• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی سیلابوں کی پانچ سو سالہ تاریخ میں شاید اتنا بڑا سمندری طوفان نہیں آیا جو ان دنوں آیا ہوا ہے ۔اس کا نام ایان رکھا گیا ہے ۔بےشمارعلاقوں میں پانی بھر گیا ہے،ساحلی بستیوں نے اپنا ملبہ پہن لیا ہے ،گھروں کے لان ہی نہیں کمرے بھی تالاب بن گئے ہیں ۔سڑکیں اور پل بہہ گئے ہیں،تباہی کی وجہ سے لاکھوں افراد بجلی سے محروم ہو گئے ہیں۔اس طوفان نے جنوبی جزیرہ نما ریاست فلوریڈا کے ایک بڑے حصے کو تباہ و برباد کردیا ہے۔اس خوفناک تباہی میں چھ آدمی ہلاک ہوگئے ہیں اور میڈیا میں شور پڑا ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی سیلاب آیا ہے اور یہاں مرنے والوں کا شمار قطار ہی نہیں مگر حکمرانوں کو کیا فرق پڑتا ہے ان کی فیملیز تو رنگوں اور روشنیوں میں زندگی گزار رہی ہیں ۔بڑی بڑی کوٹھیوں میں لوڈ شیڈنگ بھی نہیں ہوتی کہ ان کے اپنے بجلی گھر ہیں ۔آرام دہ ائیر کنڈیشنڈ کاروں میں سارا سال موسم ِ بہار رہتا ہے۔ دنیا نے شاید پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے پیدا ہونے والے انسانی المیے پر توجہ دی ہو ہم نے نہیں دی ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے ہی نہیں کہ لاکھوں سیلاب زدگان کیسے جی رہے ہیں ۔میگا فلڈ سے جنم لینے والے انسانی المیے پر کوئی غور ہی نہیں کررہا۔

عمران خان کی حکومت آئی تو توقع تھی کہ شاید کوئی تبدیلی آئے مگرتبدیلی کےلئے بہت کچھ چاہئے ۔خاص طور پر مکمل اقتدار ضروری ہے ۔یعنی دوتہائی اکثریت ۔عمران خان کو یقین ہے کہ آئندہ الیکشن میں اسے عوام دوتہائی اکثریت کے ساتھ کامیابی دیں گے مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دوتہائی اکثریت مخالفین اسے آسانی سے حاصل نہیں کرنے دیں گے ۔اس وقت اس پوائنٹ پر کام کیا جارہا ہے کہ عمران خان کو دوتہائی اکثریت حاصل کرنے سے کیسے روکا جائے۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کےلئے ضروری ہے کہ الیکشن منصفانہ اور شفاف ہوں۔ یہی وہ سوال ہے جس کے اردگرد پاکستان کی سیاست گھوم رہی ہے۔ ایسے اقدامات کئے جارہے ہیں جس سے عمران خان کی مقبولیت میں کمی واقع ہو مگراثرات الٹ ہورہے ہیں۔ جو تعویذ بھی کیا جارہاہے، الٹا پڑ رہا ہے۔

مریم نواز کی سزا کالعدم قرار دے دی گئی۔ اسحاق ڈار وزیر خزانہ بنادئیے گئے ۔الیکشن سے پہلے نواز شریف کی واپسی کا امکان بھی ہے ۔مہنگائی میں بھی کمی کی کوششیں جاری ہیں ۔ڈالر بھی الیکشن سے پہلے پہلے دو سو روپے تک لایا جائے گا۔ان سب اقدامات سے پاکستانی سیاست میں کیا فرق پڑے گا ۔سچ یہی ہے کہ ابھی تک توتمام تر لیکس کےباوجود عمران خان کی عوام میں مقبولیت اسی طرح ہے ۔بلکہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔وزیراعظم ہائوس اس سلسلے میں خاصا پریشان ہے ۔ایک تو کمپیوٹر میں جتنا ڈیٹا تھا وہ چرالیا گیا ہے ۔پھر فون کالز کا ڈیٹا بھی اگلے لے اڑے ہیں ۔خاص طور پر ان دنوں وزیر اعظم ہائوس میں سائفرکی گمشدگی کا چرچا ہے ۔یہ وہی سائفر ہے جو سابق وزیر اعظم عمران خان نے اس وقت کے اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیجا تھا۔ا سپیکر نے جسے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس بھجوایا تھا ۔قاسم خان سوری نے تو اس کے اوپر لگایا گیا کورنگ لیٹر بھی شیئر کردیا ہے ۔یہ وہی سائفر ہے جسے وزیر اعظم شہباز شریف نے سیکورٹی کمیشن کی دوسری میٹنگ میں پیش کیا تھا۔جس میں سفیر کو بھی طلب کیا گیا تھا۔اس سائفر کے سفر کا آغاز وزارت ِ خارجہ سے ہوا تھا۔یقینا سائفر کاسفر خاصا طویل ہے ممکن ہے راستے کی بھول بھلیوں میں کہیں گم ہو گیا ہو ۔بہر حال بلیک مارکیٹ میں اس کی کاپیاں موجود ہیں ۔انٹرنیٹ کی وساطت سے کسی وقت بھی خریدا جاسکتا ہے ۔ ویسے میں حکومتی دانشوروں پر حیران ہوں کہ وہ سائفر جو کہیں فائلوں میں دفن ہو گیا تھا ۔اسے دوبارہ زندہ کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی تھی ۔خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب عمران خان اپنی احتجاجی تحریک شروع کرنے والے ہیں۔

آج اسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان سے ملاقات ہوئی ، میں نے انہیں اپنا ناول’’ آقا قافا‘‘ اور پروفیسر غلام سرور نیازی کا ناول ’’کچہ ‘‘ پیش کیا ۔انہوں نے بتایا کہ وہ میانوالی جارہے ہیں ۔سات اکتوبرکوعمران خان میانوالی آرہے ہیں ۔اس لئے میں پہلے جارہا ہوں تاکہ ان کے میانوالی کے دورے کے انتظامات وغیرہ کا جائزہ لوں ۔ میانوالی میں عمران خان دراصل اپنے حلقے میں جارہے ہیں ۔ کمر مشانی میں جلسہ کریں گے ۔اطلاعات یہی ہیں کہ عمران خان پھر سے ملک بھر میں جلسوں کاایک سلسلہ شروع کرنے والے ہیں ۔جن کا اختتام ایک لانگ مارچ کی صورت میں ہوگا جو آخر کار دھرنے کی شکل اختیار کرلے گا۔پنجاب ، خیبر پختون خوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومتیں بھی یقینا اس احتجاج میں انسانی وسائل فراہم کریں گی اور یہ ان کا حق ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس بار دھرنا اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی میں دیا جائے۔

پنجاب حکومت کی کارکردگی بھی روز بہ روز بہتر ہوتی جارہی ہے ۔نون لیگ کے بہت سےلوگ حکومت کے باوجود چوہدری پرویز الٰہی کے دامن میں جگہ تلاش کرتے پھرتے ہیں ۔کیوں ۔صرف اس لئے کہ کسی طرح اگلے انتخابات میں وہ دوبارہ کامیاب ہو سکیں۔سیلاب کے حوالے سے بھی وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے سردار عثمان بزدار سے ملاقات کے بعد کہا کہ جب تک سیلاب سے متاثر ہونے والے آخری آدمی کی بحالی نہیں ہو جاتی ۔میں چین سے نہیں بیٹھوں گا ۔وہ جنوبی پنجاب کے کئی دورے کر چکے ہیں۔ بلوچستان کے سیلاب زدگان کےلئے ہزاروں میٹرک ٹن گندم بھجوائی ہے۔بلوچستان میں افواجِ پاکستان نے بھی سیلاب کےلئے بہت کام کیا ہےمگر ملک خدا داد پاکستان مسلسل زوال کی کسی نحس گھڑی میں کھڑا ہے۔ستاروں کی چالیں بہتر ہوہی نہیں رہیں ۔مجھے نہیں لگتا کہ پرانے مداری کسی نئے جادو میں کامیاب ہوں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین