• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھتر سال ہوگئے ہمیں آزادی حاصل کیے ہوئے۔ تین نسلیں گزر گئیں۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے جو محنت کی جو قربانیاں دیں اس میں آنے والی بقیہ دو نسلوں نے کیا حصہ ڈالا۔ جب ہم اپنے بزرگوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ آزادی کے بعد ان لوگوں ان تھک محنت کی۔ ملکی مال و دولت کی قدر کی اور انہیں بہت سنبھال کر استعمال کیا۔ بلا ضرورت ملکی وسائل برباد نہ ہونے دیئے۔ یہ نا تھا کہ حکومت غریب ہو اور سرکاری ملازمین امیر ترین! تقریبا بیس اکیس سال یہی سلسلہ چلتا رہا۔ لیکن گورنر جنرل غلام محمد کے دور سے حکمرانی اور طاقت کا نشہ کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس سے پہلے تک حکمرانی خدمت سمجھی جاتی تھی۔ اسی طاقت کی ہوس اور رسہ کشی میں ملک دولخت ہوگیا۔ لیکن بجائے سبق سیکھنے کے دولت کی ہوس بھی جڑ پکڑ گئی۔ اب ہر حال میں اقتدار میں رہنا اورمال بنانا ( تاکہ اگلی ساری نسلیں پاوں پسار کر عیاشی کریں)۔ بس یہیں سے حالات خراب ہونا شروع ہوئے جب ذاتی مفادات اجتماعی مفادات پر حاوی ہوگئے۔ سرکاری ملازمت ، سرکاری عہدے حاصل کرنے کا مقصد ذاتی خزانہ پھرنا اور ملکی خزانہ خالی کرنا۔ جس کے لئے یہ جملے ڈھونڈ لیئے گئے کہ خزانہ خالی ہے یا فنڈز کی کمی۔ جب ان ادوار میں غیر ملکی عطیات زیادہ اور بیرونی قرضے کم آتے تھے۔ لیکن حکمرانوں اور سرکاری بڑے عہدے داروں کی بندر بانٹ اور لوٹ کھسوٹ کی وجہ سے بیرونی ممالک سے اب صرف قرضے ہی ملتے ہیں وہ بھی انتہائی سخت شرائط پہ۔ ان ساری برائیوں کو پروان چڑھانے والے وہ نسل ہے جس کے والدین نے محنت اور لگن کے ساتھ اس ملک کو بنایا تھا اور بیس سالوں میں اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ مگر ان کی اولادوں نے اس ملک کو نچوڑ کر رکھ دیا۔ تعلیم کا میدان ہو یا صحت کا اس نسل نے انہیں اہمیت ہی نا دی بلکہ ملک میں فرقہ واریت اور لسانیت کو فروغ دیا محبت کے بجائے نفرت عام کی۔ یہی وجہ ہے پچھتر سال کے باوجود ہم ابھی تک کوئی ایسی چیز بنا کر نہیں بیچ یعنی ایکسپورٹ کرسکے جس میں ہماری طرف سے کوئی value addition کی گئی ہوتی۔ یا جو ہمارے انجنیئرز یا سائنسدانوں کی ان تھک محنت کی بدولت بنی ہوتی۔ ہماری ساری کی ساری برآمدات زراعت پہ انحصار کرتی ہیں جو کہ قدرت کا تحفہ اور کاشتکار کی محنت ہے ۔ جس کی ٹریننگ پہ سرکار کا کوئی خرچ نہیں آتا۔ لیکن سرکاری جامعات سے فارغ التحصیل افراد اپنا حصہ کب ڈالیں گے جو کہ سرکاری خرچ پر باہر بھی جاتے ہیں اور سرکاری خزانے سے بھاری معاوضہ بھی لیتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ریسرچ پیپرز ضرور چھاپتے ہیں ایک سے ملکی معیشت پہ کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن ان کی جائیداد میں بے انتہا اضافہ ہوچکا ہوتا ہے اور ان کی نسل ملک سے باہر پاکستان سے کمائی گئی آمدنی پہ عیاشی کرتی ہے۔ یہی حال سیاستدانوں، ججوں اور ہر پڑی پوسٹ پہ رہنے والے ہر سرکاری افسر کی نسلوں کا ہوتا ہے۔ کماتے پاکستان سے ہیں لیکن خرچ باہر کرتے ہیں۔ لیکن اب تیسری نسل میں کچھ بلکہ کافی حب الوطنی نظر آرہی ہے وہ ملک کے لئے پریشان آرہے ہیں اور امید ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ پیوستہ رہ شجر سےامید بہار رکھ

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین