پاکستان کی تاریخ پر اگر آپ نظر ڈالیں تو پاکستان کی معیشت ہمیشہ عروج و زوال کا شکار رہی ہے۔ جب کبھی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہوتی ہے، کچھ ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں جن سے ملکی معیشت پسپائی کا شکار ہوجاتی ہے، نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں جب پاکستان آئی ایم ایف کاپروگرام پورا کرکے نکل گیا تھا اور یہ امید کی جارہی تھی کہ پاکستان اب دوبارہ آئی ایم ایف کا رخ نہیں کرے گا۔ یہ وہ وقت تھا جب معیشت کی شرح 6.1 تک جاپہنچی تھی، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 116 روپے کی سطح پر تھی، مہنگائی کی شرح 3.9 فیصد تھی اور بلومبرگ جیسے عالمی ادارے یہ پیش گوئی کررہے تھے کہ 2025ء تک پاکستان کا شمار دنیا کی 25 بڑی معیشتوں میں ہوگا۔ ایسے میں پاکستان کی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا اور سارا نظام لپیٹ دیا گیا، نواز شریف حکومت کو گھر بھیج دیا گیا، اقامہ کو بنیاد بناکر ہمیشہ کیلئے سیاست پر پابندی لگادی گئی اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمران خان کو لایا گیا اور یہیں سے معیشت کی تنزلی کا سفر شروع ہوا اور نوبت دیوالیہ ہونے تک جاپہنچی۔ آنے والے وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت قائم رہتی تو آئی ایم ایف پروگرام پی ٹی آئی حکومت کی پیٹرول پر سبسڈی کے باعث سبوتاژ ہوگیا تھا اور کچھ ماہ میں ہی ملک دیوالیہ ہوجاتا۔اپنے حالیہ انٹرویو میں سابق وزیراعظم نواز شریف یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ مجھ سے انتقام لینے والوں نے ملک کو بھی انتقام کا نشانہ بنایا۔
آج آئی ایم ایف سے معاہدے اور اسحاق ڈار کی واپسی کے بعد معیشت میں دوبارہ بہتری کے آثار دیکھنے میں آرہے ہیں، ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد کچھ ہی دنوں میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مستحکم ہوکر اس میں 22 روپے کی کمی واقع ہو چکی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ روپے کی حالیہ قدر مصنوعی تھی جو سیاسی غیر یقینی کی صورتحال، افواہوں اور ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ اسحاق ڈار کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 200 تک آجائے گا ۔اسی طرح اسٹاک ایکسچینج میں بھی بہتری کے آثار پیداہوئے ہیں اور پیٹرول کی قیمتوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں اپٹما کے عہدیداران سے ملاقات میں اسحاق ڈارنے وقت ضائع کئے بغیر اُنہیں خطے کے دوسرے ممالک کی طرح یکساں پلیئنگ فیلڈ دینے کا اعلان کیا اور اس کے لیے5 ایکسپورٹ سیکٹرز کو رعایتی نرخوں پر بجلی فراہم کرنے کے اقدام کو اپٹما اور ایکسپورٹرز نے بھی سراہا۔
اسحاق ڈار کی واپسی اور وزیر خزانہ کا منصب سنبھالنے کے بعد معیشت میں بہتری کے آثار دیکھنے میں آرہے ہیں۔ اسحاق ڈار آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے مذاکرات اور ڈیل کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اسحاق ڈار کا یہ بیان قابلِ ذکر ہے، جس میں انہوں نے پاکستان میں سیلاب کی موجودہ صورتحال کے باعث آئی ایم ایف کی سخت شرائط میں نرمی کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اسی طرح 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے باعث پاکستان عالمی پابندیوں کا شکارہوا تواسحاق ڈار نےپاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا اور ایٹمی دھماکے کے باعث پاکستان پر لگنے والی عالمی پابندیوں کے نتیجے میں معاشی بحران میں آئی ایم ایف سے ریسکیو پیکیج پر کامیاب مذاکرات کئے جس پر مخالفین بھی ان کے معترف ہیں۔
حالیہ دنوں میں اسحاق ڈار کا ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں اعتماد کے ساتھ یہ کہنا کہ روپے کی قدر میں مزید بہتری آئے گی اور عوام کی تکالیف کو دیکھتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر لیوی نہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے جس سے آئی ایم ایف کا پروگرام متاثر نہیں ہوگا کیونکہ وہ 25 سال سے آئی ایم ایف سے ڈیل کرنا جانتے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار، اسٹیٹ بینک کے گورنر کے ہمراہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے مذاکرات کیلئے امریکہ گئے ہیں جہاں وہ ان اداروں سے سیلاب کے باعث پیدا ہونے والی معاشی صورتحال کے پیش نظر پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی نہ لگانے پر مذاکرات کریں گے اور انٹرنیشنل ریٹنگ ایجنسی موڈیز کے حکام سے بھی ملاقات کریں گے جس نے میٹنگ سے پہلے ہی پاکستان کی ریٹنگ منفی کرکے پاکستان کی بانڈز مارکیٹ کو متاثر کیا۔ امید کی جارہی ہے کہ اسحاق ڈار کے ایک اچھے مذاکرات کار ہونے کے باعث ان کا یہ دورہ کامیاب ہوگا اور وہ ان عالمی اداروں سے مثبت نتیجہ لے کر وطن واپس لوٹیں گے۔ قوم اور بزنس کمیونٹی نے ان سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، ان پر وہ پورا اتریں گے۔