پاکستان کی آئینی اور عدالتی تاریخ میں اس قدر اُتار چڑھاؤ ہے کہ جب اس کا مطالعہ کیاجاتاہے تو انسان ششدر رہ جاتا ہے کہ کو ئی قوم پچھہتّربرسوں میں بار بار اس طرح کی آئینی اور قانونی موشگافیوں سے بھی گزر سکتی ہے۔لیکن یہ پاکستان ہے ،جہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہونا ممکن ہے۔ اس سفر میں ایسے ایسے موڑ آئے کہ عقل چکراجاتی ہے ۔ اس دوران بعض ایسے معروف عدالتی فیصلے آئے جن کے بارے میں آج تک منفی آرا کا پلڑا بھاری ہے۔اسی طرح بعض ایسے فیصلے بھی دیے گئے جن کی آج تک تعریف کی جاتی ہے۔ایسے میں بعض منصفین کی جرات اور عظمت کو آج تک داد مل رہی اور اور بعض کو آج بھی اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا جاتا۔
پاکستان کے چوٹی کے ماہرینِ آئین و قانون کے علاوہ عوام کی بھی بہت بڑی تعداد کی رائے یہ ہے کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ زیادہ قابلِ فخر نہیں ہے اور ہمارے جمہوری سفر میں رکاوٹیں ڈالنے میں اعلیٰ عدلیہ کا بھی بہت اہم کردار رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جسٹس منیر سے لے کر جسٹس انوار الحق اور جسٹس ارشاد حسن کی سربراہی میں عدلیہ نے ہمیشہ آمروں کی بغاوتوں کو قانونی چھتری مہیا کی ،لیکن سِوِل قیادت کے ساتھ اس کا برتاو دوسری نوعیت کا رہا۔ایک جانب آمروں کوآئین میں ترامیم کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی اور دوسری جانب منتخب راہ نماؤں کے حصّے میں پھانسی یا نااہلی آئی۔
رُخ بدل گیا
پاکستان کے پہلے چیف جسٹس عبدالرشید نے آزاد عدلیہ کی بنیاد رکھی اور اسے درست سمت فراہم کی، مگر چیف جسٹس محمد منیر نے’’نظریہ ضرورت‘‘ ایجاد کرکے عدلیہ کا رخ ہی تبدیل کردیا۔ چیف جسٹس اے آر کارنیلیس نے مشکلات کے باوجود عدلیہ کا وقار بحال کیا۔تاہم ہماری عدلیہ کی تاریخ میں ایسے منصفین کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے جنہوں نے اپنے حلف کی پاس داری کرتے ہوئے آئین اور قانون کی روح کے مطابق فیصلے سنائے۔ پاکستان کے نام ور وکلاءعدلیہ کی تاریخ لکھنے سے گریز کرتے رہے تاکہ جج ناراض نہ ہوجائیں۔
تاہم ممتاز وکیل حامد خان نے یہ چیلنج قبول کیا اور عدلیہ کو تاریخ کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ ان کی پانچویں کتاب’’ اے ہسٹری آف جوڈیشری ان پاکستان‘‘ ،عدلیہ کے بارے میں بہت سے حقایق سے پردہ اٹھاتی ہے۔ حامد خان عدلیہ کی تاریخ کے عینی شاہد ہیں اور پس پردہ ہونے والی سازشوں کے رازداں ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ان تمام سازشوں کو بے نقاب کیا ہے۔ یہ کتاب پاکستان کے ہر چیف جسٹس کے دور کا احاطہ اور محاکمہ کرتی ہے۔ ججز کو بہ حیثیت انسان اور جج پرکھتی ہے اور عدلیہ کے تاریخی فیصلوں کا جائزہ لیتی ہے۔
کش مکش
حامد خان نے اپنی کتاب میں عدلیہ کی تاریخ بیان کرنےکے بعد تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ اپنی بقا اور آزادی کی جدوجہد میں مصروف رہتی ہے۔ اس نے کبھی جوڈیشل ایکٹیو ازم اور کبھی احتیاط کا مظاہرہ کیا۔ عدلیہ کی تاریخ میں افتخار محمد چوہدری کا دور سرگرم اور پرجوش رہا اور ریاست کو آئین کے مطابق چلانے کے لیے دلیرانہ فیصلے سامنے آئے۔ سیاسی عدم استحکام نے عدلیہ سمیت سب ریاستی اداروں کی کارکردگی کو متاثر کیا۔ دیانت اور اہلیت کے حوالے سے ججوں کا معیار قابل ستائش نہیں رہا۔ جج اپنے کیرئیر کے لیے ایک دوسرے سےکش مکش کرتے رہے۔
کئی مواقعےپر شہریوں کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کیا گیا۔ پاکستان میں جج عمومی طور پرعدالتی فلسفےپرعمل نہیں کرتے اورضابطہ اخلاق سے انحراف کرتے ہیں۔ان کی نظر ریٹائرمنٹ کے بعد اہم منصب پرہوتی ہے۔سیاست دانوں نےنااہلی اور بدعنوانی کا مظاہرہ کرکے ججز کوجگہ فراہم کی اور وہ بعض اوقات آئینی حدود سے تجاوز کرنے لگے۔ پاکستان کے عوام نظام ِعدل کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ بینچ اور بار کو عوامی توقعات پر پورا اُترنے کے لیے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
بھٹو کا کیس اورعدلیہ پر دباؤ
وہ بھٹو قتل کیس کے بارے میں پس پردہ محرکات بے نقاب کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح عدلیہ پر دباؤ ڈال کر اسے مفلوج کیا گیا۔ جسٹس انوار الحق اور جسٹس مولوی مشتاق نے دباؤ قبول کیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے سینئر ججز کی حق تلفی کرتے ہوئے چیف جسٹس بننے کے لیے آصف زرداری کی کار کا دروازہ کھولا اور ان کے گھٹنوں کو چھوا۔ چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے نہ صرف جنرل مشرف کا مارشل لاجائز قراردیا بلکہ اسے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے میاں نواز شریف کی حکومت (1993) بحال کرنے سے پہلے جی ایچ کیو فون کرکے آرمی چیف کی مرضی معلوم کی۔ جنرل آصف نواز نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا کہا۔
جسٹس منیر ،بگاڑ کی پہلی اینٹ
سیاسی اور آئینی امور کے ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اگر ہماراعدالتی نظام معیاری اور مثالی بن جائے تو پاکستان کے آئینی، سیاسی اوراقتصادی بحرانوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔دوسری جانب پاکستان میںجب بھی آئین اور قانون کی بالا دستی قایم نہ ہونے اور پے درپے آنے والے سیاسی بحرانوں کے بارے میں بحث چھڑتی ہے تو جسٹس منیر کا نام کسی نہ کسی مرحلے پر آہی جاتا ہے۔
کیوں کہ وہ ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنے عدالتی فیصلوں کے ذریعے اس ملک کو اس کے ابتدائی ایّام ہی میں، آئینی، قانونی،اخلاقی ، سیاسی، سماجی اور اقتصادی لحاظ سے تباہی کاراستہ دکھادیا تھا۔جسٹس منیر قیام پاکستان کے بعد پنجاب چیف کورٹ (موجودہ ہائی کورٹ) کے چیف جسٹس بنے اور اس کے بعد فیڈرل کورٹ آف پاکستان (موجودہ سپریم کورٹ)کے چیف جسٹس بنے تھے۔وہ جج کی حیثیت سے اپنے طویل کیرئیر کے دوران اپنا کردار ادا کر کےچھبّیس جون 1981کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے،لیکن ان کی جانب سےدیے گئے غلط فیصلوں کا خمیازہ نہ جانے قوم کب تک بھگتتی رہے گی۔
مولوی تمیزالدین کیس
اگر انہوں نے اپنے فیصلوں میں ’’نظریہِ ضرورت‘‘ متعارف نہ کرایا ہوتا تو ملک کی تاریخ مختلف ہوتی۔ ان کے منفی کردار کا آغاز مولوی تمیز الدین کیس سے ہوتا ہے۔ وہ ایک سیدھا سادہ مقدمہ تھاجو اسمبلی کی تحلیل کے خلاف انصاف کے حصول کے لیے دائر کیا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کے مقابلے میں جب جگتو فرنٹ نے بھاری کام یابی حاصل کر لی تو یہ مطالبہ سامنے آیا کہ اب مرکزی آئین ساز اسمبلی غیر نمائندہ ہو چکی ہے، اس لیے مرکز میں بھی نئے انتخابات کرائے جائیں۔
مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کا حشر دیکھ کر مسلم لیگ نئے انتخابات سے خوف زدہ تھی۔ اسے ڈر تھا کہ اگر کہیں انتخابات کرا دیے گئے تو اس کے پلّےکچھ نہیں رہے گا۔ انتخابی نتائج کے خوف کے علاوہ مسلم لیگ کو کچھ عرصہ قبل وزیراعظم کی حیثیت سے خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کا بھی صدمہ تھا، جنہیں گورنر جنرل غلام محمدنے غیر آئینی طور پر برطرف کر دیا تھا۔
اسمبلی نے اس وقت تو کم زوری دکھائی اور خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کو قبول کرتے ہوئے ان ہی کے نام زد کردہ محمد علی بوگرہ کوبہ طور وزیر اعظم تسلیم کر لیا تھا، لیکن اب وہ چاہتی تھی کہ وہ آئندہ ایسا کوئی اقدام نہ اٹھاسکیں۔چناں چہ اکیس ستمبر 1954 کو اسمبلی نے گورنر جنرل کے اسمبلی کی تحلیل اور حکومت کو برخواست کرنے کے اختیارات سلب کر لیے ۔گورنر جنرل نے آئین ساز اسمبلی کے اس اقدام کا جواب تیئس روز بعد دیا۔ انہوں نے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر کے آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔یہ پاکستان کی یہ پہلی اسمبلی تھی جسے سربراہِ ریاست نے غیر معمولی اقدام اٹھاکر تحلیل کردیا تھا۔
جسٹس منیر کا بھونڈا جواز
سیاسی اور آئینی امور کے ماہرین کے مطابق گورنر جنرل کا یہ اقدام بلا جواز اور غیر قانونی تھا۔ بہ ظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس کارروائی میں فوج کی تائید شامل تھی، کیوں کہ اس کےبعدجو کابینہ بنائی گئی اس میں کمانڈر ان چیف (اب چیف آف آرمی اسٹاف) کو وزیر دفاع کی حیثیت سے شامل کیا گیاتھا۔ آئین اور جمہور کی حکم رانی کے خلاف طاقت ور طبقات کی ملی بھگت کے خلاف ایک ہی ادارے یعنی عدلیہ سے توقع تھی، لیکن یہ ادارہ بھی ان ہی قوتوں کے ساتھ مل کر اقتدار کی کش مکش میں حصے دار بن گیا۔
ایسے میں آئین ساز اسمبلی کے صدر( اب اسپیکر) مولوی تمیز الدین خان نے گورنر جنرل کا یہ فیصلہ چیف کورٹ (اب ہائی کورٹ) سندھ میں چیلنج کر دیا۔ چیف کورٹ نے مقدمے کی سماعت کے بعد گورنر جنرل کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا اور آئین ساز اسمبلی بحال کر دی۔ مرکزی حکومت سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ میں چلی گئی۔ فیڈرل کورٹ نے اس مقدمے کا فیصلہ ٹیکنیکل یعنی اکثریتی بنیاد پر گورنر جنرل کے حق میں کر دیا ،یعنی قرار دیا کہ ان کی طرف سے آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کا اقدام درست تھا۔اس فیصلے کا سب سے کم زور پہلو یہ تھا کہ چونسٹھ صفحات کے فیصلے میں ایسی کوئی فائنڈنگ نہیں ملتی کہ آیا گورنر جنرل اسمبلی توڑنے کا اختیار رکھتے بھی ہیں یا نہیں۔
جسٹس منیر جیسے شخص سے یہ قطعاً پوشیدہ نہیں تھا کہ ان کا فیصلہ ملک کے جہاز کو گہرے پانیوں میں ڈبو دے گا، پھر بھی انہوں نے ایسا کیا ۔ اس فیصلےنے،جس کے تحت انہوں نے گورنر جنرل کو ملکہ برطانیہ جیسے اختیارات دے دیے تھے، عدلیہ کے بارے میں عوام کاتاثر ہمیشہ کے لیے مجروح کر دیا۔ جسٹس منیر نے اپنے اس فیصلے میں سندھ چیف کورٹ کی سرزنش کی تھی اور لکھا تھا کہ عدالت کوفیصلہ کرتے ہوئے کبھی یہ پیش نظر نہیں رکھنا چاہیےکہ فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے۔ جسٹس منیر نے سندھ چیف کورٹ کے فیصلے پر تو تنقید کی، لیکن اپنا طرز عمل بھول گئے اور اپنے فیصلے کا جواز یہ پیش کیا کہ وہ اس قسم کا فیصلہ نہ دیتے تو ملک میں انقلاب آجاتا اور خون ریزی ہوتی۔
عام تاثریہ ہےکہ اس فیصلےکے پس پشت اسٹیبلشمنٹ سے ساز بازتھا۔قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت ’’شہاب نامہ‘‘ میں اس ضمن میں ایک انکشاف کیاہے۔وہ لکھتے ہیں کہ جن دنوں اس مقدمے کی سماعت جاری تھی، گورنر جنرل ہاؤس کے ایک سینئر افسر فرخ امین، ہرچند روز بعد دارالحکومت کراچی سے لاہور جایا کرتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے ان سے بازپرس کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ گورنر جنرل کے خفیہ پیغامات چیف جسٹس تک اور چیف جسٹس کے خفیہ پیغامات گورنر جنرل تک پہنچاتے ہیں۔مولوی تمیز الدین کیس کافیصلہ بہ ظاہر گورنر جنرل اور چیف جسٹس کے درمیان اسی ساز باز کا نتیجہ تھا جسے پاکستان کے عوام نے کبھی قبول نہیںکیا۔
یوسف پٹیل کیس
پاکستان کی سیاسی، آئینی اور عدالتی تاریخ کا اگلا اہم موڑ یوسف پٹیل کیس ہے۔اس مقدمے کی جڑیں بھی مولوی تمیز الدین کیس میں پیوست تھیں۔فیڈرل کورٹ آف پاکستان نے نظریہ ضرورت کی بنیادپر مولوی تمیز الدین کیس کا جو فیصلہ دیا تھا، اس کے نتیجے میں صرف یہ نہیں ہوا کہ مقننہ بحال نہیں ہوئی بلکہ اس فیصلے کے نتیجے میں ملک کےچھیالیس قو انین بھی کالعدم ہو گئے۔ اس وجہ سے کارِ ریاست کے روزمرہ کے امور کی انجام دہی بھی ناممکن ہو گئی اور ملک ایک بہت بڑے بحران سے دوچار ہو گیا۔
اس صورت حال سے نمٹنےکے لیے گورنر جنرل غلام محمد نے اس فیصلے کے چھ روزکے بعدہنگامی اختیارات کے حصول کے لیے ایک آرڈی نینس جاری کیا ۔غلام محمد چاہتے تھے کہ تحلیل شدہ اسمبلی کی جگہ وہ اپنے نام زد افراد کا ایک کنونشن منعقد کر کے ایک خود ساختہ آئین تیار کر لیں۔اس آرڈی نینس کے ذریعے گورنر جنرل نے جو اختیارات حاصل کیے، وہ غیر معمولی نوعیت کے سیاسی مضمرات رکھتے تھے۔ ان میں ایک اختیار مغربی پاکستان کے چار صوبوں کو ون یونٹ میں تبدیل کرنے اور آئین سازی کے ضمن میں گورنر جنرل کو تمام تر اختیارات تفویض کرنے کا تھا۔
غلام محمد نے اپنے نام زد افراد کا کنونشن منعقد کر کے خود ساختہ آئین پیش کرنے کے لیےفیڈرل کورٹ میں ریفرنس دائر کیا۔ دوسری جانب ان اختیارات کو ایک شہری نے وفاقی عدالت میں چیلنج کردیا۔ یہ مقدمہ یوسف پٹیل کیس کے نام سے مشہور ہوا۔اس ریفرنس اور یوسف پٹیل کیس کے نتیجے میں گورنر جنرل کا یہ اختیار تسلیم کر لیا گیا کہ وہ اسمبلی تحلیل کر سکتے ہیں۔ اسمبلی کی تحلیل کی وجہ سے بہت سے قوانین کی توثیق نہیں ہو سکی تھی۔
گورنر جنرل نے آرڈی نینس کے ذریعے حاصل کیے جانے والے اختیارات کے تحت ان قوانین کی توثیق کر دی تھی۔اس فیصلےکے ذریعےیہ توثیق اس وقت تک بحال رکھی گئی جب تک نئی آئین ساز اسمبلی وجود میں نہیں آ جاتی۔تاہم عدالت نے گورنر جنرل کونام زد افراد کے کنونشن کے ذریعے آئین سازی کی اجازت نہیں دی تھی۔ان مقدمات کے فیصلوں کے ذریعےاگرچہ گورنر جنرل کو سوفی صد کام یابی حاصل نہیں ہوئی تھی، لیکن ان کے راستے میں کوئی بڑی رکاوٹ بھی کھڑی نہیں ہوئی۔
اب اکثر پاکستانی پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں توانہیں احساس ہوتا ہے کہ جسٹس منیر اگر یہ مقدمہ آئینی اور قانونی بنیاد پر نمٹاتے تو فیصلہ مختلف ہوتا، لیکن آئینی ماہرین اور مورخین کے مطابق ان کے پیش نظردیگر مقاصد تھے ۔ اس لیے انہوں نے اپنے ممکنہ فیصلے کو بنیاد فراہم کرنے کے لیے جواز گھڑنے شروع کر دیے۔بہ قول جسٹس منیر ،انہوںنے واپس مڑنے یا خندق میں گرنے سے بچانے کا فریضہ ملک و قوم کے لیے ادا کرنے کی غرض سے خندق پر ایک پل تعمیر کر دیا۔تاریخ نے اسی پل کو’’نظریہ ضرورت‘‘ کا نام دیا، جس نے اسی زمانے میں ملک کو ایک پے چیدہ بحران میں مبتلا کر دیاتھا۔اور بعد میں تو اس نے وہ تباہی مچائی کہ الامان ،الحفیظ۔
دوسو کیس
مگر جسٹس منیر یہیں پر نہیں رکے بلکہ ان کے سیاسی نوعیت کے دیگر فیصلوں پر بھی اسی اندازِ فکر کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ان کی جانب سے دیے گئے تیسرےفیصلے نے پاکستانی میں جمہوری، سیاسی عمل کی راہ مزید کھوٹی کی۔یہ فیصلہ دوسو کیس کے نتیجے میں سامنے آیاتھا۔اس مقدمے میں ایوب خان کے مارشل لا کے نفاذ اور اس کے نتیجے میں ایک منتخب حکومت کے خاتمے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جسٹس منیر نے اس مقدمے میں مارشل لا کے نفاذ اور اس کی وجہ سے ناجائز طور پر ایک منتخب آئینی اور قانونی نظام کے خاتمے کو بغاوت قرار دینےکے بجائے اسے ایک کام یاب انقلاب قرار دینے کے لیے ہینس کیلسنز کی معروف تھیوری آف ا سٹیٹ کا سہار لیا۔اس نظریے کے مطابق کام یاب انقلاب اپنا جوازخود ہوتاہے اور اسے آئین سازی کا حق بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے فرانس،چین اور روس کے انقلابوں کی مثالیں پیش کی تھیں۔دل چسپ بات یہ ہے کہ خود اس نظریے کے خالق نے بھی اس موقعے پر کہاتھا کہ اس فیصلے کے ذریعے ان کے نظریے کو جو رنگ دیا جارہا ہے، وہ درست نہیں۔
دور رس سیاسی مضمرات کے حامل جسٹس منیرکے ان بنیادی فیصلوںکی وجہ سے ملک سیاسی اور آئینی طورپر اپنے راستے سے بھٹک گیا۔واضح رہے کہ چوبیس اکتوبر 1954 کو آئین ساز اسمبلی اپنی تحلیل سے چار روز قبل پاکستان کا پہلا آئین تیار کر چکی تھی۔اس آئین کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان آبادی کے فرق کا تنازع طے کر دیا گیا تھا جس کے تحت قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کی نشستوں کا تناسب پچپن فی صد اور مغربی پاکستان کی نشستوں کا تناسب پینتالیس فی صد طے کر دیا گیا تھا۔اسمبلی اسی برس دسمبر میں دستور کے مسوّدے کو حتمی شکل دے کر اس کی منظوری کا فیصلہ کر چکی تھی کہ غلام محمد نے اسمبلی کو تحلیل کر کے دستور کی منظوری کا راستہ روک دیا تھا۔
جسٹس انوارالحق اور مارشل لا کی
تین حکومتوں سے وفاداری کا حلف
جسٹس شیخ انوارالحق کا شمار پاکستان کی عدلیہ کے ان ججز میں ہوتا ہے جنہوںنےاپنےعدالتی کیرئیرمیںمارشل لا کے ذریعے بنائی گئیں تین حکومتوں سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا اورایسی ایک حکومت کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طورپرقانونی اور آئینی جوازبھی فراہم کیا تھا۔ شیخ انوارلحق نے بہ طورچیف جسٹس سپریم کورٹ، بھٹو کی سزائے موت کے خلاف اپیل مسترد کی تھی جس سے بھٹو کی پھانسی کا راستہ صاف ہوگیا تھا۔قیام پاکستان سے قبل عدلیہ میں آنے کے بعد وہ پنجاب کے متعدد اضلاع میں بہ حیثیت سیشن جج خدمات انجام دیتے رہے۔ جنرل ایوب خان نے آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کیا تو شیخ انوارالحق اکیس اکتوبر 1959 کو مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج مقرر ہوئے۔جب جنرل یحیی خان نے مارچ 1969میں جنرل ایوب کا آئین منسوخ کرکے ملک میں مارشل لا نافذ کیا اور ون یونٹ توڑکر صوبے بحال کیے تو شیخ انوارالحق لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے تھے۔ بھٹو دور میں وہ سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ مارچ1977میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یعقوب علی خان کو ریٹائر ہونا تھا۔ لیکن بھٹو نے چھٹی آئینی ترمیم کے ذریعے جسٹس انوارالحق کا راستہ روک دیا،جو اس وقت سپریم کورٹ کےسب سے سینئر جج تھے۔ بھٹو کایہ اقدام جسٹس انوارالحق کےلیے ناقابل برداشت تھا۔چناں چہ وقتی طور پرانہوں خاموشی اختیار کرنے ہی میں عافیت جانی اور مناسب موقعے کی تلاش میں رہے تاکہ وہ جوابی وار کرسکیں۔
نصرت بھٹو کیس
جسٹس انوارالحق کو جلد ہی یہ موقع جنرل ضیا کے مارشل کی صورت میںجولائی1977میں مل گیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے آئینی پٹیشن کے ذریعے جنرل ضیا کے مارشل لا کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ جسٹس یعقوب علی خان نے بیگم صاحبہ کی پٹیشن سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔آمر کو خوف تھا کہ کہیں سپریم کورٹ مارشل لا کو غیر آئینی اور غیر قانونی نہ قرار دے دے۔ چناں چہ جنرل ضیانے مارشل لا ریگولیشن کے ذریعے چھٹی آئینی ترمیم کو واپس لے لیا جس سے جسٹس یعقوب علی خان فوری طورپر ریٹائر ہوگئے اور شیخ انوارالحق ان کی جگہ چیف جسٹس بن گئے۔ اب بھٹو پر وار کرنے کی ان کی باری تھی۔ بیگم نصرت بھٹو کی پٹیشن ان کے سامنے پیش ہوئی اور انہوں نے مارشل لا کے نفاذ کو آئینی جواز فراہم کرتے ہوئے بیگم صاحبہ کی پٹیشن مسترد کردی۔ اور نہ صرف مارشل لا کو نظریہ ضرورت کے تحت قانون اورآئین کے مطابق ٹھہرایا بلکہ جنرل ضیا کوبہ حیثیت مارشل لا ایڈ منسٹریٹر یرآئین میں ترمیم کرنے کا بھی اختیار دے دیا تھا۔
ذوالفقارعلی بھٹو ٹرائل کیس
سابق وزیراعظم پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے کئی دن بعد انہیں 1974 میں قتل کیےگئے سیاست داں اور صدارتی امیدوار احمد رضا قصوری کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ابتدائی طور پر ذوالفقار علی بھٹو پر لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ چلایا گیا اور عدالت نے انہیں پھانسی کی سزا سنائی۔ لاہورہائی کورٹ کی جانب سے پھانسی کی سزا کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی قانونی ٹیم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔تاہم عدالت نے فیصلہ دیا کہ پھانسی کی سزا صدر مملکت ہی تبدیل کرسکتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو نے اُس وقت کے آرمی چیف اور صدر،جنرل ضیاء الحق سے رحم کی اپیل کرنے سے پھانسی پر لٹکنا بہتر سمجھا۔یوں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے مداخلت نہ کرنے اور دوسری اعلیٰ عدالت کی جانب سے منتخب وزیراعظم کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر آج تک عدالت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ظفر علی شاہ کیس
جسٹس ارشاد حسن نے2002ء میں ایک آمر کے غیرآئینی اقدام کو درست قرار دیا،لیکن آج وہ فیصلہ بھی عدالتی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ پاناماعمل درآمدبینچ کے اہم رکن جسٹس عظمت سعید شیخ نےپناما کیس میں بیس اپریل کو اپنے فیصلے میں لکھا کہ بدقسمتی سے ظفرعلی شاہ کیس میں ماورائے آئین جمہوری حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا گیا، ماضی کے اس فیصلے کو اب عدالت غلط سمجھ رہی ہے۔
یوسف رضا گیلانی کی نااہلی
سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی اہلیہ بے نظیر بھٹو کے خلاف 1998 سے دائر سوئس کرپشن کیس میں سپریم کورٹ نے پیپلزپارٹی کے سابق دورِحکومت میں اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنے صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھ کر کارروائی کرنے کی ہدایت کی تھی۔عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر توہین عدالت کا مقدمہ چلایا گیا۔عدالت نے یوسف رضا گیلانی کو2012میں توہین عدالت کا مرتکب قرار دے کر انہیں نااہل قرار دیا، جس کے بعد وہ فوری طور پر وزیراعظم کے عہدے سے الگ ہوگئے اور پانچ سال تک کوئی بھی الیکشن لڑنے کے لیے بھی نااہل قرار پائے۔ عدالت کے اس فیصلے سے اُس وقت کی حکومت مشکلات کا شکار ہوگئی اور پاکستان کی سیاست لڑا کھڑا گئی تھی۔
پی سی او کیس
پروویژنل کانسٹی ٹیوشنل آرڈر (پی سی او) ججز کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے جون 2009 میں سنایا گیا۔اس فیصلے کو سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے آئینی فیصلوں میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔پی سی او ججز کیس میں سپریم کورٹ نے سابق آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے تین نومبر 2007کو اٹھائے گئے اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔جنرل (ر) پرویز مشرف نے تین نومبر کو ملک میں پی سی او کے تحت ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے، ملکی آئین کو بھی منسوخ کردیا تھا اور ججز کی نظربندی کا حکم دیا گیا تھا۔پرویز مشرف نےتین نومبر 2007 کو اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت سات معزز ججز کو ہٹاکر چوبیس نومبر2007کو چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر سمیت سات دیگر ججز کو پی سی او کے تحت تعینات کیا تھا۔
پناما لیکس کیس
پناما لیکس اسکینڈل کیس کا فیصلہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کیوں کہ آج تک دنیا میں کہیں بھی، کسی بھی ملک میں کسی وزیراعظم یا صدر کے خلاف اس اسکینڈل کی وجہ سے کوئی عدالتی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے اکیس جولائی کو محفوظ کیا اور اٹھائیس جولائی کو سنایا تھاجس کے تحت اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرارپائے تھے۔
درجِ بالا کے علاوہ بھی ہماری عدالتوں نےماضی میںاور پچھلے چند برسوں میں کئی اہم مقدمات میں متنازع فیصلے دیے ،لیکن یا تو ان کے اثرات کا دائرہ بہت وسیع نہیں تھا یا ان پر عمل درآمد کا مرحلہ نہیں آیا، لہذا یہاں ان کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ تاہم تیکنیکی یا آئینی لحاظ سے وہ بھی کافی اہم تھے۔
دوسری طرف مختلف صوبوں میں انتخابات کا عمل پنجاب (مارچ1951ء)، صوبہ سرحد (دسمبر 1951ء)،اور سندھ (مئی 1953ء) سے ہوتا ہوا مارچ 1954ء میں جب مشرقی بنگال پہنچا تو باقی تین صوبوں کے برعکس میں جہاں مسلم لیگ کسی طور اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھی ، مشرقی بنگال میں اس کو حزب اختلاف کے متحدہ محاذ جگتو فرنٹ یا یونائیٹڈ فرنٹ کے ہاتھوں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا۔جگتو فرنٹ صوبائی خود مختاری کے مطالبے کے ساتھ منظر عام پر آیا تھا اور اس میں شامل جماعتیں اس موضوع پر کسی مصالحت کے لیے آمادہ نہیں تھیں۔
مرکز میں مسلم لیگ کی حکومت جو افسر شاہی کی پشت پناہی سے قائم تھی، مشرقی بنگال سے ابھرنے والے صوبائی خود مختاری کے اس رجحان سے سخت خوفزدہ تھی۔ اس سے زرا قبل 3اکتوبر 1953ء کووزیر اعظم محمد علی بوگرا ایک ایسا آئینی فارمولا بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے جس کی رو سے صوبوں کے درمیان نمائندگی کا مسئلہ حل ہوسکتا تھا۔اس فارمولے کو آئین ساز اسمبلی کی تائید بھی حاصل ہوگئی اور یوںسات سال سے جاری آئین سازی کا بحران بالآخر ایک بڑی کامیابی کی طرف بڑھ رہا تھالیکن قبل اس کے کہ یہ مرحلہ آتا،آئین ساز اسمبلی نے عبوری دستور، جس کے تحت ملک چل رہا تھا، میں بعض اہم ترامیم متعارف کردیں ۔21ستمبر 1954ء کو اسمبلی نے چند ایسی ترامیم منظور کیں جن کی رو سے گورنر جنرل کے اختیارات کو محدود کردینے کی کوشش کی گئی۔
اسمبلی کے اراکین یہ دیکھ چکے تھے کہ کس طرح گورنر جنرل نے سابق وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو ان کے عہدے سے الگ کیا تھا لہٰذا ایک ایسے موقع پر جبکہ گورنر جنرل دارالحکومت کراچی میں موجود نہیں تھے ،اسمبلی نے محض دس منٹ کے اندر وہ چار اہم ترامیم منظور کرلیںجو گورنر جنرل کے اختیار ات کو کم کرنے اور نظام کو حقیقی پارلیمانی نظام کے قریب لانے کا راستہ کھولتی تھیں۔ان ترامیم میں پہلی ترمیم کے ذریعے گورنر جنرل کو پابند کیا گیا کہ وہ وزیراعظم کے منصب پر اسی شخص کو نامزد کریں گے جسے اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہوگا۔دوم، کابینہ کے سارے وزراء اسمبلی سے لیے جائیں گے ۔سوم، کابینہ اجتماعی طور پر اسمبلی کے سامنے جوابدہ ہوگی۔ اور چہارم، گورنر جنرل کابینہ کے مشوروں کا پابند ہوگا۔
گورنر جنرل کے لیے یہ اقدامات جن کو انقلابی حیثیت حاصل تھی کسی طور قبول نہیں ہوسکتے تھے ۔سو وہ فوراً کراچی پہنچے اور 24اکتوبر کوانہوںنے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی آئین ساز اسمبلی کو یہ کہہ کر تحلیل کردیاکہ وہ اپنی نمائندہ حیثیت کھو چکی ہے ، اور دستور ساز مشینری کی حیثیت سے یہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے ۔گورنر جنرل کے اس اقدام کے خلاف آئین ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین خان نے سندھ چیف کورٹ میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935کی شق 223-Aکے تحت درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ آئین ساز اسمبلی ایک مقتدر ادارہ تھی جس کو تحلیل کرنے کا گورنر جنرل کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔
لہٰذا درخواست کی گئی کہ اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے مجھے کام جاری رکھنے دیا جائے۔ نیز نئی تشکیل کردہ کابینہ کو ایمرجنسی پر عملدرآمداور دیگر متعلقہ اقدامات سے روکا جائے ۔سندھ چیف کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں گورنر جنرل کے اقدام کو ناجائز قرار دیا۔عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ اسمبلی کے بنائے ہوئے قوانین پرگورنر جنرل کے توثیقی دستخط ضروری نہیں ہیںلیکن اگر کسی قانون کے حوالے سے ضروری سمجھا گیاتو پھر یہ دستخط کی بھی جاسکتے ہیں۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ آئین ساز اسمبلی ایک مقتدر ادارہ ہے جس کو کسی بھی قانون میں ترمیم کرنے یا اس کو ختم کرنے کا بلکہ ایک بالکل نیا آئین بنادینے تک کا اختیار حاصل ہے۔آئین ساز اسمبلی کو توڑنے کے حوالے سندھ کورٹ نے فیصلہ کیاکہ انڈین انڈیپینڈنس ایکٹ اس طرح کی کوئی شق نہیں رکھتا لہٰذاگورنر جنرل کا آئین ساز اسمبلی توڑنے کا اقدام سراسر غیر قانونی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ اسمبلی ایک خاص مقصد یعنی آئین سازی کے لیے وجود میں لائی گئی تھی اور اس کو اس وقت تک کام کرنا تھا جب تک کہ یہ اپنے اس فرض کی تکمیل نہ کرلیتی۔ عدالت نے اسمبلی کی بحالی کا فیصلہ سنایا ۔
سندھ چیف کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت فیڈرل کورٹ میں اس درخواست کے ساتھ پہنچی کہ سندھ کورٹ کو اسمبلی کی بحالی کا اختیار حاصل نہیں تھا۔فیڈرل کورٹ جس کے سربراہ جسٹس محمد منیر تھے ، نے ایک کے مقابلے میں چار ججوں کی اکثریت سے 21مارچ1955ء کو مرکزی حکومت کے حق میں فیصلہ سنایا اور سندھ کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔فیڈرل کورٹ نے اس سوال پر غور کرنا ہی ضروری نہیں سمجھا کہ گورنر جنرل کو اسمبلی توڑنے کا اختیار تھا یا نہیں بلکہ اس نے اپنا فیصلہ ایک تکنیکی نکتے کے اوپر استوار کیا۔
اس کا کہنا یہ تھا کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء میں آرٹیکل 223-Aکی ترمیم جس کو کہ پاکستان نے گورنمنٹ آف انڈیا (ترمیمی) ایکٹ کے ذریعہ اختیار کیاتھا، اس پرگورنر جنرل کے دستخط نہیں کروائے گئے تھے لہٰذا یہ قانون کی حیثیت نہیں رکھتی اور اگر یہ قانون کی حیثیت نہیں رکھتی تو اس کے تحت سندھ کورٹ نے مولوی تمیز الدین کی درخواستوں پر کاروائی کا جو فیصلہ کیا وہ قانونی بنیادوںسے محروم تھا ۔کورٹ کا یہ بھی خیال تھا کہ اسمبلی چاہے آئین ساز اسمبلی کے طور پر کام کررہی ہو یا قانون سازاسمبلی کی حیثیت سے ، اس کے بنائے گئے قوانین گورنر جنرل کے دستخطوں کے بغیر قانون کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے۔
فیڈرل کورٹ کا یہ فیصلہ اس لحاظ سے محل نظر تھا کہ یہ ایک معلوم حقیقت تھی کہ آئین ساز اسمبلی ایک مقتدر(sovereign) ادارہ ہے اور آئین کی رو سے اس کو حرف آخر کی حیثیت حاصل ہے ۔کامن ویلتھ کے ملکوں میں آئین سازی اور آئینی ترامیم پر گورنر جنرل کے دستخط کرانے کی پابندی موجودنہیں ہے ۔یہی نہیں بلکہ زیر بحث مقدمے سے قبل قائداعظم، خواجہ ناظم الدین اور غلام محمدتینوں گورنرز جنرل کے ادوار میں اس اسمبلی نے46ایسے قوانین بنائے اور وہ نافذ ہوئے جن پر گورنر جنرل کے دستخط نہیں تھے۔فیڈرل کورٹ کے فیصلے نے ملک کو ایک بڑے آئینی بحران سے دوچار کردیا جو آئین ساز اسمبلی کے توڑے جانے کے اقدام سے بھی زیادہ سنجیدہ نتائج کا حامل تھا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد گورنر جنرل نے ایمرجنسی کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایک آرڈیننس کے ذریعے ان قوانین پر دستخط کرنے شروع کردیے جن پرپہلے گورنر جنرل کے دستخط ثبت نہیں ہوئے تھے۔اس پر یوسف پٹیل کے مشہور مقدمے کے دوران چیف جسٹس نے قرار دیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قانون ساز مشینری کی عدم موجودگی میں گورنر جنرل پہلے تو خود ایک آرڈی ننس کے ذریعے قوانین کی توثیق کااختیار حاصل کرلیں اور پھر ماضی کے قوانین کی توثیق کا عمل شروع کردیں۔اس دوسرے فیصلے کے بعد قانونی مشینری کی ضرورت نمایاں ہوئی اور یوں اگلی اسمبلی کے انتخاب(بالواسطہ) کا راستہ کھلا جس نے بعد ازاں 1956ء کا دستور بنایا۔
1958ء کا مارشل لاء
7اکتوبر1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے 1956ء کے دستور کو منسوخ کردیا ، ملک میں مارشل لاء نافذ کرکے برّی افواج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنادیا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی گئی۔مارشل لاء کے نفاذ کے صرف تین روز بعد ایک آئینی بحران اٹھ کھڑا ہواجب مشرقی پاکستان کی ہائی کورٹ نے نئے صوبائی گورنر سے اس بنا پر حلف لینے سے انکار کردیا کہ وہ ایساکس آئینی اختیار کے ساتھ کرسکتی ہے؟
یہ اور ایسے ہی دیگر قانونی مسائل کے پیش نظرنئی انتظامیہ نے ـ’قوانین کے تسلسل کا حکم نامہ مجریہ1958‘ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ گو کہ آئین ختم ہوچکا ہے لیکن جہاں جہاں ملک کے کام چلانے کے لیے ضرورت پیش آئے گی وہاں کالعدم آئین کی شقوں کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کو بھی آئین کے دیے ہوئے بعض اختیارات استعمال کرنے کا حق ہوگا البتہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور ان کی انتظامیہ کے افسروں کے احکامات اورمارشل لاء ریگولیشنز کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔
اس حکم نامے کے جاری ہوتے ہی یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا اور خود سپریم کورٹ کے مشہور زمانہ ’ڈوسو کیس‘ میں اس سوال کا جواب تلاش کرنا پڑا کہ آئین کی عدم موجودگی میںنئی انتظامیہ کو مذکورہ حکم نامہ جاری کرنے کا اختیار کہاں سے حاصل ہوا؟دوسرے لفظوں میں عدالت میں مارشل لاء کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا سوال زیر بحث آگیا۔عدالت نے جس کی سربراہی جسٹس محمد منیر ہی کررہے تھے، یہ قرار دیا کہ مارشل لاء نافذ کرنے والی اتھارٹی نے آئین کو منسوخ کرکے خودکو آئین سے زیادہ طاقتور حقیقت کے طور پر ثابت کردکھا یا ہے۔لہٰذا مارشل لاء کی حیثیت ایک انقلاب کی ہے۔ریاست چونکہ خلا میں کام نہیں کرسکتی اور مارشل لاء نے یہ ثابت کیا کہ اس نے آئین کی جگہ لے لی ہے اور ریاست میں کوئی خلا پیدا نہیں ہونے دیا۔لہٰذا اب یہی آئینی انتظامیہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔جسٹس منیر نے اپنے فیصلے میں مارشل لاء کے ایک غیر قانونی اقدام کو قانونی قرار دینے کا فیصلہ سنایا، یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک بہت بڑے آئینی بحران کا سبب بنا اور کوئی چودہ سال بعد اس وقت کی سپریم کورٹ کو اس فیصلے کی طرف ایک مرتبہ پھر متوجہ ہونا پڑا۔عاصمہ جیلانی کیس میں چیف جسٹس حمود الرحمن نے ماضی کے جسٹس منیر کے فیصلے پر شدید تنقید کی۔
عاصمہ جیلانی کیس
25مارچ 1969ء کو ایوب خان کے خلاف ملک گیر احتجاج اور ہنگاموں کے بعد ایک بار پھر مارشل لا ء لگا دیا گیا۔ایوب خان نے برّی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقررکیا، خود اپنا بنایا ہوا 1962ء کا دستور منسوخ کیا اور اس دستور میں صدر کی عدم موجودگی میں قائم مقام صدر کے لیے جو شق رکھی تھی اس کا استعمال نہیں کیا، اور اقتدار فوج کے سپرد کرنے کو بہتر سمجھا۔یحییٰ خان نے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے کے چند روز بعد 31مارچ کو مملکت کے صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔یحییٰ خان کے ان اقدامات کو اس وقت تو عدالت میں چیلنج نہیں کیا گیا لیکن 20دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد یحییٰ خان نے مجبوراً اقتدار اور خود مارشل لاء کا نظام پیپلز پارٹی کے رہنما ، ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کردیا تو مارشل لاء کے قانونی جواز کا سوال اٹھا۔اقتدار میں آتے ہی بھٹو نے مارشل لاء ریگولیشنز کا بے دریغ استعمال شروع کردیا۔
حزب اختلاف کے رہنما ملک غلام جیلانی اور روزنامہ’ ڈان‘ کے ایڈیٹر الطاف گوہرکی گرفتاری بھی مارشل لاء ریگولیشنز کے تحت ہی کی گئی۔ملک غلام جیلانی کی بیٹی عاصمہ جیلانی اور الطاف گوہرکی بیگم زرینہ گوہر نے عدالت سے رجوع کیا۔بات ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ تک پہنچی اور ایک مرتبہ پھر مارشل لاء کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا سوال زیر بحث آگیا۔چیف جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں عدالت نے یہ موقف اختیار کیاکہ یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ کوئی بھی قانون کیا کسی ایسے شخص یا اتھارٹی نے بنایا ہے جو خود قانونی جواز کا حامل تھا اور کیا وہ اس قانون کے نفاذ کے لیے ایک قانونی مشینری کے استعمال کی بھی اہلیت رکھتا تھا۔عدالت نے یحییٰ خان کے مارشل لاء کو غیر قانونی اور غیر آئینی اور خود یحییٰ خان کو اقتدار پر ناجائز قبضہ کرنے والا(Usurper)قرار دیا۔یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم مقدمہ تھا لیکن یہ بھی اس وقت ہو پایا جب کہ وہ فوجی انتظامیہ اور غاصب دونوں منظر سے ہٹ چکے تھے۔
جنرل ضیا ء الحق کا مارشل لاء اور نصرت بھٹو کیس
1977ء میں عام انتخابات کے انعقاد ، حزب اختلاف کے قومی اتحاد کی طرف سے انتخابات میں بھٹو حکومت کی طرف سے دھاندلی کے الزامات، ملک گیر سیاسی ہنگاموں اور قومی اتحاد اور حکومت کے درمیان مزاکرات کی کامیابی کے باوجود 5جولائی1977ء کو فوج نے ضیاء الحق کی سربراہی میں مارشل لاء نافذ کردیا۔1973ء کے آئین میں چونکہ لکھ دیاگیا تھا کہ آئین کی تنسیخ غداری تصورہوگی جس کی سزا ، سزائے موت ٹھہرائی گئی۔لہٰذا ضیاء الحق نے آئین کی تنسیخ کے بجائے اس کے تعطل (suspension)کا اعلان کیا۔مارشل لاء کے احکام کے مطابق بعض لیڈروں کو گرفتار کرنے کا عمل شروع ہوا، جن میں سابق وزیر اعظم بھٹو بھی شامل تھے۔
بیگم نصرت بھٹو نے اپنے شوہر کی گرفتاری کے خلاف پٹیشن دائر کی چنانچہ ایک بار پھر عدالت کو مارشل لاء کے جائز یا ناجائز ہونے کے سوال کا سامنا کرنا پڑا۔بیگم بھٹو کے وکیل یحییٰ بختیار نے موقف اختیار کیا کہ ضیاء الحق کا مارشل لاء آئین کے آرٹیکل 6کی رو سے غداری کے زمرے میں آتا ہے اور مارشل لاء کا آرڈر نمبر15جس کی رو سے بھٹو کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ قانونی جواز سے محروم ہے۔مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے وکلا شریف الدین پیرزادہ اور اے کے بروہی نے موقف اختیار کیا کہ 5جولائی تک 1973ء کے آئین کی عملداری تھی اور اس کے بعد جب مارشل لاء لگا یا گیا تو اس کے ساتھ ہی قوانین کے تسلسل کا حکمنامہ بھی جاری کیا گیا، تاکہ معطل شدہ آئین کی جن شقوں سے ضروری ہو،فائدہ اٹھایا جاسکے۔
یہ بالکل نئی آئینی صورتحال ہے اور 5جولائی کافوجی اقدام اقتدار پر غاصبانہ قبضے کی تعریف میں نہیں آتا بلکہ یہ ایک غاصب ِاقتدار (بھٹو) جس نے الیکشن میں دھاندلی کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کررکھا تھا ، کو اقتدار سے الگ کرنے کا اقدام تھا۔چیف جسٹس انوار الحق کی سربراہی میںسپریم کورٹ نے ضیا ء الحق کے مارشل لاء کو جائز قرار دیتے ہوئے قرار دیا کہ یہ آئینی راستے سے انحراف ضرورت کے پیش نظر کیا گیا ہے اور نظریۂ ضرورت کے مطابق اس کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں پاکستان اپنی تاریخ کے طویل ترین فوجی اقتدار کی نذر ہوا، حالانکہ ضیاء کے وکیلوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ فوجی انتظامیہ ایک مختصر مدت کے لیے مملکت کے اقتدار پر فائز ہوئی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کا فوجی اقتدار اور عدلیہ کا فیصلہ
12اکتوبر1999ء کو فوج نے اس وقت ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قبضہ کرلیا جب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف کی ملک سے عدم موجودگی کے دوران وزیراعظم نے ان کو ان کے عہدے سے الگ کرنے کی کوشش کی۔فوج کے سینیئر جرنلوں نے نواز شریف کو گرفتار کرلیا اور مشرف کے سری لنکا سے واپس پہنچتے ہی انہوں نے اقتدار پر تصرف حاصل کرلیا۔انہوں نے بھی آئین کو منسوخ کرنے کا اعلان نہیں کیا نہ ہی فوجی اقتدار کو مارشل لاء کا نام دیا۔انہوں نے اپنے لیے چیف ایگزیکیٹو کا عہدہ تخلیق کیا اور اس پر فائز ہوگئے۔ساتھ ہی انہوں نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی۔انہوں نے ایک اور اقدام یہ کیا کہ اپنے آمرانہ نظام سے وفاداری کا حلف عدالتوں کے ججوں سے لینا چاہا۔نتیجتاً سپریم کورٹ کے کئی ججوں نے یہ حلف لینے سے انکار کیا اور اپنے عہدوں سے الگ ہوگئے۔
مشرف کے اقتدار میں آنے کو بھی آئین کی تنسیخ کے بجائے اس کو تعطل میں ڈالنا قرار دیا گیا اورچیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے اس پوزیشن کو تسلیم کیا۔سپریم کورٹ نے فوج کے اقتدار سنبھالنے کو اس وقت کے حالات کا نتیجہ قرار دیا۔گویا نظریۂ ضرورت ایک بار پھر زندہ کردیا گیا۔ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے مشرف کو تین سال تک حکومت کرنے کا اختیار دیا ۔یہ الگ بات ہے کہ مشرف نے بعد ازاں اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ایسے راستے اختیار کیے جن پر عدالتیں گرفت نہیں کرسکیں اور وہ بحیثیت مجموعی تقریباً نو سال برسر اقتدار رہے۔
سپریم کورٹ کی اس فوجی اقتدار کی حمایت کا یہ پہلو قابل ذکر تھا کہ عدالت عظمیٰ نے 2002ء میں غیر جماعتی انتخابات منعقد کروائے۔ سویلین حکومتیں بھی قائم کیں، مگر خود چیف آف آرمی اسٹاف اور صدر کے مناصب پر تقریبا ً آخر تک فائز رہے۔اپنے اقتدار کے آخری زمانے میں انہوں نے فوج کا عہدہ چھوڑ دیا اور جنرل اشفاق پرویز کیانی اس منصب پر فائز ہوئے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد نئی سویلین حکومتیں وجود میں آئیں جس کے چند ماہ بعد مشرف صدارت کے منصب سے الگ کردیے گئے ۔
پاکستان کے چند آئینی بحرانوں کا مذکورہ بالا احوال ملک کے سیاسی عدم استحکام کی تاریخ کو سمجھنے میں مدد سے سکتا ہے۔ہماری تاریخ میں یہی آئینی بحران نہیں آئے بلکہ مختلف النوع آئینی بحران کم و بیش پچھلے پچھتر برسوں سے کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے ہیں۔ریاست کے اداروں کی جمہوری تشکیل کا نہ ہو پانا، سیاسی جماعتوں اور سیاسی کلچر کی داخلی کمزوریاں، سول ملٹری عدم توازن اور ملک میں آئینی کلچر کی عدم موجودگی، یہ وہ بنیادی اسباب ہیں جنہوں نے ملک کو کمزور، غیر یقینی کا شکار اور عدم تحفظ سے دوچار کر رکھا ہے۔