• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شدید ترین بارشوں، موسمیاتی تبدیلیوں اور شدید بد انتظامی کے باعث پاکستان ان دنوں سیلاب کی تباہ کاریوں سے دوچار ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جس میں روزانہ اضافہ ہو رہاہے۔ 1300 سے زائد انسانی جانیں پانی کی نذر ہو چکی ہیں اور اگر فوری طور پر امدادی کارروائیاں نہ کی گئیں تو یہ تعداد کہیں زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ تقریباً 33ملین لوگ بے گھر ہوکربے یار و مددگار، کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان پہلے ہی شدید معاشی مشکلات سے نبرد آزما تھا، اب یہ سیلاب آنے والے سال کے مالیاتی منظرنامے کودھندلا کر دے گا۔ حکومت، این جی اوز اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں، لیکن ان عوامل پر غور کیا جانا چاہئے جو اس تباہی کا سبب بنے ہیں۔کیا ایسے چیلنجز اور آفات ہمیں بے بس کرتے رہیں گے،کیا ہم ہمیشہ عالمی برادری کے رحم و کرم کے منتظر رہیں گے؟

سیلاب نے پورے پاکستان کو شدید متاثر کیاہے لیکن سندھ، بلوچستان اورکے پی میں تباہی کے اثرات بہت شدیدہیں ۔ یہ تباہ کن سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کا براہِ راست شاخسانہ ہے۔ اس سال سندھ میں پچھلے 30برسوں کے مقابلے میں 400فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں ۔ ملک کے باقی حصوں میں گزشتہ 30سالوں کی اوسط سے 140% زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی۔ اس اضافے کی تفہیم کئے بغیر اس طرح کے چیلنج سے نمٹنا ممکن نہیں۔

پاکستان ہر سال بارشوں اور مون سون کے تقریباً 4 سسٹمز کا سامنا کرتا ہے۔ اس سال، ستمبر تک، مون سون کے 8سے زیادہ سسٹم گزر چکے ہیں ۔ پچھلی 4دہائیوں میں ایسا پہلی بار ہواہے۔ اس کے نتیجے میں، جہاں سیلاب کم ہے، وہاں بارش سے سپل ویز، ڈیم اور کیچ منٹ ایریاز بھر گئے ہیں۔ واٹر شیڈز کے ذخائر میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ،پانی کے تیز تر بہاؤ کو جب راستہ نہ ملاتو سطح سے اوپر جا کریہ ذخائر سیلاب کی شکل اختیار کر گئے۔ ملک بھر میں آنے والا سیلاب 2010میں آنے والے سیلاب سے تین گنا زیادہ ہے۔ بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آچکا ہے۔ پانی کم ہونے میں مہینوں لگیں گے۔

تجارت اور جی ڈی پی کے نقصان کے لحاظ سے اربوں روپے مالیت کی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ خاص طور پر کپاس کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس سے زراعت، برآمدات اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں ملک کی ترقی پر منفی اثر پڑے گا۔ اسی طرح اناج ، فصلوں کی کٹائی میں تاخیر اور بوائی میں انتہائی پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سیلاب خوراک کے بحران کا باعث بننے والا ہے۔ اشیائے خورونوش اور ٹیکسٹائل کی برآمدات پر مبنی صنعتی پیداوار موجودہ اور آئندہ مالی سال میں منفی اشارے دکھاسکتی ہے۔

عالمی بینک، اقوام متحدہ اور ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے بین الاقوامی اداروں نے کافی مدد، امدادی سامان اور قرضوں کا وعدہ کیا ہے۔بہت سے دوسرے ممالک بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان بھیج رہے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ 30ملین لوگوں تک پہنچنے کے لئے امدادی کوششوں اورفنڈز کو تین گنا کرنے کی ضرورت ہے۔

معاشرے کے تمام طبقوں کی طرف سے عطیات اور امدادی سامان متاثرین کے لئے بھجوایا جا رہا ہے لیکن سب سے ضروری امریہ ہے کہ سامان تسلسل سے متاثرین تک پہنچتا رہے۔سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے دورہ پاکستان میں بڑی اہم بات کی، ’’یہ انصاف کا سوال ہے، پاکستان ایک ایسے رجحان کی قیمت ادا کر رہا ہے جس کے ذمہ داران کوئی اور ہیں‘‘۔ موسمیاتی تبدیلی جیسا اہم ترین مسئلہ ترقی یافتہ ممالک کے احتساب کا مطالبہ کرتا ہے جو صنعتی انقلاب کے وقت سے گرین ہاؤس گیسیں پیدا کر رہے ہیں۔ذرائع نقل و حمل، کارخانوں اور تجارتی سرگرمیوں سے 50 فیصد سے زائد کاربن کا اخراج گلیشیئرز کا پگھلنا، عالمی درجۂ حرارت اور سمندر کی سطح میں اضافے کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ امریکہ اور چین اس کے دو بڑے اور بنیادی عوامل ہیں جب کہ باقی ترقی یافتہ اور یورپی ممالک بھی اس میں برابر کے شریک ہیں۔پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جبکہ گلوبل وارمنگ میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔یہ درست ہے کہ بہتر انفراسٹرکچر ، مزید ڈیمز اور آبپاشی کے نظام کو بہتر بنا کر اس صورتحال سے بچا جا سکتا تھا لیکن اس کے باوجود دنیا اس ذمہ داری سے بری نہیں ہوسکتی کہ وہ اس بحران سے نکلنے میں پاکستان کی مدد کرے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان وسائل کو بروئے کار لائے جو اس کے پاس ہیں، یعنی پاکستان کے نوجوان۔ یہ وقت صرف بیرونی امداد پر انحصار کی بجائے خود انحصاری اور خود داری کا درس بھی دیتا ہے۔ بین الاقوامی برادری میں اخلاقیات اور انصاف پسندی کے بارے میں، ایک روسی مصنف نے ایک بار لکھا تھا،’’اگر آپ اس دنیا میں انصاف تلاش کر رہے ہیں، تو آپ غلط جگہ پر آئے ہیںــ‘‘۔

(مصنف جناح رفیع فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین