• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بَڈی کے امریکا کے تجربات و مشاہدات کے بیان کےلیےایک ضخیم کتاب چاہیے۔اس میں لاس ویگاس کے علاوہ کئی شہر، رومان کے علاوہ بھی مختلف نوعیت کےجذباتی تعلقات، سفروسیاحت کے واقعات آتے ہیں۔ یہ سب اُن چند برسوں میں وقفوں وقفوں سے بَڈی نے مجھے سُنایا۔ 

بَڈی کے سُنائے دِل چسپ، رنگین اورعبرت آمیزقصّوں میں عورتوں کو چیتے کا لباس پہنانے اور مَردوں کو دیو مالائی کرداروں کے ملبوسات میں مہمانوں کی پذیرائی پرمامور کرنے، ڈالر سلاٹ مشینوں کے متعارف ہونے، بینکوں اور لوگوں کو لُوٹنے والوں کی جوا خانوں میں آمد، تلاش اوروہیں سےگرفتاریاں، زندگی بھر کی کمائی چند لمحوں میں لٹانے والوں، بھاری رقم جیت کر مزید کی خواہش میں وہ بھی کھو دینے والوں، ہوٹلز کی کھڑکیاں مستقل بند رکھنے کی وجوہ کہ ہارنے والے مہمان دل برداشتہ ہوکر وہاں سے کُود کر خودکُشی کی کوشش نہ کریں، نشے کی حالت میں کیے گئے عہدوپیمان، ہینگ اوور میں کی گئی شادیاں اور بعد کے پچھتاوے، مرحوم بیوی کی تصویر کو نیک شگون سمجھ کر جوا کھیلنے والے شوہر اور حادثے میں فوت ہوجانے والے بیٹے کی تصویر سلاٹ مشین پر رکھنے والی ماں سے لے کر اُس دَور کے عربوں کے شاہانہ انداز اور کیسینوز کے ملازمین کو ذاتی غلام سمجھنے سے لے کر ہزاروں ڈالرز کی ٹپس، جاپانی مہمانوں کا ایسا احساسِ یگانگت کہ ایک جاپانی کو بےدخل کردینے پر سب جاپانی مہمان اُس بے دخل شخص سے اظہارِیک جہتی کے طور پرواک آؤٹ کرجائیں۔ 

بظاہر خوش و خرم جوڑوں کی لڑائیاں اور علیحدگیاں، نئے جوڑوں کا بننا، رئیس جواریوں کا مسلسل چھتیس چھتیس گھنٹے جوا کھیلتے ہوئے بےہوش ہوجانا، گاہکوں کا زنانِ بازاری کے ہاتھوں لُٹنا اور قالینوں، فرشوں پر مُردہ جان وَروں کی طرح گرے پڑے نشے میں بےحال، نیم بےہوش، شرفِ انسانیت کے چہرے پر طمانچے مارتے ہوئے لوگ اورنہ جانے کتنے واقعات۔ قصّوں، کہانیوں کی ایک لَڑی تھی، جس کے منکوں کو وہ رولتے پھرتے تھے۔بَڈی امریکا وزٹ ویزے پر گئے تھے مگر مستقل طور پر وہاں قیام پذیر ہوگئے تھے۔ تب زیادہ پوچھ گچھ نہ تھی۔ بَڈی مزے سے امریکا میں رہتے، اگر اُن کا ایک ہم وطن اُنھیں گرفتار نہ کروادیتا۔

بَڈی کے شب و روز روایتی تن خواہ میں ایسے بسر نہ ہوسکتے تھے۔ سو، اُنھیں آمدنی بڑھانے کی فکر رہتی تھی۔ یہی فکر اُنھیں قابل گرفت ذرائع تک لے گئی۔ اُن کے دوستوں کے حلقے میں چرس، افیون وغیرہ چلتے تھے۔ اُن کا ایک سپلائر سے اچھا تعلق استوار ہوگیا۔ سو، انھوں نے دوستوں کو یہ سب مناسب منافع رکھ کر مہیا کرنا شروع کردیا۔ ایک مرتبہ اُن کا ایک پاکستانی عزیز اُن کے ہاں ٹھیرنے کے لیے آیا۔ بَڈی کے شب و روز دیکھ کر اُس کی آنکھیں کُھل گئیں۔ اُسے ایک چال سُوجھی، اُس نے ایک مقامی پولیس والے کے کان میں بَڈی کے معمولات کی نہ صرف بِھنک ڈال دی بلکہ اُسے اپنی بھرپور معاونت کا بھی یقین دلایا۔ پولیس نے ایک انڈر کووَرہرکارے کو گاہک کے رُوپ میں بَڈی کے پاس بھیجا۔ بَڈی اس کےجال میں پھنس گئے اور منشیات سمیت رنگے ہاتھوں گرفتار ہوگئے۔ 

الزام سنگین نوعیت کا تھا۔ الزام منشیات کے استعمال کا نہ تھا بلکہ اس کے فراہم کنندہ کا تھا۔ بَڈی کا پاسپورٹ جانچاگیا تو ان کاامریکا میں قیام بھی غیرقانونی نکل آیا۔ سو، اُنھیں ڈی پورٹ کردیا گیا۔ یہ ساری رُوداد مجھے بَڈی نے قطعی طورپر نہیں سنائی تھی بلکہ پاکستانی روایت کے مطابق اُن کے ایک عزیز نےآشکارکی تھی۔ تب مجھے بَڈی کے اس جملے کی سمجھ آئی، جو وہ وقتاً فوقتاً دہراتے رہتے تھےکہ ہم پاکستانیوں کوپردیس میں اپنےہم وطنوں کے ساتھ رہتے ہوئے کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔ مَیں نے بَڈی سے وطن واپسی کی وجہ پوچھی تو اُنھیں نے اپنی عزتِ نفس اور انا کی خاطرشایدیہی بتاناچاہیے تھا۔’’پاکستان میں میرے رشتے دار یکے بعد دیگرے فوت ہونے لگے تھے۔ میں حالتِ صدمہ میں مُلک واپس آگیا۔ ویسے بھی مَیں اپنے وطن سے بہت محبّت کرتا ہوں۔‘‘یہ سُن کے مَیں نے بَڈی کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش نہ کی۔

……٭٭……

زندگی کو ہر پابندی سے مُبرّا، اپنے ہی رنگ ڈھنگ سے جینے والا شخص

مَیں اپنے تعلیمی معاملات میں مصروف ہوگیا۔ بَڈی سے ملاقاتوں میں طویل وقفے آنے لگے۔ یہاں تک کہ رابطہ قریباًختم ہوگیا۔ دو تین برس بعد اُن سے آخری ملاقات بھی اتفاقاً اسلام آباد میں ہوگئی۔ مَیں جناح سُپرمارکیٹ کے قریب ایک عمارت کی بالائی منزل پر واقع اسٹیک ریستوران میں گیا تو وہاں بَڈی اپنی روایتی مُسکراہٹ کے ساتھ گاہکوں کوخوش آمدید کہہ رہے تھے۔ مجھ سے بہت تپاک سے ملے اور اصرار کرکے چاکلیٹ لاوا کیک کھلایا۔ اُنھوں نے بتایا کہ وہ ریستوران اُن کے ایک عزیز نے شروع کیا تھا اور اس کا مکمل انصرام ان کے ہاتھ میں تھا۔ اُنھوں نے اپنی شادی کا انکشاف بھی کیا۔ انھوں نے ایک سادہ سی درمیانی عُمر کی پاکستانی خاتون سے شادی کرلی تھی۔ بہ قول ان کے’’شادی کروادی گئی تھی۔‘‘اُس کے بعد ان سے کوئی ملاقات نہ ہوئی۔ دو دہائیاں گزر گئیں۔ مجھے کبھی کبھار ان کا خیال آتا تھا۔ وہ دوست، جس کی وساطت سے بَڈی ماموں سے ملاقات ہوئی تھی، مستقل طورپر امریکا جاکر کھوگیا تھا۔

اِس دوران میری ملاقات اس نوعیت کے چند دیگر دل چسپ اورعجوبۂ روزگار لوگوں سے بھی رہی۔ مَیں ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتا تھا۔ شاید مجھے لاشعوری طور پر اُن کی جہاں گرد، خبطی، معمول سےہٹ کر شخصیتوں میں اپنی ذات کےکسی پہلو کا عکس نظر آتا تھا۔ اُن میں گلستانِ جوہر، کراچی میں ایک شناسا کی وساطت سے بارہا ملنے والے ایک مصوّر بھی تھے، جو یورپ جا کرلاپتا ہوگئے تھے۔ درحقیقت وہ جنوبی امریکا میں یوراگوائے چلے گئے تھے، وہاں کیفے اور پب کھولے، مصوّروں اور موسیقاروں کا جمگھٹا اپنے گرد لگا لیا، رنگ و آہنگ میں آزاد روی کی زندگی گزارنے لگے، منشیات میں ڈوب گئے، لاکھوں ڈالر کمائے اور لٹائے، علاج کروایا اور ایک چھوٹے سے جزیرے پر ایک لکڑی کے چھوٹے سے کیبن میں اپنی پالتوکُتیا کے ساتھ منتقل ہوگئے۔

جب مَیں نے اُن مصوّر سے پوچھا کہ بیس پچیس برس انھوں نے گھر والوں سے رابطہ کیوں نہ کیا، تو انھوں نے صاف گوئی سے بتایا کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی آزاد زندگی میں کوئی دخل دے۔ جب مَیں نے اُن سے وطن واپسی کی وجہ پوچھی تو انھوں نے بتایا’’ایک روز مَیں اور میری کُتیا کیبن میں بیٹھے تھے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی نظریں پڑھ لیتے ہیں۔ میری کُتیا نے مجھے مشورہ دیا کہ اب مجھے پاکستان واپس چلے جانا چاہیےاور مَیں اُس کی کوئی بات رَد نہیں کرتا۔ سو، ہم دونوں یہاں واپس آگئے۔‘‘وہ اپنی کُتیا کو انے ساتھ یوراگوائے سے پاکستان لے کر آئے تھے۔ بہرحال، چند ماہ پہلے مجھے خیال آیا کہ بَڈی ماموں سے رابطہ کیا جائے۔ نہ جانے وہ کس حال میں تھے۔ خیال ہوا کہ وہ پچھتّر، اسّی برس کو چُھو رہے ہوں گے۔ 

مَیں نے دوست سے امریکا میں رابطہ کیا اور بَڈی ماموں کے بارے میں دریافت کیا۔ معلوم ہوا وہ گزشتہ کئی برسوں سے مالدیپ کے ایک ٹورسٹ ریزارٹ میں اپنا ہوٹل چلا رہے ہیں۔ وہ ریسیپشن سنبھالتے ہیں اور اُن کی پاکستانی بیگم گاہکوں کے لیے کھانا تیار کرتی ہیں۔ اُن کا ایک چھوٹا سا بیٹا بھی ہے۔ مَیں نے اُن کا نمبر لے لیا۔ اُنھیں کال کی تو میکانکی طورپر فون میں قرآن پاک کی آیات کا وِرد شروع ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد فون کی دوسری جانب سے ایک لرزتی آواز سنائی دی۔ مَیں نے اپنا تعارف کروایا۔ دوسری جانب خاموشی چھاگئی۔ بڈی مجھے پہچان نہ پائے تھے۔ مَیں نے اُنھیں ماڈل ٹاؤن، جِمی، جنگل تھیم ریستوران، سلوزوغیرہ یاد کروائے، تو انھوں نے بتایا کہ ایک حادثے کی وجہ سے اُن کی یادداشت کچھ متاثر ہوئی ہے اوراُنھیں پیشاب کی تھیلی بھی لگ گئی ہے۔

انھوں نے پہچان نہ پانے پرمعذرت کی۔ مَیں نے موبائل فون پر اُنھیں اپنی تصویر بھیجی تو کچھ شش و پنج کے بعد مجھ سے متعلق ان کی یادداشت لوٹ آئی۔ اُن دنوں وہ اداس تھے، کورونا کی وجہ سے اُن کا ہوٹل مسلسل نقصان میں جارہا تھا۔ خسارہ ان کی بچت کابھی بڑا حصّہ کھاگیا تھا۔ باتیں کرتے ہوئے اُنھیں ایک خیال آیا اور اُنھوں نے کہا کہ میرے لیے ایک سرپرائز ہے، مَیں فون بند کرکے واٹس ایپ پر ان کے پیغام کا انتظارکروں۔ چند لمحوں میں فون کی اسکرین روشن ہوئی اوراس پر ایک اطالوی وجہیہ، خُوب رُو مرد کی تصویر اُبھر آئی۔ مَیں نے انھیں فون کیا تو اُنھوں نے گلوگیر لہجے میں کہا۔ ’’میرا آسٹریا والا بیٹا ہے۔ آخر اُس نےمجھےڈھونڈہی نکالا۔ مَیں کہاں تک بھاگتا، اُس نے مجھے کالر سے پکڑلیا۔‘‘

فون کے دوسری جانب سے سسکیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ توقف کے بعد انھوں نے اَٹکتے لہجے میں کہا۔ ’’اس کی منگیتر نےاُسے مجبور کیا کہ وہ مجھے تلاش کرے۔ بیٹیاں، باپوں کی اہمیت سمجھتی ہیں۔ باپوں میں اُن کی جانیں ہوتی ہیں۔ اُس نے میرے بیٹے کو قائل کیا کہ وہ مجھ سے ملے، کیوں کہ اپناخون، اپنے جینزاپنے ہی ہوتے ہیں۔ منگیتر کے کہنے پر اُس نے مجھے تلاش کیا اوروہ دونوں مجھے ملنے مالدیپ آئے۔ یہاں آکر بیٹے نے مجھ سے اپنی منگیتر سے شادی کی اجازت طلب کی۔ مَیں کیا، میری اوقات کیا اور میری اجازت کیا۔ اُن دونوں کی مہربانی تھی کہ مجھ سے اجازت لینے آئے۔ مَیں اور میرابیٹا بہت دیر تک گلے لگ کر روتے رہے۔ اُس کی منگیتر بھی روتی رہی۔ اُس نے مجھے یاد دلایا کہ گھر چھوڑنے کے کئی سال بعد مَیں نے اُسے کپڑے بھیجے تھے۔ 

تب وہ میرے ذہن میں ایک چھوٹا سا بچّہ ہی تھا، جب کہ حقیقت میں وہ ٹین ایجر ہو چُکا تھا۔ وہ کپڑے اُسے چھوٹے تھے، مگر اُس نے آج تک اُنھیں میری نشانی سمجھ کر سنبھالا ہوا ہے۔ میری آسٹرین بیوی نے کبھی دوبارہ شادی نہیں کی۔‘‘اُس کے بعد خاصی دیر فون پر خاموشی رہی۔’’عرفان! میں تمھیں کہتا تھا کہ انسان کی اصل دولت، اُس کا اصل سرمایہ اُس کی یادیں ہوتی ہیں۔ مَیں تو بڑھاپے میں یادداشت ہی کھو بیٹھا ہوں۔ میری دولت تو میری زندگی ہی میں لُٹ گئی۔ یہ یادیں سمیٹنے والی باتیں بھی کتابی ہیں۔ جب انسان کو صبح کا کیا ناشتایاد نہ رہے، تو وہ کیا یادیں اور کیا لوگ سمیٹے گا۔‘‘وہ تھوڑی دیر فون کے پیچھے کسی خاتون سے جھّلا کر باتیں کرتے رہے۔ 

پھر بولے، ’’عرفان! انسان کا اصل سرمایہ اس کا خاندان ہوتا ہے۔ اولاد تو چلی جاتی ہے، آخر میں بیوی رہ جاتی ہے۔ یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ جتنا مرضی دیکھ بھال کراپناپارٹنرمنتخب کرو، سیکڑوں جوڑوں میں چند ایک ہی ایسے خوش قسمت ہوتے ہیں، جنھیں اپنے مزاج کے ساتھی ملتے ہیں۔ ایسے ساتھی جو دوست، یار اور بَڈی بھی ہوں۔ یاد رکھو، شادی میں محبّت سے زیادہ اہم ایک اور چیز ہوتی ہے، عزت۔ جو پارٹنر محبّت کے علاوہ ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں، وہ دورتک اکٹھے چلتے ہیں۔ یہ نصیب کے کھیل ہیں۔ بعض اوقات زندگی کی سلاٹ مشین میں جتنے مرضی ڈالر پھینکو، نتیجہ صفردیتی ہے، زیرو۔ اور کبھی چند ڈالرز پر جیک پاٹ نکل آتا ہے۔ کچھ بھی آدمی کے اختیار میں نہیں۔‘‘

توجّہ فرمائیے!!

جو مصنّفین اور اشاعتی ادارے تبصرے کے لیے کتابیں بھیجنا چاہتے ہیں، ازراہِ کرم درج ذیل باتوں کا خیال ضرور رکھیں:

٭چھوٹے چھوٹے کتابچے اور پمفلٹ وغیرہ روانہ نہ کیے جائیں کہ ایک سو سے کم صفحات والی کتاب کا تعارف شامل نہیں کیا جاتا٭ جو کتب کسی فرقے، مذہب، گروہ، ادارے یا طبقے کے خلاف لکھی گئی ہوں، اُن پر بھی تبصرہ نہیں ہوگا٭ جن کتابوں پر ایک بار تبصرہ ہوچُکا، دوبارہ قطعاً ارسال نہ کی جائیں ٭ایسی کتابیں، جو اسکولز اور کالجز کے نصاب سے متعلق ہوں، اُن پر بھی تبصرہ نہیں کیا جاسکتا٭ہر کتاب کی دو جلدیں آنا ضروری ہیں، ایک کتاب موصول ہونے پر تبصرہ نہیں کیا جائے گا۔ 

علاوہ ازیں،2020ء میں شایع ہونے والی کسی بھی کتاب پر رواں برس تبصرہ نہیں ہو گا، البتہ 2021ء کی شایع کردہ کتابوں پر تبصرہ کردیا جائے گا۔ اور یہ فیصلہ کتابوں کی کثیر تعداد اور مصنّفین اور اشاعتی اداروں کے طویل انتظار کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ صفحے کا عنوان’’نئی کتابیں‘‘ہے، لہٰذا ہماری کوشش یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نئی کتب شامل ہوں، نہ کہ گزشتہ برس کی شایع شدہ۔ سو، براہِ کرم 2020ء کی کوئی کتاب اب ارسال کرنے کی زحمت نہ کریں۔

تبصرے کے لیے کتابیں صرف اس پتے پر ارسال کی جائیں۔

ایڈیٹر’’سنڈے میگزین‘‘، روزنامہ جنگ ،شعبۂ میگزین، اخبار منزل، آئی آئی چندریگر روڈ،کراچی۔