقت پر بھی اجارہ داری رکھتی تھی۔ پھر دیگر پرانے سماجی ادارے مثلاًذات پات، برادری اور پیری مریدی کا نظام بہت مضبوط تھے جس کا اظہار مختلف اوقات میں ہونے والے انتخابات میں بھی ہوتا تھا۔

اس پرانے اور روایتی معاشرے میں ہم نے ایک جدید طرز کی ریاست بنانے کا خواب دیکھا تھا۔ یہ تضاد دنیا کے بعض دوسرے ملکوں میں بھی دیکھنے میں آیا جہاں قدیم معاشرت کے اندرجدید ریاست بنانے کی کوشش کی گئی۔معروف سیاسی مفکر کلیفرڈ گیرٹز(Clifford Geertz)نے اس موضوع پر ایک بڑی مفصل کتاب 'Old Societies and New States'کے عنوان سے لکھی تھی۔

اس کتاب میں انہوں نے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کا مطالعہ پیش کیا تھا جو ایک ایسے تاریخی مرحلے سے گزر رہے تھے جہاں آزادیوں کے بعد نئی طرز کی ریاست اور اس کے ادارے ایسے معاشرے میں قائم کرنے کی کوشش کی گئی جو اپنی اساس میں روایتی معاشرہ تھا، ایک ایسا معاشرہ جس میں وہ مہذب تمدن جڑ نہیں پکڑ سکا تھا جو سول سوسائٹی کے اتفاق و اشتراک پر بنیاد رکھتا ہے۔پرانی طرز کے ان معاشروں میں لوگوں کی وابستگیاں خاندان، موروثی رشتوں، برادری اور ایسے ہی روایتی اداروں پر بنیاد رکھتی تھیں۔

ان معاشروں میں قانون کی بالادستی، بنیادی حقوق، اتفاق رائے اور امدادِ باہمی کے وہ رجحانات اور رویے جو سول سوسائٹی سے مخصوص ہوتے ہیں ، موجود نہیں تھے۔ ایک اور سیاسی مفکر ایڈورڈ شِلز(Edward Shils)کے مطابق یہ روایتی معاشرے ایسے سینکڑوں خاندانی گروہوں، ذاتوں، برادریوں ، قبیلوں اور جاگیردارانہ جھرمٹوں پر مشتمل ہوتے ہیں جن کا چھوٹے چھوٹے علاقوں پر تصرف ہوتا ہے۔ یہ کسی طور سول سوسائٹی کا نعم البدل نہیں ہوسکتے۔ ان جھرمٹوں کا احساسِ شناخت بھی انتہائی محدود اور اپنے دائرے کے اندر مقید ہوتا ہے۔ جدید ریاستیں اس خام مال کے اوپر کھڑی نہیں کی جاسکتیں۔

آزادی کے بعد ہم نے استعمار کے دور میں پختہ ہونے والا یہ روایتی معاشرہ پایا تھا۔اس کے ساتھ ہی ہمیں وہ ریاستی ادارے بھی ملے جنہیں برطانوی استعمار نے اپنے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے محدود معنوں میں جدید بنایا تھا۔ ان اداروں کوایک مخصوص قسم کی تعلیم اور تربیت کے ذریعے ایک ایسے نظم حکمرانی کے لیے تیار کیا گیا تھا جو ہندوستانی نوآبادی میں بسنے والے کروڑوں نفوس کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے ضروری سمجھا گیا تھا۔ یہ استعماری ڈھانچہ بھی ہمیں آزادی کے وقت ورثے میں ملا۔ افسر شاہی بشمول پولیس اور فوج پر مشتمل یہ ریاستی ڈھانچہ جس کی تربیت ہی لوگوں پر کنٹرول قائم رکھنے کے لیے کی گئی تھی، پاکستان کے وفاقی، جمہوری اور پارلیمانی خواب کو تعبیر سے ہمکنار کرنے کا مکلف ہی نہیں تھا۔

کون سمجھ دار شخص یہ سوچ سکتا ہے کہ غلام محمد اور اسکندر مرزا ،یا ایوب خان پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت اور صوبائی خود مختاری کو پھلتا پھولتا دیکھ سکتے تھے۔ افسر شاہی اور فوج کے اداروں نے البتہ اپنی تعلیم ، تربیت اور ٹریننگ کو ہمیشہ یقینی بنائے رکھا تاکہ یہ معاشرے کو کنٹرول کرنے کے کام میں مستعد رہیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو پچھلے پچھتر برسوں میں ہمارا یہ تضاد جوایک روایتی معاشرے اور ریاست کا تضاد ہے، ہر دور میں موجود رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اب تو اس موضوع پر بھی بے شمار حقائق پیش کیے جاسکتے ہیں کہ ہمارے یہاں معاشرے کو پسماندہ رکھنے کی شعوری کوششیں کی گئی ہیں۔

اشرافیہ اور عوام کے لیے دو الگ نظام ہائے تعلیم ہوں یا وسائل ِ زندگی کی غیر منصفانہ تقسیم ہو، یہ معاشرے کے غالب حصے کو ریاست و حکومت سے، اقتدار اور اختیار سے دور رکھنے کے کارآمد حربے ثابت ہوئے ہیں۔ یہاں اس امر کی طرف اشارہ بھی ضروری ہے کہ اکثر مغربی ملکوں میں جہاں جدید قومی ریاستیں قائم ہوئیں ، وہاں معاشرے اور ریاست کی تعمیر تقریباً ساتھ ساتھ ہوئی تھی۔ فیوڈلزم کا خاتمہ ہوا تو جدید طرز کی ریاست بنی، معاشرے میں دیگر بڑی تبدیلیاں واقع ہوئیں تو ریاست کے اداروں نے بھی خود کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرلیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قومی ریاستوں کے خدوخال نمایاں ہوتے چلے گئے۔

معاشرتی تبدیلیوں نے آزادی کے کوئی ایک سو سال بعد امریکہ میں غلامی کے خاتمے کی راہ استوار کی اور بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں کے سیاسی ابھار نے عورتوں کے ووٹ کے حق کی قبولیت کو ممکن بنایا تو قومی ریاست خود کو ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرتی چلی گئی۔ ہمارے یہاں معاشرے میں سماجی اصلاح کی کوئی ہمہ گیر اور بامعنی کوشش نہیں ہوئی۔ نہ بڑی زرعی اصلاحات ہوئیں، نہ فیوڈل ازم کا مکمل خاتمہ ہوانہ صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی گئی، اور نہ ہی ملک میں تعلیمی انقلاب برپا ہوا۔ دوسری طرف ریاستی ادارے بھی اپنی پرانی روش اور طریقوں پر قانع بلکہ ان کے محافظ بنے رہے۔

ریاست اور معاشرے کی دوئی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی ہے۔اس دوئی کے نتیجے میں جہاں ایک طرف ریاست کی عملداری(Writ)کم سے کم ہوتی چلی گئی ہے وہیں معاشرہ بدامنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا رہا ہے۔معاشرے کی یہ کیفیت اور ریاست کی اس کی طرف سے لاتعلقی نے بحیثیت مجموعی معاشرے کو مختلف مافیائوں کے ہتھے چڑھا دیا ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں بعض حوالوں سے سماجی تبدیلیاں واقع ہوئی بھی ہیں اور بہت بڑے پیمانے پر ہوئی ہیں۔ مثلاً شہروں کی طرف نقل آبادی ، کاروباری اور ٹرانسپورٹ کی سرگرمیوں میں اضافہ یا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات ِ زر کے نتیجے میں صارفانہ معیشت کی روز افزونی، وغیرہ ۔لیکن یہ تبدیلیاں نہ تو کسی صنعتی انقلاب کی نعم البدل ہوسکتی تھیں جن کے نتیجے میں بنیادی نوعیت کی سماجی تبدیلیاں واقع ہوتیں نہ ہی یہ تبدیلیاں خیالات و افکار کی دنیا میں روشن خیالی اور خرد افروزی کا ذریعہ بن سکتی تھیں۔واضح رہے کہ یہ روشن خیالی ہی ہے جو معاشروں کو مکالمے کے کلچر سے روشناس کراتی ہے اور اختلافات کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنے کا راستہ دکھاتی ہے۔

سماجی علوم کے بہت سے ماہرین یہ رائے رکھتے ہیں کہ روایتی اور traditional معاشروں کے اندر بھی سماجی تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ یہ تبدیلیاں مثبت اورمتمدن معاشرت کے فروغ کا وسیلہ بھی ثابت ہوں۔ سماجی تبدیلیوں کے نتیجے میں اور نئے مادی حقائق کی وجہ سے جہاں سماجی رشتوں میں تبدیلیاں واقع ہوسکتی ہیں وہیں بعض روایتی اور پرانے جذبے ، احساسات اور رویے پہلے سے زیادہ مضبوط اور مستحکم بھی ہوسکتے ہیں۔

یہ موخر الذکر چیز ہم نے اپنے معاشرے میں گذشتہ دو تین عشروں میں بہت واضح طور پر دیکھی ہے۔ہمارے یہاں شہروں کی آبادی بڑھی ہے، دیہات سے لوگ نقل مکانی کرکے شہروں میں آئے ہیں ،شہروں میں صارفانہ معیشت ترقی پذیر رہی ہے، پیسے کی ریل پیل، شادی بیاہ کی تقریبات میں اور اب تو مذہبی جلسوں میں بھی پیسے کا بے دریغ استعمال ہمارا روزانہ کا مشاہدہ بن چکا ہے۔لیکن شہری زندگی ان لوگوں کو کسی بڑے اور مثبت نصب العین کی طرف نہیں لاسکی بلکہ انہوں نے الٹا شہروں میں بوسیدہ اور دور از کار روایتوں کو مستحکم کرنے کا کام کیا ہے۔

آج ہمارے سب ہی بڑے شہر اور عروس البلاد مختلف نوع انتہا پسندیوں، رجعتی رویوں اور ضعیف الاعتقادنظائر کے حامل نظر آتے ہیں۔ جادو ٹونے کے اشتہاروں سے شہروں کی دیواریں اٹی پڑی نظر آتی ہیں۔ کالا جادو، ایسا لگتا ہے کہ شہروں پر راج کررہا ہے۔نسلی اور مسلکی عصبیتیں، جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے شدت پسندی کی انتہائوں کو چھو رہی ہیں۔شہر ، لوگوں کو جوڑنے کے بجائے اُن کو تقسیم کرنے کی جگہ بنتے جارہے ہیں۔ہمارے شہروں میں ایک عالمگیر وسیع النظری ، انسانی قدروں کا احترام اور محنت کی عظمت کا دور دورہ نہیں ہوسکا۔

پاکستانی معاشرے کے تنوعات اور اس کی تکثیریت کے مناسب اعتراف کے بجائے یہاں شدید قسم کے مرکزیت پسندانہ تصورات کے مطابق سیاسی و اقتصادی نظام کو چلانے کا عمل، پھر معاشرے میں بامعنی سماجی اصلاح سے پہلو تہی ، نیز ریاست و معاشرے کے درمیان روز افزوں فاصلے، ان تین عوامل کے علاوہ ایک چوتھا اہم سبب جو لوگوں کو قریب لانے اور ملک کو اتحاد کی دولت سے سرفراز کرنے میں مانع رہا ہے ، وہ ہمارے یہاں حقیقی سیاسی و جمہوری اداروں کا قائم نہ ہوپانا ہے۔

ملک کی تاریخ کا ایک طویل عرصہ براہ راست فوجی آمریتوں کی حکمرانی میں گزرا جس کے نتیجے میں چھوٹے صوبے سیاسی تنہائی کا شکار رہے اور ملک کے شہری امورِ مملکت سے دور رکھے گئے۔پھر جب سیاسی حکومتوں کو کام کرنے کا موقع دیا بھی گیا تو ان کو بعض بنیادی نوعیت کی پابندیوں کے دائرے میں رہ کر ہی کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ سیاسی عمل کو اس کے فطری انداز میں آگے بڑھنے سے روکنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ سیاسی جماعتیں صحیح معنوں میں سیاسی جماعتیں نہیں بن پائیں۔ سیاسی اور آئینی ادارے مستحکم نہیں ہوسکے۔ ملک میں ایک مضبوط اور مستحکم سول سوسائٹی جو جمہوری معاشروں میں سیاسی عمل کی پشتی بانی کرتی ہے، وہ بھی وجود میں نہیں آسکی۔ یہاں تک کہ بالآخر عوام کی بڑی تعداد کا سیاسی عمل، سیاسی اداروں اور سیاسی قیادت پر سے اعتماد بھی ختم ہوگیا۔

قوم سازی کے عمل میں آئینی اور سیاسی ادارے اور ردّو قبول کے عمل سے ابھرنے والی سیاسی قیادتیں قوم سازی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ایسا نہ ہو تو سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادتیں خانہ پری کے طور پر تو موجود ہوتی ہیں یااشرافیہ کے اپنے مفادات کے تحفظ کا ذریعہ تو بنتی ہیں لیکن قوم کی ترقی اور اس کی اجتماعی پرداخت اور شعور کی بالغ نظری کا ذریعہ نہیں بن پاتیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی قیادتیں اور جماعتیں اُس نہج پر اور اُس مقام پر پہنچی نظر آتی ہیں جہاں ان سے توقعات باندھنا ٹھیک ٹھاک خسارے ہی کا سودا معلوم ہوتا ہے۔ ان جماعتوں اور قیادتوں کو باامر مجبوری اس لیے قبول کیا جاتا ہے کہ اس کا متبادل اس سے بدتر یعنی فوجی حکومتوں کے نظام کی شکل میں ہمارا منہہ چڑا رہا ہوتا ہے۔

پاکستانی، ایک قوم کیسے بن سکتے ہیں؟ اس مضمون میں یہی باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک حقیقی وفاقی نظام جو ملک کی مختلف وحدتوں کے مفادات کا صحیح معنوں میں عکاس ہو، ہمارے اتحاد کا ضامن ہوسکتا ہے۔اسی طرح ایک ایسا معاشرہ جو رجعت پسند اور فروعی نوعیت کے تصورات پر بنیاد نہ رکھتا ہو بلکہ ترقی پسند اور روشن خیال افکار پر جس کی تعمیر کی گئی ہو، ایسا معاشرہ ہی لوگوں کو تعصبات کی آگ سے نکال کر افہام و تفہیم کا عادی بناسکتا ہے۔ 

پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ریاست اور معاشرے کے درمیان جو لاتعلقی ہے وہ اس طور ختم ہو کہ ریاست ترقی پذیر معاشرے کے مقاصد کی تکمیل کا کردار ادا کرے اور ایک حقیقی جمہوری سیاسی عمل وجود میں آئے جو رواداری، افہام و تفہیم اور اتفاق رائے کے اصولوں پر استوار ہو۔ یہی وہ اصول ہیں جن پر کاربند ہوکر ایک قومی وجود کی تشکیل کی جاسکتی ہے۔ بصورت دیگر ہم ایک منتشر اور بکھرے ہوئے ہجوم کو خالی خولی نعروں اور نظریاتی سرابوں میں مبتلا رکھیں گے اور اس کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے رہیں گے کہ وہ ایک قوم بن رہا ہے یا بن چکا ہے جبکہ ایسا کچھ ہو نہیں رہا ہوگا۔