ماجد نظامی، وجیہہ اسلم، حافظ شیزار قریشی
عبد اللہ لیاقت، حنا خان
پاکستان میں ضمنی انتخابات کے نتائج پر قیاس آرائی کرنا کبھی مشکل نہیں رہا مگر موجودہ سیاسی ہلچل پر نظر دوڑائی جائے تو اب یہ پیش گوئی اتنی آسان نہیں۔ پاکستانی سیاسی تاریخ میں 2022ء واحد سال ہوگا جس میں سب سے زیادہ ضمنی انتخابات ہوئے اور مزید بھی متوقع ہیں۔ حالیہ ضمنی انتخابات زیادہ تر سیاسی داؤ پیچ کے نتیجے میں خالی ہونے والی نشستوں پرمنعقد ہوئے۔ ضمنی انتخابات میں کامیابی ہویا ناکامی کا سامنا، دونوں فریق اداروں پر نہ صرف کڑے الزامات لگا رہے ہیں بلکہ عدالت اور عدالتی فیصلوں پربھی کڑی تنقید کے بعد انہیں متنازع بنایا جاتا ہے۔ حکومتی اتحاد اور اپوزیشن جماعتوں کی لڑائیاں تو اپنی جگہ مگر اداروں کے کردار کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔
لہذا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاپاکستانی سیاست میں انتخابی نتائج کو خوش دلی سے قبول کیاجائے گا یا نہیں؟ دیگر اضلاع کی طرح اگر کراچی کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو یہاں بڑی سیاسی جماعتیں اپنا حق رکھتی رہی ہیں مگر ذمہ داری کوئی بھی جماعت لینے پر تیار نہیں۔ یہاں کی سیاست میں لسانیت کو بنیادی مقام حاصل ہے جس کے باعث یہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ ووٹ بینک سیاسی نظریات سے ہٹ کر زبان اور قومیت کی بنیاد پر بھی تقسیم ہے۔ موجودہ دور میں کراچی کی سیاست میں اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت کو واضح شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ووٹر کی اکثریت کارکردگی اور سیاسی نظریات کوسامنے رکھ کر ووٹ دیتی نظر آئی۔
قومی اسمبلی کی نشست این اے 245 پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کے انتقال کے باعث خالی ہوئی جس پر 21اگست کو ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ ضلع شرقی کراچی ڈویژن کا دوسرا اہم انتظامی ضلع ہے۔ یہ پہلے چار انتظامی ٹاؤن پر مشتمل تھا جس میں گلشن ٹاؤن، شاہ فیصل ٹائون، کورنگی ٹاؤن اور لانڈھی ٹاؤن شامل تھے۔ نومبر 2013ء میں سندھ حکومت نے کورنگی کے نام سے شہر کا چھٹا ضلع بنانے کا نوٹیفکشن جاری کیا۔ 2013ء کے انتخابات میں کراچی شرقی کو قومی اسمبلی کی تین نشستیں دی گئی تھیں جبکہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد یہ تعداد 1کے اضافہ کے بعد 4ہو گئی۔
ضمنی انتخاب کیلئے 31 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کر لیے گئے ہیں۔ جمعیت علما اسلام ف نے اپنے امیدوار امین اللہ کی دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے معید انور کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ پیپلز پارٹی پہلے ہی اس حلقے سے ایم کیو ایم کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے امیدوار کی دستبرداری کا اعلان کرچکی ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ضلع شرقی حلقہ این اے 245 کی کل آبادی 6 لاکھ 97 ہزار 365 ہے جبکہ یہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 4 لاکھ 43 ہزار 540 ہے جن میں دو لاکھ 39 ہزار 893 ووٹرز مرد جبکہ دو لاکھ تین ہزار 647 تعداد خواتین ووٹرز کی ہے۔
ضمنی انتخاب کے اہم امیدوار ڈاکٹر محمد فاروق ستار(آزاد)
ڈاکٹر محمد فاروق ستار کراچی کے معروف سیاست دانوں میں سے ایک ہیں۔انہوں نے سند ھ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور عملی سیاست کا آغاز1985ء میں ایم کیو ایم(حق پرست) کے پلیٹ فارم سے کیا اور 1987ء میں 28سال کی عمر میں کراچی کے میئر منتخب ہوئے۔1988ء اور 1990ء میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔1993ء اور 1997ء میں سند ھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1997 ء تا 1998ء تک انہوں نے سند ھ کابینہ میں صوبائی وزیر برائے لوکل باڈیز کی خدمات سرانجام دیں۔ 2008 ء اور 2013ء کے عام انتخابات میں این اے249سے ایم کیو ایم کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ وہ مارچ 2008 ء میں ایم کیو ایم کی طرف سے پاکستان کے وزیر اعظم کی نشست کیلئے نامزد کیے گئے۔ فاروق ستار گجراتی میمن قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
22اگست 2016ء کو قائد ایم کیو ایم الطاف حسین کی طرف سے پاکستان کے خلاف نعرے لگوانے پر انہیں پارٹی قیادت نے ایم کیو ایم پاکستان کا سربراہ بنایا اور الطاف حسین کو متحدہ قومی مومنٹ کی سربراہی سے الگ کردیا۔2018ء کے جنرل الیکشن میں انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے ٹکٹ پرا نتخابات میں حصہ لیا مگر اس الیکشن میں ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے عامر لیاقت حسین کامیاب ہوئے۔ 9 نومبر 2018ء کو پارٹی قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر ایم کیو ایم (پاکستان) نے ان کی بنیادی رکنیت ختم کر دی۔ 21 اگست کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں وہ آزاد حیثیت سے میدان میں اتریں گے۔
محمود باقی مولوی (تحریک انصاف)
تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر کراچی محمود باقی ضمنی انتخاب میں این اے 245سے پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ انہوں نے سیاسی سفر کا آغاز 2017ء میں تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے کیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سمندری اموربھی رہ چکے ہیں ۔انکی تعلیمی قابلیت گریجوایشن ہے جبکہ کراچی کی بڑی کاروباری شخصیات میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
پارلیمانی سیاست کا آغاز 2018ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 255سے تحریک انصاف کے ٹکٹ پرکیا جس میں وہ 50ہزار352ووٹ لے کر حلقے میں دوسرے نمبر پر رہے۔ انکے مد مقابل ایم کیو ایم کے خالد محمود صدیقی نے59ہزار ووٹ لےکر سیٹ اپنے نام کی ۔محمود باقی تحریک انصاف کے سابق جنرل سیکرٹری کراچی اور نائب صدر کراچی کے عہدوں پر بھی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔
معید انور (متحدہ قومی موومنٹ پاکستان)
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی سینٹرل آرگنائزنگ کمیٹی کے رکن معید انور نے سیاست کا آغاز 1988ء میں بطور سیاسی ورکر ایم کیو ایم کے پلیٹ فار م سےکیا۔2016ء کے بلدیاتی انتخابات میں ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن یونین کونسل گلشن اقبال 2سے ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے۔ بعدا زاں انہوں نے چیئرمین ڈسٹرکٹ کارپویشن کےعہدے پر 2020ء تک خدمات سر انجام دیں۔ اس ضمنی انتخاب میں معید انور پہلی بار پارلیمانی سیاست کا حصہ بن رہے ہیں۔
احمد رضا قادری (تحریک لبیک)
ضمنی انتخاب این اے 245 سے حصہ لینے والے ٹی ایل پی کے امیدواراحمد رضا قادری نے 2017 میں تحریک لبیک میں شمولیت اختیار کی۔پیشے کے اعتبار سے امام مسجد جبکہ انکی تعلیمی قابلیت ایم اے ہے۔ 2018 میں پہلی بار انتخابی سیاست کا حصہ بنے۔ 2018 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 245سے 20ہزار 580 ووٹ لے کر حلقے میں تیسرے نمبر پر رہے۔
سید حفیظ الدین ایڈووکیٹ (پی ایس پی)
سید حفیظ الدین ایڈووکیٹ ضمنی انتخاب میں پاک سرزمین پارٹی کے پلیٹ فارم سے میدان میں اترے ہیں۔ ڈی جے سائنس کالج سے انٹر ،بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی اورسٹوڈنٹ یونین کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ بعد ازاں اسلامیہ لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور وہاں بھی سٹوڈنٹ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ کراچی سٹوڈنٹ کونسل کے جنرل سیکرٹری اور فیڈرل اردو لاء کالج سے ایل ایل کی ڈگری اپنے نام کی۔
1990ء میں وزیر اعلیٰ سندھ کی وزارت اطلاعات میں مشیر کے فرائض سرانجام دئیے۔ ان کی مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی رہی ۔مسلم لیگ ن کراچی کے صدر اور پاکستان تحریک انصاف سندھ کے جنرل سیکرٹری ہونے کے ساتھ ساتھ مرکزی کور کمیٹی کے رکن کی حیثیت سے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ سید مصطفیٰ کمال کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے 2016ء میں پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور پی ایس پی میں وائس چیئرمین کے عہدے پر تعینات ہیں۔
موجودہ سیاسی صورتحال
کراچی کی سیاست میں ایم کیوایم کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ضلع سینٹرل ، ایسٹ، کورنگی سے ایم کیو ایم ماضی کے نتائج کی بنیاد پر سبقت لیے ہوئے ہے۔ باقی ماندہ سیاسی جماعتیں جن میں پی ٹی آئی، تحریک لبیک اور پی ایس پی کے امیدواروں نے بھی یہاں متحدہ کی جیت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایم کیو ایم کے سابق رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے کراچی کی 246 یونین کونسل میں سے 75 اور حیدرآباد میں30 یونین کونسلوں پر اپنےامیدوار سامنے لانے پر ایم کیو ایم کا ووٹ بینک تقسیم ہوسکتا ہے۔ یہ حقیقت بھی خارج از امکان نہیں کہ کراچی کوکوئی بھی جماعت اکیلے سر نہیں سکے گی۔
بلدیاتی سیاست کی طرح قومی اور صوبائی سیاست میں بھی ہلچل ہورہی ہے۔ این اے 245 میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں پولنگ کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔ یہاں مقابلہ سخت ہوگا جس میں کسی بھی امیدوار کی جیت کے بارے میں حتمی رائے دینا ممکن نہیں ہے۔ این اے 245 پر ایم کیو ایم کے امیدوار معیدانور کے مقابلے میں پی پی پی اور جے یو آئی اپنا امیدوار دستبردار کرچکے ہیں جس سے دونوں سیاسی جماعتوں کاووٹ بینک ایم کیو ایم کی حمایت میں جاسکتا ہے جبکہ انہیں اے این پی کی حمایت بھی حاصل ہے۔
زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو ایم کیوایم کے لیے اس نشست پر سب سے بڑا خطرہ ڈاکٹر فاروق ستار ہیں جو ایم کیو ایم ووٹ بینک کو تقسیم کرسکتے ہیں۔ اگر ایسا ممکن ہواتو یہ نشست تحریک لبیک یا پی ٹی آئی کے امیدوارکی کامیابی کا سبب بن سکتی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفیٰ کی منظوری کے بعد کراچی سے پی ٹی آئی کی تین نشستیں خالی ہوئی ہیں جن پرپی ٹی آئی کے قائد عمران خان میدان میں اتررہے ہیں۔ ان نشستوں پر ستمبر میں انتخابات ہوں گے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ضمنی انتخاب کے انعقاد کی وجہ سے سندھ کا سیاسی ماحول گرم رہے گا۔
2018 ء کے انتخابات پر ایک نظر
حلقہ این اے 245 سے پاکستان تحریک انصاف کے عامر لیاقت حسین 56 ہزار 664 ووٹ لے کر کامیا ب ہوئے جبکہ انکے مد مقابل متحد ہ قومی موومنٹ پاکستان کے فاروق ستار30 ہزار 429ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ اس انتخا ب میں حلقے کا ٹرن آئوٹ 37.62فیصد رہا۔ حلقے میں دو اہم امیدوار جن میں تحریک لبیک پاکستان سے تعلق رکھنے والے محمد احمد رضا20ہزار 733 ووٹ لے کر تیسری پوزیشن جبکہ متحدہ مجلس عمل کے امیدوارسیف الدین 20ہزار142ووٹ لے کر چوتھی پوزیشن پررہے۔ دونوں امیدواروں نے مجموعی طور پر قریبا41ہزار ووٹ حاصل کئے۔
یاد رہے کہ جے یو آئی ف اور ٹی ایل پی کا حلقے میں ووٹ بینک شخصی نہیں بلکہ نظریاتی ہے ۔2013ء کے انتخابات پر نظر ڈالیں تو تحریک لبیک اور ایم ایم اے دونوں جماعتوں نے اس حلقے سے کسی بھی امیدوار کو انتخابی ٹکٹ جاری نہیں کیا تھا۔ قومی اسمبلی کے اس حلقے میں 2صوبائی نشستیں پی ایس 105اور پی ایس 106آتی ہیں جن پر بھی تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے۔ صوبائی سطح پر اس حلقے میں تحریک انصاف کے دورکن سندھ اسمبلی کا ہونا ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کے امیدوار محمود باقی مولوی کے لیے ایک بڑی سپورٹ تصور کی جا رہی ہے۔
2018ء کے انتخابات میں ایم کیو ایم کے گڑھ سے پی ٹی آئی کے امیدوار عامر لیاقت کا کامیاب ہونا ایک بڑی کامیابی تصور کی جاتی تھی۔ اس کامیابی کے پیچھے دو پہلو بہت اہم تھے ایک ملک میں پی ٹی آئی کی سیاسی مقبولیت عروج پر اور دوسری عامر لیاقت کی ماضی میں سیاسی وابستگی ایم کیو ایم پاکستان سے تھی جوکہ پی ٹی آئی کی جیت کی دوسری وجہ بنی۔ 2013ء کے انتخابات میں سندھ اسمبلی نے صوبہ میں پرانا بلدیاتی نظام بحال کردیا جس کے تحت کراچی دوبارہ پانچ اضلاع میں تقسیم ہوگیا۔
سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد کراچی کی تین قومی اور آٹھ صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ازسر نو حد بندیاں کی گئیں۔کراچی ضلع شرقی کی بحالی کے بعد اُسے این اے 251، 252 اور این اے 253 دی گئیں۔ این اے 251 سے ایک بار پھر ایم کیو ایم علی رضا عابدی کامیاب ہوئے انہوں نے پی ٹی آئی کے راجااظہر خان کو 41ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ 2008ء کے انتخابات بھی2002ء کی حلقہ بندیوں کے تحت ہوئے۔
ضلع کی تمام نشستوں پر اس بار ایم کیو ایم کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ ایم کیو ایم کی طرف ضلع شرقی سے کامیاب ہونے والوں میں بڑے مشہور نام وسیم اختر، عبدالرشید گوڈیل اور حیدر عباس رضوی شامل تھے۔ مسلم لیگ ن کے مشاہد اللہ خان اور پیپلز پارٹی کے سید فیصل رضا عابدی شکست کھا گئے۔ 2002 ء کے انتخابات سے قبل قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کے اعلان کے بعد ملک بھر میں نئی حلقہ بندیاں ہوئیں۔
جس کے تحت کراچی کے تمام اضلاع کو ضم کرکے کراچی سٹی ڈسٹرکٹ کا نام دیا گیا۔ 2002ء کی حلقہ بندیوں کے تحت کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد بڑھا کر 20 کردی گئی۔ 2002ء کے انتخابات میں حق پرست گروپ نے اپنا نام تبدیل کرکے متحدہ قومی موومنٹ رکھ لیا اور اسی نام سے انتخابی معرکے میں حصہ لیا۔
کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کا اثر روسوخ کم کرنے کے لئے تمام مذہبی سیاسی جماعتوں نے متحدہ مجلس عمل کے نام پر ایک اتحاد بنایا۔ ایم ایم اے نے کراچی میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں اپنے امیدوار کھڑے کئے۔ اس حلقے کے گزشتہ 4 عام انتخابات کے ٹرن آوٹ کا جائزہ لیں تو یہاں سے قریباً 40 فیصد رہا۔
معروف براڈ کاسٹر اور سابق رکن قومی اسمبلی مرحوم ڈاکٹر عامر لیاقت حسین5جولائی 1971ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق سیاسی گھرانے سے تھا۔ ڈا کٹر عامر لیاقت حسین کے والد شیخ لیاقت حسین بھی قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ والد شیخ لیاقت حسین نے 1994ء میں متحدہ قومی موومنٹ (حق پرست گروپ) میں شمولیت اختیار کی۔ 1997ء کے جنرل الیکشن میں وہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 195سے ایم کیو ایم (حق پرست گروپ) کے ٹکٹ پر 26 ہزار 692ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔
والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے بھی انتخابی سفر کا آغاز متحدہ قومی موومنٹ کے پلیٹ فارم سے 2002ء کے عام انتخابات سے کیا۔ اس انتخاب میں وہ ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر 30ہزار458 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائےاورایم ایم اےکے امیدوار عبدالمجید نورانی کو 7ہزار485ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔ عامر لیاقت نے مذہبی امور کے وزیر کے طور پر مئی 2005ء میں خودکش حملوں کے خلاف فتوی جاری کرنے کیلئے پاکستان سے 58مذہبی علماء کو قائل کیا جس کے مطابق مساجد اور عبادت کے دیگر مقامات پر حملہ غیر اسلامی قرار دیا گیا۔
عامر لیاقت نے4جولائی 2007ء کو مذہبی امور کی وزارت اور قومی اسمبلی کی رکینت سے استعفیٰ دیدیا۔ 6اگست2010ء کو جیو نیوز پر دکھائے جانے والے اپنے پہلے شو عالم آن لائن کی میزبانی کے بعد اے آر وائی ڈیجیٹل پر ٹی وی پروگرام عالم اور عالم کی میزبانی کی۔ گذشتہ چودہ برسوں سے انہوں نے خصوصی رمضان نشریات کی روایت ڈالی۔ پاکستانی میڈیا کی تاریخ ساز نشریات میں سلام رمضان، رحمان رمضان، مہمان رمضان ، پہچان رمضان، امان رمضان اور پاکستان رمضان شامل ہیں۔
مارچ 2018ء کو ایم کیو ایم سے سیاسی وابستگی ختم کر کے تحریک انصاف کو نیا سیاسی مسکن بنایا۔ 2018ء کے جنرل الیکشن میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر 56 ہزار 664 ووٹ لے کر کامیا ب ہوئے جبکہ انکے مد مقابل متحد ہ قومی موومنٹ پاکستان کے فاروق ستار30ہزار429ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران انہوں نے پی ٹی آئی کا ساتھ مارچ 2022 میں چھوڑ دیا اور عامر لیاقت کے اس عمل کو کراچی کی عوام نے شدید نا پسند کیا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین طبیعت کی خرابی کے سبب 9 جون 2022کو انتقال کرگئے تھے۔ انہیں دنیا کی 500 بااثر شخصیات میں بھی شمار کیاجاتا تھا۔