• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عدالت نے عمران خان کے خلاف مزید درج دفعات پر بھی ضمانت منظور کی ہے
عدالت نے عمران خان کے خلاف مزید درج دفعات پر بھی ضمانت منظور کی ہے

اسلام آباد کی انسداِد دہشت گردی کی عدالت نے خاتون مجسٹریٹ اور پولیس افسران کو دھمکانے کے کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی عبوری ضمانت میں توسیع کر دی۔

اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن نے کیس کی سماعت کی۔

عدالت نے عمران خان کے خلاف مزید درج دفعات پر بھی ضمانت منظور کی ہے۔

انسداِد دہشت گردی کی عدالت نے 1 لاکھ روپےکے ضمانتی مچلکوں کے عوض عمران خان کی ضمانت منظور کی ہے۔

عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع کر دی۔

بابر اعوان کی عمران خان کی ضمانت کی استدعا

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ملزم عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے جج سے استدعا کی کہ میرے مؤکل کو ضمانت دی جائے۔

جج راجہ جواد عباس حسن نے جواب دیا کہ اس کی مثال نہیں، جو عدالت آتا ہے اسے ضمانت ملتی ہے۔

بابر اعوان نے عدالت میں عمران خان کی ضمانت کے لیے تحریری درخواست جمع کرا دی۔

جج نے انہیں ہدایت کی کہ آپ کو ضمانت کے لیے عدالت میں پیش ہونا ہو گا۔

بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرے مؤکل اسلام آباد میں موجود ہیں، انہیں پولیس کی جانب سے لکھ کر دیا گیا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، پولیس کا کام ہے کہ وہ انہیں سیکیورٹی فراہم کرے۔

جج نے سرکاری پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ سیون اے ٹی اے جرم کے بغیر کبھی درج ہوئی ہے؟

جج نے بابر اعوان سے استفسار کیا کہ آپ کو بتانا ہو گا کہ کونسی کلاشنکوف لی گئی؟ کونسی خودکش جیکٹ پہن کر حملہ کیا گیا؟

بابر اعوان نے جواب دیا کہ 12 بجے لے آتا ہوں۔

جج نے سرکاری پراسیکیوٹر سے کہا کہ دونوں ایگزیکٹیو افسران جنہیں دھمکی دی گئی ان کا بیان بھی پڑھ کر سنائیں، وہ بیان ہے یا نہیں۔

سرکاری پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ وہ بالکل ہے۔

اس موقع پر بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرے مؤکل کو کچھ ہوا تو حکمرانوں کے ساتھ ساتھ آئی جی اور ڈی آئی جی آپریشنز بھی ذمے دار ہوں گے۔

عمران خان کو آج پیش ہونا پڑے گا: جج

جج راجہ حسن جواد نے حکم دیا کہ عمران خان کو آج عدالت کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔

عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ اسلام آباد پولیس عمران خان کو لکھ کر بھیجتی ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، مجھے 11 منٹ دھکم پیل کے بعد عدالت میں داخل ہونے کا موقع ملا تھا۔

جج نے ریمارکس دیے کہ ہم اس ضمانت پر آج ہی دلائل سنیں گے۔

پراسیکیوٹر نے استدعا کی کہ پہلے ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے، پھر ہم بحث کریں گے۔

جج نے مقدمے کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کہا کہ جن کو دھمکی دی گئی ہے ان کا بیان بھی پڑھ کر سنائیں، اس فرض شناس افسر نے اس سے پہلے کتنے دہشت گردی کے مقدمے کیے ہیں، آج 3 عدالتیں کھلی ہیں، آپ جو لسٹ دیں گے اسی کے مطابق وکلاء کمرۂ عدالت میں آئیں گے۔

جج نے حکم دیا کہ گزشتہ سماعت کی طرح عدالت میں غیر متعلقہ افراد نہ آئیں، مجھے عدالت دیکھنی ہوتی ہے، کوئی نظر ہی نہیں آتا۔

بابر اعوان ایڈووکیٹ نے عمران خان کو دیا گیا تھریٹ لیٹر عدالت میں جمع کرا دیا۔

اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کو آج 12 بجے طلب کرتے ہوئے سماعت میں اس وقت تک کے لیے وقفہ کر دیا۔

12 بجے دوبارہ سماعت، عمران خان پیش

کیس کی 12 بجے دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان عدالت میں پیش ہو گئے۔

دورانِ سماعت جج جواد عباس نے صحافیوں کو عدالت میں داخلے سے روکے جانے کے حوالے سے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے کہ کسی صحافی کو نہیں روکا جا سکتا، رجسٹرار تعینات نہیں ہے اس لیے مسئلہ آ رہا ہے، ورنہ ہم پاس جاری کر دیتے، اب رجسٹرار کی تعیناتی میں 2 سال لگ جائیں گے، پولیس حکام کو ابھی بلا لیتا لیکن آئندہ سماعت پر اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچا دیں گے۔

عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق عمران خان عدالت پہنچ گئے ہیں، کیا عمران خان نے کسی کو کہا کہ آگ لگادوں گا؟ کیا جان سے مارنے کی دھمکی دی؟

عدالت نے کہا کہ عمران خان کے خلاف درج مقدمے میں جو دفعات لگی ہیں، ان میں ضمانت منظور کر لیتے ہیں۔

جج نے ریمارکس دیے کہ پولیس اب ہر 10 دن بعد دفعہ شامل کرتی ہے۔

عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع کر دی۔

جج نے پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ یہ بتادیں کہ دفعہ 506 کیسے لگائی ہے؟

بابر اعوان نے پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ کوئی دفعہ رہ تو نہیں گئی؟

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ دہشت گردی کے علاوہ سارے سیکشن قابلِ ضمانت ہیں۔

عدالت نے وکلاء کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر حتمی دلائل دیں۔

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہمارے ساتھی شہید ہوئے، مگر ہم نے عدالت نہیں چھوڑی، ہمارے ساتھیوں کی شہادت پر آج تک کچھ نہیں ہوا، مگر سابق وزیرِ اعظم عمران خان پر مقدمہ بنا دیا گیا۔

عدالت نے کیس کی سماعت 12 ستمبر تک ملتوی کر دی جس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان عدالت سے واپس روانہ ہو گئے۔

وکلاء اور صحافیوں پر پابندی عائد

آج عمران خان کے خلاف کیس کی سماعت کے موقع پر وکلاء اور صحافیوں کے جوڈیشل کمپلیکس میں جانے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

پابندی کے باوجود لاہور سے آئے انصاف لائرز ونگ کے وکلاء زبردستی جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہو گئے۔

گزشتہ پیشی پر عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی (یکم ستمبر) آج تک ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی تھی اور انہیں آج طلب کیا تھا۔

تھریٹ لیٹر ملا ہے کہ کچھ لوگ عمران خان کو مارنا چاہتے ہیں: بابر اعوان

سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے وکیل، پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ہمیں بنی گالہ میں تھریٹ لیٹر دیا گیا ہے کہ کچھ لوگ عمران خان کو مارنا چاہتے ہیں، یہ تھریٹ لیٹر عدالت میں جمع کرا دیا ہے۔

عمران خان کے وکیل، پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عدالت میں 2 تحریری جواب جمع کرائے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ عدالت میں بتایا ہے کہ میرے کلائنٹ کو کچھ ہوتا ہے تو حکومت، آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد اس کے ذمے دار ہوں گے۔

بابر اعوان نے کہا کہ ایک تو خان صاحب سے یہ لوگ سیکیورٹی واپس لے رہے ہیں، دوسرے یہ پابندی بھی ہے کہ کسی اور صوبے کی پولیس ان کے ساتھ یہاں نہیں ہو سکتی۔

عمران خان کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ عدالت نے کہا ہے کہ عمران خان کو پیش ہونا چاہیے، جس پر میں نے عدالت میں کہا ہے کہ عمران خان کون سے مے فیئر میں ہیں، بنی گالہ میں ہیں، 12 بجے انہیں لے آؤں گا۔

قومی خبریں سے مزید