• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دُنیا بَھر میں ہرسال آرتھرائٹس اینڈ رہیموٹزم انٹرنیشنل کے زیرِاہتمام 12 اکتوبر کو ’’آرتھرائٹس کا عالمی یوم‘‘ مختلف تھیمز کے ساتھ منایا جاتا ہے، جس کا مقصد جوڑوں کی بیماریوں سے متعلق معلومات عام کرنا ہے۔اِمسال اس یوم کے لیے گزشتہ برس ہی کا تھیم"It's In Your Hands, Take Action" دہرایا گیا ہے۔ آرتھرائٹس یا جوڑوں کا درد ایک انتہائی تکلیف دہ مرض ہے، جس میں ہڈیوں کے جوڑ متوّرم ہوکر شدید درد کا باعث بنتے ہیں۔ اس کی مختلف اقسام ہیں۔ مثلاً آسٹیو آرتھرائٹس (Osteo Arthritis)، رہیوماٹائڈ آرتھرائٹس(Rheumatoid Arthritis) اور گاؤٹ آرتھرائٹس(Gout Arthritis) وغیرہ۔

تاہم، جوڑوں کے امراض میں سب سے عام آسٹیو آرتھرائٹس ہے، جو بڑھتی عُمر کا عارضہ ہے۔ دراصل ہڈیوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے والے مقام پر ایک ملائم اور کُرکُری ہڈی کارٹیلیج(Cartilage)کی ایک تہہ پائی جاتی ہے، جو کہShock Absorber Cushionکا کام انجام دیتی ہے، توعام طور پر بڑھتی عُمر یا پھر دیگر وجوہ کی بناء پر اس کارٹیلیج میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بیماری جسم کا وزن جھیلنے والے جوڑوں کو متاثر کرتی ہے، جیسے کولھوں، گُھٹنوں اور ریڑھ کی ہڈی وغیرہ کو۔ نیز، ہاتھوں اور پیروں کے جوڑبھی اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ مَردوں کی نسبت خواتین میں اس مرض کی شرح بُلند پائی جاتی ہے۔

ویسے یہ عارضہ40برس سے زائد عُمر میں لاحق ہوتا ہے، لیکن اگرفیملی ہسٹری میں شامل ہو، تو کم عُمر افراد بھی شکار ہوسکتے ہیں۔ بعض کیسز میں کوئی بیماری، چوٹ یا پھر موٹاپا بھی وجہ بن جاتا ہے۔ واضح رہے، موٹاپے کو گُھٹنے کے جوڑوں کا قاتل بھی کہا جاتا ہے، وہ اس لیے کہ وزن میں اضافے کی صُورت میں گُھٹنے کے جوڑوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل وقت سے پہلے اور زیادہ شدّت سے شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر بار بار جوڑوں پر دباؤ پڑتا رہے، خاص طور پر سیڑھیاں اُترنے چڑھنے، دوزانو بیٹھنے اوربعض کھیل مثلاً اسکواش، ٹیبل ٹینس کھیلنے یا خاصی دیر تک دوڑنے(long Running) سے بھی قبل از وقت کارٹیلیج قبل از وقت میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوسکتاہے۔

آسٹیو آرتھرائٹس کی ابتدا میں ہڈیوں، جوڑوں میں درد کم محسوس ہوتا ہے، مگر بتدریج درد کی شدّت میں اضافہ ہو تا چلاجاتا ہے۔اس کے علاوہ جوڑ سخت اور جکڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، خاص طور پر صُبح اُٹھنے کے بعد یا زیادہ دیر آرام کرنے کے بعد چلنے پِھرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ تاہم، آرام کرنے سے درد کی شدّت کم ہو جاتی ہے۔ نیز، مریض کے لیےسیڑھیاں اُترنا چڑھنا، دوزانو بیٹھنا اور کسی سواری میں بیٹھنا، اُترنا ایک تکلیف دہ امر بن جاتا ہے۔ 

بعض اوقات جوڑوں میں حرکت کے دوران کڑکڑانے کی آوازیں (Crackling Sounds) بھی آتی ہیں، جیسے خشک کاغذ مروڑا جارہا ہو۔ تشخیص کے لیے فیملی ہسٹری اور طبّی معائنے کے بعد اِسی مناسبت سے ایکس رے یا پھر دیگرٹیسٹس تجویز کیے جاتے ہیں۔ ویسےعام طور پر ایکس رے کے ذریعے ہی حتمی تشخیص ہوجاتی ہے۔ یہ بیماری عُمر کے ساتھ بڑھتی ہے، لیکن اگر معالج کی ہدایات پر سختی سے عمل کے ساتھ اپنا خاص خیال رکھا جائے، تو ایک بہتر اور درد سے آزاد زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ اگر علاج کا ذکر کریں تو اسے دو حصّوں میں منقسم کرسکتے ہیں۔ 

پہلا حصّہ"Non Pharmacological Teatment"کہلاتا ہے۔ علاج کے اس حصّےمیں چند ہدایات پر عمل ضروری ہے۔ جیسا کہ سب سے پہلا اور اہم کام وزن کم کرنا ہے کہ اگر صرف چند کلو بھی وزن کم کرلیا جائے، تو درد کی شدّت میں خاصی کمی واقع ہوجاتی ہے، پھر ورزش کو معمول بنالیں۔ اس ضمن میں آرتھوپیڈک یا فزیوتھراپسٹ کے مشورے سے جوڑوں کی مخصوص ورزشیں کی جاسکتی ہیں، جو درد اور جوڑ کی سختی یا اکڑاہٹ کم کرنے میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ نیز، سیڑھیاں اُترنے چڑھنے اور دوزانو بیٹھنے سے اجتناب برتا جائے۔ اگر ضرورت ہو، تواسٹک اورKnee Brace کا استعمال کریں، ویسے سائیکل چلانا، تیراکی اور پیدل چلنا زیادہ بہتر ورزشیں ہیں۔

نیوٹریشنل میڈیسن کی افادیت سے بھی انکار ممکن نہیں، لیکن اُن کے استعمال کا فیصلہ ایک معالج ہی اپنے تجربے کی بنیاد پر بہترطور پر کر سکتا ہے۔ اگر جوڑ بہت زیادہ خراب ہو چُکے ہوں، کسی صُورت درد میں افاقہ نہ ہو اور معمولاتِ زندگی متاثر ہورہے ہوں، تو بہتر ہوگا کہ سرجری کروالی جائے،جو مرض کی نوعیت کی مناسبت سے کی جاتی ہے۔ اگرجوڑ میں نقص کم ہو، تو عام طور پرہڈی میںکٹ لگایا جاتا ہے ،جسے High Tibial Osteotomy کہتے ہیں،جب کہ نقص زیادہ ہونے کی صُورت میں پورا جوڑ(Total Knee Replacement) بدل دیا جاتا ہے۔

دوسرا حصّہ "Pharmacological Teatment"ہے، جس میں معالج کے مشورے سے درد کی شدّت کم کرنے کی ادویہ استعمال کی جاتی ہیں۔ ادویہ کا طویل عرصے تک استعمال نقصان کا باعث بن سکتاہے، اس لیے ضروری ہے کہ معالج کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا جائے۔ بعض کیسز میں جوڑ میں انجیکشن بھی لگائے جاتے ہیں، لیکن ان سے کتنے عرصے تک کتنا فائدہ ہوتا ہے، یہ بتانا مشکل ہے، کیوں کہ بعض کیسز میں کم اور بعض میں زیادہ عرصے تک درد سےافاقہ رہتا ہے۔

اللہ تعالی نے ہمیں مختلف بیماریوں اور جراثیم سے بچانے کے لیے مدافعتی نظام عطا کیا ہے، اگر خدانخواستہ کسی بھی وجہ سے یہ نظام اپنے ہی خلیات کے خلاف کام کرنا شروع کردے، تو کوئی نہ کوئی مرض لاحق ہوجاتا ہے۔ رہیوماٹائڈآرتھرائٹس بھی آٹو امیون مرض ہے، جس میں مدافعتی نظام کی خرابی کی وجہ سے جوڑوں میں سوزش کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کا آغاز جوڑوں کی جھلّی (Synovitis) سے ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ جوڑ اور سافٹ ٹشوز بھی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔

نیز، آنکھیں، پھیپھڑے، جِلد اور جسم کے دیگر اعضا بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ ابتدائی علامات میں ایک سے زائد، خاص طور پر ہاتھ کی انگلیوں کے جوڑوں میں درد اورسختی محسوس ہوتی ہے اور جوڑ متوّرم ہوجاتے ہیں۔ بعد ازاں، دوسرے ہاتھ اور پھرگھٹنے، کہنی اور کلائی کے جوڑوں میں بھی درد اور سُوجن شروع ہو جاتی ہے۔ صُبح اُٹھنے کے بعد کم از کم ایک گھنٹے تک جوڑوں میں اس قدر درد اور سختی محسوس ہوتی ہے کہ چلنا پھرنا اور دیگر امور انجام دینا مشکل ہوجاتا ہے۔

دیگر علامات میں کم زوری، تھکاوٹ اور وزن کم ہوجانا شامل ہیں۔ رہیوماٹائڈآرتھرائٹس میں اکثر علامات بہتر ہونے کے بعد اچانک تیزی سے پلٹ آتی ہیں اور زیادہ شدّت کا باعث بنتی ہیں۔ یہ بیماری عُمر کے کسی بھی حصّے میں لاحق ہوسکتی ہے، لیکن 50سے 60سال کی عُمر کے افراد میں امکانات زیادہ ہوتے ہیں، جب کہ خواتین میں اس کی شرح مَردوں کی نسبت 3گُنا زائد پائی جاتی ہے۔ ویسے یہ مرض لاحق ہونے کی زیادہ تر وجہ موروثیت ہے، تاہم تمباکو نوش اور فربہی مائل افراد بھی خطرے کی زد میں رہتے ہیں۔ مرض کی تشخیص میں فیملی ہسٹری، طبّی معائنہ، بلڈ ٹیسٹس اور ایکس رے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ 

اگر بروقت تشخیص کے بعد فوری علاج شروع کردیا جائے، تو جوڑوں کو مستقل نقصان سے بچایا جا سکتا ہے، لیکن زیادہ ترمریض جوڑوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کے بعد ہی معالج سے رجوع کرتے ہیں۔ علاج کا دورانیہ برسوں پر محیط ہے، لہٰذا مریضوں کو چاہیے کہ اپنے معالج کی ہدایات پر سختی سے عمل کریں اور سیلف میڈی کیشن سے اجتناب برتیں۔ دورانِ علاج مختلف اقسام کی ادویہ تجویز کی جاتی ہیں، جو مرض کو کنٹرول کرنے کے ساتھ جوڑوں کو مستقل نقصان سے بچاتی ہیں۔

اس کے علاوہ مختلف اوقات میں خون کےٹیسٹس بھی کروائے جاتے ہیں۔ اگر ادویہ مؤثر ثابت نہ ہورہی ہوں،تو پھربائیولوجیکل ادویہ جو کہ نسبتاً منہگی ہوتی ہیں، تجویز کی جاتی ہیں۔ کون سی دوا کب دینی ہے اور کب ان کا استعمال بند کرنا ہے، اس کا فیصلہ مریض کی کیفیت اور علامات کے مطابق کیا جاتا ہے، جو صرف مستند معالج ہی کرسکتا ہے۔ مریضوں کو چاہیے کہ وہ باقاعدگی سے، خصوصاً جوڑوں کی مخصوص ورزش کریں، پیدل چلیں اور اپنا وزن کم کریں۔

گاؤٹ آرتھرائٹس خون میں یورک ایسڈ بڑھنے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ خون میں فاسد مادّے یعنی یورک ایسڈ کی مقدار بڑھنےسے یورک ایسڈ کے کرسٹلز جوڑوں میں جمع ہو کر انہیں متوّرم کر دیتے ہیں۔ عام طور پر اس مرض سے پائوں کے انگوٹھے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ سوزش کی وجہ سے انگوٹھے کا جوڑ سُرخ ، متوّرم ہوجاتاہے اور شدید درد محسوس ہوتا ہے۔ گاؤٹ آرتھرائٹس میں بھی بسا اوقات مریض بالکل ٹھیک ہوجاتا ہے، لیکن پھر اچانک ہی شدید درد شروع ہو جاتا ہے۔ شدید درد چند دِنوں سے کئی ہفتوں تک محسوس ہوسکتا ہے اور آرام آنے کا دورانیہ بھی مہینوں پر محیط ہوتا ہے۔ 

یہ مرض مَردوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے، جب کہ موٹاپا، بعض ادویہ، مختلف امراض، تمباکو نوشی، الکحل اور ایسی غذاؤں کا استعمال، جن میں purine زائد مقدار میں موجود ہو(جیسے سُرخ گوشت، گُردے اور دِل وغیرہ)مرض لاحق ہونے کی وجہ بنتے ہیں۔ تشخیص کے لیے ایکس رے اورعلامات کے پیشِ نظر لیبارٹری ٹیسٹ تجویز کیے جاتے ہیں۔ علاج کے ضمن میں درد کی شدّت اور یورک ایسڈ کی مقدارکم کرنے کے لیے ادویہ تجویز کی جاتی ہیں، جب کہ اُن تمام غذاؤں سے پرہیز بھی ضروری ہے، جن میں Purine کی زائد مقدار پائی جاتی ہو۔ (مضمون نگار، معروف آرتھوپیڈک سرجن ہیں اور بقائی میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی سے منسلک ہیں، نیز، اشفاق میموریل اسپتال،گلشنِ اقبال،کراچی میں بھی خدمات انجام دے رہے ہیں)