• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گلگت بلتستان حکومت کا اسکول کی سطح سے سٹیم مضامین (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی) کو متعارف کرانے کا حالیہ اقدام بے حد قابل تحسین ہے۔ یہ اقدام منفرد بھی ہے اوردانش مندانہ بھی ۔ اساتذہ کی روایتی بھرتی کی بجائے حکومت پرائیویٹ سیکٹر پروائیڈر (پی ایس پی) کی خدمات حاصل کررہی ہے ۔ اس میں کھلے مسابقتی عمل کے ذریعے منتخب شدہ چونتیس اسکولوں میں ڈیجیٹل تعلیم دی جائے گی۔ پی ایس پی ہر اسکول میں ایک ماہر شخص کو بھیجے گا جوا سکول میں سرور، روٹر اور پاور بیک کیلئے یوپی ایس سمیت ای لرننگ کا ماحول قائم کرے گا۔ مواد کی فراہمی اورمرکزی ڈیٹا سنٹرقائم کرنے کیلئے لرننگ مینجمنٹ سسٹم( ایل ایم ایس)کو استعمال کیا جائے گا۔ اسے کلائوڈ سے منسلک کیا جائے گا اور مانیٹرنگ کے لیے ڈیش بورڈ قائم کیے جائیں گے ۔ پی ایس پی اساتذہ اور محکمہ تعلیم کے ای ایم آئی ایس سٹاف کی ترتیب کرے گاتاکہ وہ ہارڈ ویئر، سافٹ وئیر، ایل ایم ایس، مواد اور ڈیٹا کو آپریٹ اورمینٹین کرسکیں ۔سرکاری اسکولوں میں 144 تجربہ گاہیں اور کتب خانے قائم کرنے کی تجویز ہے ۔ ایس سی او کو مزید فعال بنانےکیلئے اسکولوں تک آپٹک فائبر بچھانے کی ضرورت ہوگی۔ گلگت میں گزشتہ ماہ چیف سیکرٹری نے کیرئیر فسٹ (Career Fest) کا اہتمام کیا تھا،جس میں صوبے بھر کے اسکولوں کے بیس ہزار طلبا نے شرکت کی اور ان امکانات کو دیکھا جن میں وہ بطور افرادی قوت عملی زندگی میں قدم رکھنے کیلئے تیار ہوں گے ۔ مختلف شعبوں سے ماہرین کو مدعو کیا گیاتاکہ طلبا کو ان شعبہ جات کے متعلق آگاہی دی جاسکے ۔ کیئریر فسٹ کے بعد بچوں کوتکنیکی مہارتیں سکھانے کیلئے تیس سرکاری اسکولوں میں ٹیک بوٹ کیمپ (Tech Boot Camps) قائم کیے گئے ۔ ان کیمپوں میں بارہ سو سے زائد بچوں کو براہ راست تربیت دی گئی جب کہ پانچ سو نے بالواسطہ طورپر ان سے استفادہ کیا ۔ اس کے بعدتربیت پانے والے نوجوان عوامی مقابلوں اور نمائشوں میں اپنے اپنے منصوبے پیش کریں گے۔ سرکاری اسکولوں کے علاوہ نجی شعبے ، سول سوسائٹی اور این جی اوز کے زیر اہتمام بھی سینکڑوں ادارے چل رہے ہیں ۔ آغا خان یونیورسٹی نے گلگت میں اساتذہ کی تربیت کے پروفیشنل ڈویلپمنٹ سنٹر(پی ڈی سی) قائم کیے ہیں ۔اس کا بہت کامیاب ریکارڈ ہے۔

گلگت بلتستان کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹوں میں سے ایک بجلی کی مسلسل فراہمی کا نہ ہونا ہے۔ ہائیڈرو یا مائیکرو ہائیڈرو منصوبےکی کل پیداوار سردیوں میں 48 میگاواٹ اور گرمیوں میں 78 میگاواٹ ہے جبکہ طلب کا تخمینہ 300 میگاواٹ ہے۔دریائے سندھ کی چھ اہم معاون ندیوں، اولڈنگ، شیوکے، شگر، گلگت، ہنزہ، استور ندیوں پر ایسے مقامات موجود ہیں جہاں 21,000 میگاواٹ بجلی کے منصوبے لگائے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے سب سے بڑا، بونجی ہائیڈرو ہے لیکن وہاں تک رسائی مشکل ہے۔ وہا ں سے بجلی پیداکرنے اور پھر ترسیل کیلئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر درکار ہے۔ ہائیڈرو پروجیکٹس میں سرمایہ کاری بہت زیادہ ہے اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے اخراجات زیادہ تر آبادی اور کاروباری اداروں کیلئے ناقابل برداشت ہیں۔ علاقائی آف گرڈ کے قیام کا محرک کم ہے۔ اس لیے ایک بہتر متبادل یہ ہے کہ 1 میگاواٹ سے 4 میگاواٹ گرڈ شمسی توانائی کے پیداواری یونٹ ان اضلاع اور سب ڈویژنوں میں قائم کیے جائیں جہاں ہائیڈرو پاور دستیاب نہیں یا اقتصادی طور پر قابل عمل نہیں۔ ہم بنگلہ دیش کے تجربے سے سیکھ سکتے ہیں، جو دنیا کا سب سے بڑا آف گرڈ سولر پروگرام ہے، جہاں سولر ہوم سسٹم 20 ملین لوگوں کو دیہی علاقوں میں صاف توانائی فراہم کرتا ہے۔ 58 غیر سرکاری تنظیموں نے مائیکرو قرضہ جات کے ساتھ اسے انسٹال کیا ہے۔ آغا خان رورل سپورٹ پروگرام اور گلگت بلتستان رورل سپورٹ پروگرام اپنی مقامی معاون تنظیموں اور دیہی تنظیموں کے ذریعے ایسے منصوبوں کے لیے موزوں ہیں۔ یہ انتہائی اطمینان کی بات ہے کہ گلگت بلتستان کے سرکاری ملازمین کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے مسابقتی عمل کے ذریعے فیڈرل اور آل پاکستان سروسز کی طرح براہ راست بھرتی کیا جاتا ہے۔ ان کا معیار اتنا ہی اچھا ہے جتنا کہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کا، لیکن ان کا تجربہ محدود ہے۔ انھیں پاکستان کے اداروں میں وسط کیریئر اور سینئر لیول پر تربیت کیلئےبھیجا جانا چاہیے۔ ان میں سے بہترین کو غیر ملکی اسکالرشپس کیلئے منتخب کیا جائے۔اوپر دیئے گئے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے گلگت بلتستان کو منتقل کیے گئے مالی وسائل کو موجودہ سالانہ بجٹ میں تقریباً 70 ارب روپے یا 35,000 روپے فی کس سے بڑھانا ہوگا تاکہ دوسرے صوبوں کے لیے مختص کردہ رقم کو پورا کیا جاسکے۔ پچھلے سال یہ مختص کی گئی رقم اوسطاً 63,000 روپے فی کس تھی۔ دشوار گزار خطوں اور کم آبادی والے دور دراز علاقے میں بنیادی انفراسٹرکچر کی تعمیر کی لاگت یقینی طور پر خیبر پختون خوا سے متصل اضلاع سے زیادہ ہوگی۔ وفاقی حکومت کو بجٹ سال کے آغاز میں گلگت بلتستان حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا چاہیے تاکہ کارکردگی کے مخصوص اہداف حاصل کیے جا سکیں اور عمل درآمد کیلئےفنڈز جاری کیے جائیں، اسلام آباد سے مائیکرو مینجمنٹ کے بغیر نتائج کی نگرانی کی جائے۔ اگر ایسا اتفاق رائے ہو جائے تو ہر سال بجٹ میں مختص رقم میں بتدریج اضافہ کیا جانا چاہیے۔ گلگت بلتستان حکومت کو اپنے ذرائع سے ٹیکس اور نان ٹیکس ریونیو کو متحرک کرنے کیلئےکوششیں کرنی ہوں گی اور سالانہ بجٹ کا کم از کم 30 فیصد مقامی حکومتوں کو مختص کرنا ہوگا۔ ریونیو اتھارٹی کا قیام ایک خوش آئند قدم ہے لیکن اس کے لیے تبادلے یا ڈیپوٹیشن پر افراد بھیجنے کی بجائے موجودہ سرکاری ملازمین میں سے پیشہ ور افراد کے ذریعہ چلایا جائے جو اس کام کو انجام دینے کے اہل اور تربیت یافتہ ہوں۔

خلاصہ یہ کہ گلگت بلتستان کی اقتصادی صلاحیت کو حاصل کرنے کیلئے وفاقی وزارت سے اختیارات اور اختیارات کی منتقلی کے ساتھ ساتھ وفاقی مالیاتی فنڈز میں اضافہ کی ضرورت ہوگی تاکہ مقامی حکومتوں، گاؤں کی تنظیموں، کوآپریٹیو رورل سپورٹ نیٹ ورکس کو مضبوط کرنا ، ای ٹی آئی گلگت بلتستان کی لائن پر منصوبوں کی نقل تیار کرنے کیلئے عطیہ دہندگان کو راغب کرنا، اور سیاحت، بجلی کی پیداوار، ایگرو پروسیسنگ اور مارکیٹنگ میں نجی شعبے کو شامل کرنا ممکن بنایا جاسکے۔ حکومت نےسٹیم ایجوکیشن اور انسانی وسائل کی ترقی کے فروغ کیلئے کچھ انقلابی اقدامات کیے ہیں جنہیں طویل مدتی بنیادوں پر برقرار رکھا جائے اور تنازعات کے حل اور سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لیے گورننس کے ڈھانچے کو فعال بنایا جائے۔

تازہ ترین