• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غالباً 1971ء اور مارچ کا مہینہ تھا۔ قذافی سٹیڈیم میں، انٹرنیشنل الیون اور بورڈ آف کرکٹ کنٹرول کے درمیان میچ میں عمران خان کو پہلی دفعہ کھیلتے دیکھا۔ اُس کا قدوقامت اور گیند کی رفتار بہت متاثر کن تھی۔ پتا چلا کہ زمان پارک میں رہنے والے، برکی خاندان کا خوبرو نوجوان، ایچی سن کالج کا طالب علم ہے۔ والد محترم کو کرکٹ کے کھیل میں بہت دلچسپی تھی۔ اِس نوجوان کا ذکر کیا تو اُنہیں ہوشیار پور کے شیخ محمد نثار کی یاد آ گئی، جس نے ہندوستان کے اوّلین ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ کے خلاف پہلی اننگ میں پانچ وکٹیں لے کر سب کو اپنی فاسٹ بائولنگ سے حیران کر دیا تھا۔ وہ نثار کا تذکرہ کرتے رہے اور اسی حوالے سے میری اُمیدعمران خان سے وابستہ ہو گئی۔ راقم اُن دنوں گورنمنٹ کالج، لاہور کا طالب علم تھا۔ ہوسٹل کے قریب پنجاب یونیورسٹی گرائونڈ میں فرسٹ کلاس کرکٹ کے میچ ہوا کرتے تھے۔ تماشائی شوق سے بائونڈری لائن کے رسے کیساتھ گھاس پر بیٹھ کر میچ دیکھتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گرائونڈ کے ایک طرف فضل محمود کی چھتری کے نیچے، تماشائیوں کا جمگھٹا رہتا۔ کچھ دُور، نذر محمد،(جنہیں سب کپتان نذر) کہا کرتے تھے، اپنی محفل جماتے۔ دونوں ماضی کے مشہور کھلاڑی تھے اور میدان میں کھیلنے والے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر رواں تبصرہ کرتے رہتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1970-71ء کی قائد اعظم ٹرافی کے میچ میں، پنجاب یونیورسٹی اور پی آئی اے کے درمیان مقابلہ تھا۔ راقم، فضل محمود کے پاس کھڑا،میچ دیکھ رہا تھا۔ پی آئی اے کے بائولرز میں سلیم الطاف، آصف اقبال، آصف مسعود اور پرویز سجاد شامل تھے، مگر اُس بائولنگ اٹیک کے خلاف، پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے طلعت علی نے 157رنز بنائے۔ فضل محمود نے مسحور ہوکر طلعت علی کے روشن مستقبل کی پیش گوئی کر دی۔

اُسی سال پاکستانی کرکٹ ٹیم کوانگلینڈ کا دورہ کرنا تھا۔ بہت خوشی ہوئی جب ٹیم میں 19سالہ عمران خان سلیکٹ ہوئے۔ چند ماہ بعد انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا گیا۔ اُس مقابلے کو ظہیر عباس کی شاندار ڈبل سینچری نے یادگار بنا دیا، مگر مجھے عمران خان کی کمزور کارکردگی دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ وہ دُوسرے اور تیسرے ٹیسٹ میچ کے لئے سلیکٹ نہیں ہوئے۔ معلوم ہوا کہ انگلستان جانے سے پہلے ہی اُن کا داخلہ وہاں کسی اسکول میں ہو چکا تھا۔ عمران خان برطانوی اسکول چلے گئے اور ٹیم کے ساتھ واپس نہیں آئے۔ ناقدین نے منفی تبصرے کئے۔ کسی کا الزام تھا کہ زمان پارک کے برکی خاندان نے ہمیشہ ناجائز فائدے اُٹھائے ہیں۔ عمران خان کی سلیکشن ہی غلط تھی۔ کسی دُوسرے کھلاڑی کا حق مار کر، کرکٹ بورڈ نے اُس کےلئے انگلینڈ تک مفت سفر کا بندوبست کیا۔ کرکٹ کے شائقین کو یاد دلایا گیا کہ ایوب خان کا مارشل لا لگا تو لیفٹیننٹ جنرل واجد علی برکی، کابینہ کے اہم رُکن تھے۔ 1962ء میں اُنہوں نے اپنے بیٹے، جاوید برکی کو زبردستی انگلینڈ کا دورہ کرنے والی ٹیم کا کپتان بنوایا۔ حالانکہ اُس نے صرف چند ٹیسٹ میچ کھیلے تھے۔ اُنہیں کپتان بنانے کی خاطر، 1954ء میں اوول کے ہیرو، فضل محمود کو زائد العمر ہونے کی وجہ سے سلیکٹ نہیں کیا گیا۔ دُوسرے سینئر کھلاڑی حنیف محمد اور امتیاز احمد بھی نظر انداز ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ فضل محمود کو کرکٹ سیریز کے دوران انگلستان بھیجنا پڑا۔ ایک ناتجربہ کار کھلاڑی کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی سونپنے کی وجہ سے،پاکستان تمام ٹیسٹ میچ بُری طرح ہارا۔عمران خان ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، مگر دُوسرے کھلاڑیوں کی مالی حالت بہت کمزور تھی۔ کرکٹ بورڈ کے مالی وسائل بھی محدود تھے۔ مجھے کپتان نذر کا سُنایا ہوا ایک قصہ آج بھی یاد ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ ایک ٹیسٹ میچ کے دوران، کھلاڑیوں کے لنچ کا بندوبست کرنے والے ٹھیکیدار کو پیسے ملنے میں تاخیر ہوئی تو اُس نے مہمان ٹیم کا لنچ تو پہنچا دیا مگر میزبان ٹیم کا کھانا فراہم نہ کیا۔ کپتان نذر بیٹنگ کر رہے تھے۔ اُنہیں ایک کونے میں کیلوں کا گچھا نظر آیا۔ وہ لوگوں کو ہنس کر بتاتے کہ وہ چھ کیلے کھا کر بیٹنگ کرنے چلے گئے۔ کھلاڑیوں کی سرپرستی صرف وہ ادارے کرتے تھے جن کی ٹیم کو قائد اعظم ٹرافی اور دوسرے مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت ملتی۔ اِن گنے چُنے اداروں میں کمبائنڈ سروسز(آرمی، نیوی اور ایئر فورس)، پی ڈبلیو ڈی، ریلوے، واپڈا اور پی آئی اے شامل تھے۔ 1974-75ء کے دوران، گورنمنٹ کالج، لاہور کی ٹیم میں، مشہور کرکٹر وسیم حسن راجہ، آغا زاہد، ارشد باٹا، شفیق پاپا، طلعت علی، سلطان رانا، پی جے میر، مدثر نذر، اظہر خان اور عبدالقادر شامل تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین کے بڑے بھائی، وسیم حسن راجہ کے پاس موٹر سائیکل تھی، مگر آغا زاہد لاہور کینٹ سے اور عبدالقادر دھرم پورہ سے کرکٹ گرائونڈ میں پریکٹس کے لئے سائیکل پر آتے۔ اُنہی دنوں شیخوپورہ کے قریب، ایک فرٹیلائزر فیکٹری نے بورڈ سے اجازت لے کر اپنی کرکٹ ٹیم بنائی۔ ٹیسٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کو موٹر سائیکل اور باقیوں کو صرف دو سو روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا۔ 1975ء میں عمران خان بھی پہلےاس فیکٹری اور پھر پی آئی اے کی ٹیم کا حصہ بنے۔ اُنہی دنوں عبدالحفیظ کاردار کے توسط سے ذوالفقار علی بھٹو نے بطور وزیر اعظم ایسے فیصلےکئے جن کی بدولت پاکستانی کرکٹ میں انقلاب برپا ہوا، مگر عمران خان کے ذہن نے اِس تبدیلی کو قبول نہیں کیا۔1976-77ء کے کرکٹ سیزن میں پاکستانی ٹیم، آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے دورے پر روانہ ہو رہی تھی اور عمران خان اُس کا حصہ تھے۔ مقابلوں کا آغاز ہوا تو اُنکی تیز رفتار بائولنگ کی شہرت دُنیا میں پھیل گئی۔ پاکستان نے پہلی دفعہ آسٹریلین سرزمین پر سڈنی کے گرائونڈ میں ٹیسٹ میچ جیتا۔ ساری قوم کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ پاکستان کو ایک نیا ہیرو ملا۔

اِس کالم کا مقصد نہ تو عمران خان کی کرکٹ کے میدان میں کارکردگی پر قصیدہ گوئی ہے اور نہ ہی اُن کی سیاست پر تبصرہ۔

تازہ ترین