میرا تعلق خانوادہ نبوت کے رازداں صدیقی خاندان سے ہے جو آج بھی حجاز مقدس سے متعلق اور ہمارا تعلق آج بھی مدینہ منورہ سے قومیت کی حد تک باقی ہے۔ قیام پاکستان کے دوران ہمارا کردار قیام پاکستان اور مقاصد پاکستان کی ترویج کی تحریک میں سر فہرست رہا۔ میرے دادا الشاہ عبدالعلیم صدیقی رحمتہ اللہ علیہ قیام پاکستان سے پہلے بانی پاکستان کی تحریک پر پاکستان کی دنیا بھر میں سفارت کرتے رہے۔ میرے والد الشاہ احمد نورانی صدیقی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی قیام پاکستان سے لیکر بقائے پاکستان کے لیے تا دم آخر جو کردار ادا کیا وہ پاکستان کی تاریخ پر ثبت ہے۔
یہ تعلق ہمیشہ دو طرفہ رہا الحمدللہ جو عزت و شرف پاکستان کا مقدمہ عالمی فورمز پر لڑنے کے بدلے میں میرے والد امام الشاہ احمد نورانی رحمتہ اللہ علیہ کو ملا وہ پاکستان کی کسی شخصیت کے حصے میں نہ آ سکا۔ اس زمین کے باسیوں نے اگر کوئی نظریاتی اختلاف ہوا تو وہ تک پس پشت ڈال کر امام نورانی کو عزت اور احترام بخشا۔
سندھ ساگر کی ہزاروں سالوں پرانی تہذیب اور انسانی تاریخ کی اولین آبادکاری کا مقدمہ آج پھر ہمیں لڑنا ہے۔ اور اس مقدمے کی بساط بھر وکالت ان الفاظ کے ذریعے میں کرنا چاہتا ہوں۔ اس خطے جس کا نام پاکستان ہے اس نے گزشتہ سو سال میں عالمی سامراجی قوتوں کے ظالمانہ گناہوں کی قیمت بے تحاشہ ادا کی ہے۔ میرا مقدمہ یہ ہے کہ اب ہمیں انصاف چاہیے۔
ہماری کہانی انیس سو سینتالیس سے پہلے ہی مظالم سہنے سے عبارت ہے لیکن جنگ عظیم دوئم کے بعد جب یہ طے تھا کہ عالمی نو آبادیاتی نظام یہاں سے لپٹنا ہی ہے تو اس ذلت اور خجالت کی قیمت میرے خطے نے کم از کم بیس لاکھ لاشوں کی صورت میں اس لیے ادا کی کہ عالمی سامراجی برطانیہ کو اپنے بھیانک مقاصد کا حصول درکار تھا۔ ہمیں اس پرانصاف تو کیا ملتا ہمیں ہمارے جائز حق سے بھی محروم کر دیا گیا۔ ہمیں آج تک تقسیم کے وقت کے اثاثے نہ مل سکے۔ ہمارے جوناگڑھ ، مناودر، حیدرآباد دکن ، جموں اور کشمیر آج بھی اس تقسیم کے ہاتھوں ہمارا حق مانے
جانے کے باوجود بھارت کے قبضے میں ہیں۔
ہم نے دنیا کو سوشلزم کی سرخ آندھی سے بچایا افغانستان میں ہماری پالیسوں پر ہمیں خود بھی اختلاف ہے لیکن اس حقیقت کا کیسے انکار ممکن ہے کہ امریکہ اور روس کی جنگ کا ایندھن ہم بنے۔ لاکھوں افغان مہاجرین کی مہمان نوازی ہم نے کی لیکن مفاد نکلتے ہی ہمیں کلاشنکوف اور ہیروئین کے عذاب تلے دبا کر دنیا کے سامراجی بھاگ نکلے اور قیمت ہم نے ادا کی۔
پھر ہم نے تنکا تنکا جوڑ کر نہ جانے کتنے ہی مفادات قربان کر کے افغانستان اور پاکستان میں امن اور بقائے باہمی کا راستہ نکالا کہ امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر چند سو افراد کی ہلاکت نے ہم سے پھر خراج وصولا۔ ہم نے امریکہ کی دہشتگردی کے خلاف جنگ کی سب سے بھاری قیمت ادا کی۔ ہمارے بچے ذبح ہوئے ہمارے ایک لاکھ شہری شہید ہو گئے۔ ہماری معیشت تباہ ہو گئی۔ لیکن عالمی سامراج نے ہمیں اگر کچھ ادا بھی کیا تو اس ریزگاری کو یوں کھنکایا جیسے ہم خود ہی مجرم ہوں۔ اس چند ارب ڈالر کی امداد پر ہماراخون نچوڑنے والے آ ڈٹس کیے گئے۔ ہم نے عالمی امن کی خاطر یہ الزامات بھی سہہ لیے۔لیکن اب ہمیں زندہ رہنے کا حق درکار ہے اب ہمیں امداد نہیں انصاف چاہیے ہم نے دنیا کی بے پناہ ترقی کی قیمت اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کی شکل میں ادا کی ہے۔
دنیا بھر کی ماحولیاتی حرارت اور آلودگی میں لگ بھگ پچیس کروڑ آبادی کے ملک پاکستان کا حصہ اعشاریہ چار فیصد بھی نہیں جبکہ ہم دنیا کی آبادی کا دو اعشاریہ اسی فیصد سے زائد ہیں ۔ ہم دنیا کی دھواں اگلتی چمنیوں اور کھربوں ڈالروں کی معیشت کی قیمت ادا کر رہے ہیں ۔ پاکستان کے تباہ کن سیلابوں میں مرنے والا ہر بچہ آئی فون کی ٹیلی کام ایمپائر کی قیمت چکارہا ہے۔ پاکستان کے سیلاب میں منہدم ہر گھر نے عالمی کمپنیوں کی ترقی کی ادا کی ہے۔ ہمارا ہر اہل وطن جو آج سڑک پر بیٹھا اپنے ہی ملک میں دربدر ہے ۔
آئی ایم ایف جس لمحے ہمیں خون نچوڑنے والے سخت فیصلوں کو لاگو کرنے کا حکم سناتا ہے تو ہم کہاں فریاد لے کر
جائیں کہ ہم یورپ مشرق وسطی امریکہ چین جاپان اور بھارت کی ترقی کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ ہمیں اب قرض بھیک اور امداد نہیں انصاف چاہیے ۔ ہمیں دنیا کی ترقی کی قیمت اپنی قربانی سے ادا نہیں کرنی ہمیں زندہ رہنے کا حق چاہیے۔ ہمیں اپنے نقصان کا مداوا چاہیے ۔ اگر عالمی برادری ہمیں انصاف فراہم نہیں کرتی تو یاد رکھئے پچیس کروڑ آبادی جس کا ساٹھ فیصد سے زائد یوتھ پر مشتمل ہے اس ریاست پاکستان کی سرحدوں میں تڑپ تڑپ کر نہیں مرے گی بلکہ دنیا بھی اس کی قیمت ادا کرے گی۔