• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کل میں ڈاکٹر صداقت علی کے پاس بیٹھا انہیں بتا رہا تھا کہ مجھ پر کبھی کبھی اداسی کا دورہ پڑتا ہے اور پھر ساری دنیا سے بے خبر اور الگ تھلگ ہو جاتا ہوں۔ انہوں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ ادیبوں میں، جن سینئر ادیبوں سے عقیدت اور دوستی تھی ،سب ایک ایک کرکے رخصت ہو گئے۔ جو میرے ہم عصر تھے وہ بھی اس دنیا سے چلے گئے بہت سے قریب ترین رشتہ دار بھی اللہ کو پیارے ہو گئے ہم تین چار دوست ہی حیات ہیں مگر ہم سب کے درمیان طویل سفری فاصلے ہیں اور یوں ملاقات بہت کم ہوتی ہے سمجھ نہیں آتی کہ کبھی کبھی محسوس ہونے والے اس احساسِ تنہائی سے کیسے چھٹکارا پائو ں۔اس پر ڈاکٹر صداقت علی نے مشورہ دیا کہ اب آپ اپنا دوست پچاس سال عمر کے ادیبوں کو بنائیں، میں نے کہا جن پچاس سالہ دوستوں سے تعلق تھا ،وہ بھی اب ساٹھ پینسٹھ سال کے ہو گئے ہیں۔ یہ سن کر ڈاکٹر صاحب نے میرے لئے کافی کا آرڈر دیا اور بہت مزیدار اور معلوماتی گفتگو کی اور اس کے ساتھ ہی میں نے انہیں اپنے دوستوں میں شامل کر لیا۔ ڈاکٹر صاحب کی مسحور کن گفتگو کا یہ اثر تھا کہ انہیں دوست بنانےسے پہلے یہ پوچھنا بھول گیا کہ قبلہ آپ کی عمر کتنی ہے۔

دراصل پرسوں مجھے ڈاکٹر صفدر محمود بہت یادآئے انہیں ہم سے جدا ہوئے پورا ایک سال ہو گیا ہے جبکہ مجھے یہ کل کی بات لگتی ہے، جب وہ مجھ سے ملنے دفتر ’’معاصر‘‘آئے اور اتنی گھٹ کر ’’جھپی‘‘ ڈالی جیسے مجھ سے ان کی یہ آخری ملاقات ہو اور ہوا بھی ایسے ہی ۔مجھے ان کی اور اپنی جوانی کے وہ دن یاد آئے جب ہماری ملاقات اکثر ہوتی تھی۔ وہ ا علیٰ درجے کےمورخ تھے اور تحریک پاکستان اور اس کے بانیوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔قائد اعظم ان کے آئیڈیل تھے اور ہم دونوں میں یہ قدر مشترک تھی۔انہوں نے پاکستان کے قیام پر سوال اٹھانے والے دانش وروں کے ہر اعتراض کا منطقی جواب دیا۔ پروفیسر مرزا منور کے ساتھ ان کی بے پناہ دوستی تھی مگر اس دوستی میں مرزا صاحب کے لئے استاد کا درجہ بھی شامل تھا ۔ڈاکٹر صفدر محمود انکم ٹیکس گروپ سے تعلق رکھتے تھے مگر ان کی پوسٹنگ مرکز میں سیکرٹری ایجوکیشن کے طور پر بھی ہوئی ،اس کے علاوہ وہ بہت ہی اعلیٰ ذمہ داریوں پر فائز ہوئے۔

ڈاکٹرصفدر محمود عالم فاضل ہونے کے باوجود بہت ہنس مکھ اور بذلہ سنج تھے کسی اور کو بولنے کا موقع ذرا کم کم ہی دیتے تھے جبکہ ایک موقع پر جب میں ایم اے او کالج میں لیکچرار تھا اور ہمارے پرنسپل پروفیسر کرامت جعفری تھے ،میں نے ڈاکٹر صفدر سے کہا برادر پروفیسر کرامت حسین جعفری بھی آپ کی طرح کسی دوسرے کو بولنے کا کم ہی موقع دیتے ہیں اور ہم بچارے لیکچرار ان کی مسلسل گفتگو سننے پر مجبور ہوتے ہیں اس کا کوئی علاج ہو تو بتائیں ؟کہنے لگے وہ گفتگو کے دوران اپنی انگشت مسلسل ہوا میں لہراتے رہتے ہیں آپ نے بس یہ کرنا ہے کہ موقع پاتے ہی ان کی وہ انگلی تھام لیں اس کے ساتھ ہی وہ خاموش ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے میں نے ایک دن جب جعفری صاحب کا جوش خطابت پورے جوبن پر تھا جرات کرکے ان کی ا نگلی تھام لی اور اس کے ساتھ ہی وہ واقعی خاموش ہوگئے۔

ڈاکٹر صاحب ایک دفعہ کچھ دوسرے دوستوں کےساتھ ہمیں مری کی سیر کے لئے لے گئے اور یہ دورہ یادگار اس لئے بھی تھا کہ جو تھوڑا بہت تکلف ہمارے درمیان رہتا تھا اس سفر میں وہ بھی ختم ہو گیا ۔ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب سے میری جھڑپ ہو گئی انہوں نے اپنے کالم میں عزیزی عطا الحق قاسمی لکھ دیا ،میں نے چڑھائی کر دی کہ میں آپ کا عزیزی کب سے ہو گیا۔ عزیزی عمر اور مرتبے میں بہت کم افراد کو کہاجاتا ہے، آپ میرے قریباً ہم عمر ہیںاورمیںاپنے شعبے میں بھی کسی سے کم نہیں ہوں ،انہو ں نے کہا عزیزی محبت سے کہا جاتا ہے ۔میں نے کہا ’’عزیزی صفدر محمود‘‘ میں آپ سے متفق ہوں جس پر وہ ہنس پڑے اور ہاں آج بہت سے دوستوں کو شاید علم ہی نہ ہو کہ ڈاکٹر صفدر محمود سرکاری ملازمت کی وجہ سے قلمی نام کے ساتھفکاہی کا لم بھی لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایاکہ ان کالموں کی اتنی تعداد ہو گئی ہے کہ ایک کتاب بن سکتی ہے۔ میں نے کہا تو کتاب چھپوانے میں کیا رکاوٹ ہے ،بولے کوئی بھی نہیں بس اس کا فلیپ آپ لکھیں گے چنانچہ وہ کتاب میرے فلیپ کے ساتھ شائع ہو گئی ،جس سے ایک محقق اور مورخ کے علاوہ ان کی پہچان ایک مزاح نگار کے طور پر ہوئی ۔اگر کوئی پبلشر ان کی یہ کتاب اس دور کے قلمی نام کی جگہ ان کے اصل نام کے شائع کر دے تو ڈاکٹر صاحب کے مداحین اور عام قارئین بھی بہت خوش ہوں گے۔

غالباً پرسوں ان کا پہلا یوم وفات تھا مگر ان کا علمی کام ہمیشہ زندہ رہے گا ۔اللہ تعالیٰ میرے اس دوست پر اپنی رحمت کا سایہ کرے !

تازہ ترین