’’ڈیوو مجھے پبلک لائبریری میں ملا تھا۔ اس کاتعلق مراکش سے تھا تاہم وہ امریکی رنگ میں پوری طرح رنگا جاچُکا تھا۔ میری زندگی میں آنے والے چند ہی ایسے لوگوں میں وہ سرِفہرست تھا، جن سے میری دوستی پہلی ہی ملاقات میں ہوگئی۔ وہ انڈیانا پولس شہر کی مختصر مراکشی کمیونٹی میں خاصا مقبول تھا۔ عُمدہ ڈانسر، کمال کا ایکروبیٹ(بازی گر) اور پُول کے کھیل کا اعلیٰ کھلاڑی۔ اُس میں لوگوں کو متوجہ کرنے کی ساری صلاحیتیں تھیں۔
وہاں کی یک سانی سے تنگ آکر اُس نے مجھ سے صلاح کی کہ ہم انڈیانا پولس سے لاس ویگاس پارٹی کرنے چلیں۔ یہ امریکا کے ایک کونے سے دوسرے کونے جانے کی بات تھی، قریباً تین ہزار کلومیٹر کا فاصلہ۔ ڈیوو کے پاس سُرخ رنگ کی کنوورٹیبل کار تھی۔ مَیں نے فوڈ جوائنٹ سے چند دن کی چُھٹی لی اور ہم دونوں لمبے سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ چند روز ہلّاگُلّا کرکے واپس آجائیں گے۔ ایک اچھے دوست کا ہم راہی ہونا قدرت کی بہترین نعمت ہے۔‘‘
جن دنوں بَڈی مجھے اپنی داستان، کارگزاریاں اور قصّے سناتے تھے، اُنھی دنوں بَڈی کے دوست اور بنگلے کی بالائی منزل کے ساتھی، گٹار بجانے والے خوب رُو جِمی نے خود کشی کرلی۔
……٭٭……
مَیں اپنی یونی ورسٹی کی جانب سے سمر کیمپ اور سروے کیمپ پر ایبٹ آباد گیا ہوا تھا۔ وہاں سے لوٹے کئی روز گزر گئے تو ایک دن مجھے بَڈی کا خیال آیا۔ بَڈی سے ملنے ان کے بنگلے پر پہنچا تو چوکی دار نے بتایا کہ وہ وہاں سے چلے گئے ہیں۔ اُس نے جِمی کی خودکُشی کا بتایا تو میں بھونچکا رہ گیا۔ بےیقینی میں مَیں نے گٹار بجانے والے لڑکے کا حوالہ دیا کہ کیا اُس کا اشارہ اُسی لڑکے کی جانب ہے تو پہرے دار نے تاسف سے اثبات میں سرہلایا۔ نہ جانے جِمی نے خودکشی کیوں کی تھی، کیا اُس کا تعلق اُس کی کسی نفسیاتی الجھن سے تھا، اُس کے اپنے والدین سے پیچیدہ تعلق سے تھا، اُس کی محبّت سے تھا یا خودکُشی کا جرثوما اس کے اندر جینیاتی یا طبعی طور پر پرورش پارہا تھا، مجھے کچھ نہ سُوجھتا تھا۔
زندگی کو ہر پابندی سے مُبرّا، اپنے ہی رنگ ڈھنگ سے جینے والا شخص
لاہور چھاؤنی کے جی پی او کے سامنے گھنے درختوں میں گھِری خاموش بند سڑک کے پرانے مکینوں کو آج بھی گٹار بجانے اور اداس رہنے والا وہ خوب رَو جِمی ضرور یاد ہوگا، جس نے ایک روز اپنی جان لے لی تھی۔اُن دنوں موبائل فون تو تھے نہیں، جو مَیں بَڈی سے فوری رابطہ کرسکتا۔ وہ کئی روز سے سلوز بھی نہ آئے تھے، اپنے دوست، اُن کے بھانجے کی وساطت سے اُنھیں تلاش کیا۔ وہ ملنے میں متردّد تھے۔ اُن دنوں وہ کم لوگوں سے مل رہے تھے، سو مَیں نے اُنھیں اُن کے حال پر چھوڑ دیا۔
تاہم، اپنے دوست کی زبانی معلوم ہوا کہ جِمی خاصے عرصے سے تناؤکُش ادویہ کھا رہا تھا، چند روز قبل ہی اُس کے باپ نے اُسے جائداد سے عاق کرنے کا اشتہار اخبار میں دیا تھا، نتیجتاً وہ عورت، جس کی خاطر اس نے دنیا تج دی تھی، اُسے چھوڑگئی تھی۔ پے درپے سانحات جِمی کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگئے تو وہ موت کے اندھے کنویں میں کُود گیا۔ مجھے بَڈی کی افسردگی سے ایک موہوم سا اطمینان ضرور ہوا کہ آخر وہ ایک نرم دل رکھتے تھے اور اپنی خوشی مقدّم رکھنے کے باوجود وہ ایک دوست کے کھوجانے پر اس درجہ رنجیدہ تھے کہ اپنا گھر چھوڑ گئے تھے، کئی روز کام پر نہ گئے تھے اور قریباً گوشہ نشین ہوکر رہ گئے تھے۔
مَیں کچھ دنوں کے وقفے بعد اُنھیں ملا تو حسبِ سابق ہشّاش بشّاش تھے۔ دُکھ کو انھوں نےاپنےاوپر سےایسے جھاڑ دیا تھا، جیسے ایک مسافر طویل مسافت کے بعد منزل پر پہنچ کراپنے اوپر سے گرد، مٹی جھاڑتا ہے۔ مَیں نے خاتون کی بے وفائی پر افسوس کا اظہار کیا تو بَڈی نے حسبِ معمول کندھے اُچکائےاور بولے۔ ’’وہ ایک فلرٹ عورت تھی۔ مَیں نے جِمی کو اشارتاً بتایا بھی تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جِمی کی غیر موجودگی میں ایک آدھ باراُس نے مجھ سے بھی فلرٹ کی کوشش کی تھی، لیکن مَیں نے سلیقے سے اُسے ٹال دیا تھا۔ ایسی بے باک عورت رَد کیے جانے پر نقصان دینے والا کوئی بھی قدم اُٹھا سکتی ہے۔‘‘
’’عورتیں اس آسانی سے کیسے بے وفائی کرلیتی ہیں؟‘‘ مَیں نے افسردگی سے کہا، تو بَڈی نے زور سے نفی میں سرہلایا اور بولے۔ ’’مرد عورت کی نسبت بہ درجہا بےوفا ہے۔ مرد کی تو مٹّی میں بے وفائی گُندھی ہے۔ یہ جو دنیا بَھر میں عیاشی (بَڈی نے عیاشی کی جگہ لطف، پلییئر Pleasure کہا تھا) کے مراکز ہیں، یہ مَردوں کے دَم ہی سے تو چلتے ہیں اور اِن مَردوں میں زیادہ تر شادی شدہ ہوتے ہیں۔ طالب علموں کے پاس تو عیاشی کے لیے پیسے ہی نہیں ہوتے۔ ان معاشی طورپرمستحکم مَردوں کی بیویاں اور منگیتریں اَن جانے میں دھوکا کھاتی رہتی ہیں۔ ہمارے مُلک میں معاملہ مختلف ہے۔
یہاں بہت سی بے چاری بیویاں جانتی ہیں کہ اُن کے شوہر باہر کیا گُل کِھلا رہے ہیں مگر وہ جانتے بوجھتے ہوئے اَن جان بنی رہتی ہیں، زیادہ تر گھر بچانے کے لیے اور کئی بےسہارا، سڑکوں پر دربہ در ہونے سے بچنے کے لیے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر عورت کوملنے والے پیسے کی آکسیجن کی نلی مرد کے پیروں تلے ہوتی ہے۔ جب اُس کا جی چاہے، وہ پیر رکھ کر عورت کی سانس روک دے۔‘‘ آج سے بائیس پچیس برس قبل جب بَڈی سے یہ مکالمہ ہوا تھا، تب تک ہمارے ہاں معاشی طورپر خودکفیل عورتوں کی تعداد آٹے میں نمک، کافر کے دل میں ایمان برابر تھی۔ بہ تدریج حالات عورت کے حق میں بہترہو رہے ہیں۔
’’مَیں نے لاس ویگاس میں سات سال یعنی دو ہزار پانچ سوپچپن دن اور اتنی ہی راتیں گزاری ہیں۔ وہ عیاشی کا گڑھ تھا۔ گو اٹلانٹک سِٹی اُبھرکر سامنے آگیا تھا، مگر لاس ویگاس کی آب و تاب تب تک قائم تھی۔ وہاں کُھلے عام بدن کا سودا ہوتا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے انسانوں کی اخلاقیات کُھلی کتاب کی طرح تھی۔ وہاں مَیں چند روز کے لیے ڈیوو کے ساتھ گیا تھا، شغل میں ایک لگژری ہوٹل میں ملازمت کے لیے بات کی، تو وہاں نوکری کا فوری انتظام ہوگیا، مَیں نے انڈیانا پولس میں بہن کو بتایا، فوڈ جوائنٹ سے فون ہی پراستعفیٰ دیا اور لاس ویگاس میں ٹِک گیا۔
صحرا کے بیچ وہ چھوٹا سا مصنوعی شہر، جس کی ایک اسٹرپ اور اس کے گردونواح کے چند ہوٹل تب پورے پاکستان میں خرچ ہونے والی بجلی کے نصف برابربجلی استعمال کرتے تھے، وہاں مَیں نے وہ وائلڈ واقعات دیکھے، انسانوں کے ایسے غیر متوقع اور غیر معمولی چہرے اور پہلو دیکھے کہ یا تو میں راہب ہوجاتا یا اُس ماحول کا حصّہ بن جاتا۔ مَیں نے حصّہ بننے کا فیصلہ کیا۔ آخر زندگی ہے ہی کتنی،توکیوں ناں ہم اِسے بھرپور طریقے سے گزاریں، جو مَن کرے، وہی کریں، خُوب صُورت لمحات اکٹھے کریں، بڑھاپا تو ویسے بھی انسان کو نہ چاہتے ہوئے بھی آرام کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ کیوں جوانی میں بڑھاپے کے دن گزار کر اسے ضائع کردیں؟ہر چیز اپنے وقت پر اچھی لگتی ہے۔‘‘ بَڈی کے دلائل کسی حد تک معقول تھے۔ مگر بعض اوقات جو لُطف رک جانے میں ہے، وہ حرکت میں نہیں۔
لاس ویگاس، ریاست نیواڈا میں واقع ایک ایسا شہر ہے، جسے چوبیس گھنٹے جاری رہنے والے جوئے، بےپناہ لگژریز والے بےمثال ہوٹلوں، بدن فروشی اور طلاق کے آسان قوانین نے بین الاقوامی شہرت عطا کی۔ وہاں گیمبلنگ(جوئے) کو گیمنگ(کھیل)کا سادہ اور پُرکشش نام دیا گیا۔ جہاں ایک جانب اس کے جگ مگاتے نیون سائنز رات کی مانگ میں ستارے بھردیتے تھے، وہیں دوسری جانب اس کے ہوٹلز کے تھیم ڈیزائن، رومن ستون، سنگِ مرمرکے مجسّمے، مصری عجائبات، مغل تعمیرات وغیرہ انسان کے دستِ تخلیق کے شاہ کار تھے۔ صحارا اِن، ڈیونز، ٹروپی کانا، فلیمنگو، میرینا وغیرہ اُس دہائی کے معروف جوئے خانوں والے وسیع و عریض عالی شان ہوٹل تھے۔ بَڈی نے صحارا اِن، میرینا اور ہالیڈے اِن میں ملازمت کی۔
لاس ویگاس، جو ابتدائی طور پر تعمیراتی کارکنوں کے لیے آباد ہوا تھا،1931ء میں نیواڈا ریاست کی جانب سے جوئے کو قانونی شکل دیے جانے کے بعد، مافیا کی توجّہ کا مرکز بن گیا۔ مافیا نے وہاں وسیع پیمانے پرسرمایہ کاری کی۔ اس کے قریبی صحرا میں ایٹم بم کے تجربات بھی کیےجانےلگے۔ ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں دھوئیں کےچھتری نُمابادل باآسانی شہرسےدیکھےجا سکتے تھے۔ شہر میں ایسے وسیع وعریض اور عظیم الشان ہوٹل اور جوئے خانے تعمیر ہونے لگے، جن کی نظیر دنیا بھر میں نہ ملتی تھی۔ مثال کے طور پر 1966ء میں سیزرزپیلس کا افتتاح ہوا، تو اس کی افتتاحی پارٹی پر دس لاکھ ڈالرمالیت میں(بہ تدریج اضافے اور شرح مبادلہ کے مطابق موجودہ ایک ارب تریپن کروڑ روپے) خرچ کیے گئے، جس میں بےپناہ آرایش کے علاوہ شیمپین کے پچاس ہزار گلاس پیش کیےگئے، دیگر قیمتی سامان خورونوش کی بہتات الگ تھی۔
کاک ٹیل پیش کرنے والے بیروں کو ہدایت تھی کہ ان الفاظ کے ساتھ ہر مہمان کو خوش آمدید کہا جائے۔ ’’سیزرز پیلس میں خوش آمدید، مَیں آپ کا غلام ہُوں۔‘‘ اس تقریب کے لوگو پر ایک عورت کی تصویرتھی، جو قیمتی چوغے میں ملبوس آدمی کو انگور کِھلا رہی تھی۔ ہمارے ہاں آج بھی کسی شہر میں چند فائیواسٹارہوٹل ہوں اور ہر ہوٹل میں چار چھے درجن کمرے ہوں، تو اسے قابلِ ذکربات سمجھاجاتا ہے۔ اُس دَور میں صرف لاس ویگاس شہر میں فائیواسٹارمعیار کے ہوٹلز کے ایک لاکھ سے زیادہ کمرے موجود تھے۔
’’لاس ویگاس ابتدا ہی سے میرے لیے اجنبی نہ رہا تھا۔ ڈیوو کی وجہ سے وہاں کی مراکشی کمیونٹی اور اس سے منسلک لوگوں کے لیے مَیں گھر کاایک فرد بن گیا۔ تب تک وہاں سے مافیا کی چھاپ ختم ہوچُکی تھی۔ گوشہ نشین اور آدم بےزار ارب پتی ہاورڈ ہیوز اپنے ساتھ کئی ملین ڈالر لے کر ڈیزرٹ اِن ہوٹل کے ایک بڑے کمرے میں ایسا واردہوا کہ چار برس تک اس کمرے سے باہر نہ نکلا تھا۔ اُس نے وہاں خاصی پراپرٹی خریدلی تھی۔ سفید دھن والے ایک بڑے کاروباری شخص کی آمد نے ایک اچھا تاثر قائم کیا تھا۔ اُنھی دنوں بچّوں کے کھیلنے کے لیے ایک وسیع پلے ایریا اور عمارت بنا دی گئی۔
یوں لاس ویگاس، جو تنہا لوگوں اور جوڑوں کی آماج گاہ تھا، اب خاندانوں کو بھی متوجّہ کرنے لگا۔ ماں باپ بچّوں کو کھیل کود کے محفوظ ماحول میں بےفکری سے چھوڑکر یک سوئی سےجوا کھیل سکتے تھے۔‘‘بَڈی کے لہجے میں شرارت تھی۔ مَیں ہمہ تن گوش تھا۔ ’’مَیں نے ایک لگژری اپارٹمنٹ کمپلیکس میں ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ اس میں ایک شان دار سوئمنگ پول، تھیٹر اور بہت کچھ تھا۔ میرا فلیٹ ہلے گُلّے کا مرکز بن گیا۔ ویک اینڈز پارٹیوں میں گزرتے۔ یہ مجھ اکیلے کا فلیٹ نہ تھا بلکہ میرے واقف کار لڑکوں، لڑکیوں کے لیے ایک مشترکہ فلیٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔
اس کی ڈُپلیکیٹ چابیاں میرے دوستوں کے پاس بھی رہتی تھیں۔ ان برسوں میں مَیں نے امریکا کا چپّا چپّا چھان مارا۔ ایسے بےپروائی کے دن تھے کہ اِدھر ویک اینڈ یا چُھٹیوں پر کسی ریزارٹ پر جانے کا پروگرام بنتا، اُدھرچندلمحوں میں،مَیں لڑکے لڑکیوں کو اپنی کار میں ٹھونس کر روانہ ہوجاتا۔ میرا سفری بیگ ہر وقت تیار رہتا تھا۔ مَیں وہاں رہنے اور کام کرنے والے نوجوان طبقے میں ایسا مقبول تھا کہ اپنی بیلٹ، پتلون سے نکال لیتا تھا اور اسے ایک اسٹائل میں اپنے سرپر گھماتا ہوا کلب میں داخل ہوتا تو شناساؤں میں شوخی کی لہردوڑ جاتی تھی۔ مَیں نے پاپ سنگرزکی طرح لمبے بال رکھے ہوئے تھے۔ مجھے ایک ہیرو، ایک پلے بوائے سمجھا جاتا تھا۔ پلے بوائز کی جانب تو لڑکیاں ویسے بھی لپک پڑتی تھیں۔‘‘بَڈی کا چہرہ مسرت سے دمک رہا تھا تاہم لہجے میں حسرت تھی۔
اُن دنوں مجھے مطالعے کا جنون تھا۔ مَیں نے پلے بوائے کی نفسیات پر پڑھنا شروع کیا۔ پلے بوائے کے لیے اردو میں ’’کھلنڈرا شخص‘‘ کی ترکیب ہے۔ مگریہ ترکیب اس کادرست مفہوم ادانہیں کر پاتی۔ دل پھینک، عورت کو کھلونا سمجھ کر اُس سے کھیلنے والے اور غیر مستقل، عارضی تعلق قائم کر کے بڑھ جانے والے کے لیے یہ ترکیب زیادہ موزوں ہے۔ خودپرست، لاشعوری یا شعوری طور پر عورت کو کم تر سمجھ کر اس کی خفی یا جلی تحقیر کرنا، مصلحت کے تحت جھوٹ بولنا اور جھوٹا احساسِ برتری رکھنا وغیرہ پلے بوائے کی شخصیت کے اجزا ہوتے ہیں۔ عموماً ایک پلے بوائے کا بچپن محرومیوں میں گزرا ہوتا ہے۔
وہ بظاہر متعدّد عورتوں سے رومان اور فلرٹ کرتاہے، درحقیقت عورت ذات کے لیے ناپسندیدگی، بعض صُورتوں میں نفرت کا جذبہ اس کے تحت الشعور میں کلبلاتا رہتا ہے۔ اس کی کم زور اور غیر محفوظ شخصیت کو چاہے جانے کے دلاسے کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ ورائٹی، تنّوع کا طلب گار نہیں ہوتا بلکہ اُسے یہ بات اطمینان دیتی ہے کہ وہ کئی عورتوں پراپنا اختیار رکھتا ہے۔ اس نے عموماً اپنے بچپن میں اپنے باپ یا کسی مرد سرپرست کو بالادست عورت سے طلاق، علیحدگی، نشے یا اپنے کام میں غرق رہنے کی صُورت میں فرار حاصل کرتےدیکھاہوتا ہے۔ اُس کے نزدیک عورت کے قابو میں نہ آنامردانگی ہے۔ پلے بوائے ایک نفسیاتی مریض کی مانند قابلِ رحم ہوتا ہے۔
مَیں نے ایک دفعہ، بڑےملفوف سےاندازمیں پلے بوائے کی نفسیات پر بَڈی سے بات کی تو وہ فوری طور پر میرا اشارہ سمجھ گئے اور نفی میں سرہلاتے ہوئے کہنے لگے۔ ’’تمھاری باتیں کچھ حد تک تو ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ کئی لڑکیاں خود عارضی تعلق قائم کرنا چاہتی ہیں، وہ زندگی کالُطف لینا چاہتی ہیں، ایک ہی شخص کے ساتھ اُکتاجاتی ہیں۔ وہ خود چل کر ایک پلے بوائے کے پاس فلرٹ کرنے آتی ہیں، تو اِس کا اُس لڑکے کی سائیکالوجی سےکیا تعلق۔
میری اپنی اخلاقیات تھیں، ایک ایسا وقت بھی آیا کہ دو سگی بہنیں بہ یک وقت مجھ میں دل چسپی لینے لگیں، وہاں میں پیچھے ہٹ گیا۔ ایک مرتبہ میرے فلیٹ میں وائلڈ پارٹی چل رہی تھی کہ بِن بلائے ایک چھوٹی سی لڑکی آگئی۔ مَیں نے اُس کی آئی ڈی دیکھی تو وہ سولہ برس کی تھی۔ مَیں اُسے واپس چھوڑنے، چلتی پارٹی سے نکل کر، اُس کے ساتھ گیا۔ مَیں نے کسی کو دھوکا نہیں دیا۔‘‘’’وہ کیا تھا، جو آپ نےاپنی آسٹرین بیوی کو دیا تھا؟‘‘بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا۔ میرا سوال سُن کر بَڈی نے سرجُھکا لیا۔ (جاری ہے)