آزادی کے بعد کے ان پچھتّر برسوں کو اگر سامنے رکھا جائے تو اس حقیقت کا اعتراف کیے ہی بنتی ہے کہ ہم اس عرصے میںقومی سطح پر مصوری کے شعبے میں کوئی مرکزی روایت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ یہاں کہا جاسکتا ہے کہ صاحب یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں، سارے اسلامی ملکوں میں یہی صورتِ حال ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ بوجوہ اسلامی دنیا میں مصوری کی طرف التفات کاوہ رویہ ہی نہیں ملتا جو ایسی کسی روایت کے قیام کی بنیاد بنتا ہے۔ یہ بات بڑی حد تک درست ہے، لیکن پھر بھی مغلیہ دور کے ہندوستان کو دیکھا جائے تو مصوری کی ایک مضبوط روایت سامنے آتی ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد اس روایت سے رشتہ جوڑ کر آگے چلا جاسکتا تھا۔ اس لیے کہ ہمیں اُس میں ایک تہذیب کے مظاہر، جمالیاتی اسالیب اور فنی شعور کی پوری ایک دنیا میسر آتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جس میں تاریخ تناظر میں عصری زندگی کا مطالعہ سیاسی و سماجی زاویے سے کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران میں تو مصوری کی ایک ایسی توانا روایت قائم ہوئی تھی کہ جس نے داستانوی اسلوب سے لے کر عصری آشوب تک سماج کے مختلف طبقات کے فکر و شعور کو پوری طرح فن کے دائرے میں سمیٹ کر دکھایا تھا۔ اس روایت سے بھی بخوبی استفادہ کیا جاسکتا تھا اور اسے اپنے تہذیبی و ثقافتی تناظر سے باآسانی جوڑ کر آگے بڑھایا جاسکتا تھا، لیکن اس جانب اِکا دُکا انفرادی سطح کی توجہ سے قطعِ نظر بڑے پیمانے پر ایسا کوئی کام نہیں ہواکہ جس کے نتیجے میں قومی شعور کی حامل کوئی مرکزی روایت قائم ہوتی۔
اس کے برعکس وقت کے اس دورانیے میں ہمارے مصور اور فن کار فنی، فکری اور اسلوبیاتی تحریک کے لیے مغرب سے قریب اور ہم آہنگ ہونے کی ہرممکن کوشش کرتے رہے۔ انھوں نے مغرب کے جمالیاتی رجحانات، فنی نظریات اور فن کارانہ تصورات پر توجہ دی اور ان کے زیرِ اثر اپنے فن میں تجربات بھی کیے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ماڈرن ازم کی وہ لہر جو رینے ساں کے ساتھ مغرب میں اٹھی تھی اور بعدازاں جس نے مغرب کی انسانی زندگی، فکری رویوں، فنی رجحانات اور ادبی تحریکات سب پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے وہی لہر اپنے تام جھام کے ساتھ ہماری مصوری تک بھی آ پہنچی۔
ہمارے یہاں مغربی مصوری سے ماڈرن ازم، کیوبزم، ڈاڈا ازم اور سر یئلزم کے جو اثرات پہنچے، وہ ہمارے مصوروں کے فن میں پہلے خاصی حد تک براہِ راست داخل ہوئے اور نجی دائرے میں ظاہر ہوئے تھے، یعنی فن کار ذاتی رویے کے طور پر۔ تا ہم بعد میں مقامی سماجی و ثقافتی رجحانات سے قدرے آمیز ہوتے ہوئے یہ اثرات کسی قدربدلے ہوئے انداز میں ہمارے مصوروں کے فن میں نمایاں ہوتے رہے۔
اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ان فن کاروں کے یہاں ان اثرات کے راہ پانے اور ان کے فن کو نئے پیرایۂ اظہار سے جوڑنے کے بعد ہمیں اپنی اجتماعی روح کا احوال کس حد تک ملتا ہے اور اُن کا آرٹ ہمارے اجتماعی ثقافتی احساس کے منطقے کو کس حد تک رنگ و روشنی کے دائرے میں لاتا ہے۔ اس جائزے کے بعد ہی یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے، ہماری مصوری کس درجہ اپنے قومی شعور اور ثقافتی مظاہرسے ہم آہنگ رہی ہے۔
تاہم مصوروں کی انفرادی کارگزاری پر نگاہ ڈالنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ ہم کچھ ذکر ’’لاہور آرٹ سرکل‘‘ کا کرتے ہوئے آگے بڑھیں، اس لیے کہ ہماری یہاں مصوری میں جدید رجحانات اور اسالیب کو عملی سطح پر متعارف کرانے اور فروغ دینے میں اس سرکل کے مصوروں نے خاصا اہم کردار ادا کیا تھا۔ مصوری کے حوالے سے دیکھا جائے تو جنوبی ایشیا میں لاہور کو مغلیہ عہد سے ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ برِصغیر میں مغلوں نے تعمیرات اور مصوری کے فروغ میں خصوصیت سے حصہ لیا۔
ظہیر الدین بابر کا ذاتی ذوق ہندوستان میں مصوری کی ترقی کا بنیادی ذریعہ بنا۔ اسی دور میں یہاں مغل مصوری کا آغاز ہوا اور یہ سارا سلسلہ لاہور سے چلا تھا۔ پہلے بابر اور اُس کے بعد ہمایوں کے عہد میں بھی لاہور میں مصور بڑی تعداد میںآباد تھے۔ ان میں مقامی یا ہندوستانی مصوروں کے ساتھ غیرملکی مصور بھی شامل تھے خصوصاً ایرانی نژاد مصور۔ بعد ازاں فرانسیسی، برطانوی اور اطالوی مصور بھی یہاں آتے رہے۔
قیامِ پاکستان سے پہلے جو معروف مصور لاہور میں تھے، اُن میں امرتا شیر گل، سوبھاسنگھ، اینا مولکا احمد، حاجی محمد شریف اور مغل مصوری کے حوالے سے شہرت رکھنے والے محمد لطیف چغتائی بھی لاہور میں تھے۔ اسی طرح دیہات کی زندگی اور کلچر کو پیش کرنے والے استاد اﷲ بخش بھی یہیں تھے۔
ان کے علاوہ زبیدہ آغا، احمد سعید ناگی، میراں بخش، حسین ہنجرا، مبارک حسین، آذر ذوبی بھی اسی شہر میں تھے اور ان کے ساتھ ہمارے بین الاقوامی شہرت رکھنے والے مصور عبدالرحمن چغتائی بھی لاہور میں تھے۔ لاہور کی ثقافتی سرگرمیوں اور مصوری کی بعض کتابوں میں اور بھی کتنے ہی نام ہمیں ملتے ہیں جو اُس وقت اس شہر میں آباد اور مصوری کے فن سے وابستہ تھے۔
تاہم اظہارِ فن کی عمومی سطح پر دیکھا جائے تو یہ سب لوگ کسی نہ کسی انداز سے بڑی حد تک مصوری کے روایتی اسکول سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے یہاں اسلوبِ اظہار اور تصورِ فن کی سطح پر پرانا سماج اور اُس کی ثقافت کے حوالے ہی نظر آتے تھے۔ چناں چہ ۱۹۵۰ء میں چند ایک جواں سال مصوروں نے اس بات کو واضح طور پر محسوس کیا کہ اس فن کے جدید تصورات اور اظہار کے نئے اسالیب کی طرف ہمارے مصوروں کی کوئی توجہ ہی نہیں ہے۔ اس کمی کا احساس اور نئے تجربات کی خواہش ان جواں سال فن کاروں میں اتنی زیادہ تھی کہ انھوں نے اس کے لیے فوری اور عملی قدم اٹھاتے ہوئے ایک گروپ بنایا اور اس کا نام ’’لاہور آرٹ سرکل‘‘ رکھا گیا۔
یہ چوں کہ جواں سال لوگ تھے اور تخلیقی صلاحیتوں کے مالک بھی اور مغرب کے جدید رجحانات سے بھی آگاہ تھے، لہٰذا انھوں نے اپنے سرکل کے ذریعے اس عہد کی مصوری کو جدید تصورات، رجحانات اور تجربات سے روشناس کرانے کے لیے بالالتزام اپنے فن میں اظہار کے نئے پیرائے اختیارکیے اور لوگوں کو ان کی جانب متوجہ کیا۔ اس سرکل کے بنیادی ارکان آٹھ تھے۔ سیّد علی امام، انور جلال شمزا، احمد پرویز، قطب شیخ، معین نجمی، ایس صفدر، رضیہ فیروز (جو بعد میں رضیہ مظہر منیر ہوئیں) اور مریم شاہ (جو بعد میں مریم حبیب ہوئیں)۔
اس گروپ میں بعد ازاں دوسرے مصور مثلاً حنیف رامے اور خالد اقبال وغیرہ بھی شامل ہوئے۔ اس گروپ کی پہلی نمائش ۱۹۵۰ء مری میں اور دوسری ۱۹۵۵ء لاہور میں ہوئی۔ اس گروپ کے لوگوں میں ایس صفدر کو چھوڑ کر جو ایک اشتہار ساز ادارے سے وابستہ تھے، باقی سب مصور اسکول، کالج اور یونی ورسٹی میں آرٹ کی تدریس سے وابستہ تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو لاہور آرٹ سرکل کے مصوروں نے ذاتی تخلیقی کام کے ذریعے ہی ہمارے یہاں آرٹ کو جدید رجحانات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ تعلیم و تدریس کی سطح پر بھی وہ اس کے فروغ کے لیے کام کرتے رہے۔
مصوری اور ہماری قومی، ثقافتی و سماجی زندگی فن پاروں کے آئینے میں
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لاہور آرٹ سرکل نے ہماری مصوری کے لیے ایک طرح سے تحریک کا کردار ادا کیا۔ یہ تحریک ہمارے یہاں نئے اسالیب اور تجربات کے حوالے سے ہی اہمیت نہیں رکھتی بلکہ عوامی سطح پر اس کے ابلاغ اور ذوق سازی میں بھی اس کا کردار اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ان لوگوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے جنھوں نے انفرادی سطح پر ہمارے یہاں اس فن کو جدید تقاضوں سے روشناس کرانے اور ترقی دینے میں ہر ممکن کوشش کی۔ ان میں امرتا شیر گل، زبیدہ آغا اور شاکر علی کا ذکر ناگزیر ہے۔
امرتا شیر گل اور زبیدہ آغا کو تو ایک طرح سے تقدم حاصل ہے۔ ان دونوں نے لاہور آرٹ سرکل سے پہلے اپنے فن پاروں میں روایت سے ہٹ کر بھی تخلیقی اظہار کی راہ اپنائی تھی۔ اسی طرح شاکر علی ۱۹۵۲ء میں جب یورپ سے واپس آکر میؤ اسکول آف آرٹ (جو بعد میں نیشنل کالج آف آرٹ کہلایا) کے پرنسپل بنے تو انھوں نے بھی فنی اور انتظامی سطح پر پاکستانی مصوری میں نئے اسالیب اور تجربات کے فروغ میں بھرپور حصہ لیا۔ وہ چوں کہ آرٹ کے ایک بڑے ادارے سے وابستہ تھے، اس لیے اُن کی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع رہا اور ان سے خاصے فن کاروں نے اثر بھی قبول کیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد مصوری کی تاریخ لکھی جائے یا تذکرہ، یہ طے ہے کہ اُس کا آغاز عبدالرحمن چغتائی کے نام سے ہوگا۔ چغتائی صاحب نے تصویر کے حوالے سے جو کام کیا ، وہ تو اپنی جگہ ہے ہی بڑا اور نہایت اعلیٰ درجے کا، لیکن اس باب میں انھوں نے تحریر کی سطح پر جو کام کیا ہے، وہ بھی بلند پایہ اور مثالی درجے کی چیز ہے۔ مصور کی حیثیت سے چغتائی صاحب کے بارے میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ انفرادی طور پر بھی ایک روایت اور تحریک کی حیثیت کے فن کار تھے۔ یہ الگ بات کہ وہ جس روایت اور دبستان کے آدمی تھے، وہ عہدِ حاضر میں قصۂ پارینہ ہو چکا ہے، لیکن چغتائی صاحب کا کام اپنی ایک تاریخی اہمیت آج بھی رکھتا ہے۔
شاہانہ طرزِ حیات سے عوامی معاشرت تک اُن کا فن ایک وسیع دنیا کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے یہاں تاریخ و تہذیب کا ایک شعور بھی فن میں بروے کار آتا ہے۔ اُن کے فن پاروں میں حرکت کاجو احساس ابھرتا ہے، وہ اجسام کی داخلی کیفیت کو بھی سامنے لاتا ہے۔ چغتائی صاحب کے فن کی ایک جہت اُس وقت بھی سامنے آتی ہے جب مغل اور ایرانی منی ایچر اُن کے فن میں آمیز ہو کر سامنے آتے ہیں۔ اُن کے فن کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس پر کسی تحریک یا دبستان کے اثرات محسوس نہیں ہوتے، بلکہ چغتائی صاحب نے اپنی ایک الگ راہ نکالی اور خود ایک روایت کے درجے تک پہنچے۔ اُن کے یہاں خطوط والوان کا ایک وسیع منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ چغتائی صاحب بالخصوص خط لگانے کے ماہر ہیں۔ اُن کے فن پاروں میں بظاہر باریک نظر آنے والے خطوط پر بھی غور کیا جائے تو ان میں پختگی، توانائی اور حرکت کا احساس ہوتا ہے۔ اُن کے آبی رنگوں کے فن پارے اپنی ایک جداگانہ کشش رکھتے ہیں۔
احمد سعید ناگی کا شمار ہمارے ایسے فن کاروں میں کیا جاسکتا ہے جنھوں نے طویل عمر پائی اور ایک زمانہ دیکھا۔ اُن کی آنکھوں کے سامنے کتنے ہی لوگ اس فن میں داخل ہوئے، فن کار بنے، شہرت پائی اور اس دنیا سے رخصت بھی ہوگئے۔ انھوں نے برِصغیر میں مصوری کے نشیب و فراز اور مختلف ادوار کا مشاہدہ بذاتِ خود کیا۔ فن کار کی حیثیت سے ان کا شمار حقیقت پسند مصوروں میں ہوگا اور خاص طور پر ایسے تخلیق کاروں میں جو اظہار میں روایت کے دائرے سے کچھ زیادہ باہر نہیں نکلتے خواہ وہ تجرباتی سطح پر کچھ نہ کچھ نئی چیزیں بھی اپناتے رہیں۔
ناگی نے اگرچہ مختلف انداز کے کام کیے، مثلاً حقیقت پسند مصوری، خطاطی اور سرئیلزم بھی، لیکن ا ن کے فن پر گہری چھاپ روایت کی ہے، اس لیے اُن کا کام کسی بڑی تخلیقی اپج کا مظہر تو نہیں ہے، لیکن اپنی ایک روایتی اور تدریسی اہمیت بہرحال رکھتا ہے۔ احمد سعید ناگی کو ایک بڑا اعزاز بھی حاصل ہے جو شاید کسی اور مصور کے حصے میں نہیں آیا۔ انھوں نے قائدِ اعظم کا ایک پورٹریٹ انھیں سامنے بٹھا کر بنایا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ۱۹۴۴ء میں لیاقت علی خان نے ا نھیں لاہور بلوا کر پاکستان کی تحریک میں عملی طور پر شریک ہونے کو کہا تھا۔ اسی زمانے میں قائدِ اعظم لاہور آئے اور میاں بشیر احمد کے گھر قیام کیا۔ وہیں ناگی نے ان کا پورٹریٹ بنایا تھا۔
استاد اﷲ بخش کے نام سے ہمارے آج کے فن کاروں میں بھی ممکن ہے بہت سے لوگ واقف نہ ہوں۔ یہ وقت کا عمل ہے اور اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ زمانہ بدلتا ہے تو اس کے ساتھ چہرے، یادیں اور حوالے بھی بدل جاتے ہیں۔ تاہم جو لوگ ہمارے یہاں مصوری سے گہرا لگائو رکھتے ہیں اور اسے عہد بہ عہد دیکھتے اور سمجھتے ہیں، وہ استاد اﷲ بخش کے نام سے بہرحال آگاہ ہوں گے۔ استاد اﷲ بخش کا کام روایتی اور حقیقت پسند مصوری سے تعلق رکھتا ہے، لیکن یہ حقیقت پسندی کی وہ روایت ہے جس میں ہم زندہ رنگوں اور متحرک مناظر کو کلام کرتے ہوئے دیکھتے اور سنتے ہیں۔
استاد اﷲ بخش کی مصوری کو دو ادوار میں تقسیم کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ پہلا دور جب وہ ہندو دیومالا کے زیرِ اثر تھے اور اس کے کرداروں کو اپنے فن میں پیش کیا کرتے تھے۔ مصوری کے اس رجحان کو ایک طرح سے اس عہد کا اثر یا ضرورت بھی کہا جاسکتا ہے کہ جب استاد اﷲ بخش نے اس فن کو اظہار کا ذریعہ بنایا۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان امرا مصوری سے کوئی خاص دل چسپی نہیں رکھتے تھے۔ ریاستوں کے ہندو راجے مہاراجے اور امرا مصوروں کی سرپرستی کرتے تھے اور وہ اسی نوع کے فن پاروں کے قدر دان تھے۔ دوسرے دور میں استاد کی توجہ پنجاب کی دیہی زندگی اور اس کی ثقافت پر رہی اور انھوں نے اس ثقافت کے جیتے جاگتے نمونے اپنے فن میں پیش کیے۔
محمد حسین ہنجرا بھی پرانی طرز کے مصور تھے، حقیقت پسندی کی روایت کے مصور۔ اُن کے بنائے ہوئے لینڈ اسکیپ ہوں یا پورٹریٹ یا پھر ثقافتی زندگی کے مناظر، سب جگہ وہ روایتی طرزِ فن کے حامل نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں رنگوں کا انتخاب اور استعمال بھی کم و بیش اسی انداز اور مزاج کا ہے جو ہمیں اپنی روایت کے فن پاروں میں ملتا ہے۔ ہنجرا نے اپنے فن میں پنجاب اور خاص طور پر اس کی دیہی زندگی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ تاہم انھوں نے کچھ کام سرحد کی عوامی زندگی اور اجتماعی صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بھی کیا ہے جس میں اس علاقے کے ثقافتی نقوش خصوصیت سے پیش کیے گئے ہیں۔
حنیف رامے اُن فن کاروں میں ہیں جو اپنے خط کی خصوصیت اور رنگوں کی جاذبیت سے پہچانے گئے۔ اُن کے فن پاروں میں خط اپنی اہمیت کو پوری طرح اجاگر کرتا ہے۔ ان فن پاروں میں جہاں خط کو ایجاز و اختصار سے استعمال کیا جاتا ہے اور ان میں بھی جہاں خط زیادہ اور نمایاں نظر آتے ہیں، رامے کا خط اُن کے فن میں یکساں اہمیت کا مظہر محسوس ہوتا ہے۔ رامے کا فن بالخصوص خطاطی والے فن پاروں میں گہرائی اور پختگی کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ اس کا ایک سبب مذہب، فلسفے اور تاریخ کا وہ مطالعہ بھی ہے جو رامے کے فن پاروں میں اپنی جھلک دکھاتا ہے۔
رامے گہرا شعور اور وسیع مطالعہ رکھتے ہیں اور عملی سیاست کا مشاہدہ بھی۔ ان تینوں چیزوں نے مل کر ان کے فن کو ایک الگ کیفیت اور اثر سے ہم کنار کیا ہے۔ ایک زمانے میں سیاست نے رامے کو فن سے دور کر دیا تھا، لیکن اس کوچے کی رونقوں سے نمٹ کر وہ جب واپس فن کی طرف آئے تو اس حقیقت کا ایک بار پھر اثبات ہوا کہ فن کا جوہر اندر ہو تو آدمی اپنی اصل کی طرف لوٹ آتا ہے۔ رامے بھی واپس آئے، تب اُن کے یہاں خطوط والوان نے ایک بار پھر اُن کی فن سے وابستگی اور اس میڈیم میں اظہار سے پیدا ہونے والی سرشاری کے نمونے پیش کیے۔
مصوری کے پون صدی کے سفر کا مختصر احوال
آذر زوبی فن کارانہ اظہار کا وسیع دائرہ رکھنے والے لوگوں میں تھے۔ وہ صرف مصوری تک محدود نہ تھے، بلکہ انھوں نے مجسمہ سازی بھی کی۔ مصوری میں بھی انھوں نے مختلف میڈیم اختیار کیے اور کئی شعبوں میں کام کیا۔ انھوں نے اسکیچز بنائے، پین ورک کیا، آبی اور روغنی رنگوں سے تصاویر تخلیق کیں۔ حقیقت پسندی سے جدت اور علامت تک انھوں نے اپنے فن میں متعدد اسالیب استعمال کیے۔ اپنے اطراف کی زندگی، مشاہدے اور تجربے میں آنے والے موضوعات ہی پر کام نہیں کیا، بلکہ لوک زندگی تک گئے اور پنجاب کی رومانی داستانوں سوہنی مہینوال اور ہیر رانجھا کو بھی اپنے فن میں پیش کیا۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے علامہ اقبال کی شہرئہ آفاق نظموں ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ کو بھی تصویر کے پیکر میں پیش کیا۔ زوبی کے فن کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ اُن کی تصویر کے کردار اس انداز سے تخلیق ہوتے ہیں کہ ان کی داخلی کیفیت کا اثر بھی سامنے آجاتا ہے۔ حسن پرستی زوبی کے فن کا ایک اور اہم وصف ہے۔ اس کا اظہار ان کی تصویروں کے اجسام اور رنگ دونوں سطح پر ہوتا ہے۔ یہ سارا عمل اُن کے یہاں ہمیں فن کارانہ شعور اور انتخاب کی صورت میں ملتا ہے۔
صادقین نے اپنے فن میں ایک الگ دنیا بسائی تھی۔ یہ دنیا اپنی بنیاد میں روایت کا شعور تو رکھتی ہی تھی،اور ساتھ ہی اس میں مذہبی احساس اور صوفیانہ رنگ بھی تھا، لیکن اپنی کیفیت اور فن کارانہ تصور میں یہ ایک بالکل الگ دنیا تھی۔ فن کار کی حیثیت سے صادقین نے جو کام کیے ان میں بعض ایک دوسرے سے الگ یا اتنے مختلف ہیں کہ ان کی بابت یہ خیال مشکل ہی سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ہی فن کی کارگزاری ہے۔ یہاں مثال کے طور پر ان کی خطاطی اور تاریخ و تہذیب کو دکھانے والے میورال کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ اُن کے یہاں اجسام کی صورتیں اور ہیئتیںتنوع کے ایک عمل سے گزرتے ہوئے دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے فن پاروں میں خطاطی اور فطرت کی آمیزش کو بھی ایک الگ انداز سے پیش کیا گیاہے۔ ان فن پاروں میں سمندر، آسمان، پہاڑ، درخت، بادل جس طرح خطاطی کے نمونوں میں شامل ہوتے ہیں، وہ صادقین کے فن پارے کو ایک الگ نوعیت کا تخلیقی اظہار بنا دیتے ہیں۔
صادقین نے اپنی بعض گفتگوئوں میں اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ زمانے کا تغیر اور اس کے نتیجے میں سماجی ، تہذیبی اور ثقافتی تبدیلیوں کا احساس اُن کے فن میں نئے تجربات کا جواز بنتا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ سب چیزیں صادقین کے یہاں جمالیاتی اقدار کے تبدل کے مظاہر ہیں۔ صادقین شاعر بھی تھے۔ انھوں نے بلاشبہ سیکڑوں بلکہ شاید اس سے زیادہ رباعیات لکھیں۔ ان میں بہت سی رباعیات کے ساتھ اسکیچز بھی ملتے ہیں، اور یہ صادقین کے فن کی ایک اور جہت ہے۔
مصوری کے جدید اسالیب کی نسبت سے ہمارے یہاں جن فن کاروں کے نام اور کام دونوں کا چرچا ہوا، ان میں احمد پرویز اپنی ایک انفرادیت اور اہمیت رکھتے ہیں۔ احمد پرویز کی شخصیت میں ایک اضطراب اور ایک فریسٹریشن بھی تھی، لیکن یہ دونوں چیزیں ان کے فن کے جوہر کو صیقل کرنے کا ذریعہ بنیں۔ ان کے فنی اظہار میں کبھی آگ کی چڑیا، کبھی جادوئی بوتل او رکبھی دنیا کے بدلتے ہوئے رنگ پر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ علامتیں اور استعارے اصل میں فن کار کے تخلیقی فریم سے باہر چھلک چھلک پڑتے سیاسی، سماجی، معاشی اور تکنیکی عناصر کو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔
حقیقی دنیا کے یہ مسائل احمد پرویز کے فن میں علامتوں کے طور پر فوکس ہی نہیں ہوئے بلکہ تخلیق کے دائرے میں آکر روحِ عصر کی تفہیم و تعبیر کا ذریعہ بھی بنے ہیں ۔ احمد پرویز اپنی ایک انفرادیت رکھتے تھے۔ ان کا فن پارہ الگ سے پہچانا جاسکتا تھا، اپنے تجریدی اسلوب کی وجہ سے اور اپنے رنگوں اور ان کے فن کارانہ استعمال کی وجہ سے بھی۔ ان کے یہاں بظاہر ساکت نظر آنے والے اجسام اور اشکال پر ذرا سا نظر کو ٹھہرایا جائے تو ان میں کارفرما حرکت کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
علاوہ ازیں ان کے بعض فن پاروں میں واضح طور پر تپش اور حدت کا احساس بھی ہوتا ہے۔ یہ احمد پرویز کی تخلیقی شخصیت کا جوہر ہے جو اس انداز سے ان کے فن میں نمایاں ہوتا ہے۔ احمد پرویز کی زندگی میں ٹھہرائو اور سکون نہیں تھا اور یہی صورت ان کے فنی سفر میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ احمد پرویز نے زندگی سے فن کشید کیا، لیکن جو کچھ کشید کیا اسے فن کی سطح پر محض اسی نہج اور انداز میں پیش نہیں کیا، بلکہ اس میں جاذبیت، معنویت اور حرارت اس طرح سموئی کہ فن پارہ زندگی سے بڑا محسوس ہوتا ہے۔
سیّد علی امام ہمارے یہاں جدید مصوری کے علم برداروں میں ہیں۔ پاکستان میں مصوری کی تاریخ انھیں صرف مصور کے طور پر ہی یاد نہیں رکھے گی، بلکہ ایک ایسی شخصیت کی حیثیت سے بھی جس نے پاکستان میں مصوری کی تعلیم اور فروغ میں بھی ایک فعال کردار ادا کیا۔ تخلیقی مزاج رکھنے والے لوگوں کے بارے میں عام تأثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ لاابالی اور غیر منظم طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ یہ تأثر کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ تاہم ہر شعبے میں سیّد علی امام جیسے بھی کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو زندگی کے تقاضوں کے ساتھ مربوط کر کے بروے کار لاتے ہیں۔
وہ اپنے زمانے کے مسائل اور انسانی ضرورتوں سے بھی چشم پوشی نہیں کرتے، بلکہ ان کے سلسلے میں ایک ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ سیّد علی امام ایسے ہی ایک فن کار تھے۔ انھوں نے ایک طرف پاکستان میں مصوری کے جدید عہد کی بنا ڈالنے میں کردار ادا کیا، مغرب کے فنی تصورات کو یہاں متعارف کروانے کے لیے کوششیں کیں، مصوری کی تعلیم سے وابستہ رہے، عوام و خواص میں مصوری کے فن پاروں کو آگے بڑھانے اور ان کی فروخت کے لیے ایک ادارہ بنایا تو دوسری طرف اپنے فن کارانہ کام سے بھی غافل نہیں ہوئے۔وہ دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے فن پاروں کی نمائش کا بھی اہتمام کرتے تھے۔سیّد علی امام کے یہاں ایک عرصے تک گھر کو ایک مرکزی موضوع یا فنی استعارے کی حیثیت حاصل رہی۔ ابتدائی دور میں خاص طور پر انھوں نے اس موضوع پر کام کیا۔ تاہم فطرت اور دیہات بھی ان کے لیے پرکشش موضوعات تھے۔
سیّد علی امام نے افراد کی جو پینٹنگز بنائیں تھیں، وہ بھی خصوصیت سے توجہ کی مستحق ہیں۔ ان تصاویر میں انسان کے اندر جھانکنے اور اس کے گہرے نفسیاتی تجزیے کا عمل بھی نظر آتا ہے۔ ان فن پاروں میں جدید مغربی تحریکات کا اثر بھی واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان تصاویر میں بیشتر اجسام کے چہرے کے نقوش واضح نہیں ہیں، بلکہ ان کا اندازہ اشاراتی خطوط یا نشانات سے ہوتا ہے، چاہے وہ ستار بجانے والے فن کار کی تصویر ہو یا دودھ بلوتی ہوئی عورت کی یا پھر تین عورتوں والی تصویر۔ ان تصاویر میں چہرے کو غیر واضح رکھ کر سیّد علی امام نے ایک طرف تو جدید عہد کی بے چہرگی کو واضح کیا ہے اور دوسری طرف ان تصاویر میں عمومیت کی جہت کو بھی شامل کیا ہے۔ یوں اُن کے یہ فن پارے عہدِ جدید کے انسان کی عمومی کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اسی انداز سے سیّد علی امام اپنے فن میں زندگی اور انسان کے تجربے کو پیش کرتے ہیں۔
انور جلال شمزا ہمارے ان جدید مصوروں میں ہیں جنھوں نے مغربی مصوری کے جدید رجحانات کو سمجھنے اور اُن کو اپنے فن میں استعمال کرنے میں کسی تأمل کا اظہار نہیں کیا۔ انھوں نے اپنی تعلیم کو بھی اپنے فن کی افادیت کے لیے برتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کا تجربہ پسند تخلیقی جوہر ایک طرف نئے موضوعات اور تصورات کا متلاشی رہتا تھا تو دوسری طرف اس جوہر کی تجسس پسند کیفیت بھی اپنا کام کرتی اور شمزا کے فن میں ایک موضوع پوری ایک سیریز کی صورت اختیار کرتے ہوئے ایک وسیع سیاق اور مختلف جہات کے ساتھ سامنے آتا۔
اُن کی روٹس سیریز بطورِ خاص اُن کے فن کارانہ اظہار کا ایک اہم اور نمایاں حوالہ ہے۔ علاوہ ازیں شمزا نے بعض فن پارے ایسے بھی تخلیق کیے ہیں جو سیریز میں تو نہیں بنائے گئے، لیکن ان کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو ان میں موضوع کی مختلف جہات اور اس میں حرکت کا احساس ہوتا ہے۔ شمزا نے عمر کا ایک بڑا حصہ لندن میں گزارا۔ اس عرصے میں مغرب کی معاشرت اور ثقافت کو قریب سے دیکھنے کے مواقع میسر آئے، لیکن شمزا کا فن بدیسی زندگی اور ثقافت سے وہ سروکار نہیں رکھتا جو ان کے فن میں اپنی تہذیب، ثقافت اور زندگی سے گہرے رشتے میں نظر آتا ہے۔ شمزا نے مغرب میں رہتے ہوئے خصوصیت سے مشرقی روایات کو اپنے فن کی آبیاری اور اظہار کا ذریعہ بنایا۔یوں اُن کے فن میں اپنی ثقافت کی بقا اور پاس داری کا گہر اجذبہ بھی ان کے اظہار کا جواز بن جاتا ہے۔
بشیر مرزا جو ہماری مصوری کی دنیا میں بی ایم کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، جدید مصوری کے نمائندے ہیں، لیکن بشیر مرزا کی جدیدیت ہمارے دوسرے جدید مصوروں سے مختلف نوعیت کی ہے۔ مختلف اس طرح کہ انھوں نے جدیدیت کو اپنے فن میں کیفیت اور احساس کی سطح پر اختیار کیا ہے۔ اس کا اندازہ صحیح معنوں میں اس وقت ہوتا ہے جب ہم اُن کی پورٹریٹس آف پاکستان سیریز، ایکریلک سیریز یا فلاور فلاور سیریز دیکھتے ہیں۔ ان فن پاروں میں افراد کے چہرے کہیں سماجی و معاشی حالات کے مظہر نظر آتے ہیں اور کہیں ان کی دمیدگی میں فطرتِ انسانی کا سادہ اور معصوم حسن جھلکتا ہے اور کہیں عہدِ جدید کے انسان کی گنجلک، پیچیدہ اور پراگندہ حالی کا عکس۔
بشیر مرزا گہرے عوامی و سماجی شعور کے فن کار ہیں۔ انھوں نے اپنی تصویروں اور اسکیچز میں گہرے سیاسی شعور کا بھی اظہار کیا ہے۔ یہ سب احساسات اور کیفیات ان کے فن میں تخلیقی وفور کے ساتھ آتے ہیں اور باہم آمیز ہو کر۔ بشیر مرزا نے جو ایک عرصہ ملک سے باہر گزارا، اس میں انھوں نے یورپ کے فنی رجحانات اور سماجی و سیاسی تجربات کو ان کے اندر اترکر سمجھنے کی کوشش کی اور پھر یہ عناصر جب ان کے اپنے فن کارانہ اظہار میں آئے تو خود اُن کے سماج کی صورت گری کا ذریعہ بنے۔ بشیر مرزا نے پاکستان میں آرٹ کے فروغ کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔ وہ ان لوگوں میں تھے جو زندگی اور فن دونوں سطح پر قوت سے اظہار کے قائل ہوتے ہیں۔
اس جائزے میں ہم نے قیامِ پاکستان کے بعد مصوری کی صورتِ حال، اس کے نمائندہ رجحانات اور اہم فن کاروں کے کام پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی ہے۔ یہاں آزادی کے بعد مصوری کی پون صدی کا عہد بہ عہد مربوط اور مفصل جائزہ لینے کی گنجائش ہے اور نہ ہی اس کے تاریخی تسلسل میں نمایاں ہونے والے سارے اہم فن کاروں کے فن پر فرداً فرداً گفتگو کا موقع ہے۔ لہذا اپنی اس گفتگو کو سمیٹتے ہوئے ہمیں بخوبی اس حقیقت کا احساس ہے کہ اس شعبے کے کتنے ہی اہم نام مثلاً سردار محمد، قطب شیخ، معین نجمی، لیلیٰ شہزادہ، زبیدہ آغا، صغریٰ ربابی، ناصر شمسی، عین الحق، اقبال مہدی، گل جی، غلام رسول، گل محمد کھتری، ابرار ترمذی، اسلم کمال، جمیل نقش، تصدق سہیل، منصور راہی،، مسعود کوہاری، اجمل حسنین، وہاب جعفر، مقصود اے، لعل محمد پٹھان، شاہد سجاد، اقبال جعفری، رابعہ زبیری، منصورہ حسن، سلیمہ ہاشمی، مقصود علی، مشکور رضا، ایم کاظم، ہاجرہ منصور، ناہید رضا، لبنیٰ آغا، شہزاد عالم، سنبل نذیر، حنیف شہزادہ اور انور انصاری سے لے کر عصرِ حاضر کے جمی انجینئر، شاہد رسام اور فوزیہ خان تک کتنے ہی فن کار ایسے ہیں جن کا تذکرہ اس مضمون میں تفصیل کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوسکا ہے۔
ہمیں اس حقیقت کے اعترف میں بھی کوئی تامل نہیں ہے کہ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کا صرف حوالہ ہی نہیں دیا جانا چاہیے بلکہ ان کے فن کے بارے میں گفتگو بھی ضرور کی جانی چاہیے، خواہ مصوری کی مختصر ترین تاریخ ہی کیوں نہ مرتب کی جا رہی ہو۔ اس لیے کہ انھی سب فن کاروں نے اپنے اپنے انداز سے فن کارانہ اپج اور تخلیقی جوہر کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ اپنے فن پاروں میں پاکستان کی ثقافتی، تہذیبی اور سماجی زندگی اور سیاسی و معاشی صورتِ حال کے اثرات کو بھی اس طرح پیش کیا ہے کہ اگر ان کے فن پاروں کو سلسلہ وار پیشِ نظر رکھا جائے تو مصوری کے پیرائے میں ہماری قومی تاریخ کا سفر ایک انداز سے عہد بہ عہد بدلتے تناظر میں ہمارے سامنے آجاتا ہے۔
یہی نہیں، بلکہ اس امر کا اظہار بھی ذمہ داری سے کیا جانا چاہیے کہ یہ سب وہ فن کار ہیں جن کے فن پارے انفرادی احساس سے لے کر اجتماعی احوال تک کے منظرنامے کو گہرے تخلیقی شعور کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ہم سب اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ ہمارے ملک میں حکومتی سطح پر فن کی قدردانی کا کوئی کام نہیں ہوا۔ عامتہ الناس میں بھی اس فن کی پذیرائی اور ذوق کا حال ہماری آنکھوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ان حالات میں ہمارے مصوروں نے جو بھی کیا ہے، ذاتی ذوق اور جذبے کی وجہ سے کیا ہے، اس کی ہمیں کھلے دل سے داد دینی چاہیے۔
آخری بات پاکستان میں مصوری کی ترقی، پیش رفت اور صورتِ حال کو اس مضمون کے اجمالی تناظر میں بھی سامنے رکھا جائے تو یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں مصوری کی کوئی مرکزی روایت تو بے شک قائم نہیں ہوپائی، لیکن اس عرصے میں ہمارے مصور جو کام کرتے رہے ہیں، اُس میں ہماری اجتماعی روح، ہمارے قومی احساس اور ثقافتی شعور کی جھلک واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے،اس میں خواص سے لے کر عوام تک زندگی کے تجربات اور حقائق کی رنگا رنگ دنیا ہمارے سامنے آتی ہے ۔اس بنیاد پر یہ بات بلاتأمل کہی جاسکتی ہے کہ ان تخلیق کاروں نے اپنے فن پاروں میں زندہ انسانی تجربے کو گرفت کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے عہد اور ا س کی صورتِ حال سے مربوط تھے اور سمجھتے تھے کہ حقیقی تخلیقی عمل خلا میں بیٹھ کر نہیں ہوتا بلکہ اپنے عہد کے انسانی شعوروا حساس سے ہم آہنگ ہو کر سامنے آتا ہے اور تبھی بامعانی بنتا اور زندہ رہتا ہے۔