پہلے ایک ہفتے تک مسلسل بارش برسی، پھر رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کردی۔
بلوچستان کے ضلع نصیرآباد کی تحصیل چھتر کا یہ ماجرا ہے، جہاں نہ صوبائی حکومت کا کوئی نمائندہ پہنچا، نہ ضلعی انتظامیہ کا کوئی عہدیدار آیا۔
گھروں کی چھتیں اور دیواریں گرنے سے کئی ایسی ہلاکتیں بھی ہوئیں، جنہیں بروقت طبی امداد مل جاتی تو بچ سکتے تھے۔
ضلع نصیرآباد کی تحصیل چھتر میں برسات ایک ہفتے تک مسلسل برستی رہی، لوگ بارش تھمنے کا انتظار کر رہے تھے کہ سیلابی صورتحال نے آگھیرا، اس کے بعد نہ گھر رہے، نہ مال مویشی، سڑکیں اور رابطہ پل بہے تو چھتر کا بیرونی دنیا سے رابطہ ہی کٹ گیا۔
ہر طرف بربادی اور موت کا رقص تھا، جس کا شکار رحمت بی بی کا گھر بھی ہوا، چھت گرنے سے بیٹی کا سر بری طرح زخمی ہوا، بروقت ٹانکے لگ جاتے تو بیٹی بچ جاتی مگر بند راستے سر کے کھلے ہوئے زخم کی راہ میں حائل ہوگئے، خون اتنا بہا کہ زندگی ہی بہہ گئی۔
چھتر کے رہائشی منظور کی کہانی بھِی یہی ہے، گھر کی چھت گرنے سے اس کی والدہ شدید زخمی ہوئیں، تادیر درد اور اذیت سے تڑپتی رہیں اور اسی عالم میں ان کا انتقال ہوگیا۔
منظور اب سیلاب زدگان میں ادویات تقسیم کر رہا ہے، بقول اس کے والدہ نہ رہیں لیکن اب اس کی کوشش ہے کہ علاقے کا کوئی اور زخمی یا بیمار دواؤں کی عدم فراہمی کی وجہ سے نہ مرے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے بارے میں جو خط لکھا، اُس میں تحصیل چھتر کا ذکر بھی نہیں ہے۔
چھتر کے متاثرین کی حالت یہ ہے کہ نہ رہنے کو گھر ہے، نہ کھانے کے لیے خوراک اور نہ ہی علاج کے لیے دوائیاں مگر صوبائی حکومت کو جیسے اس علاقے کوئی پروا ہی نہیں۔
چھتر کے متاثرین کا کہنا ہے کہ جیونیوز پہلا ادارہ ہے جس نے چھتر کا دورہ کیا ہے اور یہاں لوگوں کے مسائل کو اُجاگر کیا ہے۔