• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماہرین کا خیال ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ، چین اور امریکہ کے کشیدہ تعلقات سےد نیا بھر کی معیشت کو بڑا دھچکا لگنے والا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تنازع کی وجہ سے دنیا بھر میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، اس جنگ کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کئے جارہے ہیں۔ جنگ کے کتنے بُرے اثرات مرتب ہوں گے، اس کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ یہ تنازعات کتنی دیر تک جاری رہتے ہیں،جس سے اس بات کا فیصلہ ہوگا کہ عالمی منڈی میں حالیہ مہنگائی عارضی رجحان ہے یا یہ مستقل طور پر رہے گی اور کیا یہ عالمی معاشی بحران کی وجہ بن سکتی ہے۔ ان تنازعات کے علاوہ مسئلۂ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ کئی دہائیوں سے دنیا بھرکی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، کشمیری عوام پر بھارتی مظالم سے پوری دنیا واقف ہے مگر افسوس ناک بات یہ ہےکہ اقوام متحدہ سمیت کسی بھی بڑی قوت نے ان مظالم کو روکنے کے لئے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا، دوسری جانب فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم نے بھی مشرق وسطیٰ کے ماحول کو برسوں سے کشیدہ کیا ہوا ہے مگر دُکھ کی بات یہ ہے کہ فلسطینی عوام کی بے بسی اور بے کسی پر دنیا کی خاموشی نے ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ تائیوان کے حوالے سے پاکستان کی چین اور امریکہ میں ثالثی کی پیش کش اس طرز فکر کی مظہر ہے کہ کشیدگی یا سرد جنگ کی کیفیت کرہ ارض کے مفاد میں نہیں،تائیوان کا مسئلہ بھی موجودہ عالمی بحران میں اضافے کا باعث ہے۔

ان حالات میں پاکستان کی جانب سےامریکہ اور چین کو نزدیک لانے کی پیش کش مثبت قدم ہے، ماضی میں بھی پاکستان ان دونوں ممالک کی دوری کو قربت میں بدلنے میں اپنا اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کرچکا ہے، اس وقت د نیا ایک مرتبہ پھر سرد جنگ یا دھڑوں کی سیاست میں واپس جانے کی متحمل نہیں ہو سکتی ،بڑی طاقتوں کی آپس کی دشمنی، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو درپیش اقتصادی اور سماجی چیلنجز میں مزید اضافہ کرے گی۔واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان پچھلے سخت بیانات کا تبادلہ، چین کی جنگی مشقوں، امریکی اقدامات سمیت متعدد واقعات اس جانب اشارہ ہیں کہ حالات خطر ناک رُخ اختیار کر رہے ہیں،موجودہ عالمی تنازع کو حل کرنے کے لئے تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا، امریکہ، چین اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع سے دنیا میں نئی عالمی جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے، امریکہ اور چین کے درمیان تائیوان جب کہ روس اور یوکرین کے تنازع سے دنیا میں کشیدگی بڑھ رہی ہے جس سےدنیا ایک مرتبہ پھر سرد جنگ یادھڑوں کی سیاست میں واپس جانے کی متحمل نہیں ہو سکتی ،بڑی طاقتوں کی آپس کی دشمنی، کم زور ترقی پذیر ممالک کو درپیش اقتصادی اور سماجی چیلنجز میں اضافہ کرے گی۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور جنگ کی شکل میں دنیا کو جس تباہی کا سامنا ہوگا، اسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اقوام متحدہ کو عالمی تنازعات ختم کرانے کیلئے اپنا کردارا ادا کرنا ہوگا ۔ روس یوکرین جنگ سے پاکستان سمیت اس خطے کے کئی ممالک تیل ،گیس اور غذائی اشیا کی قلت کی صورت میں سنگین طور پر متاثر ہو رہے ہیں، روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میں ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ہوا تو ایک امریکی یونیورسٹی کے مطابق دنیا میں پانچ ارب افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے، دنیا کو تباہی سے بچانے، آگ اور خون کے کھیل کو روکنے، عالمی سطح پر قحط اور کئی اداروں کی بر بادی کو روکنے کے لئے اسلامی ملکوں کے علاوہ یورپی ممالک کو بھی آگے بڑھنا ہوگا،عالمی تنازعات کے اس ماحول میں پاکستان کو اس وقت سیلابی تباہی کا سامنا ہے۔ پچھلے40برسوں میں ملک میں بارش اور سیلاب سے ایسی قیامت برپا نہیں ہوئی، کراچی شہر پہلے ہی حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کی نااہلی کی وجہ سے ابتر صورتِ حال سے دوچار ہے، سیلاب سے بلوچستان، کے پی اور پنجاب کے کئی شہروں کو قیامت خیز بر بادی کا سامنا ہے۔

سندھ میں گھر کے گھر اجڑ گئے، پورے ملک میں سیلابی ریلے سےکئی گھر ،دکانیں اور ہوٹل دریا بُرد ہوگئے، لاکھوں خاندان بے گھر ہوگئے، ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے، افسوس کی بات یہ کہ حکمراں اسے اپنی بدانتظامی ،غفلت اور کوتاہی کے بجائے خدا کا عذاب اور آفت قرار دے کر جان چھڑانے کی کوشش کررہے ہیں ، افواج پاکستان نے اس مشکل وقت میں ایک بار پھراپنی ذمہ داریوں کو جس انداز سے ادا کیا اور کررہے ہیں، پوری قوم اپنے ان جوانوں کو سلام پیش کررہی ہے،حالیہ سیلابی تباہ کاریوں اور تباہی نے ثابت کردیا ہے کہ بارش ہمارے لئے خدا کی نعمت تھی جس کے لیے ضروری تھا کہ ملک میں چند برس قتل تک ڈیمز بنا لیے جاتے تو اس قدر بربادی نہ ہوتی اور بارش کا یہ پانی مستقبل میں ہمارے کس قدر کام آتا اس کا اندازہ اب سب کو ہوگیا ہوگا، سیاسی اختلافات اور ذاتی سیاست کو چمکانے کے لئے ہمارے سیاست دانوں نے ملک کے اہم ترین مسئلے ڈیمز کی تعمیر کو جس طرح سیاست کی نذر کیا ہے اس کے خلاف قوم کو متحد ہونا پڑے گا،اس وقت جب کہ ملک کرب اور دُکھ کی کیفیت میں ہے تحریک انصاف کے سر براہ عمران خان اب بھی جلسوں کی سیاست میں مصروف ہیں، ملک کی معاشی صورت حال پہلے ہی بہت زیادہ خراب ہے، آئی ایم ایف سے قرضے کی منظوری خوش آئند ضرور ہے مگر ہمیں عالمی قرضوں سے باہر آنے کے لئے مستقبل میں موثر حکمتِ عملی بنانا ہوگی، باہر کے ملکوں نے سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے قدم بڑھا کر ہمارے مسائل کو حل کرنے میں جو مدد کی ہے، اس کا تمام کریڈٹ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جاتا ہے، ان حالات میں تحریک انصاف کو بھی سیاسی اختلافات کو بہرصورت قومی مفادات کے تابع رکھنا چاہئے کیونکہ ایسا نہ کرنا خود ان کے حق میں بھی تباہ کن ثابت ہوگا۔

تازہ ترین