زندگی میں پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیسہ آپ کو زندگی کی بہت ساری مشکلوں اور تکلیفوں سے دور ضرور رکھ سکتا ہے۔ زندگی میں ہر شخص کو دولت مند یا کامیاب بننے کے ایک یا ایک سے زائد مواقع ملتے ہیں، تاہم یہ اس شخص پر منحصر ہے کہ وہ ان مواقع کا خوب سے خوب تر اور ذہانت مندانہ استعمال کرتے ہوئے زندگی کی دوڑ میں آگے نکل جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ زندگی کی دوڑ میں آگے نکلنے کے مواقع کسی کو کم اور کسی کو زیادہ میسر آتے ہوں۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ہر شخص ان مواقع سے ان میں پنہاں صلاحیتوں کے مطابق فائدہ حاصل نہیں کرپاتا؟ ہر انسان کے اندر کچھ خصوصیات ہوتی ہیں، ان خصوصیات کی بنیاد پر ہی فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ انسان ان مواقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کس حد تک آگے نکل جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کوئی بھی آپ کو کروڑ پتی بننے کی گارنٹی نہیں دے سکتا، تاہم اگر آپ کے اندر ذیل میں درج روٹین، عادات اور شخصیاتی خصوصیات موجود ہیں تو آپ کی سمت دُرست ہے۔
ایک سے زائد ذرائع آمدنی
مصنف تھامس سی کارلی نے اپنی کتاب ’چینج یوئر ہیبٹس، چینج یوئر لائف‘ میں اپنے بل بوتے پر کروڑ پتی بننے والے افراد پر اپنی سالہا سال کی تحقیق کے بعد لکھا ہے، ’آمدنی کے حصول کے لیے کبھی بھی ایک ہی ذریعے پر انحصار نہ کریں‘۔ تھامس سی کارلی کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ کروڑ پتی بننے والے 65 فی صد افراد کے کم از کم تین ذرائع آمدن تھے، جیسے جائیداد سے کرایہ وصولی، پسندیدہ مشغلے سے پیسہ بنانا اور پارٹ ٹائم نوکری۔
بچتوں کو سرمایہ کاری میں لگانا
اپنے بل بوتے پر کروڑ پتی بننے والے امریکی گرانٹ کارڈون کہتے ہیں، ’آپ اپنے بچائے ہوئے پیسے کو سرمایہ کاری میں لگا کرہی دولت مند بن سکتے ہیں، پیسہ بچانے کا ایک ہی مطلب ہونا چاہیے کہ اس سے آپ نے سرمایہ کاری کرنی ہے‘۔ آپ کتنا کماتے ہیں، یہ قطعی اہم نہیں۔ اہم یہ ہے کہ آپ اس میں سے کتنی رقم بچاتے ہیں۔
پرسنل فائنانس کے ماہر اور کتاب ’آئی وِل ٹیچ یو ٹوبی رِچ‘ کے مصنف رامت سیٹھی لکھتے ہیں، ’اوسطاً، کروڑ پتی افراد اپنی سالانہ آمدنی کا 20فی صد سرمایہ کاری میں لگاتے ہیں‘۔ لہٰذا، سرمایہ کاری کی اس عادت کو جتنا جلد اپنائیں گے، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ ایسے افراد کی دولت کا پیمانہ یہ نہیں کہ وہ ہر سال کتنا کماتے ہیں بلکہ کیسے بچت کرتے اور وقت کے ساتھ سرمایہ کاری کرتے ہیں، یہ معنی رکھتا ہے۔
کامیاب لوگوں سے تعلقات
تھامس سی کارلی کہتے ہیں، ’آپ اتنے ہی کامیاب ہوتے ہیں، جتنے کہ وہ لوگ جن کے ساتھ آپ جُڑے ہوتے ہیں‘۔ اپنے بل بوتے پر کروڑ پتی بننے والے ایک اور شخص، جنھوں نے ’ہاؤ رِچ پیپل تِھنک‘ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے، وہ بھی کارلی کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ اس شخص کا نام اسٹیو سائیبولڈ ہے اور وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، ’کامیاب لوگ عموماً اس بات پر متفق ہیں کہ شعور متعدی چیز ہے اور کامیاب لوگوں کے ساتھ آپ کا میل ملاپ آپ کی سوچ کو وسعت دیتا ہے اور آپ کی آمدنی بڑھنے لگتی ہے‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں، ’ہم ان کی طرح بن جاتے ہیں، جن کے ساتھ ہم جُڑے رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کامیاب لوگ کامیاب افراد کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں‘۔
بروقت فیصلہ لینا
500کروڑ پتی افراد کی زندگیوں کو جاننے کے بعد مصنف نیپولین ہِل اس نتیجے پر پہنچے کہ کروڑ پتی لوگ فیصلہ لینے میں بہت اچھے ہوتے ہیں۔ وہ 1937ء میں پرسنل فائنانس پر لکھی گئی اپنی کتاب ’تِھنک اینڈ گِرو رِچ‘ میں لکھتے ہیں، ’10لاکھ ڈالر سے زائد آمدنی کمانے والی کئی سو شخصیات کی زندگیوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت عیاں ہوئی کہ ان میں فوری فیصلے کرنے کی خصوصیت موجود تھی۔ وہ لوگ جو فوری فیصلے لیتے ہیں، انھیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور عموماً وہ اپنے اہداف حاصل بھی کرلیتے ہیں‘۔
لائحہ عمل تیار کرنا
اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ آپ کیا چاہتے ہیں، تو آپ اپنی منزل کے ایک قدم قریب پہنچ جاتے ہیں۔ اپنے بل بوتے پر کروڑ پتی بننے والے اکثر افراد پہلے یہ ارادہ کرتے ہیں کہ وہ کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں اور پھر کروڑ پتی بننے کے لیے اسباب پیدا کرتے ہیں۔80فی صد دولت مند افراد اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پاگل پن کی حد تک جدوجہد کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے روزانہ سے لے کر طویل المدتی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، بیشتر افراد کے زندگی میں آگے نہ بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ انہیں کیا کرنا یا کہاں بڑھنا ہے۔
کتاب دوستی
سائیبولڈ اپنی کتاب ’ہاؤ رِچ پیپل تِھنک‘ میں لکھتے ہیں، ’دولت مند افراد تفریح حاصل کرنے کے بجائے علم کے حصول کا انتخاب کرتے ہیں‘۔ ایسے افراد کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی سیکھنے کی طاقت کے معترف ہوتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، ’کسی دولت مند شخص کے گھر میں جاکر دیکھ لیں، پہلی چیز جو آپ کو نظر آئے گی، وہ ایسی وسیع کتابوں پر مشتمل لائبریری ہوگی، جن کتابوں کو پڑھ کر وہ کامیاب بنے ہیں۔
بلند اہداف مقرر کرنا
اگر آپ نےاپنی توقعات کو اونچا رکھا ہوا ہے اور ہر طرح کے چیلنج کے لیے تیار ہیں تو پھر آپ صحیح ٹریک پر ہیں۔ سائیبولڈ لکھتے ہیں، ’دنیا میں کوئی شخص دولت مند نہیں بن سکتا اور اپنے خواب نہیں جی سکتا، جب تک وہ بلند توقعات نہ رکھتاہو‘۔ اوسط درجے کے شخص کا خیال ہوتا ہے کہ صرف خوش قسمت افراد امیر بن پاتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ کسی سرمایہ دارانہ ملک میں آپ کے امیر بننے کا ہرممکن امکان ہوتا ہے، مگر اس کے لیے آپ کے اندر عزم ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے خود سے سوال کریں کہ میں اپنے طبقے (نچلے یا متوسط) سے اوپر کیوں نہیں اُٹھ سکتا، اس کے بعد کچھ بڑا سوچنا شروع کریں، اپنی توقعات بلند کریں گے تو کامیابی بھی قدم چومے گی۔
اہم بات: زندگی میں پیسے کا نہ ہونا بُری بات نہیں ہے لیکن پیسے کی لالچ رکھنا اور لالچ میں آکر پیسہ حاصل کرنے کے لیے غلط راستے اختیار کرنا بُری بات ہے۔