• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ملک میں عجیب صورتحال بنی ہوئی یا بنا دی گئی ہے۔ ہر پاکستانی یہ سوچتا ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ یہ صورتحال ملک کے معاشی اور سفارتی معاملات کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے ۔

سیاسی مفادات کےاس کھیل نے سیلاب زدگان، سیلاب سے نقصانات اور معاشی بہتری کی کوششوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ملک میں ہر طرف سائفر، لیکس، بیانات اور دھمکی آمیز تقاریر کا نہ ختم ہونیوالا شوروغوغا ہے۔

مجال ہے کسی کو ملکی حالات کی ذرہ بھربھی فکر ہو۔یہ کیسے سیاستدان اور بعض خودساختہ رہنما ہیں جو محض اپنے مفادات کے لیے ملک کی سلامتی وبقا، عزت وناموس، معاشی بہتری اور قومی مفادات کو قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

 جہاں تک سیلا ب زدگان کا تعلق ہے حکومت ان کی مدد کے لئے اپنی سی کوششیں تو کررہی ہے لیکن کروڑوں لوگوں تک مدد پہنچانا اور ان کی دوبارہ آبادکاری ایسے مسائل ہیں کہ دنوں یا مہینوں میں حل ہونے والے نہیں ہیں، اس لئے اس بارے میں حکومتی کوششیں آٹے میں نمک برابر نظر آرہی ہیں۔

دوسری طرف عمران خان نے ملک و قوم سے اپنے سیاسی مفادات اور خواہشات بالا رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے اثرات سے نہ صرف سیلاب زدگان بلکہ قوم متاثر ہورہی ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ پاک فوج اپنے سیلاب زدہ ہم وطنوں کے شانہ بشانہ کھڑی دن رات ان کی ہر طرح مدد کرنے میں مصروف ہے۔ ورنہ نجانے حالات اس سے بھی کتنے زیادہ ابتر ہوتے۔ پاک فوج کی ان کوششوں کی نہ صرف پوری قوم بلکہ ساری دنیا معترف ہے۔

جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے ان کی مشکلات میں ہر روز نیا اضافہ ہورہا ہے۔ ان کے لئے وقت کے ساتھ ساتھ میدان تنگ اور حالات گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ صورتحال کواس نہج پر پہنچانے میں ان کے سیاسی معاملات اور دائو پیچ سے نابلد ہونے کے علاوہ ان کے بعض ساتھیوں کا اہم کردار ہے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ ان پر لگے الزامات میں کتنی صداقت ہے۔

لیکن یہ پوری قوم کو پتہ چل گیا ہے کہ خان صاحب سیاسی معاملات کو سیاسی انداز سے چلانے کے فن سے نہ صرف نابلد ہیں بلکہ یہ خود ان کے اور ان کی سیاست کے لئے نقصان دہ ہے۔ سیاستدانوں کو سوچنا اور سمجھنا چاہیے کہ اگر یہ سلسلہ مزید کچھ وقت چلتا رہا تو یہ ملک اور سیاست کے لئے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

سفارتی مراسلے میں ٹمپرنگ اور ردوبدل کرنا اور کسی ملک کو اس معاملے میں ملوث یا بدنام کرنا ایک سنگین غلطی اور ملکی مسائل میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ آڈیوز کے سامنے آنے سے بہت سے حقائق بھی قوم کے سامنے آگئے ہیں کہ کس طرح صرف سیاسی مفادات کے لئے خارجہ تعلقات اور ملکی مفادات کو دائو پر لگانے کی کوششیں کی گئیں۔ ان حقائق کو کون اور کیسے جھٹلا سکتا ہے؟

سائفر کو گم کردینا ایک الگ غلطی ہے بعض ریاستی رازوں کو پوشیدہ رکھنا ملک کے لئے کتنا اہم ،ضروری اور لازم ہے شاید ان کو اس کا بھی علم نہیں تھا۔ علاوہ ازیں ایسے خفیہ رازوں کو افشا کرنا اور عوام میں اس کی تشہیرکرنا کتنا بڑا جرم ہے شاید وہ اس سے بھی بے خبر تھے ان کے بعض قریبی ساتھیوں نے جن کو یہ سب قوانین معلوم ہیں بھی، ان کو ان سے بے خبر رکھ کر نہ صرف ملک کو بلکہ خود عمران خان کو اندھے کنوئیں میں دھکا دینے میں اہم کردار کیا ہے۔

 آڈیوز سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے۔ بعض وقتی مفادات حاصل کرنیوالے نام نہاد’’ دانشور‘‘ اور کچھ میڈیا ہائوسز مالکان حاصل کئے اربوں روپے اور دیگر مفادات کو ہضم کرنے کی کوششیں کررہے ہیں ، سب عمران خان کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے اور اس عمل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ ممکن ہے کہ مناسب وقت پر ایسے مفاد پرستوں کوبھی لگام ڈالی جائے۔

جن لوگوں نے عمران خان کی سیاست کے معاملات سے ناواقفیت اور ان کے اپنے مفادات کے حصول اور خواہشات کی حسب منشا تکمیل کے لئے ان کی اندھا دھند دوڑ کو سمجھا اور ان کو گہری کھائی میں دھکا دیا وہ اب بھی ان کو بھڑکانے اور ان سے غلطی پر غلطی کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن وہ بھی اس سے بے خبر لگتے ہیں کہ کبھی دھکا دینے والا خود بھی ساتھ ہی گر جاتا ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ ہو شیار پرندہ جب پھنستا ہے تو جال میں اس کے دونوں پر آجاتے ہیں اور اس کو تب پتہ چلتا ہے جب وہ جال میں پھنس جاتا ہے۔ یہی صورتحال عمران خان کو غلط مشورے دینے، بھڑکانے اور ان کو دھکا دینے والوں کے ساتھ بھی ہوگی۔

عمران خان کو یہ خوش فہمی یا غلط فہمی ہے اور پتہ نہیں اس کے پیچھے کون ہے کہ وہ اداروں پر دبائو ڈال کر اپنے من پسند فیصلے کرانے پر انہیںمجبور کرسکتے ہیں۔ کبھی وہ گریباں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکامی دیکھ کر فوراً ہی پیر پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کا کوئی بھی حربہ کامیاب نہیں ہوسکا۔

ان کو یہ رویہ ترک کردینا چاہیے اور یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ریاستی ادارے ملکی مفادات کوسامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں کسی کی خواہش یا دبائو کے تحت نہیں ۔ بلکہ اکثر ایسی کوششوں کے مابعد اثرات بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔

یقین کیا جاسکتا ہے کہ عدالتیں بھی شخصیت نہیں بلکہ ملک و قوم کے مفاد میں بہترین فیصلے کریں گی۔ حکومت نے بھی اب سخت قانونی وآئینی فیصلے کرنے کا تہیہ کر لیا ہے اور اگلے چند دنوں میں نتائج بھی سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ سنبھلنے کا اب بھی وقت ہے اگر کوئی سمجھے تو۔

تازہ ترین