مولانا شعیب احمد فردوس
رُشدوہدایت کا مثالی سرچشمہ ،نسخۂ کیمیاء،کتابِ مبین ،قرآنِ کریم سرورِ کائنات حضرت محمدﷺکے خلقِ عظیم اورسیرتِ طیبہ کا بے مثال سرچشمہ ہے۔چناں چہ حضرت آدم علیہ السلام کی انابت، حضرت نوح علیہ السلام کی استقامت، حضرت شیث علیہ السلام کی معرفت، حضرت ہود علیہ السلام کی لطافت، حضرت صالح علیہ السلام کی صالحیت،حضرت لوط علیہ السلام کی حکمت، حضرت یونس علیہ السلام کی توبہ و تواضع، حضرت شعیب علیہ السلام کی خطابت، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خلّت( دوستی) حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تسلیم ورضا، حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر، حضرت یعقوب علیہ السلام کا توکل اور اعتماد علیٰ اللہ، حضرت یوسف علیہ السلام کا جمال، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جلال، حضرت الیاس علیہ السلام کا وقار، حضرت داؤد علیہ السلام کی تسبیح و تہلیل،حضرت سلیمان علیہ السلام کی معاملہ فہمی اور شاہانہ اولوالعزمی، حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پاک دامنی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کازہد و قناعت، یہ وہ مقدس و معطرپھول ہیں کہ جنہیں گل دستے کی شکل دی جائے، یا یوں کہا جائے کہ یہ وہ موتی ہیں کہ جب انہیں ایک لڑی میں پرویا جائےتو جو نام نامی اسم گرامی بنتا ہے ،وہ فخر موجودات، وجہ وجود کائنات، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین حضرت محمدﷺ کا ہے، اس حوالے سے کیا خوب کہا گیا ہے:۔
حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ ،یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
’’ربیع الاول‘‘ کی وہ کیسی خوش گوار، پُر انوار، رونق افروز صبح صادق تھی جو ایسے ’’صادق وامینﷺ‘‘ کی دنیا میں تشریف آوری کے ساتھ طلوع ہوئی جن کے مبارک چہرے کو ’’والضحیٰ‘‘ کہا گیا، جن کی زلفوں کو’’واللیل‘‘ کہا گیا، جنہیں ’’ورفعنا لک ذکرک ‘‘ کی خلعت پہنائی گئی، جنہیں شفاعتِ کبریٰ کا تاج پہنایا گیا،’’ انّااعطینٰک الکوثر‘‘ کی نوید سنائی گئی، مقام محمود کی عطا کا جن سے وعدہ کیا گیا، جن کے ہدایت کے روشن چراغ ہونے کو’’ سراجاً منیرا‘‘ سے تعبیر فرمایا گیا، کہیں ’’ داعیاً الیٰ اللہ‘‘ کے مبارک لقب سے آراستہ کیا گیا، تو کبھی ’’مزمل‘‘ اور’’مدثر‘‘ جیسے پیارے ناموں سے پکارا گیا۔آپ ﷺ کی آمد با سعادت ہوئی، دنیا کے ظلمت کدے میں ایمان کی قندیلیں روشن ہونے کا وقت آیا، وہ صبح صادق نمودار ہوئی جس کے بعد سے کفر و معصیت کی خزاں ایمان واطاعت کی بہار سے بدلنے لگی۔
بزم عالم مہک اٹھی، مرادیں بر آئیں، کائنات کا ذرہ ذرہ جگمگا اٹھا، ہادیِ عالم ﷺ کی آمد ہوئی، شفیع امم آئے، شہریارِ حرم آئے، نورِ ہدیٰ آئے، احمد مجتبیٰ آئے، محمد مصطفیٰ ﷺ آئے، شاہدآئے، مبشرآئے، بشیر آئے، نذیر آئے، خیر مجسم آئے، وارث ِزم زم آئے، ساقیِ کوثر آئے، شافع محشر آئے، طاہر آئے، مطہّرآئے، شریف سیرت آئے، نسیم جنت آئے، رحیم امت آئے۔ فقیروں کو پناہیں ملیں، درد مندوں کو دوائیں ملیں،غم زدوں کی غم خواری ہوئی، مسکینوں کو ہم درد ملا، یتیموں کو سہارا ملا، آپ ﷺ کاظہورِ قدسی ہوا، آپ ﷺ کو نبوت ملی، امت کو سنت ملی، آپﷺ کو رسالت ملی، امت کو ہدایت ملی۔
مساوات کا حامی آیا، اخوت کا بانی آیا، شفاعت کا اپنے سر پر تاج رکھنے والا، اور اپنے نام لیواؤں کی لاج رکھنے والا آیا، زہریلے ہونٹوں کو میٹھے بول دینے والا آیا، صنم آشناؤں کو عبدیت خداوندی سے آشنا کرنے والا آیا۔ عالم انسانیت کا وہ عظیم انسان آیا جس نے پوری انسانیت کوجینے کا شعور وآگہی دی۔ عالم بشریت کا وہ عظیم بشر آیا جس نے بشر کو ’’ شر‘‘ اور’’ خیر‘‘ میں امتیاز کرنا سکھایا۔
جفا سرشتوں کو’’وفا پرستی‘‘ کا درس دیا، پیام موت بن کر حملہ آور ہونے والوں کو پیام حیات دیا، ’’ مردم آزاروں‘‘ کو مردم آزاری سے ہٹا کر’’ مردم نوازی‘‘ پر لگایا۔ اوروں کے واسطے سیم و زر وگوہر لٹائے اور خود بادشاہی میں فقیری کی۔ در در بھٹکنے والوں کو خدائے بے نیاز کے حضور جبین نیاز جھکانے کی تعلیم دی۔ گرتے ہوؤں کو تھاما، بے کسوں کی دستگیری فرمائی،باب جہالت بند کیا اور علم کے دفتر وا کئے۔
قدم قدم پہ رحمتیں نفس نفس پہ برکتیں
جہاں جہاں سے وہ شافع عاصیاں گزر گیا
جہاں نظر نہ پڑ سکی وہیں ہے رات آج تک
وہیں وہیں سحر ہوئی جہاں جہاں گزر گیا
نبی اکرم شفیع اعظم حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی صورت میں جمال اور سیرت میں کمال ہے۔ جتنے انبیائےکرام علیہم السلام تشریف لائے ،وہ سب اپنے اپنے زمانے کے نبی اور آپ ﷺ تا قیام قیامت سارے زمانے کے نبی ہیں۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام اپنی اپنی قوم کے لئے ہادی بن کر آئے تو نبی کریم ﷺ ہادیِ عالم بن کر تشریف لائے۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام صفات جمیل و جمال کا مظہر ہیں تو نبی کریم ﷺ ان سب سے ’’اجمل‘‘ ہیں۔
جماعت انبیائے کرام علیہم السلام کا ہر ہر فرد’’شریف‘‘ ہے، تو آپ ﷺ ’’اشرف الانبیاء‘‘ ہیں۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام ’’ کامل‘‘ ہیں تو ساقیِ کوثر، شافع محشر، صاحبِ خلق عظیم، رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺسب میں’’کامل و اکمل‘‘ ہیں۔