اس دنیا کا ہر جاندار اپنی اولاد کو زندہ رہنے کا گُر سکھاتا ہے ۔ بہت کچھ وہ جبلی طور پر بھی جانتے ہیں کہ ان کے دماغ میں اس کی پروگرامنگ پیدائشی طور پر لکھی ہوتی ہے ۔وہ صرف سروائیو کرنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں ۔ انسانوں میں بچے کو ماں کی گود میں ہی اسمارٹ فون سے آشنائی حاصل ہوتی ہے ۔ یہ اسمارٹ فون کیا ہے ؟ ہزاروں انسانی نسلوں کی ایک دوسرے کو تحریری شکل میں مسلسل علم منتقل کرنے کے نتیجے میں ہونے والی ایک ایجاد ۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ ویکسین ایجاد ہوئی ۔ خوراک گوداموں میں ذخیرہ ہونے لگی ۔ انسان اس کرّۂ ارض پہ پھیلتے چلے گئے ؛حتیٰ کہ ان کی تعداد آٹھ ارب تک جا پہنچی ۔ زمین پر اگر آپ انسان کی آج تک کی کارکردگی کا جائزہ لیں‘ تو رگ و پے میں مسرّت جاگ اٹھتی ہے۔ ہر سمت میں انسانی علم تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف دیکھیں تو انتہائی تیز رفتاری سے تباہی آ رہی ہے۔ اسے ہم انسانی مخمصہ (Human Dilemma) کہہ سکتے ہیں۔ پہیے سے جو ایجادات شروع ہوئی تھیں ، وہ اب آئرن سلینائیڈ جیسے سپر کنڈکٹرز تک جا پہنچی ہیں ۔یہ الیکٹرانکس میں استعمال ہونے وا لے ایسے سپر کنڈکٹرز ہیں ، جو توانائی کا سوفیصد استعمال کر سکتے ہیں ، بغیر کسی زیاں کے ۔ اب سپر کمپیوٹرز کی اگلی اوربہتر نسل کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔
کرّۂ ارض کی تاریخ اور باقیات (فاسلز) پہ تحقیق کرنے والے سائنسدان مدتوں اس بات پہ حیران ہوتے رہے کہ آج سے قریب پچاس کروڑ سال پہلے کیا ماجرا پیش آیا تھاکہ نت نئی نسلوں کے جانور انتہائی تیز رفتاری سے کرّۂ ارض پہ پھیل گئے تھے۔ اس سوال نے مشہورِ ماہرِ ارتقا چارلس ڈارون کو پریشان کیے رکھا۔ اس کااظہار وہ اپنی مشہور کتاب ''On the Origion of Species''میں بھی کرتاہے۔ اس سے قبل سمندر تو جانداروں سے اَٹے ہوئے تھے‘لیکن نرم جسم اور ہڈیوں سے محروم‘ یہ اور طرح کی زندگی تھی۔
پھر کوئی عجیب واقعہ پیش آیا۔ پہلی بار ٹھوس ڈھانچے والے نت نئی قسموں کے جانور پیدا ہوئے اور زمین میں پھیلتے چلے گئے۔آج جتنے بھی جانور ہمیں نظر آتے ہیں‘ تقریباً ان سبھی کے اجداد اسی زمانے میں منظرِ عام پر آئے تھے۔ میں اورآپ بھی انہی میں شامل ہیں۔ اسے کرّۂ ارض کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ کہا جاتاہے۔ اسے Darwin Dilemmaبھی کہا جاتاہے کہ چارلس ڈارون کے نظریات سے یہ متصادم تھا۔ جس ارتقا کا ڈارون قائل تھا، وہ بتدریج رونما ہوتا تھا، ایک دھماکے کے ساتھ نہیں ۔
تو حیرت زدہ سائنسدان مسلسل تحقیق کرتے رہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے محققین نے اب یہ سراغ لگایا ہے کہ دھماکہ خیز ارتقا کا یہ عرصہ کل دو کروڑ سال پہ محیط تھا۔ ا س دوران سمندرخشکی پہ چڑھ آئے تھے اورریکارڈ کے مطابق‘ آکسیجن کی مقدار بے حد بڑھ گئی تھی۔ پانی اور آکسیجن زندگی ہیں!کیونکہ زندگی پانی میں جنم لیتی ہے اور آکسیجن سے توانائی حاصل کرتی ہے۔ آج دنیا میں جتنی بھی اقسام کے جاندار زندہ ہیں‘ سب آکسیجن پر ہی منحصر ہیں۔
تو یوں ایک ایک کر کے سارے معمّے حل ہوتے جا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کروڑوں برس پرانے ان واقعات پہ حتمی شہادت نہیں دی جا سکتی‘لیکن بہرحال ایسا ہر واقعہ کرّہ ارض پہ اپنے انمٹ نشان چھوڑ ہی جاتاہے۔فاسلز کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس دنیا کی تاریخ میں پانچ ایسے بڑے حادثے رونما ہو چکے ہیں ، جن کے نتیجے میں کرّہ ارض سے زندگی ختم ہوتے ہوتے بمشکل بچی ۔ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے دس کلومیٹر قطر کا ایک سیارچہ جب زمین پہ آ کے گرا تو یسی ہی تباہی کے نتیجے میں دنیا میں جانداروں کی ستر فیصد انواع مکمل طور پر ختم ہو گئیں ۔ اسی کے نتیجے میں ڈائنا سار ختم ہوئے ، جس کے بعد چھوٹے میمل کرّۂ ارض پہ پھیلتے چلے گئے ۔
آج سے قریب چالیس پچاس ہزار سال پہلے ایک اور حادثے کا آغاز ہوا تھا۔ تقریباً اسی دور میں انسانی دماغ کو اس کی موجودہ شان و شوکت عطا ہوئی تھی۔ اس کے بعد اگلے تیس ہزار سال میں براعظم شمالی امریکہ کے بڑے میملز میں سے نصف ہمیشہ کے لیے ناپید ہو گئے ۔اس کا ایک بڑا سبب انسان کی طرف سے بڑے پیمانے پر ان جانوروں کا شکار تھا۔
مخمصہ یہ ہے کہ انسانی ذہن کو ملنے والی شان و شوکت کے ساتھ تباہی و بربادی بھی نازل ہو رہی ہے۔ کبھی آپ Holocene Extinctionکو پڑھیں‘ اسے زمین کی تاریخ کا بڑا عالمگیر ہلاکت خیز دور(Mass Extinction) کہا جا رہا ہے۔ یہ انسان کے ہاتھوں رونما ہو رہا ہے اور یہ قدرتی طور پر وقوع پذیر ہونے والی Mass Extinction سے سو گنا زیادہ تیز رفتار ہے۔ انسان نے جانوروں کو بڑے پیمانے پر شکار کرنا شروع کیا ہے۔ وہ نہ صرف سمندروں سے آبی حیات نکال رہا ہے بلکہ سمندروں میں اپنا فضلہ بھی پھینک رہا ہے۔ خشکی سے جنگلات کا خاتمہ کرتے ہوئے پورے کرّۂ ارض پہ پلاسٹک جیسا فضلہ پھینک رہا ہے۔ جنگلات کے خاتمے سے تو جاندار ختم (Extinct)ہو ہی رہے ہیں‘ فاسل فیولز کے استعمال اور درختوں کی کٹائی سے کرّہ ٔ ارض کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔ گلیشیر پگھل رہے ہیں۔ سمندر بلند ہو رہے ہیں۔ یوںبرف پر زندگی گزارنے والے جانور ناپید ہو رہے ہیں۔ کرّہ ٔ ارض اس وقت ایٹمی میزائلوں سے بھرا پڑا ہے۔
یہ ہے انسانی مخمصہ (Human Dilemma)۔ ترقی اور بربادی ایک ساتھ۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ قیامت اور القارعہ کا حادثہ اگر رونما نہ ہو تو بھی انسان اس کرّۂ ارض کو زندگی کے لیے مکمل طور پر ناقابلِ رہائش بنا کے چھوڑے گا ۔ انسانی ذہانت جہاں اعضا کی پیوند کاری تک جاپہنچی ہے ، وہیں وہ ایٹمی میزائل بھی تخلیق کر رہی ہے۔
مری تعمیر میں مضمر ہے صورت اک خرابی کی