• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان 7 دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرائیں: اسلام آباد ہائیکورٹ

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

ایڈیشنل سیشن جج کو دھمکانے کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو 7 دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا اور کیس کی سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

اس سے قبل کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دگل، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون، عمران خان کے وکیل حامد خان بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔

عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ کی سربراہی میں عدالتِ عالیہ کا لارجر بینچ کر رہا ہے۔

عدالت میں کارروائی شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آ گئے۔

تحریری جواب سے ذاتی طور پر دکھ ہوا: چیف جسٹس

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ان سے کہا کہ آپ عمران خان کے وکیل کے ساتھ اس کورٹ کے معاون بھی ہیں، آپ نے جو تحریری جواب جمع کرایا اس کی توقع نہیں تھی، یہ عدالت توقع کرتی تھی کہ آپ ادھر آنے سے پہلے عدلیہ کا اعتماد بڑھائیں گے، ایک سیاسی جماعت قانون اور آئین کی حکمرانی پر یقین رکھے گی، 70 سال میں عام آدمی کی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں رسائی نہیں، عمران خان کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر دکھ ہوا، ماتحت عدلیہ جن حالات میں رہ رہی ہے، اس کورٹ کی کاوشوں سے جوڈیشل کمپلیکس بن رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان نے ہماری بات سنی اور جوڈیشل کمپلیکس تعمیر ہو رہا ہے، اگر وہ اس عدلیہ کے پاس جا کر اظہار کر لیں کہ انہیں ماتحت عدلیہ پر اعتماد ہے، جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا اسی طرح زبان سے نکلی بات واپس نہیں جاتی، عمران خان کے پائے کے لیڈر کو ہر لفظ سوچ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے، ان کی کافی فالوونگ ہے، میں توقع کر رہا تھا کہ احساس ہو گا کہ غلطی ہو گئی، ایک سیاسی لیڈر کے فالورز ہوتے ہیں، اسے کچھ کہتے ہوئے سوچنا چاہیے۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ گزشتہ 3 سال میں بغیر کسی خوف کے ہم نے ٹارچر کا ایشو اٹھایا، ٹارچر کی تو 70 سال میں ریاست نے خود حوصلہ افزائی کی، ٹارچر کی کسی بھی سطح پر اجازت نہیں دی جا سکتی، کیا کسی شخص کو لاپتہ کرنے سے بڑا کوئی ٹارچر ہوتا ہے؟ آپ کے جواب سے یہ اندازہ ہوا کہ عمران خان کو احساس نہیں ہے کہ کیا ہوا، اسد طور اور ابصار عالم کے کیسز آپ دیکھ لیں، 3 سال یہ عدالت وفاقی کابینہ کو معاملات بھیجتی رہی، کاش اس وقت بھی آواز اٹھاتے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کو معاملہ واپس بھجوایا تھا۔

اس موقع پر عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل جہانگیرجدون کو بولنے سے روک دیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے عمران خان کے وکیل حامدخان سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ معاملہ مبینہ توہینِ عدالت کرنے والے اور عدالت کے درمیان ہے، آپ اپنے آپ کو صرف عمران خان کا وکیل نہ سمجھیں، آپ اس کورٹ کے معاون بھی ہیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل کس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں ہے؟ کیا ٹارچر کی ذرا سی بھی شکایت ہو تو جیل حکام ملزم کو بغیر میڈیکل داخل کرتے ہیں؟ یہ پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ سے کب نمٹائی گئی اور تقریر کب کی گئی؟

وکیل نے جواب دیا کہ پٹیشن 22 اگست کو نمٹائی گئی اور تقریر 20 اگست کو کی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ التواء تھا تو تقریر کی گئی، آپ نے توہینِ عدالت کے معاملے پر فردوس عاشق اعوان والی ججمنٹ پڑھی ہو گی؟ پیکا آرڈیننس کے تحت اداروں پر تنقید کرنے والوں کو 6 ماہ ضمانت بھی نہیں ملنی تھی، اس عدالت نے پیکا آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا تو عدالت کے خلاف مہم چلائی گئی، عدالت نے تنقید کی کبھی پرواہ نہیں کی، عمران خان نے کہا کہ عدالتیں 12 بجے کیوں کھلیں؟ یہ عدالت کسی بھی کمزور یا آئینی معاملے کے لیے 24 گھنٹے کھلی ہے، توہینِ عدالت کا معاملہ انتہائی سنگین ہے، جب زیرِ التواء معاملہ ہو اور انصاف کی فراہمی کا معاملہ ہو تو یہ بہت اہم ہے، عمران خان نے عوامی جلسے میں کہا کہ عدالت رات 12 بجے کیوں کھلی؟ عدالت کو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کیوں کھلی۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عدالت اوپن ہونا کلیئر میسج تھا کہ 12 اکتوبر 1999ء دوبارہ نہیں ہو گا، ہر جج آئین کے ہر لفظ سے اچھی طرح آگاہ ہے، عدالت نے صرف آئین اور سول بالادستی کو بالادست کرنا ہے، کوئی لیڈر سول سپریمیسی کی بالادستی کی بات نہیں کر رہا، اس عدالت کی مشکل یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے پہلے فیصلے دیے ہوئے ہیں، سپریم کورٹ نےدانیال عزیز، نہال ہاشمی اور طلال چوہدری کے کیس میں فیصلے دیے ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ سیاسی لیڈر سوشل میڈیا کا غلط استعمال کر رہے ہیں، میری اور سپریم کورٹ کے فاضل جج کی تصویر سیاسی جماعت کا سربراہ بنا کر وائرل کر دی گئی، میرے نام پر بیرونِ ملک فلیٹ کی غلط معلومات فراہم کی گئیں، ہمارے ادارے نے بھی بہت غلطیاں کیں، آپ کا جمع کرایا گیا جواب عمران خان کے قد کاٹھ کے لیڈر کے مطابق نہیں۔

وکیل حامد خان نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ کیا میں کچھ کہہ سکتا ہوں؟

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے جواب دیا کہ جی ضرور، آپ بتائیں، سیاسی جماعتیں اپنے فالوورز کو منع نہیں کرتیں، اس کورٹ نے کبھی بھی پرواہ نہیں کی کہ کون کیا کہتا ہے، سیاسی لیڈر شپ نے سوشل میڈیا کو خراب کیا ہے، کوئی سیاسی لیڈر کہہ دے کہ سوشل میڈیا پر ایسا نہیں کرنا تو یہ سلسلے رک جائے گا۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ مجھے احساس ہےکہ عدالت کو اس جواب پر رنج ہو سکتا ہے، جواب میں عمومی قانونی نکات اٹھائے گئے ہیں، میں فی الوقت ان نکات کو نہیں اٹھا رہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان یہ کھلی عدالت ہے، یہاں ہر عمل شفاف ہوتا ہے، ہم توہینِ عدالت کی کارروائی کو غلط طور پر استعمال نہیں ہونے دیں گے، اس میں آزادیٔ اظہارِ رائے کا بھی معاملہ ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ میں عدالت کی توجہ جواب کے صفحہ نمبر 10 پر دلانا چاہوں گا، میں نے درخواست کے قابلِ سماعت نہ ہونے کا نکتہ بھی اٹھایا ہے، عمران خان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل افسر کے بارے میں یہ کہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جب تقریر کی گئی تو معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ التواء تھا، آپ ریکارڈ دیکھ کر پراپر جواب جمع کرائیں یا عدالت اس معاملے کو آگے بڑھائے گی، عدالت توہینِ عدالت کی کارروائی کو انتہائی شفاف بنائے گی۔

شہباز گِل پر تشدد دیکھ کر عمران جذباتی ہوئے: وکیل

وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت سے گزارش ہے کہ عمران خان کی ان ریمارکس سے کوئی بدنیتی نہیں تھی، شہباز گِل پر تشدد دیکھ کر میرے مؤکل جذباتی ہو گئے تھے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایک لیڈر کو عدالتی آرڈر کے بجائے کسی اور چیز کو دیکھنا چاہیے تھا؟ حالانکہ تشدد کے حوالے سے معاملہ عدالت کے زیرِ سماعت تھا، یہ معاملہ ماتحت عدلیہ کی آزادی اور اس پر عوام کے اعتماد کا ہے، آپ کو جو بھی لکھ کر دینا ہے سوچ سمجھ کر لکھیں، آپ اس معاملے کی سنگینی کا بھی اندازہ لگائیں۔

حامد خان صاحب! دانیال عزیز، نہال ہاشمی ، طلال چوہدری کیس پڑھیں

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عدالت ساری کارروائی کو شفاف انداز میں آگے بڑھائے گی، یہ کوئی پہلی بار نہیں، حامد خان صاحب! دانیال عزیز، نہال ہاشمی اور طلال چوہدری کیس پڑھیں، یہ عدالت سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف نہیں جا سکتی، آپ معاملے کی سنگینی کو سمجھیں اور سوچ سمجھ کر جواب دیں، آپ بتائیں کہ کیا اس کیس میں کسی کو عدالتی معاون بھی مقرر کریں؟ اس ملک میں تبدیلی تب آئے گی جب تمام ادارے اپنا کام آئین کے مطابق کریں گے۔

حامد خان نے کہا کہ عمران خان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ جوڈیشل افسر کے بارے میں یہ کہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اس عدالت کا کنسرن صرف عدلیہ کی آزادی ہے۔

عدالت نے عمران خان کے وکیل کو سپریم کورٹ کے 3 فیصلے پڑھنے کی ہدایت کی۔

اس موقع پر وکیل حامد خان نے تجویز پیش کی کہ عدالت منیر اے ملک کو عدالتی معاون مقرر کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قوم اس قدر تقسیم ہے، آپ ایسی ساکھ والے کا نام بتائیں جس پر سب متفق ہوں۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ منیر اے ملک پر کسی کو کوئی اعتراض ہو گا۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ بھی بتائیں کہ ہم کسے عدالتی معاون مقرر کریں؟

اٹارنی جنرل نے بطور عدالتی معاون مخدوم علی خان کا نام تجویز کر دیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ہدایت کی کہ 7 دن میں سوچ سمجھ کر جواب داخل کریں، پاکستان بار کونسل کو بھی عدالتی معاون مقرر کر رہے ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ مطیع اللّٰہ جان یہاں کھڑے ہیں اوران کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

چیف جسٹس نے وفاق کے نمائندے کو ہدایت کی کہ آپ بھی بغاوت اور غداری کے کیسز پر نظرِثانی کریں۔

جسٹس میاں گل حسن نے کیا کہا؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ کارروائی آج ختم ہو سکتی تھی لیکن اس جواب کے بعد مگر اس جواب کے باعث ایسا نہیں ہوا، ہمیں کارروائی آگے بڑھانا پڑے گی، چیف جسٹس نے آپ کو جواب داخل کرنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے، قانون کیا ہے اور عدالت کا اختیار کیا ہے ہمیں علم ہے، آپ اس پر سوچیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آپ ہمیں الزام دیتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 130 ویں نمبر پر ہے، ہم نے ایک کیس میں فواد چوہدری کو بتایا کہ وہ نمبر عدلیہ کا نہیں، ایگزیکٹیو کا تھا، پولیس آرڈر کو نافذ کرنے کا حکم دیا اور وفاقی حکومت نے اس میں مزاحمت کی۔

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ عمران خان کے جواب کی پیشگی نقول عدالتی معاونین کو فراہم کرنے کا کہا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو 7 دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے توہینِ عدالت کیس کی سماعت 8 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

سماعت ملتوی ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کورٹ روم سے باہر آ گئے۔

صحافیوں سے عمران خان نے کیا کہا؟

کمرۂ عدالت سے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ایک رپورٹر مجھے تنگ کر رہا تھا تو میں نے اسے کہا تھا کہ میں خطرناک ہوں۔

سماعت سے قبل کمرۂ عدالت خالی کرا لیا گیا

اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی آمد سے قبل کمرۂ عدالت خالی کرا لیا گیا تھا۔

عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں آمد سے قبل سیکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے، پولیس نے احاطۂ عدالت کو بھی مخصوص وکلاء اور صحافیوں کے لیے نو گو ایریا بنا دیا۔

انٹری گیٹ سے کمرۂ عدالت تک کے راستے کو ٹینٹ لگا کر بند کر دیا گیا، کورٹ روم میں جانے والے وکلاء اور صحافیوں کو خصوصی پاسز جاری کیے گئے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ کمرۂ عدالت کی سرچنگ کے بعد کارڈ چیک کر کے داخلے کی اجازت ملے گی۔

اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما و عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کمرۂ عدالت سے باہر جانے سے انکار کر دیا۔

پولیس نے بابر اعوان سے کہا کہ بم ڈسپوزل اسکواڈ کو کمرۂ عدالت کلیئر کرنا ہے، اس لیے آپ باہر چلے جائیں۔

بابر اعوان کا باہر جانے سے انکار، پھر چلے گئے

بابر اعوان نے کہا کہ میں کمرۂ عدالت سے باہر نہیں جاؤں گا۔

عمران خان کے وکیل حامد خان کو کمرۂ عدالت کے باہر روکا گیا تھا۔

کمرۂ عدالت میں صرف بابر اعوان موجود تھے، صحافیوں کو بھی کورٹ روم سے نکال دیا گیا۔

اس موقع پر بابر اعوان کے بیٹے کو کمرۂ عدالت سے نکالا گیا تو بابر اعوان خود بھی اٹھ کر باہر چلے گئے۔

عمران خان نے کیا جواب جمع کرایا تھا؟

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان آج عدالتی حکم پر ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

عمران خان نے توہینِ عدالت کے شوکاز نوٹس کا جواب عدالت میں جمع کرا دیا ہے جس میں انہوں نے توہینِ عدالت کی کارروائی کو اختیارسے تجاوز قرار دیا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے سماعت کرنے والے بینچ پر بھی اعتراض اٹھا رکھا ہے۔

پیمراکی جانب سے عمران خان کی 20 اگست کو ایف نائن پارک میں تقریر کا ریکارڈ، ڈی وی ڈی اور ٹرانسکرپٹ جمع کرایا جا چکا ہے۔

عدالت نے توہینِ عدالت کیس میں معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کر رکھا ہے ۔

عمران خان نے تقریر میں کیا کہا تھا؟

عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’’مجسٹریٹ صاحبہ زیبا آپ بھی تیار ہو جائیں، آپ کے اوپر بھی ہم ایکشن لیں گے، آپ سب کو شرم آنی چاہئے‘‘۔

خصوصی پاسز جاری کیے گئے

عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے موقع پر کورٹ روم نمبر ون میں پاسز کے ذریعے وکلاء اور صحافیوں کے داخلے کو محدود بنایا گیا ہے۔

احاطۂ عدالت میں وکلا، صحافیوں یا سائلین کے داخلے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

قومی خبریں سے مزید