سپریم کورٹ نے سندھ میں حلقہ بندیوں کے خلاف ایم کیو ایم کی درخواست نمٹا دی، صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کیلئے پولنگ 28 اگست کو ہی ہوگی۔
سندھ میں حلقہ بندیوں کیخلاف ایم کیو ایم کی درخواست کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی ، عدالت نے ریمارکس دیے کہ حقائق کا تعین ہونے پر ہی قانونی نکات عدالتوں میں اٹھائے جاسکتے ہیں، کوئی بھی آئینی عدالت حقائق کے درست تعین کے بغیرفیصلہ نہیں کرسکتی، جو نکات ہائیکورٹ میں نہیں اٹھائے گئے انہیں اپیل میں براہ راست نہیں سنا جاسکتا۔
درخواست کی سماعت کے دوران بلا مقابلہ منتخب نمائندوں کے وکیل خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل میں کہا کہ پنجاب اور کے پی میں بھی یونین کمیٹیوں کی تعداد کا تعین حکومت کرتی ہے، آبادی کے علاوہ دیگر عوامل کو مدنظر رکھ کر ہی حد اور حلقہ بندی ہوتی ہے۔
وکیل خالد جاوید نے کہا کہ قومی اسمبلی کا حلقہ4 لاکھ کا ہویا 10 لاکھ کا، وزیراعظم کیلئے ووٹ برابر ہوتا ہے، ووٹوں کے تناسب میں فرق بلدیات سے قومی اسمبلی تک ہرحلقے میں ہوتا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایم کیو ایم نے جو نکات سپریم کورٹ میں اٹھائے وہ سندھ ہائیکورٹ میں کیوں نہیں لیے؟ پولنگ سے چند دن قبل پہلے مرحلے کا الیکشن روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہائیکورٹ نے کہا جنوری سے جون تک ایم کیو ایم والے کیوں سوئے رہے؟ اپیل میں نئے نکات کا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں۔
بلا مقابلہ منتخب نمائندوں کے وکیل خالد جاوید خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو حلقوں کی تعداد تبدیل کرنے کا اختیار آئین بھی نہیں دیتا، حلقوں کی تعداد آئین اور قانون میں متعین کردہ ہوتی ہے۔
سماعت میں ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ایم کیوایم نے حلقہ بندی اتھارٹی سے رجوع ہی نہیں کیا، الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت مل کر کام کرتے ہیں، الیکشن کمیشن کی ہدایت پر کئی حد بندیاں تبدیل کی گئیں، ووٹرز کو حدبندی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت میں بتایا کہ سیاسی جماعتوں کا مسئلہ صرف میئر کے الیکشن کا ہے، کون جانے یہ میئرکس جماعت سے منتخب ہوگا۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حلقہ بندی اتنی عمومی نوعیت کی بھی نہیں ہونی چاہیے، الیکشن کمیشن کو ہمیں سمجھانا ہوگا کہ حلقہ بندی کس بنیاد پرکی جاتی ہے، مسئلہ صرف انتخابات کا نہیں ترقیاتی اسکیموں اورفنڈزکا بھی ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اندرون سندھ سے کیسز آئے کہ 2 اضلاع کو ملاکر ایک حلقہ بنایا گیا ہے، دوسری جانب ایک ضلع کے دو دو حلقے بھی بنائے گئے ہیں، ایک حلقہ 10 لاکھ اور ساتھ والا 4 لاکھ کا ہو یہ زیادتی ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ درست نمائندگی نہ ہونے، فنڈزکی وجہ سے ہی جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی بات ہو رہی ہے، کسی دوسرے کیس میں ان نکات پر الیکشن کمیشن کا موقف سنیں گے۔
سیکرٹری بلدیات سندھ نے بتایا کہ حد بندی میں عوام کو دستیاب سہولیات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ
واضح ہوگیا ہے کہ الیکشن کمیشن اور لوکل انتظامیہ کے اشتراک سے حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں تاہم یہ واضح نہیں کہ جن عوامل کو سامنے رکھ کر حدبندی ہوتی ہے وہ کیا ہیں؟
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ہی حد بندی کی گائیڈ لائنز بنائیں۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے درخواست کی سماعت میں ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ بہتر ہوگا کہ ایم کیو ایم یہ جنگ متعلقہ فورم پر لڑے، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے وکلا کو سننا چاہتے ہیں جس کے بعد ایم کیوایم کے وکیل فروغ نسیم اور پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹرصلاح الدین روسٹرم پر آگئے۔
چیف جسٹس نے فروغ نسیم سے مکالمہ کیاکہ ہم نے متعدد بار آپ کو کہا کہ سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ پڑھیں، سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے میں واضح درج ہے کہ جون تک آپ نے کچھ نہیں کیا، ہائیکورٹ نےکہا کہ ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات سے چند دن پہلے ترمیمی درخواست دائر کی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات 26 جون سے شروع ہوچکے ہیں، وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک بار مجھے سن لیں، چیف جسٹس نے کہاکہ ہائیکورٹ میں دائر ترمیمی درخواست میں ووٹ شمار ہونے یا نہ ہونے کا نکتا اٹھایا ہی نہیں گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ یہ امید نہ رکھیں کہ آئینی معاملے پر یونہی فیصلہ دے دیں گے، آپ الیکشن کمیشن اور حلقہ بندی کمیٹی کیساتھ بیٹھ کرمعاملہ حل کریں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ کیس واپس ہائیکورٹ بھجوا دیں؟