لوگ حیران اور پریشان ہیں کہ پنجاب میں ترقیاتی کاموں کی وجہ سے کامیاب ترین قرارپانے والے میاں شہباز شریف معیشت پر قابو پانے میں کیوں کامیاب نہ ہو سکے اور نہ وہ معیشت کا بیڑہ غرق کرنے والے عمران خان کو لگام ڈال سکےبلکہ سچ پوچھیں تو عمران خان کے سر پر آج کل پاپولریٹی کا جو بھوت سوار ہے، وہ ان کا اپنا کارنامہ کم اور مخلوط حکومت کی ناکامی کا نتیجہ زیادہ ہے، میری دانست میں مخلوط حکومت کی ابتر کارکردگی کی وجوہات درج ذیل ہیں:
پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ حکومت جن لوگوں پر مشتمل ہے ، ان کی آپس میں کوئی نظریاتی ہم آہنگی نہیں۔ مسلم لیگ(ن)، پختونخوا میپ، جے یو آئی ، بی این پی ، اور جے یو پی وغیرہ میں کوئی نظریاتی ہم آہنگی نہیں لیکن وہ دھاندلی کی پیداوار عمران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں ان کی فسطائیت کے خلاف جمع ہوئی تھیں۔
پیپلز پارٹی ،پی ڈی ایم کو دغا دے کراگرچہ الگ ہوگئی تھی جبکہ اے این پی زرداری کی یاری میں پی ڈی ایم چھوڑ چکی تھی، انہوں نے جب یہ دیکھا کہ عمران خان کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے ہٹ جانے سے گر رہی ہے تو نئی حکومت کی تشکیل کیلئے یہ لوگ جمع ہو گئے۔ ساتھ ایم کیوایم اور باپ پارٹی جو اس سے قبل عمران خان کے ساتھ تھیں، بھی اس حکومت کے ساتھ آملیں ۔
تضادات کی انتہا دیکھ لیجئے کہ اب ایک طرف بلوچستان عوامی پارٹی اور دوسری طرف محسن داوڑ اس حکومت کا حصہ ہیں جب کہ یہ حکومت دو تین ارکان کی اکثریت کے بل پر قائم ہے ۔ ہر پارٹی اور ہر فرد وزیراعظم کو بلیک میل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے شہباز شریف کے ہاں وہ قوتِ فیصلہ نظر نہیں آتی جو بطور وزیراعلیٰ پنجاب ان کے ہاں دیکھنے کو ملتی تھی۔
ایک اور مسئلہ یہ درپیش ہے کہ حکومت کے زیادہ مزے پیپلز پارٹی ، جے یوآئی اور باپ وغیرہ لوٹ رہی ہیں لیکن حکومتی اقدامات کا دفاع صرف میاں شہباز شریف کی مسلم لیگ کو کرنا پڑتا ہے بلکہ پوری مسلم لیگ بھی یکسو نظر نہیں آتی اور ایک دھڑا اس حکومت کا دفاع کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتاہے۔ انتہا دیکھ لیجئے کہ اے این پی اور جمہوری وطن پارٹی (آفتاب شیرپائو کی جماعت)تو حکومت میں شامل نہیں لیکن دوسری طرف چوہدری شجاعت حسین کے گروپ کے دو افراد وفاقی وزیر ہیں ۔
حکومت سازی کے وقت زرداری صاحب نے اپنے لئے ایک ایک وزارت پر خوب لڑائی لڑی لیکن اے این پی ،جو ان کی دوستی میں پی ڈی ایم سے نکلی تھی، کو حکومت میں زرداری صاحب نے کوئی حصہ نہیں دلوایا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پی ڈی ایم اور اپوزیشن کے تمام رہنما مل کر حکومت سازی کیلئے مشاورت کرتے لیکن اے این پی اور شیرپائو کو نہ صرف مشاورت سے باہر رکھا گیا بلکہ ان کی قیادت کو وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں بھی مدعو نہ کیا گیا۔
زرداری نے جو کام اے این پی کے ساتھ کیا، وہی مولانا نے آفتاب شیرپائو کے ساتھ کیا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ کی حیثیت سے یہ مولانا کا فرض تھا کہ نہ صرف شیرپائو کو حکومت سازی کے وقت مشاورت میں شریک کرتے بلکہ انہیں حکومت میں کماحقہ حصہ بھی دلواتے لیکن وہ حکومت سازی کے وقت اپنا زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے چکر میں انہیں سرے سے ہی بھول گئے۔ بعد میں جب پتہ چلا تو شہباز شریف صاحب نے انہیں بلا کر وزارت کی پیشکش کی لیکن ایک خود دار انسان ہونے کے ناطے انہوں نے وزارت لینے سے معذرت کرلی۔
دوسری طرف جب وزیراعظم اے این پی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی طرف متوجہ ہوئے تو ازالے کیلئے انہوں نے اس کی قیادت کو بلا کر پختونخوا کی گورنرشپ کی پیشکش کی لیکن مولانا اس میں بھی رکاوٹ بن گئے ۔
حالانکہ گورنر شپ ہر حوالے سے اے این پی کا حق ہے جب کہ وزیراعظم کی طرف سے ازخود پیشکش اور تمام اتحادی جماعتوں کے اتفاق کے بعد تو ہر صورت وزیراعظم کو اپنا فیصلہ منوا لینا چاہئے تھا لیکن مولانا کی ناراضی سے بچنے کی خاطر وہ آج تک صوبے میں گورنر تعینات نہ کرسکے اور وہاں پی ٹی آئی کے اسپیکر ایکٹنگ گورنر کے طور پر اللوں تللوں میں مصروف ہیں۔
یہی حال بلوچستان کا ہے ۔وہاں بھی ابھی تک وفاقی حکومت اپنا گورنر تعینات نہ کرسکی۔ سندھ کی گورنر شپ کا پیپلز پارٹی نے ایم کیوایم کے ساتھ وعدہ کیا تھا لیکن اب وہ گورنر شپ ایم کیوایم کو دینے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے ۔چناں چہ لوگ بجا طور پر یہ سوچتے ہیں کہ جو حکومت چار ماہ میں اپنے گورنرز نہ لگاسکی ، وہ کوئی اور سخت فیصلے کیا کرسکے گی؟
موجودہ حکومت کی ناکامی کی ایک اور بڑی وجہ صوبائی حکومتیں ہیں۔ پختونخوا اور پنجاب میں مخالف حکومتیں ہیں جب کہ سندھ اور بلوچستان میں اتحادیوں کی لیکن ان کی کارکردگی ناقص نہیں بلکہ شرمناک ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد زیادہ تر اختیارات اور وسائل صوبوں کے پاس چلے گئے ہیں لیکن لوگوں اور میڈیاکی نظر صرف وفاقی حکومت پر ہوتی ہے جب کہ دوسری طرف عمران خان بھرپور سیاست کررہے ہیں۔ اب توسب کو سیلاب کا بہانہ مل گیا ہے۔
ناکامی کی ایک بڑی وجہ حکومتی صفوں میں یکسوئی کا فقدان ہے ۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی کہ حکومتی گند کا ٹوکرا (جس میں آئی ایم ایف سے وعدہ خلافی، تباہ حال معیشت اور بہت سارے دیگر گند پڑے ہوئے تھے) اپنے سر لینے کا فیصلہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری کا تھا۔
اگر نواز شریف کی مرضی نہ ہوتی تو شہباز شریف کبھی حکومت نہیں بناسکتے تھے لیکن حکومت سنبھالنے کے بعد جب صورتحال کی ابتری کا پتہ چلا تو مسلم لیگ(ن) ڈانواں ڈول ہو گئی۔ ایک سوچ یہ بنی کہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے سے بہتر ہے کہ حکومت چھوڑ دی جائے۔ اسی لئے میاں نواز شریف نے وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو لندن طلب کیا ۔ بالآخر وہاں نواز شریف کی سرکردگی میں ہونے والے اجلاس میں حکومت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوا ۔
حکومتی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں شریک لوگ اپنا کوئی مشترکہ اور متفقہ بیانیہ تشکیل دینے میں ناکام رہے، جب کہ میڈیا مینجمنٹ اور پروپیگنڈے کے معاملے میں آج بھی پی ٹی آئی اس سے بہت آگے ہے ۔
پی ٹی آئی اپنا جھوٹ سچ بنا کر بیچ سکتی ہے لیکن حکومت اپنا سچ بھی مارکیٹ نہیں کرسکتی۔ سب سے زیادہ نقصان حکومت کو مہنگائی نے پہنچایا لیکن یہ حکومت عوام کو اس کے عوامل اور عمران خان حکومت کے بلنڈرز سمجھانے میں ناکام رہی۔
حکومت بلاشبہ بہترین انتظام سے چلتی ہےاوریقیناً عمران کابینہ کے وزرا کی نسبت موجودہ کابینہ کے بعض وزرا زیادہ ماہر اور محنتی بھی ہیں ۔ عمرانی سرکار کے مقابلے میں شہباز شریف بیوروکریسی سے بھی نسبتاً اچھا کام لے رہے ہیں لیکن کسی حکومت کی پشت پر جب تک مضبوط سیاست اور سیاسی آواز نہ ہو وہ لوگوں کے دلوں میں گھر نہیں کرسکتی۔