• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کا شمار دنیا کے ان خوش نصیب انسانوں میں کیا جاسکتا ہے جن پر اللہ ہمیشہ رحم اور رحمت کے ساتھ اپنا خصوصی کرم بھی کرتا رہا یہی وجہ ہے کہ انہیں نہ صرف لندن کی نامور جامعات سے تعلیم حاصل کرنے بلکہ ان جامعات میں لیکچر دینے کا اعزاز بھی حاصل رہا پھر کرکٹ میں اللہ نے انہیں جو نام و مقام بخشا ،وہ بھی ان کی خوش نصیبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال کی تعمیر سماجی شعبے میں ان کی کامیابی کی دلیل بنی جب کہ میدانِ سیاست میں بھی انہوں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے تجربہ کار سیاسی و روایتی خاندانی سیاسی جماعتوں کو شکست دےکر وزارت عظمیٰ کے اعلیٰ ترین منصب تک رسائی حاصل کی۔عمران خان کی ان تمام کامیابیوں کی وجہ انتھک محنت اور مستقل مزاجی بھی ہے مگرکامیابی اور شہرت کے عروج پر پہنچنے کے بعد انسان میں جو ٹھہراؤ‘ تحمل‘ دانائی اور تدبر پیدا ہوتا ہے بدقسمتی سے عمران خان کے رفقا، مصاحبوں اور مشیروں نے انہیں اس سے دور ہی رکھا یہی وجہ ہے کہ آج عمران خان شہرت اور عوامی حمایت کی بلندیوں کے باوجود زوال پذیری سے دوچار ہیں کیوں کہ انہیں بھی اقتدار کا نشہ ہوگیا ہے اوروہ عوامی حمایت کو طاقت کی طرح استعمال کرکے اداروں کو دھمکانا چاہتے ہیں مگر اب شاید قدرت ان سے ناراض ہوچکی ہے یہی وجہ ہے کہ عمران خان کی عوامی رابطہ مہم کو قدرت نے برساتوں اور سیلاب کے ذریعے سبوتاژ کردیا ہے اور عمران خان نے اگران حالات میں بھی تحریک انصاف کے وسائل کو سیلاب زدگان کی امداد کیلئے استعمال کرنے کی بجائے فوری انتخابات کی رَٹ برقرار رکھی اور عوام کو ان حالات میں بھی اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کی روش برقرار رکھی تو ان کی عوامی حمایت و مقبولیت میں اضافے کی بجائے بتدریج کمی آتی جائے گی جس کے آثار واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اسلئے اب عمران خان کیلئے ضروری ہوچکا ہے کہ وہ اپنے لب و لہجے میں تبدیلی و شیرینی پیدا کرتے ہوئے اپنے اندر قائدانہ تدبر پیدا کریں اور عدلیہ و انتظامیہ سے تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا کرنے سے باز رہیں کیونکہ قرائن بتارہے ہیں کہ عمران خان کو ایک طویل عرصہ عدالتوں کا سامنا کرنا ہوگا اور ان کا واسطہ پولیس سے بھی پڑتا رہے گا، اس لئے اگر انہوں نے عدلیہ اور پولیس سے تعلقات بہتر نہ رکھے تو ان کے ساتھ بھی وہی سلوک ممکن ہے جو شہباز گل کے ساتھ ہواہے۔ سیاسی تدبر یہی ہے کہ عمران خان دہشت گردی ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں عدالت کی جانب سے جاری ہونے والے شوکاز نوٹس کے تحت 31اگست کو عدالت میں پیش ہونے سے پہلے ویڈیو خطاب کے ذریعے پولیس افسروں اور خاتون سیشن جج زیبا شہناز کے متعلق ادا کئے گئے اپنے کلمات پر قوم سے معافی مانگ لیں تو نہ صرف ان کی عوامی مقبولیت بڑھ جائے گی بلکہ ان کی عوامی و سیاسی ساکھ میں بھی اضافہ ہوگا اور عدلیہ و انتظامیہ سے ان کے تعلقات میں بھی بہتری آئے گی جو اس وقت تحریک انصاف کی سیاسی زندگی کیلئے انتہائی اہم ہے بصورتِ دیگرروایتی و خاندانی سیاستدانوں نے طاقتور حلقوں کیساتھ مل کر تحریکِ انصاف کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی تیاری مکمل کرلی ہے۔ تحریک انصاف کی سیاسی زندگی کیلئے عمران خان کے طرز تخاطب میں تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے۔

دوسری طرف حکمرانوں نے 14اگست کے دن اسلام کے نام پر قائم شہراسلام آباد میں سرکاری خزانے کے خرچ پر ناچ گانے اور بے ہودہ رقص وسرور کی محفل رَچاکر عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے ،زہر کھانے کے پیسے نہ ہونے کی دعویدار حکومت نے3 گھنٹے کی بے ہودہ محفل پر عوام کے کروڑوں روپے لٹاکربے شرمی کے تمام ریکارڈ توڑدیے ہیں جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، کپڑے بیچ کر عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے والے وزیراعظم نے ناچ گانے پر عوام کے کروڑوں روپے لٹاکر عوام دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ حکمران عوام کے صبر کامزید امتحان نہ لیں کیونکہ لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری سے ہر پانچواں شہری ڈپریشن کا شکار ہے جب کہ ملک میں صرف2فیصد اشرافیہ ہی سکون میں ہے، ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ بچے اپنے والدین کے سامنے پانی میں ڈوب رہے ہیں۔ کیاحکمران اس پانی میں تھوڑی دیر کے لئے کھڑے ہوسکتے ہیں؟آج کے جدید دور میں بھی ہمارے پاس سیلاب اور بارشوں سے متعلق پیشگی اطلاع کاموثر نظام موجود نہیں، یوں لگتا ہے کہ ہنگامی حالات سے نمٹنے والے اداروں میں خود ایمرجنسی جیسے حالات ہیں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں سیلاب متاثرین امداد کے منتظر ہیں اور حکومتی کارندے گنے چنے افراد کے ہاتھوں میں چند ہزار تھما کر فوٹوشوٹ کرا کر بری الذمہ ہو رہے ہیں۔ بارشوں اور سیلاب سے سینکڑوں افراد لقمۂ اجل بن گئے، لوگوں کے گھر پانی میں بہہ رہے ہیں، ملک بحرانوں کی زد میں ہے، روپے کی مسلسل بے قدری کے بعد اگر ڈالر تھوڑا نیچے آیا ہے تو اس کے اثرات کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ ڈالر اوپر جاتا تھا تو مہنگائی میں بھی اسی لمحے اضافہ ہو جاتاتھا مگر اب ڈالر کی قیمت میں کمی پر عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل رہا۔ سفید پوش شہری حالات سے پریشان اور کروڑوں نوجوان روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں، ملک کے طول و عرض میں گھنٹوں لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے لہٰذا 37ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے دعویدار قوم کو یہ بتائیں کہ وہ بجلی گئی کہاں؟

تازہ ترین