• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ دنوں میں ہمارا نظام بالکل ہی بے نقاب ہو کر رہ گیا ہے۔ سیلاب زدگان کے مسائل اور ان کے حل کے لئے حکومتیں بے بس نظر آ رہی ہیں، ہر طرف ناکامیوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے انتظامی ڈھانچے میں کچھ کمیاں ہیں یا کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا انتظامی ڈھانچہ ہی اس صلاحیت سے محروم ہو کہ وہ لوگوں کے مسائل حل کرسکےکیوں کہ پچھلے چالیس برس میں حکومتوں کے عجیب و غریب فیصلوں نے ہمارے تعلیمی نظام کا ستیاناس کردیا، صحت کے شعبے میں بھی ناکامیاں نظر آتی ہیں، امنِ عامہ کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، رشوت کا بازار بھی گرم ہے، چوریاں پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکی ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ افسروں نے بھی حکمرانوں کی طرح سوچنا شروع کردیا ہے، دولت کی دیوی کی پوجا افسروں نے بھی شروع کردی ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے انتظامی ڈھانچے کو دولت کی دیوی چاٹ گئی ہو کیوں کہ دولت کی اس جادو نگری میں ہمارے بیش تر افسر بیرونی شہریت حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے نظر آتے ہیں۔ کیا خوبصورت ملک تھا اور ہم نے اسے کیا بنا کر رکھ دیا ہے۔

درد کا یہ قصہ لے کر میں اپنے ایک دوست کے پاس گیا، گورنمنٹ کالج لاہور کے دنوں میں وہ مجھ سے جونیئر تھا پھر وہ مقابلے کا امتحان پاس کرکے انتظامی ڈھانچے کا حصہ بن گیا۔ دن کو دفتری امور ہوتے ہیں، میں اس کے پاس رات کو گیا اور انتظامی ڈھانچے کے سارے مسائل اس کے سامنے رکھے اور کہا کہ حضور آپ بھی اسسٹنٹ کمشنر رہے، کئی اضلاع میں ڈی سی رہے، یہ ہمارے ساتھ کیا ہوگیا ہے؟ اس نے میری باتوں کو توجہ سے سنا اور پھر طویل آہ بھری اور کہنے لگا ...’’ہمارا نظام برباد ہو چکا ہے، ہمارا انتظامی ڈھانچہ منہدم ہو گیا ہے، صرف فوج بچی ہے، اس کی بھی بڑی وجہ یہ ہے کہ فوج کے ادارے میں سیاسی مداخلت نہیں ہوتی، فوجی افسروں کے پاس بھرتی کرنے اور برخاست کرنے کا اختیار ہوتاہے جب کہ سول انتظامی ڈھانچے میں ایسا ممکن نہیں، سول انتظامی ڈھانچے میں سیاستدانوں کی بہت زیادہ مداخلت ہے، سول افسروں کے پاس بھرتی اور برخاست کرنے کا اختیار نہیں، سیاست دان درجۂ چہارم کے ملازم کی بھرتی کے لئے بحث کرتے ہیں، نظام کو خراب کرتے ہیں، اب تو یہ نظام بے جان سا ہو کے رہ گیا ہے اور اس نظام سے شاید ملکی مسائل حل بھی نہ ہوسکیں...‘‘

میں نے اپنے دوست بیوروکریٹ کے مایوس کن خیالات سنے تو اس سے دو مزید باتیں پوچھیں کہ کیا سول سروس اکادمی میں ان افسروں کو قائد اعظمؒ کے فرمودات نہیں بتائے جاتے کہ ہمارے رہنما نے افسروں کو مخاطت کرتے ہوئےکہا تھا کہ وہ سیاست دانوں کی ناجائز باتیں نہ مانیں، جو قانون کے مطابق ہو، وہ کریں، کسی کی بھی غیر قانونی بات نہ مانیں، پھر یہ افسر یہ کیوں نہیں سوچتے کہ انہوں نے آخرایک دن اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ بھی ہونا ہے؟ افسر نے بڑے انہماک سے دونوں باتیں سنیں،اور پھر بولا ...’’ تمام افسروں کو قائد اعظمؒ کا یہ فرمان ویسے ہی یاد ہے مگر انتظامی ڈھانچے میں وہ اتنے بے بس ہیں کہ وہ قائدؒ کے فرمان پر عمل کرنے سےگریزاں ہیں، جہاں تک خدا کو جواب دہ ہونے کی بات ہے تو یہ بات بھی تمام بیوروکریٹس کو پتہ ہے مگر وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے بغیر نہیں رہتے یا ان کی اکثریت ایسی ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے کام کر جاتے ہیں، شاید انہیں اپنی تعیناتی کی فکر ہوتی ہے، انتظامی ڈھانچے میں وہ اپنی تعیناتی کی فکر سے آزاد نہیں ہو پاتے...‘‘

دوست نے یہ بات مکمل کی تو میں نے عرض کیا کہ کچھ سال پہلے ملتان میں نسیم صادق نام کے ایک ڈپٹی کمشنر آئے توانہوں نے ملتان میں بہت کچھ ٹھیک کردیا تھا، وہ صبح سویرے صفائی کے عملے کو چیک کرنے نکل جاتے اور اکثر یہ ہوتا کہ وہ گھنٹہ گھر اور قلعے کے آس پاس صفائی والے عملے سے پہلے پہنچ جاتے۔ حالیہ دنوں میں نوشہرہ کی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر قرۃ العین وزیر نے کیا شاندار کردار ادا کیا، وہ بارشوں کے دوران نوشہرہ کی گلیوں میں پانی میں نظر آئیں، انہوں نے نہ دن دیکھا نہ رات ہر وقت عوامی خدمت کے لئے متحرک نظر آئیں۔ دو روز پہلے نارووال سے میرے دوست ریحان خان اور نعیم اللہ طور تشریف لائے تو دونوں بتانے لگے کہ نارووال کا نیا ڈپٹی کمشنر بھی بڑا متحرک ہے، خاص طور پر نعیم اللہ طور نے بتایا کہ نارووال کی تاریخ میں بہت سے ڈپٹی کمشنر آئے مگر شاہد فرید نے پورے ضلع کو اپنی صلاحیتوں کا معترف کر لیا ہے۔ ریحان خان بولے کہ شاہد فرید کرپشن سے بہت دور ہے۔ دونوں دوستوں کی گفتگو سے پتہ چلا کہ ایک تو شاہد فرید راوین ہے،مزید پتہ یہ چلا کہ وہ سارا دن پورے ضلع کے اسپتالوں اور اسکولوں سمیت دوسرے اداروں کو چیک کرتا ہے، شاہد فرید نے ڈسٹرکٹ اسپتال سے ایسے عملے کو ڈھونڈ نکالا ہے جو لوگوں کوگھیر کر پرائیویٹ اسپتالوں کا رخ کرواتے تھے پھر پتہ چلا کہ یہ ڈاکٹرز اپنے اپنے پرائیویٹ اسپتال چلاتے ہیں، سرکاری اسپتال سے بعض ڈاکٹر تو صرف تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ میرے دوستوں نے یہ بھی بتایا کہ نارووال کے ڈپٹی کمشنر شاہد فرید نے ایک جامع اور مربوط نظام بنا رکھا ہے جس کے تحت جہاں کہیں بھی نئی رجسٹری ہوتی ہے تو ان کے علم میں یہ بات آجاتی ہے کہ رجسٹری کے وقت کہیں پٹواری یا تحصیلدار نے رشوت تو وصول نہیں کی؟ میرے دوستوں نے بجا کہا مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اتنے شاہد فرید کہاں سے لائیں یا پھر قرۃ العین وزیر جیسے افسر کہاں سے ڈھونڈیں؟ بیورو کریٹ دوست میری باتیں سن کر بولا ... ’’جناب! انتظامی ڈھانچے کی بربادی کا تذکرہ تو میں کر چکا ہوں، ہاں ایک بات ہے جو نظام کو مضبوط کرسکتی ہے، وہ ہے مقامی حکومتوں کا نظام، جب تک بااختیار مقامی حکومتیں نہیں بنتیں اس وقت تک کچھ نہیں ہوسکتا...‘‘ پوری گفتگو کے بعد پھر اقبالؒ کا شعر یاد آتا ہے کہ ؎

نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

تازہ ترین