• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

1991 سے متاثر کن کامیابیوں کے باوجود بھارت کو کئی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ اپنے نوجوانوں کو فعال افراد ی قوت کی صورت ڈھالتے ہوئے ان کیلئے نفع بخش روزگار کی فراہمی ہے۔ اس کی نصف آبادی کی عمر 25سال سے کم ہے۔ کام کرنے کی عمر رکھنے والی صرف 35 فیصد آبادی بر سرروزگار ہے۔ جبکہ ہر سال 12 ملین نوجوان افرادی قوت کے طور پر عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں۔ متاثر کن اقتصادی ترقی کے باوجود افرادی قوت کیلئےملازمتیں پیدا کرنے کا ماضی کا ریکارڈ اچھا نہیں ۔ معیشت کے غیر منظم اور منظم حصوں کے درمیان فرق بڑھ رہا ہے۔ 90فیصد نوکریاں غیر رسمی شعبے میں ہیں۔ اگرچہ جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ کم ہو کر 14فیصد رہ گیا ہے یہ اب بھی 45 فیصد افرادی قوت کو ملازمت فراہم کرتا ہے۔لیکن یہ بھی ایک طرح کی بے روزگاری اور غیر معیاری روزگار ہے۔ اگر زرعی ٹیکنالوجی کو مزید فروغ ملتا ہے تو دیہی مزدور ی پر دباؤ بڑھے گا۔ نئی ٹیکنالوجی مزدوروں کو بے روزگار کر رہی ہے۔ ملازمت کی مارکیٹ میں داخل ہونے والے غیر زرعی اور غیر منظم شعبے کا رخ کرتے ہیں جہاں اجرت منظم شعبے میں اجرتوں کی نسبت بہت کم ہے۔ غیر منظم شعبہ مزدوروں کی ایک ریزرو فوج کے طور پر بھی کام کرتا ہے جو منظم شعبے کی اجرتوں کو کنٹرول میں رکھتا ہے۔ مستقل مزدوری کے بجائے کنٹریکٹ لیبر کو ملازمت دینے والا منظم شعبہ پیداوار اور مسابقت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ پیداوار اور روزگار دونوں میں مینوفیکچرنگ کا حصہ بہت کم ہے۔ اعلیٰ قدر کی خدمات نسبتاً کم ہنر مند افراد کو ملازمت دیتی ہیں اور کم پیداواری کام وہ ہوتا ہے جہاں زیادہ تر کارکن کام تلاش کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ متحرک اور سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا سروس سیکٹر آئی ٹی اور آئی ٹی سے چلنے والی خدمات، بزنس پروسیس مینجمنٹ وغیرہ میں صرف 4.5سے 5ملین افراد ملازمت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر یہ اپنی تعداد کو دگنا کردیں تو یہ تعداد بڑھ کر 10ملین تک پہنچ جائے گی ۔ دوسری طرف افرادی قوت میں سالانہ اضافہ تقریباً 12ملین ہے۔ جس دوران مقامی جاب مارکیٹ کو ہر سال دس لاکھ نوجوان افراد ، جو زومرز کہلاتے ہیں، کیلئے ملازمت کے مواقع پیدا کرنے ہیں، بیرونی ممالک سے دس لاکھ کے قریب بھارتی محنت کش افراد بھی واپس وطن آچکے ہیں۔

متعدد بھارتی دانشوروںاور تجزیہ کاروں نے جس دوسرے بڑے مسئلے کی نشاندہی کی ہے وہ ’’بڑھتا ہوا علاقائی عدم توازن، اثاثوں پر کنٹرول اور آمدنی تک رسائی میں عدم مساوات، مناسب معاوضے اور بحالی کے بغیر لوگوں کی زمین اور ذریعہ معاش سے بے گھر ہونا، موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی انحطاط وہ سلگتے ہوئے مسائل ہیں‘‘ جن سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ ان کیلئے طبقے، آمدنی کی سطح، جغرافیہ، ذات پات، برادری، جنس اور بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور بھارت کے سیکولرازم اور تکثیریت کا ختم ہونا غیر اقتصادی عوامل ہیں جو مستقبل میں معاشی نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ بھارت کا بیرونی دنیا میں تاثر اور اس کی بڑی مارکیٹ کا سائز اب بھی سازگار عوامل ہیںلیکن سماجی قطبیت اور محروم طبقے کی پسماندگی مستقبل میں اس تاثر کو مسخ کرسکتی ہے۔ آمدنی میں عدم مساوات تیزی سے ظاہر ہورہی ہے۔

آمدنی کی عدم مساوات کے علاوہ علاقائی تفاوت بھی بھارت کی ترقی کے سفر کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ شمالی بھارت میں اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان، اوڑیسہ بڑی آبادی والی ریاستوں میں غربت کی شرح قومی اوسط سے د وگنا زیادہ ہے۔ ان کی فی کس آمدنی بھی قومی اوسط سے بہت کم ہے۔ بہار کی فی کس آمدنی قومی اوسط کا ایک تہائی ہے ۔ کیرالہ سے اس کی فی کس آمدنی پانچ گنا کم ہے۔ اترپردیش، جس کی آبادی پاکستان جتنی ہے ، کی فی کس آمدنی 934 ڈالر ہے ، جو کہ بھارت کی فی کس آمدنی کا تقریباً نصف اور ہریانہ کا ایک چوتھائی ہے۔ اس کے ساتھ ہی جنوبی ریاستیں جیسے کیرالہ، تامل ناڈو، آندھرا پردیش، تلنگانہ، کرناٹک کے ساتھ ساتھ مغربی ریاستیں مہاراشٹر، گجرات، پنجاب، ہریانہ اور ہماچل پردیش میں غربت کی جھلک برائے نام ہے۔ ان کی فی کس آمدنی قومی اوسط سے کچھ معاملات میں 50فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ ان ریاستوں میں افرادی قوت کی تعلیمی حیثیت بھی بلند ہے اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر غیر ملکی فرمیں اپنی سہولت دیکھتے ہوئے بنگلور،چنئی اورحیدرآباد کا انتخاب کرتی ہیں۔

دوسرے بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح بھارت کو بھی ریاستی ملکیت میں چلنے والے کمرشل اداروں کے بھاری خسارے کا سامنا ہے۔ 2010 میں بھارتی ا سٹاک مارکیٹ کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن کا تقریباً 25فیصد، ریاستی کمرشل اداروں سے آتاتھا۔ یہ حصہ 2021تک صرف 7فیصد تک آ گیا ہے اس لئے نہیں کہ ان کمرشل اداروں کو تقسیم کیا گیا تھا یا حکومت کی شیئر ہولڈنگ کو کم کیا گیا تھا بلکہ دیگر نجی کمپنیاں قدر پیدا کرنے میں ان سے آگے نکل گئی تھیں۔ حالیہ دنوں میں واحد اہم پرائیویٹائزیشن ٹرانزیکشن ایئر انڈیا کا تھا جس نے اپنا مارکیٹ شیئر کھو دیا تھا اور اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا۔ ایک اور دیو ہیکل پبلک سیکٹر کمپنی لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا پرائیویٹ پلیئرز کے سامنے اپنی قدر کھو رہی ہے۔ ابھرتے ہوئے ممالک کے سب سے بڑے بینکوں میں سے ایک، اسٹیٹ بینک آف انڈیا کا ہندوستانی بینکاری نظام کے قرضوں اور ذخائر میں صرف 25فیصد حصہ ہے۔ مالیاتی شعبے میں پبلک سیکٹر کا غلبہ صنعت اور کاروبار میں نئے آنے والوں کیلئے حوصلہ افزا نہیں۔ اقتدار میں موجود سیاسی جماعتوں سے منسلک بڑے اور بااثر کھلاڑیوں کو قرضے ملتے ہیں۔

مندرجہ بالا رسک فیکٹر بھارت کی ترقی کی رفتار کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ان کو یکے بعد دیگرے حکومتوں کو وضع کردہ عوامی پالیسی کو بروئے کار لاتے ہوئے ان نقصانات کو کم کرنا ہوگا ۔ اس کے علاوہ میکرو اقتصادی استحکام، سازگار کاروباری ماحول، جسمانی اور انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری، پالیسیوں کا تسلسل اور معیار برقرار رکھنا ہوگا۔

تازہ ترین