• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں مئی 1998سے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے سربراہ کی حیثیت سے کام کر رہا تھا ۔ مجھے سانحہ کارگل کا اچھی طرح علم تھا لیکن اس کی کوکھ سے جنم لینے والی صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔ چند ہفتے پہلے وزیر اعظم محمد نواز شریف نے مجھے طلب فرما کر پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی صاحب کی موجودگی میں ایک بڑے عہدے پر کام کرنے کا حکم دیا جس کے لئے میں نےکچھ مہلت مانگی ۔ 11 اکتوبر کو رات ساڑھے دس بجے جب وزیر اعظم نے فون پر مجھے ملتان ساتھ چلنے اور کچھ باتیں کرنے کی دعوت دی تو میں سمجھا کہ مجوزہ نئی ذمہ داری کے حوالے سے کچھ ارشاد فرمائیں گے ۔ صبح 9.30بجے میں اسلام آباد ائیر پورٹ پہنچ گیا اور جہاز میں اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔ 2 منٹ بعد وزیر اعظم بھی پہنچ گئے اور اپنی نشست پر بیٹھ گئے ۔ ان کے ساتھ ان کے بڑے بیٹے حسین نواز بیٹھے تھے۔ جہاز میں وزیراعظم کے سیکورٹی چیف ، ملٹری سیکرٹری، پرویز رشید اور نذیر ناجی بھی موجود تھے۔ وزیر اعظم کے ہاتھ میں تقریر کا مسودہ تھا اور وہ وقفوں وقفوں سے اپنےبیٹے حسین نواز سے تبادلۂ خیال کر رہے تھے۔ جہاز ملتان ائیر پورٹ پہنچا تو وزیر اعظم کی ہدایت پر حسین نواز ، پرویز رشید اور نذیر ناجی ائیر پورٹ پر ہی رک گئے اور باقی لوگ وزیر اعظم کی قیادت میں 3 ہیلی کاپٹروں پر جلال پور پیر والا روانہ ہوگئے۔ وزیر اعظم نے یہاں دریائے چناب پر ایک پشتے کی تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا، موقع پر موجود حاضرین سے خطاب کیا اور شجاع آباد روانہ ہو گئے جہاں رکن قومی اسمبلی سید جاوید شاہ نے ایک بڑے جلسہ عام کا انتظام کر رکھا تھا۔ پروگرام کے مطابق تلاوت کلام پاک ، اردو اور پنجابی زبانوں میں نعتیہ کلام پیش کرنے کے بعد ، جاوید علی شاہ نے سپاس نامہ پڑھا اور پھر وزیر اعظم نے ایک طویل تقریر کی۔ انہوں نے دیگر باتوں کے علاوہ کپاس کے کاشت کاروں کو بتایا کہ اسلام آباد سے روانگی سے پہلےانہوں نے 3 ارب روپے کی سبسڈی منظور کی ہے۔ سارا پروگرام اپنی فطری رفتار سے چلا اور مکمل ہونے کے بعد ہم لوگ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ملتان ائیر پورٹ پہنچے ۔ پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ’’وزیر اعظم کو شجاع آباد کے جلسے میں کوئی فون آیا تھا اور وزیر اعظم عجلت میں جلسہ چھوڑ کر اسلام آباد روانہ ہو گئے۔‘‘جو بالکل غلط ہے ۔اسلام آباد ائیرپورٹ پر سیکرٹری دفاع مرحوم لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ چوہدری افتخار علی خان اور کمشنر راولپنڈی نے وزیر اعظم کا استقبال کیا ۔ سعید مہدی ائیرپورٹ کے راستے میں ہی تھے ۔ انہیں وزیر اعظم ہاؤس پہنچنے کا کہہ دیا گیا۔ وزیر اعظم نے سیکرٹری دفاع اور ملٹری سیکرٹری کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور پونے چار بجے کے قریب پرائم منسٹر ہاؤس پہنچے تو سعید مہدی صاحب کو منتظر پایا۔سعید مہدی ، سیکرٹری دفاع اور ملٹری سیکرٹری کو ساتھ لے کر الگ بیٹھ گئے ۔ یہاں پرویز مشرف کی ریٹائرمنٹ اور خواجہ ضیا الدین کو چیف آف آرمی اسٹاف ، فور سٹار جنرل بنانے کا نوٹیفکیشن تیار ہوا ۔ وزیر اعظم نے اس پر دستخط کئے اور صدرِ مملکت کے دستخط کروانے ایوانِ صدر چلے گئے۔ جنرل ضیا الدین کو سٹار لگا دئیے گئے ۔ دو سٹار ملٹری سیکرٹری نے اپنے کندھوں سے اتار کر جنرل صاحب کو لگائے کیوں کہ دو سٹار کم پڑ رہے تھے۔پی ٹی وی نے اس کارروائی کی عکس بندی کی لیکن جب خبر چلانے کیلئے ٹیم پہنچی تو ایک میجر کی سربراہی میں 8 کمانڈوز نے پی ٹی وی پر قبضہ کر کے نشریات روک دیں۔ ایم ڈی پی ٹی وی نے وزیر اعظم ہاؤس کو ٹیلی فون پر اس کی اطلاع دی ۔ انہوں نے بریگیڈیئر جاوید کو صورت حال کا نوٹس لینے کا حکم دیا ۔ وہ اپنے ساتھ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا پولیس اسکواڈ لے کر پہنچے ۔ ایک پولیس والے سے پستول لے کر جیب میں رکھا ۔ ٹیلی ویژن اسٹیشن پہنچ کر میجر پر پستول تان کر اس کا اسلحہ لے لیا ۔ باقی سب نے ہتھیار ڈال دئیے ۔ انہیں ایک کمرے میں بند کیا اور نشریات جاری کروا کے پرویز مشرف کی ریٹائرمنٹ اور ضیاء الدین کے آرمی چیف بننے کی خبر نشر کروا دی۔ اس کے فوراً بعد فوجیوں کی بڑی تعداد نے پی ٹی وی ، ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت پی ایم ہاؤس میں وزیراعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ، جنرل ضیاء الدین، جنرل اکرم اور حسین نواز موجود تھے۔ رات 9 بجے کے قریب لیفٹیننٹ جنرل محمود، میجر جنرل علی جان اورکزئی دو درجن کے قریب مسلح کمانڈوز کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس پہنچے اور جارحانہ انداز میں کہا ،’’آپ نے یہ کام کیوں کیا؟‘‘ وزیر اعظم نے کہا،’’یہ میرا آئینی حق ہے۔ آپ کو پوچھنے کا کوئی حق نہیں ۔آپ نے ٹیک اوور کر لیا ہے ، لہٰذا آپ نے جو کرنا ہے کریں ۔‘‘ اس پر جنرل محمود نے کہا،’’ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں اور میں یہ کہنے آیا ہوں کہ مشرف صاحب کی ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن واپس لیں ۔‘‘ وزیر اعظم نے انکار کیا ۔ اور پھر یہ لوگ وزیر اعظم کو کور ہیڈ کوارٹر میس میں لے کر چلے گئے۔ وہاں یہی دونوں جنرل دوبارہ وزیر اعظم کے پاس آئے اور اسمبلیاں توڑنے کی ایڈوائس پر دستخط کرنے کا کہا ۔ وزیر اعظم نے پڑھ کر کہا Over My Dead body اور کاغذ اٹھا کر پھینک دیا۔ جنرل پرویز مشرف کارگل سے فوجوں کی واپسی کا ذمہ دار نواز شریف کو قرار دیتے تھے جب کہ ان کے دوست امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل ٹونی زنی نے 2004میں شائع ہونے والی اپنی کتاب BATTLE READY میں لکھا ہے ،’’ کارگل سے فوجوں کی واپسی پر پرویز مشرف نے نواز شریف کو مجبور کیا تھا۔‘‘ ایڈمرل فصیح بخاری نے ساوتھ ایشیا ٹریبون کو انٹرویو میں بتایا کہ انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ پرویز مشرف نے شریف حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لئے میں نے ایک ہفتہ پہلے 5 اکتوبر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

(صاحب مضمون سابق پریس سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر اور سابق مرکزی سیکرٹری اطلاعات مسلم لیگ ن ہیں)

تازہ ترین