• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برس ہا برس پیشتر میں نے ’’ایک غیر ملکی سیاح کا سفر نامہ لاہور‘‘ کے عنوان سے طنز و مزاح پر مشتمل ایک سیریز لکھی تھی جو جنگ کے انہی صفحات میں شائع ہوئی اور بہت مقبول ہوئی بلکہ ’’جیو‘‘ پر ایک بار ’’بزبان یوسفی‘‘ اور پھر اس کے کچھ عرصہ بعد ’’بزبان قاسمی‘‘ کا پروگرام بھی چلا تھا جس میں ہم نے اپنے منتخب مزاح پارے سنائے تھے، میں نے اس پروگرام میں غیرملکی سیاح کے فرضی سفر نامے کے کچھ حصہ بھی سنائے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ہمارے معاشرے کی روایات اور ثقافت کو اگر ایک غیر ملکی سرسری نظر سے دیکھے تو وہ کیا نتیجہ اخذ کرے اور ظاہر ہے یہ نتیجہ طنز اور مزاح کی صورت ہی میں برآمد ہونا تھا۔ آج کے بدلے ہوئے سیاسی، سماجی اورثقافتی منظر نامے کو میں نے اب ایک اور گورے کی نظر سے دیکھا ہے، چلئے دیکھتے ہیں کہ یہ گورا کیا دیکھتا ہے اور کیا نتیجہ اخذ کرتا ہے۔

ایک جلسے کی روداد

میرا ایک مقامی پاکستانی دوست بہت مذہبی ہے اور میں جب سے پاکستان آیا ہوں وہ مجھے اسلام کی حقانیت کا قائل کرنے میں لگا رہتا ہے، میں لامذہب ہوں مگر سچائی کی تلاش میں رہتا ہوں، چنانچہ اس کی باتیں بہت غور سے سنتا ہوں، ایک روز وہ مجھے ایک مذہبی اجتماع میں لے گیا جس کے شرکا نے ایک ہی رنگ کی دستاریں سر پر پہن رکھی تھیں، مذہبی رہنما بہت پُر جوش لہجے میں تقریر کر رہا تھا اور لوگ درمیان درمیان میں اتنے ہی جوش و خروش سے نعرے لگا رہے تھے۔ پھر درمیان میں ایک مرحلہ ایسا آیا کہ اس کی آواز دھیمی پڑ گئی، اس نے اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے اپنی ٹانگیں اوپر کو سمیٹیں اور پھر پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔میں بہت حیران ہوا، اس دوران میں نے اپنے دوست کو دو تین بار اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی تاکہ پوچھ سکوں کہ حضرت نے اپنی نشست کیوں تبدیل کی، مگر دوست نے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔ جلسے کےاختتام پر میرے دوست نے مجھ سے میرا ہاتھ جھٹکنے پر معذرت کی اور کہا دراصل حضرت ایک ایسا دینی مسئلہ بیان کر رہے تھے جو اسلام میں بہت اہمیت رکھتا ہے مگر عام لوگ اس سے ناواقف ہیں، میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اسلام جسمانی صفائی پر بہت زور دیتا ہے چنانچہ حضرت استنجا کرنے کا صحیح اسلامی طریقہ بتا رہے تھے چنانچہ انہوں نے اپنی نشست میں تبدیلی کرکے بھی دکھائی کہ اس عمل کے دوران پنجوں کے بل بیٹھنا چاہیے۔ مجھے یہ سن کر بہت اطمینان ہوا کیونکہ میں راہ چلتے لوگوں کو دیکھتا تھا کہ وہ ’’بوقت ضرورت‘‘ کسی دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو جاتے تھے تاہم کچھ لوگوں کو میں نے حضرت کی طرح اکڑوں بیٹھے بھی دیکھا، مگر پھر وہ کھڑے ہو کر شلوار میں ہاتھ لے جاتے تھے اور ان کا ہاتھ مسلسل حرکت میں رہتا وہ اس دوران سڑک پر ٹہلتے رہتے، اللہ جانے وہ کیا کرتے تھے؟

ایک سیاسی جلسہ

میرا ایک پاکستانی دوست جو سیاست میں گہری دلچسپی رکھتا تھا مجھے ایک جلسہ میں لے گیا یہ ایک سیاسی

جماعت کا جلسہ تھا، مقرر بہت ہینڈ سم تھا اور فن خطابت پر بھی اسے عبور لگتا تھا۔مگر غصیلا بہت تھا، تقریر کرتا تو لگتا لڑائی کر رہا ہے، اس کا حافظہ بھی بہت کمزور تھا، میرے دوست نے مجھے بعد میں بتایا کہ اصل میں یہ لیڈر سب کچھ جانتا ہے، وہ کچھ بھی جو اس کائنات میں اور کوئی نہیں جانتا، ظاہر ہے میں اردو تو نہیں جانتا مگر اس کے لہجے سے لگتا تھا کہ وہ مخالفین کی ایسی کی تیسی پھیر رہا ہے، شاید گالیاں بھی دے رہا تھا، درمیان درمیان میں وہ سانس لینے کے لئے رکتا، تو گانا بجنا شروع ہو جاتا جس پر جلسے میں موجود بہت ماڈرن لڑکیاں رقص شروع کر دیتیں۔بلکہ میں نے محسوس کیا کہ جلسے کے آخری کونے میں دوران تقریر بھی یہ لڑکیاں رقص کرتی رہتیں اور یہاں بھی لوگوں کا ایک ہجوم لیڈر کی تقریر سے بے نیاز اپنے فن شناس اور فن کا دلدادہ ہونے کا ثبوت دینے میں لگا رہتا، میرے دوست نے بتایا کہ کچھ ...... نفاست پسند لوگ جلسوں میں لڑکیوں کے رقص کو پسند نہیں کرتے حالانکہ ہمارے قومی شاعر اقبال نے کہا ہے:

آئینِ نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

میں نے دوست کی باتوں سے اتفاق کیا اور بتایا کہ امریکہ جیسے آزاد خیال ملک میں بھی کچھ لوگ ڈونلڈ کی عریاں لڑکیوں کے ساتھ تصویروں کو پسند نہیں کرتے تھے سو گھبرانے کی ضرورت نہیں ایسے لوگ ہر قوم میں پائے جاتے ہیں ۔

زندہ دل قوم

میں نے پاکستانیوں خصوصاً لاہوریوں کو بہت زندہ دل پایا یہ لوگ بڑی سنجیدہ صورتحال میں بھی زندہ دلی کے مظاہرے کا موقع نکال لیتے ہیں مجھے یہاں ایک شادی میں شرکت کا موقع ملا ان شادیوں میں ایک رسم آتی ہے کہ ڈھولکی میں اہلخانہ اپنی باری پر ناچتے ہیں چنانچہ ڈھولکی بجانے والی لڑکیوں نے گانے کی لے میں کہا ،’’ہن نچے منڈے دی بہن‘‘ چنانچہ لڑکے کی بہن نے ناچنا شروع کر دیا پھر کہا گیا ’’ہن نچے منڈے دی ماں‘‘ جس پر ماں اٹھی اور اس نے ہنستے ہنستے دو چار اسٹیپ اٹھائے اور واپس اپنی جگہ پر جا بیٹھی پھر آواز آئی’’ ہن نچے منڈے دی خالہ‘‘ چنانچہ خالہ نے بھی رسم پوری کی جب کہا گیا کہ ’’ہن نچے منڈے دا پیو (باپ)‘‘اس پر محفل میں موجود سب لڑکوں نے ناچنا شروع کر دیا مجھے یہ بات بہت اچھی لگی کہ کسی نے اس شرارت کو مائنڈ نہیں کیا بلکہ سب کھلکھلاکر ہنس پڑے ۔

چوکی بٹھانا

یہاں بعض لڑکیوں کو دورے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں چنانچہ وہ گھر والوں اور گھر پر آنے والے مہمانوں پر حملہ آور ہونے لگتی ہیں، انہیں اپنے ناخنوں سے زخمی کر دیتی ہیں، دس بارہ افراد انہیں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ کسی کے قابو میں نہیں آتیں چنانچہ سمجھا جاتا ہے کہ اسے جن چمٹ گیا ہے چنانچہ اس جن کو لڑکی کی روح میں سے نکالنے کےلئے چوکی بٹھائی جاتی ہے چوکی بٹھانے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ دس بارہ لڑکیاں ڈھولک بجاتی ہیں جس پر آسیب زدہ لڑکی دھمال ڈالتی ہے مگر عموماً یہ عمل رائیگاں جاتا ہے چنانچہ کسی بڑی بوڑھی کے کہنے پر اس لڑکی کی شادی کر دی جاتی ہے جس سے اس لڑکی کو دورے پڑنے بند ہو جاتے ہیں جن نکل جاتا ہے تاہم اس عمل کی کامیابی پر محلے کی کچھ دوسری لڑکیوں کو بھی جن چمٹنے شروع ہو جاتے ہیں اور وہ بھی گھر والوں کو کھانے کو دوڑنے لگتی ہیں!

تازہ ترین