یوسف رضا گیلانی کو کئی حوالوں سے یاد رکھا جائے گا مثلاً وہ پہلے وزیراعظم تھے جنہیں عدالت نے گھر بھیج دیا اور وہ خاموشی سے ملتان چلے گئے۔ ان کے کئی دوسرے ’’یادگار‘‘ حوالے ہیں۔ میں ان کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا کہ آخر مجھے بھی ملتان کی مٹی سے پیار ہے۔ ان کے چند حوالے ممبران اسمبلی کو بہت یاد آتے ہیں۔ مثلاً انہوں نے حکومتی اراکین سے پہلے اپوزیشن اراکین کیلئے ترقیاتی فنڈ جاری کئے۔ اس سلسلے میں دوسری مثال یہ ہے کہ وہ بلاناغہ ایوان میں حاضر ہوتے تھے۔ ان کی اس حاضری پر میں نے ایک روز خواجہ رضوان عالم سے کہا کہ لگتا ہے ہم نے گیلانی صاحب کو اسکول میں داخل کروا دیا ہے اور انہیں علم کی اتنی ’’پیاس‘‘ ہے کہ وہ چھٹی کرتے ہی نہیں۔ یوسف رضا گیلانی کی حاضری کا سارا فائدہ ممبران اسمبلی کو ہوتا تھا وہ جب چاہتے تھے ۔ وزیراعظم سے مل لیتے تھے اور لوگوں کے کام کرا لیتے تھے اس سلسلے میں ایک واقعہ مجھے ہم دم دیرینہ پیر نور الحق قادری نے سنایا ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’میرا ایک قریبی دوست ہفتے کی شام دوبئی سے اسلام آباد پہنچا اور آتے ہی مجھے پیر کے روز واپسی کا سنا دیا، ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ وزیراعظم سے ہر صورت میں ملنا ہے۔ میں نے ملاقات کے لئے فون گھمائے، رات گئے وزیراعظم گیلانی کا فون آیا تو میں نے تمام ماجرا بیان کیا کہنے لگے اچھا دیکھتے ہیں۔ وقت کم ہے مقابلہ سخت ہے پھر کچھ دیر بعد فون آ گیا کہ کل گیارہ بجے صبح تشریف لے آئیں، پھر گھنٹوں پر محیط گپ شپ ہوئی، اس طرح میری زندگی کا اہم دوست مجھ سے خوش ہو گیا۔
اس مرتبہ نور الحق قادری قومی اسمبلی میں نہیں پہنچ سکے مگر جو پہنچ گئے ہیں، وزیراعظم ان کی پہنچ سے باہر ہیں۔ تادم تحریر وزیراعظم نواز شریف چار مرتبہ قومی اسمبلی میں آئے ہیں۔کل عرصہ پانچ ماہ حاضریاں صرف چار یعنی حاضری ’’ماہانہ‘‘ بھی نہیں ہے۔
زوال پذیر قوم کا جو نقشہ لاہور میں دانشوروں کے روبرو ملک کے نامور گلوکار وارث بیگ نے پیش کیا ہے وہ حقیقت سے دور نہیں ہے۔ وارث بیگ نے ایک ایک شعبے کا تذکرہ کیا۔ اس میں ہونے والی دو نمبریوں کا ذکر کیا حتیٰ کہ اس نے اپنے شعبے کو بھی معاف نہیں کیا اور وہاں ہونے والی دو نمبریوں کو کھل کر بیان کیا۔ بیشمار دو نمبریوں میں سے ایک دو نمبری میں یہاں تحریر کر دیتا ہوں۔ مثلاً یہ کہ چھ گلوکاروں نے اپنا کوئی گیت نہیں گایا، سرکاری ادارے اس گلوکار کو مہنگا ترین بنانے پر بضد ہیں اور جو گلوکار اپنے بے شمار گیتوں کے حامل ہیں ان کیلئے ’’نو لفٹ‘‘ کا بورڈ آویزاں ہے جن گلوکاروں کو انتہائی مہنگا بنایا جا رہا ہے ان میں ایک نوآموز ’’گلو کارہ‘‘ پیش پیش ہے۔
اب آتے ہیں اپنے پنڈی وال شیخ رشید احمد کی طرف کہ جو سیاست اور ’’ثقافت‘‘ کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔ خیر سیاست اور ’’ثقافت‘‘ بھی ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتیں۔ ٹی وی پروگراموں کی ریٹنگ کی جان شیخ رشید احمد آج کل دو کام کر رہے ہیں، ایک تیسرا کام بھی ہے اس کا تذکرہ بعد میں کروں گا۔ پہلے دو کام یہ ہیں۔ ایک تو شیخ صاحب آج کل خورشید شاہ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ان کا خیال ہے کہ اپوزیشن لیڈر کا ’’کردار‘‘ درست نہیں ہے اس لئے اپوزیشن لیڈر تبدیل ہونا چاہئے۔ ان کے اس خیال میں تبدیلی والوں نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی ہے۔ شیخ صاحب نے ایم کیو ایم کو بھی گھیر لیا ہے۔ اس چال نے پیپلز پارٹی کو ’’اپوزیشن لیڈری‘‘ کے چھن جانے کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے اس خوف کو دور کرنے کیلئے پہلے انجکشن کے طور پر پیپلز پارٹی نے سندھ حکومت میں شمولیت کے لئے ایم کیو ایم سے رابطے قائم کر لئے ہیں اب اس سلسلے میں اکثر آپ ’’رابطہ کمیٹی‘‘ کے اجلاس دیکھیں گے۔
شیخ صاحب کا دوسرا کام تھوڑی ’’پریشانی‘‘ کے سلسلے میں ہے وہ کبھی ہار سے پریشان نہیں ہوئے مگر آج کل ایک اداکارہ کی شادی کے بارے میں پریشان رہتے ہیں اور لوگوں سے بھی کہتے ہیں کہ دعا کرو خدا خیر کرے۔ شیخ رشید احمد کی یہ دعا ’’دلی دعا‘‘ ہے۔ آخر مراسم بھی کسی چیز کا نام ہے اور اگر ’’مراسم میں خوشگواری ہو تو پھر تو واقعی دل سے دعا نکلتی ہے۔
شیخ رشید احمد تیسرا کام بخوبی کر رہے ہیں وہ مکمل اپوزیشن رہنماء کا کردار ادا کر رہے ہیں، لوگوں کے دکھ درد پوری طرح بیان کر رہے ہیں، انہیں نہ صرف لوگوں کے دکھوں کا پوری طرح ادراک ہے بلکہ وہ ان دکھوں کے مداوا کے لئے ہر طرح کی مسیحائی کیلئے تیار ہیں، ان کا تازہ فرمان یہ ہے کہ ’’اب اگر طاہر القادری صاحب آتے ہیں اور لوگوں کیلئے نکلتے ہیں تو میں بھی ان کے ساتھ ہوں گا، دھواں دھار تقریریں بھی کروں گا، ساتھ بھی دوں گا مگر یہ سب کام حقیقی تبدیلی کیلئے ہو گا۔‘‘ شیخ رشید احمد تبدیلی کے نعرے کی خاطر عمران خان کے ہمنوا بنے تھے۔ عمران خان نے تبدیلی کی خاطر الیکشن لڑا اور پھر جمہوریت کے لئے اس کے نتائج کو بھی تسلیم کر لیا اب عمران خان بھی وقتاً فوقتاً کہتے رہتے ہیں کہ طاہر القادری نے سچ کہا تھا بعد میں سبھی یہ کہتے ہیں کہ فلاں نے سچ کہا تھا مگر حقیقت حال یہ ہے کہ جب سچ بولا جا رہا ہوتا ہے تو تمام رہنماء جمہوریت بچانے کے چکر میں آ جاتے ہیں حالانکہ پاکستان میں جمہوریت نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ یہاں جمہوریت صرف طبقہ امراء کا ایک کلب ہے۔ ذرا سوچئے کہ یہ کونسی جمہوریت ہے کہ جس میں 99.5 فیصد اکثریت غلامی میں رہے اور 0.05 فیصد اقلیت حکمرانی کرے۔ جمہوریت تو اکثریت کا نام ہوتا ہے اقلیت کا نہیں۔
وزیراعظم کی امریکہ یاترا کے بارے میں کیا لکھوں کہ مجھے سوائے ایک تصویر کے کچھ بھی پتہ نہیں کیونکہ میں اپنے دوستوں علامہ مسعود عالم اور منصور آفاق کے ساتھ ایک ’’لامتناہی‘‘ کام میں مصروف تھا سو دوستو! میں نے ایک تصویر دیکھی ہے اس پر تین طرح کے تبصرے کر سکتا ہوں، ان تبصروں سے پہلے اکرم ذکی اور ایاز امیر کی باتیں شامل کر لیتے ہیں سابق سیکرٹری جنرل خارجہ اور سابق سنیٹر شاعر اکرم ذکی نے وزیراعظم کے دورے کو نمائشی قرار دیا ہے۔ سابق رکن قومی اسمبلی اور سابق فوجی افسر، نامور صحافی ایاز امیر نے دورے کی ناکامی میں ایک ڈنر کا تذکرہ کیا ہے کہ ’’سو سالہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی غیر ملکی حکمران کی آمد پر سرکاری ڈنر کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے امریکی وزیر خارجہ کے دفتر جا کر ملاقات کی، وزیراعظم کے عہدے کے شایان شان یہ نہیں کہ وہ کسی ملک کے وزیر خارجہ کے دفتر میں ملاقات کے لئے چلا جائے۔‘‘ میں نے تصویر پر تین طرح کے تبصرے کرنا ہیں۔ پہلا تبصرہ یہ ہے کہ ایک اسکول ٹیچر، اپنے ایک سفارشی طالب علم سے سبق سن رہا ہے اور اسے نقل کی اجازت ہے۔ دوسرا تبصرہ کسی بڑے عہدے دار کے ساتھ ملاقات کے وقت یونین کونسل کا ایک نمائندہ سپاسنامہ پیش کر رہا ہے۔ تیسرا تبصرہ بڑا سادہ سا ہے کہ ایک ٹی وی اینکر کسی بہت بڑی شخصیت کا انٹرویو کر رہا ہے اور اینکر کو پوری میڈیا ٹیم نے سوالات لکھ کر دیئے ہوئے ہیں۔ آخر میں بیورو کریٹ اکرم سہیل کی نظم کا ایک شعر شامل کر رہا ہوں کہ یہ برمحل ہے کہ ؎
مرا گماں ہے کہ ڈالر یہ جب بحال ہوئے
یہ ‘‘طالبان‘‘ وہ ’’مطلوب‘‘ سب یہاں ہوں