نہ جانے 75میں سے کتنے سال اس کیفیت میں گزرے۔
’’صدرمملکت قوم سے خطاب کریں گے۔‘‘
ایسا اعلان ٹیلی وژن پر دیکھتے ہی ریڈیو سے سنتے ہی، اخبارات میں پڑھتے ہی پاکستان میں ایک عام شہری کے ذہن میں فوراً اسمبلیاں ٹوٹنے کا اقدام آتا تھا۔
90 کی دہائی میں تو صدر مملکت نے ٹیلی وژن اور ریڈیو پر آنے کی زحمت صرف اسی سلسلے میں کی ۔ کسی سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کے قوم سے خطاب کی ویسے ہی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ پاکستان جیسی قوم کے لئے اس کی حیثیت اور نتیجہ خیزی اس لئے بھی زیادہ ہو جاتی ہے کہ ہم زیادہ تر ان پڑھ ہیں۔ خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ اس لئے ہماری اکثریت سے مکالمے کاذریعہ تقریر ہی ہے۔ ہمیں خبردار کرنا ہو۔ د ھمکانا ہو، ڈراناہو، یا ہم پر زور دیتے ہوئے کچھ کرنا ہو تو ٹیلی وژن اور ریڈیو ہی مناسب اور معقول ذرائع ہیں۔اب تو پرائیویٹ ٹی وی چینل بھی درجنوں کی تعداد میں 2002 سے اس دوڑ میں شامل ہیں۔
1947 سے 1964 تک ریڈیو کے ذریعے اور 1964 سے 1977 تک بے رنگ ٹیلی وژن کے ذریعے 1978 سے آج تک رنگین ٹیلی وژن کے ذریعے پاکستانی قوم پر مسلسل زور دیا جارہا ہے اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہے۔
1990 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی منتخب حکومت اور محترمہ بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کو برطرف کرنے کے لئے جب صدر مملکت جناب غلام اسحٰق خان رات گئے ٹیلی وژن پر آئے تھے۔ ان کی تقریر سنتے سنتے میں بہت دور نکل گیا تھا۔ میرے ذہن کی اسکرین پر صدر جنرل محمد ضیا الحق، محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کر رہے تھے۔ پھر جنرل ضیا الحق وزیراعظم بھٹو کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کر رہے تھے۔ بھٹو صاحب جگر لخت لخت کو جمع کرنے کی نوید دے رہے تھے۔ یحییٰ خان، ایوب خان کے رخصت ہونے کا اعلان کر رہے تھے۔ ایوب خان اپنے صدر نہ رہنے کے سلسلے میں قوم کو اعتماد میں لے رہے تھے۔
نہ جانے کون کون سے چہرے ابھر رہے تھے، ڈوب رہے تھے۔
تصویروں میں تاریخ آپ اکثر دیکھتے رہے ہیں۔
اب تقریروں میں اپنی تاریخ کا مطالعہ کیجئے۔
یہ تقریر یں پاکستان کے قیام کے تاریخی اعلان سے شروع ہوتی ہیں اور اب تک پاکستان جن بحرانوں سے گزرا ہے، جن المیوں سے دوچار ہوا ہے، جن مصائب کا شکار ہوا ہے۔ جو کارہائے نمایاں انجام دے سکا ہے، جو فتوحات اپنے دامن میں سمیٹ سکا ہے، ان سب کی داستان ان تقریروں میں موجود ہے۔
ہماری تاریخ کے یہ اوراق ہم پر یہ حقیقت منکشف کرتے ہیں کہ آج ہم جن مسائل سے پریشان ہیں۔ آج جو برائیاں ہمارے معاشرے پر غالب ہیں۔ آج جن آئینی قانونی پیچیدگیوں نے ہمارے ہاں عدم توازن پیدا کر رکھا ہے۔ ہمارے قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی پہلی تقریر میں ہی ان پر تفصیلی روشنی ڈالی تھی۔ قوم کو اس وقت بھی ان رحجانات کی موجودگی سے آگاہ اور ان کے خطرناک نتائج سے خبردار کیاتھا۔
دوسری سب تقریروں میں بھی مختلف سربراہان مملکت اور حکومت نے مختلف خطرات اور خدشات سے بار بار خبردار کیا۔ کوئی بھی مشکل اور الجھن ایسی نہیں ہے جس سے ہمیں بے خبر رکھا گیا ہو۔
پھر آخر کیا سبب تھا یا ہے کہ ہم ان مسائل کا حل تلاش نہیں کر سکے۔ اس درد کا مداوا نہیں کر سکے۔ قائداعظم علی جناح کو سنئے۔ پہلی دستور ساز اسمبلی سے قیام پاکستان سے تین روز پہلے خطاب کرتے ہوئے کیا کہتے ہیں۔
’’مجھے امید وانق ہے کہ آپ کی حمایت اور آپ کے تعاون سے ہم اس مجلس کو دنیا کے لئے ایک مثال بنا دیں گے۔
مجلس دستور ساز کو دو بڑے فریضے سرانجام دینے ہیں۔ پہلا فریضہ تو بہت کٹھن اور ذمہ داری کا کام ہے۔ یعنی پاکستان کے لئے دستور مرتب کرنا اور دوسرا ایک کامل خود مختار اور پاکستان کے وفاقی قانون ساز ادارے کا کردار ادا کرنا۔ ہمیں اپنی بہترین مساعی اس امر کے لئے صرف کرنا ہوںگی کہ ہم وفاقی مجلس قانون ساز پاکستان کے لئے ایک عبوری آئین تیار کریں۔‘‘
اب آپ غور کیجئے کہ دستور سازی کے جس کٹھن فریضے کا احساس بانی پاکستان نے ہمیں دلایا تھا۔ اس نازک فریضے کی انجام دہی میں مختلف پاکستانی نسلوں نے جو کوتاہی کی۔ اس کے نتیجے میں ہمیں کیسے کیسے صدمے برداشت کرنے پڑے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عظیم المیہ اسی کاشاخسانہ ہے اور طالع آزما جرنیلوں نے جو ہمارے بدقسمت ملک کو خود ہی بار بار فتح کیا۔ وہ بھی دستور سازی کے عمل سے کوتاہی کا ہی نتیجہ ہے۔
اپنی پہلی تقریر میں قائداعظم نے رشوت اور بدعنوانی سے خبردار کیا۔ ’’چور بازاری ‘‘کو لعنت قرار دیتے ہوئے اس سلسلے میں قوانین کی کمزوری کا حوالہ دیا۔
پھر سب سے اہم بات یہ کہ انہوں نے تمام پاکستانیوں کو مملکت کے یکساں شہری قرار دیااور واضح طور پر کہا۔
’’ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ ابتدا کر رہے ہیں کہ ہم سب شہری ہیں اور ایک مملکت کے یکساں شہری ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے اورپھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا۔ نہ ہندو، ہندور ہے گا نہ مسلمان مسلمان۔ مذہبی اعتبارسے نہیں۔ کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔‘‘
پھر غیر منقسم ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن پاکستان کی پیدائش کو تاریخ میں ایک واقعہ قرار دیتے ہوئے بھارت اور پاکستان دونوں کی حکومتوں کو یاد دلاتے ہیں کہ:
’’دونوں حکومتوں نے اعلان کیا کہ تمام شہریوں کے بلا تخصیص مذہب، جنس اور نسل کے قانونی مفادات کی حفاظت ان کا فرض ہے۔ دونوں حکومتوں نے اس بات کا بھی عہد کیا کہ 15 اگست سے قبل تک رہنے والے سیاسی مخالفین کے خلاف کوئی تفریق نہیں ہو گی۔ ان الفاظ کو وقت دینے کا مطلب انسانی نسل کے پانچویں حصے کے منشور آزادی سے کم نہیں۔"
دونوں ممالک میں دیکھئے۔ مذہب، جنس اور نسل کی بنیاد پر کتنی خون ریزی ہو رہی ہے۔ انسانی زندگیوں کے چراغ کس طرح گل کیے جارہے ہیں۔ سیاسی مخالفین پر غداری، وطن دشمنی کے الزامات، سیاسی اختلاف کی بنا پر آزادی سلب کرنا ایک مستقل روایت بنی ہوئی ہے۔ معتصب مودی کے دَور میں تو خونریزی کی انتہا ہوگئی ہے۔
آج ہم زبان کے مسئلے سے بھی دو چار ہیں۔ زبان جو محبت کا ذریعۂ اظہار ہے۔ وہ زبان ہمارے ہاں نہ جانے کتنی زندگیاں چاٹ گئی ہے۔ کتنا لہوپی گئی ہے۔ بنگالی اور اردو کے درمیان شروع ہونے والا یہ تصادم بعد میں سندھی اور اردو کا ٹکرائو بنا۔ اب کہیں سرائیکی اور پنجابی میں مقابلہ ہے۔ کہیں پشتو اور بلوچی میں، زبان کے اختلافات چنگاریاں بن کر سلگتے رہتے ہیں۔ جو کسی بھی وقت شعلہ بن کر بھڑک اٹھتے ہیں۔
قائداعظم ایک جرات مند رہنما تھے۔ اس لئے انہوں نے ابتدا میں ہی قطعی اور واضح الفاظ میں یہ اعلان کر دیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔ لیکن اس اعلان کے نفاذ کے لئے اس وقت کی اور بعد کی حکومتوں کو جو عملی طریق کار اختیار کرنا چاہئے تھا۔ وہ آج تک نہیں ہوا ہے۔ سرکاری زبان عملاً آج بھی انگریزی ہے۔ اردو کی محبت میں تونہ جانے کیا کچھ ہو چکا ہے۔
دستور سازی، زبان، صوبائیت، علاقائیت کے مسائل کے واضح حوالے قریباً ہر سربراہ مملکت کی تقریر میں ملتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ کشمیر کا تنازع بھی ایک مرکزی موضوع بنا رہتا ہے۔
شہید ملت لیاقت علی خان کا مکا پاکستان کے ابتدائی برسوں میں اتحاد اور جرات کی ایک علامت بن گیا تھا۔ میں ان دنوں اسکول کا طالب علم تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے پوسٹر بھی دیواروں پر چسپاں ہوئے تھے اور اسکولوں کی کاپیوں کے پیچھے بھی لیاقت علی خان کی مکے والی تصویر ہم طالب علموں میں کتنا جوش اور ولولہ پیدا کرتی تھی۔
یہ مکابھی لیاقت علی خان کی ایک تقریر سے ہی تاریخی علامت بنا تھا۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کے عہدے سے اتر کر وزارت عظمیٰ کا منصب جلیلہ سنبھالتے ہیں اس وقت ان کی تقریر گہرے درد اور دکھ میں ڈوبی ہوئی ہے اور وہ اس وقت کے تمام مسائل کا اتنے بھر پور انداز میں احاطہ کرتی ہے کہ پوری صورت حال سامنے آجاتی ہے اور اس وقت پاکستان کس کرب اور اندوہ سے گزر رہا تھا۔ اس کی تصویر بھی سامنے آجاتی ہے۔ اس تقریر میں کشمیر کے حالات اور مسئلہ بھی تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ اقتصادی ترقی کا احساس بھی ہے، بالخصوص مہاجرین کے لئے صنعتی اور تجارتی ترقی کا بار بار ذکر ہے اور قائد ملت کی شہادت کے درد کو اپنی قوت میں ڈھال لینے کا عزم بھی۔
خواجہ ناظم الدین کے دور میں ہی پاکستان میں پہلے جزوی مارشل لاء کا نفاذ ہوتا ہے۔ جب قادیانی مسئلے پر پہلی بار حکومت اور عوام کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی ہے۔ اس کے بعد سے ہی پاکستانی قوم انتشار اور عدم استحکام کی راہ پر ایسی چل پڑتی ہے کہ آج تک صراط مستقیم تلاش کی جارہی ہے۔
اس کے فوراً بعد ہی پاکستان کے پہلے بیوروکریٹ گورنر جنرل ملک غلام محمد دستور ساز اسمبلی پر اپنے اختیارات کی تلوار چلاتے ہیں۔ قائداعظم کے ہاتھوں افتتاح پانے والی دستور ساز اسمبلی قتل کر دی جاتی ہے۔ یہ آغاز ہے پاکستان میں اسمبلیوں کے توڑنے جانے کے بھیانک سلسلے کا جو وقفوں وقفوں سے چلا آرہا ہے۔
گورنر جنرل نے اپنے فرمان امروز میں کہا تھا کہ۔
’’ملک میں آئینی مشینری درہم برہم ہو گئی ہے۔ دستور ساز اسمبلی موجودہ صورت میں عوام کا اتحاد کھو بیٹھی ہے اور کام نہیں کر سکتی۔‘‘
بیورو کریٹ گورنر جنرل نے بیورو کریٹ وزیر اعظم چوہدری محمد علی کو نئی کابینہ بنانے کی دعوت دی۔ جو انہوں نے فوراً قبول کر لی۔ کیوں ،اس کا جواب انہی کے لفظوں میں،ملاحظہ کریں۔
’’گورنرجنرل نے مجھ سے کہا کہ میں کمپنی کی از سرنوتشکیل اس طرح کروں کہ ملک میں مستحکم اور مضبوط نظم و نسق قائم ہو سکے۔ میں نے یہ دعوت نامہ قبول کر لیا یہ ایسافرض تھا جو ملک اور میرے محبوب ہم وطنوں کی طرف سے مجھ پر اس نازک وقت سے عاید ہوتا ہے۔‘‘
ریڈیو سے اپنے اس خطاب میں وہ گورز جنرل کے اسمبلی توڑنے کے اقدام کی تائید کس خوبصورتی سے کر رہے ہیں اور آئین سازی جسے قائداعظم سب سے اہم فریضہ قرار دیتے ہیں اسے وزیر اعظم چوہدری محمد علی کتنا اہم سمجھتے ہیں،ذرا ملاحظہ کریں۔
’’امریکہ جانے کے فورا ًبعد مجھے ان افسوسناک حالات کاپتہ چلا۔ اس وقت سے میں دستوریہ کے وقار میں کمی کے بعد ملک کے سیاسی حالات کی بڑھتی ہوئی نزاکت کو گہری تشویش سے دیکھ رہا تھا۔ واپسی پر میں نے دیکھا کہ حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ گورنر جنرل کے لئے ملک کے مفاد کی خاطر وہ اقدام کرنا ضروری ہے جو انہوں نے کیا۔ ملک کا مستقبل ایسی اسمبلی کی تلون مزاجی پر نہیں چھوڑا جا سکتا جو ملک کے مفاد کے تحفظ کی بجائے اندرونی خلفشار اور تنازعات کا مرکز بن رہی تھی۔ آئین سازی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ اہم ملک کا استحکام اور سلامتی ہے۔‘‘
ملک کا استحکام آئین سازی سے زیادہ اہمیت کیوں اختیار کر گیا تھا؟ اس کے پس منظر میں جو کہانیاں تھیں،وہ اب کئی کتابوں کا موضوع بن چکی ہیں۔ اس کے بعد مولوی تمیز الدین کی عدالت عالیہ پر دستک اور جسٹس منیر کا فیصلہ ہماری تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ملک کے استحکام کے نام پر ایسے اداروں کو عدم مستحکم کیا گیا جو فی الحقیقت ملک کو استحکام بخش سکتے کبھی نظریہ پاکستان کے نام پر یہی کھیل کھیلے گئے۔پھر1956ء کا آئین تشکیل پاتا ہے۔ ایک فرد ایک ووٹ کا اصول رخصت کر دیا جاتا ہے۔
مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں برابری کا اصول قانون بن جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان کی اکثریتی حیثیت پیرٹی کے مقتل پر قربان کر دی جاتی ہے اور مشرقی پاکستان کے عوام کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ مغربی پاکستان ہر صورت میں اپنی برتری قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اگرچہ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ لیکن پارٹی سے جمہوریت کا بنیادی اصول ایک فرد ایک ووٹ ختم ہو جانے سے مشرقی پاکستان میں یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ ہماری اکثریت کو تسلیم نہیں کیا جارہا ہے۔
یہ 1956ء کے آئین کا براہ راست ردعمل ہے یا برسوں سے ایوب خان کے دل میں اقتدار کی خواہش کا شاخسانہ کہ1958ء میں 1956ء کا آئین توڑ کر مارشل لاء نافذ کر دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بھی پاکستان میں عدم استحکام قرار دیا جاتا ہے کہ سیاستدانوں نے ملک کو تباہی کے کنارے پر پہنچا دیا تھا۔
یہ پاکستان میں مارشل لاء کی بھیانک روایت کا آغاز تھا۔
اس مارشل لاء نے ہمیں 1962ء کا آئین دیا جس پر حبیب جالب مرحوم نے پوری قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا۔
ایسے دستور کو ،صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا،میں نہیں جانتا
اس دستور کے سلسلے میں ایوب خان کا قوم سے خطاب مطالعے کے لائق ہے۔ اس میں آئینی مسائل پر بڑی تفصیل اور گہرے درد سے بات کی گئی ہے۔ صوبائی خود مختاری، سیاسی آزادیاں، بنیادی حقوق سبھی کچھ اس میں ہے۔ اس آئین میں ترمیم کا طریقہ بھی سخت تھا۔ لیکن اسے کیا کہئے کہ جب ایوب خان کے جانے کا وقت آیا تو انہوں نے خود اس آئین کی پیروی نہیں کی۔ قوی اسمبلی کے اسپیکر کو ملک کی باگ ڈور دینے کی بجائے کمانڈر انچیف کو ہی ملک کا سربراہ بنا دیا اور جس آئین کو انہوں نے اتنی محنت سے بنایا تھا خود ہی اسے ختم بھی کر دیا۔
دستور بنانے اور دستور توڑنے دونوں کا اعلان تقریروں میں ہوتا رہا ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں بعض سیاسی جماعتیں 1956ء کے آئین کی بحالی کا مطالبہ کرتی تھیں۔ بعض نئے آئین کی تشکیل کا نعرہ لگاتی تھیں، بعض 1962ء اور 1956ء کے آئین کو ملا کر آئین بنانے کا مطالبہ کرتی تھیں۔ ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک کے دوران یہ اہم امور تھے۔ جو جلسوں اور جلوسوں میں موضوع سخن بنتے تھے۔ یحییٰ خان جب چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنتے ہیں تو 1962ء کے آئین کی تنسیخ انہی وجوہ کی بنا پر کرتے ہیں اور جب وہ 1970ء کے انتخابات کے لئے قانونی ڈھانچے کا اعلان کرتے ہیں تو یہی دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت 1956ء اور 1962ء دونوں آئینوں کو مسترد کر چکی ہے اس لئے اب نیا آئین بنایا جائے گا، جو انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی بنائے گی۔
اس قومی اسمبلی کا اجلاس ہی نہیں ہو پاتا کہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ پھر باقی ماندہ پاکستان میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں بالآخر 1973ء میں ایسا آئین منظور ہو جاتا ہے جسے چاروں صوبوں کے منتخب نمائندوں کی تائید حاصل ہو جاتی ہے لیکن بعد میں اس آئین میں کی گئی یکطرفہ ترامیم کو اپوزیشن مسترد کر دیتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق مارشل لاء نافذ کرتے وقت 1973ء کے آئین کو منسوخ نہیں کرتے ہیں۔ بلکہ نیا تجربہ کرتے ہیں کہ اسے التوا میں ڈال دیتے ہیں۔ یہ تجربہ کامیاب رہتا ہے۔
قوم اسے برداشت کر لیتی ہے پھر ایک حکم کے ذریعے آئین بحال کر دیا جاتا ہے۔ پھر غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی 1973ء کے آئین میں رسوائے زمانہ آٹھویں آئینی ترمیم منظور کرتی ہے۔ جس کے بعد صدر کو قومی اسمبلی توڑنے کا اختیار مل جاتا ہے۔ ایک اسمبلی ایک فرد واحد کے ہاتھوں اپنے توڑے جانے کے قانون کو منظور کر لیتی ہے۔
آٹھویں آئینی ترمیم کئی سال سے مسئلہ رائج الوقت رہتی ہے، اس کے تحت صدر ضیاء الحق نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے محمد خان جونیجو کی حکومت اور اسمبلی بر طرف کی ہے۔ صدر غلام اسحاق خان نے اس ترمیم کے تحت پہلی بار1990ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ اور قومی اسمبلی دوسری بار 1993ء میں نواز شریف صاحب کی وزارت عظمیٰ اور قومی اسمبلی برطرف کی۔ پھر صدر فاروق لغاری نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت 1996 میں برطرف کردی۔
اسمبلیاں توڑے جانے کے سلسلے میں تمام تقریر یں ایک دوسرے کا چربہ معلوم ہوتی ہیں۔ وہی اسباب، وہی حیلے، وہی مقاصد اور آئندہ انتخابات کے ذریعے عوام کو اقتدار واپس دینے کے وعدے۔
آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے غیرتحریری طور پر اقتدار میںشراکت کو آئینی حق تسلیم کروالیاتھا۔ اب انتخابات کے بعد اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل نہیں کیاجاتا۔ اقتدار کے کچھ حصے میں شراکت دی جاتی ہے، تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اسٹیبلشمنٹ کے اس غیر تحریری آئینی حق کو منظور کر لیا ہے۔ ان تقریروں کے بتدریج مطالعے سے ہی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اقتدار پر عوام کے نمائندوں کی گرفت کس طرح کمزور ہوتی چلی گئی ، اقتدار کی اقدار کتنی تبدیل ہوتی چلی جاتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ کارواں کے دل سے احساس زیاں کس طرح جاتا رہتا ہے۔
آج2022 بھی ہم سیاسی عدم استحکام کے باعث سرمایہ کاری رک جانے کا واویلا کرتے ہیں۔ یحییٰ خان بھی مارشل لاء لگاتے وقت اسی بات کا رونا رو رہے تھے۔ تاریخ سب جگہ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن پاکستان میں تاریخ کچھ زیادہ ہی دہرانے کا عمل کا شوق پورا کرتی ہے۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو کے برسراقتدار آنے کے بعد نیا پاکستان جنم لیتا ہے۔ اس کے بعد عام طور پر یہ خیال ہوتا ہے کہ اب سویلین دور جاری رہے گا۔ لیکن جرنیلوں کی طالع آزمائی اور بعض سیاستدانوں کے ان سے اشتراک کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ملک میں تیسرا مکمل مارشل لاء سب سے طویل مارشل لاء ثابت ہوتا ہے۔
جنرل ضیاء الحق اپنی مرضی سے اور اپنے طریق کار سے مارشل لاء لگاتے ہیں۔ لیکن اس کے خاتمے سے پہلے آٹھویں ترمیم منظور کروا لیتے ہیں۔
صدر ضیا کے طیارے کی تباہی کے بعد قائم مقام صدر غلام اسحاق خان کا قوم سے خطاب اور اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل مرزا اسلم بیگ کا فوجی افسروں سے خطاب غور سے پڑھنے کی چیزیں ہیں۔
17 اگست کی رات قائم مقام صدر فرماتے ہیں:
’’ یہ ہمارے قوی استحکام کا تقاضا ہے کہ ہم کاروبارسلطنت کو آئین کے مطابق چلاتے رہیں۔ چنانچہ میں نے انتہائی انکساری کے ساتھ فوری طور پر وہ ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں جو آئین کی رو سے مجھ پر عائد ہوتی ہیں۔اپنی آئینی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد میں نے وفاقی کابینہ کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا جس میں مسلح افواج کے تینوں سربراہوں کو شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی۔ یہ اجلاس ابھی ختم ہوا ہے اور اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملک کا سارا انتظام آئین کے مطابق ہی چلایا جائے گا۔ ‘‘
جنرل پرویز مشرف کی رات گئے تقریر اور پھر اقتدار چھوڑتے وقت تقریریں بھی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ان کی چند تقاریر کی اقتباسات ملاحظہ کریں:
’’سنجیدگی سے سوچنے کا وقت ہے، مواخذے میں میں جیتوں یا ہاروں، قوم کی ہر صورت میں شکست ہوگی۔ملک کی آبرو عزت پر ٹھیس آئے گی۔ صدر کا دفتر صدر کے دفتر کے وقار کو میری نظر میں بھی ٹھیس آ سکتی ہے۔ پاکستان میرا عشق ہے، پہلے بھی اور اب بھی اس ملک کیلئے اس قوم کیلئے جان حاضر رہی۔44 سال میں نے جان کو دائو پر لگا کر پاکستان اور اس کی قوم کی حفاظت کی ہے اور کرتا رہوں گا۔ کچھ اور بھی خیال اور سوچ ذہن میں آتے ہیں۔
بعض اوقات سوچتا ہوں کہ ملک جس بحران سے گزر رہا ہے میں کچھ کروں، اس ملک کو اس بحران سے نکالوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اس بحران سے ملک کو نکالا جاسکتا ہے، اس میں صلاحیت ہے، اس کی عوام میں صلاحیت ہے اور اس کو اس بحران سے نکالا جاسکتا ہے۔
مواخذہ اگر ناکام ہو بھی جائے میری نظر میں حکومت کے تعلقات ایوان صدر سے کبھی ٹھیک نہیں ہونگے، کشیدگی رہے گی۔ ملکی اداروں میں کشیدگی رہے گی، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ریاستی ستونوں میں یعنی پارلیمنٹ اور عدلیہ میں کشیدگی ہو جائے، اختلافات ہو جائیں اور خدانخواستہ فوج بھی اس معاملے میں نہ گھسیٹی جائے جو کہ میں کبھی نہیں چاہوں گا لہٰذا اس تمام صورتحال کا جائزہ لے کر اپنے قانونی مشیروں سے، قریبی سیاسی حمایتیوں سے مشاورت کرکے اور ان کی ایڈوائس لے کر ملک اور قوم کی خاطر میں آج عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرتا ہوں۔
مجھے انتہائی خوشی ہے کہ آج میں ایک متحرک اور فعال میڈیا چھوڑ کے جارہا ہوں، مجھے امید ہے کہ جس طریقے سے یہ آزادی چل رہی ہے اتنی ہی ذمہ داری کے ساتھ آئندہ بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔
یہ تقریر پاکستان کے ایک اہم موڑ پر کی گئی تھی۔
اب چونکہ اقتدار انتخابات کے ذریعے منتقل ہورہا ہے ۔ اس لیے قوم میرے عزیز ہم وطنو سننے کو ترس رہی ہے۔ اب چونکہ صدر وزیر اعظم روز ہی ٹی وی پر نظر آتے ہیں اس لیے مشرف سے پہلے والی تقریروں والی بات نہیں رہی ہے۔