دنیا بھر میں مہنگائی وقتِ رواں کے اہم ترین سیاسی اور معاشی مسائل میں سے ایک ہے، لیکن افراط زر کی پیمائش کیسے کی جاتی ہے، یہ کہاں سے آتی ہے اور اس کا ایک اوسط فرد پر کیا اثر پڑتا ہے؟ اس بارے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ افراط زر میں اخراجات زیادہ اور قوت خرید میں کمی آنے کا امکان ہوتا ہے، اس کی بنیادی وجہ لوگوں کا عام ردعمل ہوتا ہے کہ قیمتوں میں کمی کا انتظار کرنے کی بجائے ابھی خریداری کرلینی چاہیے۔
چونکہ پیسے کی قدر میں کمی کا امکان ہوتا ہے، اس لیے وہ بہتر سمجھتے ہیں کہ ایسی اشیا کا ذخیرہ کریں جن کی قیمت کم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس صورتحال میں صارفین اپنے فریزر کو بھرنے، فیول بھروانے اور اپنے بڑھتے ہوئے بچوں کے لیے جلد نئے کپڑے خریدنے کا امکان رکھتے ہیں۔ خوش قسمتی سے کچھ ایسے اقدامات بھی ہیں جو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناظر میں اٹھائے جاسکتے ہیں۔
اگرچہ افراط زر میں اعتدال آ سکتا ہے، تاہم اخراجات میں کمی کرکے، آمدنی بڑھانے کے لیے زیادہ کام کرکے، اپنی بچتوں سے پیسہ نکال کے یا مزید قرض لے کر زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے نمٹا جاسکتا ہے۔ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ افراط زر کی پیمائش کیسے کی جاتی ہے اور یہ معیشت پر بڑے پیمانے پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے؟
افراط زر کیا ہے؟
افراط زر سے مراد اشیا کی قیمتوں میں عام اضافہ اور اس کے نتیجے میں پیسے کی قوت خرید میں کمی ہے۔ اگرچہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ روزمرہ خریداریوں سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ افراط زر زیادہ ہے یا کم، لیکن افراط زر کی شرح جو میڈیا میں رپورٹ کی جاتی ہے اور پالیسی سازوں کے ذریعہ بحث میں آتی ہے، وہ ایک مخصوص پیمائش ہے جسے ماہرینِ شماریات اور ڈیٹا اکٹھا کرنے والوں کی ایک ٹیم ترتیب دیتی ہے۔
مصنوعات اور خدمات کی قیمتیں مختلف طریقوں سے ریکارڈ کی جاتی ہیں اور قیمت جمع کرنے کی فریکوئنسی اور جغرافیہ کا انحصار اشیا پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایسی ایشیا جن کی قیمتیں تیزی سے تبدیل ہوتی ہیں جیسے کہ اشیائے خوردونوش یا پیٹرولیم مصنوعات، یا پھر جغرافیہ کے لحاظ سے کرائے میں فرق، ان کی قیمتوں کا ڈیٹا زیادہ حاصل کیا جاتا ہے بنسبت ان کے جن میں سالانہ بنیادوں پر تبدیلی آتی ہے جیسے کہ یونیورسٹی کی فیس یا بیمہ کی شرحیں۔
دوسرے مرحلے میں، ان قیمتوں کو جمع کیا جاتا ہے تاکہ ہر چیز کی قیمت میں تبدیلی کو صارفین کے کل اخراجات میں اس کے حصہ کے برابر وزن کر کے کنزیومر پرائس انڈیکس تیار کیا جا سکے۔ یہ اوزان صارفین کے اخراجات کے پیٹرن میں تبدیلیوں کی عکاسی کرنے کے لیے کبھی کبھار اَپ ڈیٹ کیے جاتے ہیں۔
کووڈ-19 کے دوران دیکھا گیا کہ عالمی وبا کے باعث لوگوں کی نقل و حمل میں کمی آئی جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹ سے منسلک کاروبار پر فرق پڑا جبکہ ماسک اور سینیٹائزر وغیرہ کی طلب اور قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ دنیا کے کئی ممالک کے ادارہ شماریات اور مرکزی بینک ’’بنیادی افراط زر‘‘ کی پیمائش کرتے ہیں جو سست رفتار، طویل مدتی لاگت کے دباؤ کا بہتر احساس فراہم کرنے کے لیے کنزیومر پرائس انڈیکس سے انتہائی غیر مستحکم قیمتوں (خوراک اور توانائی) والی اشیا کو نکال دیتے ہیں۔
مہنگائی کا سبب کیا ہے؟
قیمتوں کا تعین طلب اور رسد سے ہوتا ہے۔ بلند افراط زر اس بات کی علامت ہے کہ معیشت میں اشیا اور خدمات کی طلب ان کی رسد سے زیادہ ہے۔ یہ اشیا کی بڑھتی ہوئی طلب یا اشیائے صرف کی کمی کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ مہنگائی بعض اوقات حکومتی اخراجات کی وجہ سے رقم کی فراہمی میں اضافے کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔
روزگار کے مواقع اور اجرت میں اضافے، سستے قرضے اور گھر میں استعمال ہونے والی اشیا کی مانگ میں تبدیلیوں کی وجہ سے اشیا اور خدمات کی طلب بہتر رہتی ہے۔ فیکٹریوں، بین الاقوامی سپلائی چینز، کنٹینر شپنگ، ٹرکنگ کے وبائی مرض سے متاثر ہونے اور یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے دنیا بھر میں خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
مہنگائی کا زیادہ محسوس ہونا
صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے صارفین کو یہ لگتا ہے کہ ان کے ملک میں مہنگائی کی شرح پیش کیے گئے افراط زر کے اعدادوشمار سے زیادہ ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس کے طریقہ کار پر مخصوص تنقید کے علاوہ، اس کی کم از کم دو وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے، صارفین کے اخراجات کو سروے کے ذریعے ماپا جاتا ہے جس سے آبادی میں اخراجات کے پیٹرن کے تنوع کا اندازہ لگایا جاتا ہے، لیکن اس تنوع کو وزن کے ایک سیٹ میں اکٹھا کیا جاتا ہے، جو ہر روپے یا ڈالر کے اخراجات کو یکساں طور پر پیش کرتا ہے۔ عمر، آمدنی، مقام، گھریلو ساخت اور ذائقہ کے ساتھ اخراجات کے انداز مختلف ہوتے ہیں، اور آپ کا ذاتی بجٹ کنزیومر پرائس انڈیکس کے لیے استعمال ہونے والے وزن سے تھوڑا سا مشابہت رکھتا ہے۔
دوسرا، ہم اکثر ان اشیا کی قیمتوں میں تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہیں جو ہم اکثر و بیشتر خریدتے ہیں۔ ہم ان اشیا کی قیمتوں میں کمی سے زیادہ اُن میں اضافہ دیکھتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں جن اشیا کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جیسے کہ توانائی اور خوراک، ان میں یہ خصوصیات موجود ہیں جبکہ ہمیں فرنیچر، الیکٹرانکس وغیرہ میں افراط زر کی شرح اس حساب سے نظر نہیں آتی جیسے کہ خوراک اور توانائی میں ہوتی ہے۔
ہم مکانات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور شرح سود پر بھی بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں، خاص طور پر بڑے شہروں میں، لیکن دنیا میں کنزیومر پرائس انڈیکس میں ملکیتی رہائش کی قیمت مکانات کی قیمتوں کی تاریخی اوسط (25سال) اور شرح سود (پانچ سال) پر مبنی ہوتی ہے، جو کہ مالک مکان کی اوسط کے لیے طویل مدتی مالیاتی اخراجات کی عکاسی کرتا ہے، نہ کہ اس کے لیے جو آج گھر خرید رہا ہے۔
افراط زر ہم پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟
جب مہنگائی کی بات آتی ہے تو اس سے کچھ کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور کچھ نقصان اٹھاتے ہیں۔ افراط زر اُن کاروبار کو نقصان پہنچا سکتا ہے جو لاگت میں ہونے والا اضافہ اپنے صارفین کو منتقل کرتے ہیں جبکہ کچھ کاروبار ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں صارفین کے ردعمل کے بغیر وہ اپنی قیمتیں بڑھاکر فائدہ حاصل کرتے ہیں کیونکہ ’’ہر کوئی ایسا کر رہا ہوتا ہے‘‘۔ زیادہ افراط زر اکثر اجرت میں اضافے کا باعث بنتا ہے، لیکن ہمیشہ نہیں۔
ایسے افراد جن کی آمدنی مہنگائی کی شرح میں ہونے والے اضافے سے کم ہوتی ہے وہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جبکہ ان افراد کو فائدہ پہنچ سکتا ہے جن کی آمدنی مہنگائی کے مطابق ہوتی ہے یا جو بہتر آمدنی کے حصول کے لیے کچھ کرتے ہیں۔ لگی بندھی آمدنی والے افراد اکثر مہنگائی سے متاثر ہوتے ہیں۔
کچھ اثاثوں کی قیمتیں افراط زر کے ساتھ مطابقت رکھنے میں بہتر ہیں۔ ہاؤسنگ، اسٹاک، آرٹ اور قیمتی دھاتوں کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں، جبکہ فکس قیمتوں جیسے نقد اور بانڈز کے اثاثے نہیں بڑھتے۔ جب تک کہ اجرت یا دیگر اثاثوں کی قیمتیں برابر رہیں، افراط زر قرضوں کی ادائیگی کو آسان بنا سکتا ہے۔ مہنگائی حکومتی مالیات کو بھی فائدہ پہنچا سکتی ہے کیونکہ قرض کی کرنسی کی قیمت کے مقابلہ میں ٹیکس آمدنی بڑھ جاتی ہے۔ اگرچہ موجودہ افراط زر کا ذریعہ صارفین کے لیے غیر متعلقہ ہے، لیکن یہ اقتصادی پالیسی کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔
مرکزی بینکوں اور حکومتوں کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا شرح سود میں اضافہ کرکے، اخراجات میں کمی یا ٹیکسوں میں اضافہ کرکے طلب اور کساد بازاری کو روکنا ہے، یا پھر انتظار کیا جائے اور امید کی جائے کہ رسد کی وجہ سے ہونے والے افراط زر کا دباؤ خود ہی کم ہوجائے گا۔
ہم صرف یہ امید کر سکتے ہیں کہ بلند افراط زر کے اس دور کو ختم کرنے کے لیے یہ ایک بڑی کساد بازاری نہیں لے گا (بینک آف کینیڈا کی طرف سے افراط زر کو کم کرنے کے لیے آخری بڑی کوشش کے برعکس) اور یہ کہ کینیڈا "مستحکم" سے بچتا ہے، اعلیٰ افراط زر اور اعلیٰ بے روزگاری کے امتزاج سے۔ جس نے 1970 کی دہائی کے آخر میں بہت سی معیشتوں کو متاثر کیا۔
ہم صرف یہ امید کر سکتے ہیں کہ مہنگائی کے اس دور کو ختم کرنے کے لیے بڑی کساد بازاری نہیں دیکھنا پڑے گی اور ہم جمود کی شرح (stagflation) سے بچے رہیں۔ جمود کی شرح، جو کہ افراط زر کی زائد شرح اور بے روزگاری میں بےپناہ اضافے کا مجموعہ ہے، اس نے 1970ء کی دہائی کے آخر میں دنیا کی بہت سی معیشتوں کو متاثر کیا تھا۔