• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سولہ اکتوبر 1951 کو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کو کمپنی باغ راول پنڈی میں پاکستان مسلم لیگ کے جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ اوائل سرما کی اس شام نواب زادہ لیاقت علی خان پونے چار بجے جلسہ گاہ میں پہنچے۔ ان کے استقبال کے لیے مسلم لیگ کا کوئی مرکزی یا صوبائی رہنما موجود نہیں تھا۔ مسلم لیگ کے ضلعی رہنماؤں نے ان کا استقبال کیا۔ مسلم لیگ گارڈز کے مسلح دستے نے انہیں سلامی پیش کی۔ پنڈال میں چالیس پچاس ہزار کا مجمع موجود تھا۔

مسلم لیگ کے ضلعی رہنما شیخ مسعود صادق کے خطبہ استقبالیہ کے بعد وزیراعظم مائیک پر آئے۔ انہوں نے ابھی ’’برادرانِ ملت‘‘کے الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ پستول کے دو فائر سنائی دیے۔ اگلی صف میں بیٹھے افغان باشندے سید اکبر نے پستول نکال کر وزیر اعظم پرگولی چلادی۔ پہلی گولی وزیر اعظم کے سینے اور دوسری پیٹ میں لگی۔وہ گر پڑے۔

نو سیکنڈ بعد 9 ایم ایم پستول کا ایک فائر سنائی دیا پھر یکے بعد دیگرے ویورلے ریوالور کے تین فائر سنائی دیے۔ اگلے 15 سیکنڈ تک ریوالور اور رائفل کے ملے جلے فائر سنائی دیتے رہے۔ اس وقت تک قاتل کے ارد گرد موجود لوگوں نے اسے قابو کر لیا تھا۔ اس کا پستول چھین لیا گیا تھا مگر ایس پی نجف خان کے حکم پر انسپکٹر محمد شاہ نے قاتل پر سرکاری پستول سے یکے بعد دیگرے پانچ گولیاں چلا کر اسے ختم کر دیا۔

وزیر اعظم شدید زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہر لائے گئے۔ وزیر برائے امورِ کشمیر نواب مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں داخل ہو رہی تھی۔ وزیر اعظم کو اسی گاڑی میں ملٹری اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کر گئے۔

لیاقت علی خان کا قتل پاکستان کی تاریخ کے پراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ان کا قتل وہ نکتہ ہے جہاں پاکستان کی قیادت سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ سے نکل کر سرکاری اہل کاروں اور ان کے کاسہ لیس سیاست دانوں کے ہاتھ میں پہنچی۔ قتل کے محرکات، سازشیوں کے نام اور واقعات کا تانا بانا شکوک و شبہات کی گہری دھند میں لپٹے ہوئے ہیں۔

یکم اکتوبر 1890 کو کرنال ( مشرقی پنجاب)کے متمول زمیں دار نواب، رستم علی خاں کے ہاں پیدا ہونے والے لیاقت علی خاں نے علی گڑھ اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ 1926 میں یوپی کی مجلسِ قانون سازکے رکن منتخب ہونے کے بعد انہوں نے ہندوستان کی مرکزی سیاست میں نمایاں حیثیت برقرار رکھی۔ ان کی بنیادی شناخت مسلم اشرافیہ کی سیاست تھی۔

وہ ابتدا ہی سے محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ہیکٹر بولیتھو کے مطابق قائد اعظم کو 1933 میں انگلستان سے واپس آ کر مسلم ہندوستان کی سیاست میں دوبارہ شریک ہونے پر لیاقت علی خان ہی نے آمادہ کیا تھا۔ 1940 کی قرار دادِ لاہورکے بعد سے لیاقت علی خان، مسلم لیگ میں قائداعظم کے دست راست سمجھے جاتے تھے۔

شخصی زندگی میں لیاقت علی خان روشن خیال اور مجلسی مزاج رکھتے تھے۔ وہ ہندوستان کی پہلی عبوری حکومت میں وزیر خزانہ بنے۔ تقسیم ہند کے بعد انہیں پاکستان کا وزیرِ اعظم منتخب کیا گیا۔

انہوں نےآکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی اور1922میں انگلینڈ بار میں شمولیت اختیار کی ۔ 1923میں ہندوستان واپس آئے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ 1936میں مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل بنے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان، نواب رستم علی خان کے دوسرے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ محمودہ بیگم نے گھر پر ان کے لیےدینی تعلیم کا انتظام کیا تھا۔ 1918 میں انہوں نےایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ 1918 ہی میں ان کی جہانگیر بیگم سے شادی ہوئی۔ 

شادی کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے جہاں آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ برطانیہ سے واپس آنے کے بعد انہوں نے اپنے ملک کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔1924میں قائداعظم محمد علی جناح کی زیرِ قیادت مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں ہوا۔

اس اجلاس کا مقصد مسلم لیگ کو دربارہ منظم کرنا تھا۔ اس اجلاس میں لیاقت علی خان نے بھی شرکت کی۔ 1926 میں وہ اتر پردیش سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1940 میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے تک یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔ 1932میں دوسری شادی کی۔ ان کی دوسری بیگم ، رعنا لیاقت علی ماہر تعلیم اور معیشت داں تھیں۔ وہ لیاقت علی خان کی زندگی کی بہترین معاون ثابت ہوئیں۔

زندگی کا بہت بڑا فیصلہ

پچاس کی دہائی میں ایک بیوروکریٹ نے بیگم لیاقت علی خان سے پوچھا کہ انسان اپنی اولاد کے لیے کچھ نہ کچھ جمع کرتا ہے، خان صاحب نے کیوں ایسا نہیں کیا؟ بیگم صاحبہ نے جواب دیاکہ ایک بار میں نے بھی خان صاحب سے یہ سوال پوچھا تھا۔خان صاحب نے جواب دیا میں ایک نواب خاندا ن سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے زندگی میں کبھی ایک لباس دوسری بار نہیں پہنا تھا۔

میرے خاندا ن نے مجھے آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھیجا تو مجھے خانساماں، خادم اور ڈرائیور دے رکھا تھا۔ ہم کھانا کھاتے یا نہ کھاتے ہمارے گھر پچاس سے سو لوگوں کا کھانا روزانہ پکتا تھا۔ لیکن جب میں پاکستان کا وزیر اعظم بنا تو میں نے اپنے آپ سے کہا کہ لیاقت علی خان اب تمہیں نوابی یا وزارت عظمی میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا اور میں نے اپنےلیے وزارت عظمی منتخب کر لی۔

سادہ زندگی

بیگم رعنا لیاقت علی خان کے مطابق قائد ملت فرمایا کرتے تھے کہ میں جب بھی اپنے لیے کپڑا خریدنے لگتا ہوں تواپنے آپ سے سوال کرتا ہوںکہ کیا پاکستان کے سارے عوام کے پاس کپڑے ہیں۔ میں جب اپنا مکان بنانے کا سوچتا ہوں تو اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا پاکستان کے تمام لوگوں کے پاس اپنے گھر ہیں۔

جب میں اپنے بیوی بچوں کے لیے کچھ جمع کرنے کا سوچتا ہوں تو اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا پاکستان میں سب لوگوں کے بیوی بچوں کے لیے کچھ ہے؟جب سب سوالوں کا جواب نفی میں ملتا ہے تو میں اپنے آپ سے کہتاہوں کہ لیاقت علی خان ایک غریب ملک کے وزیر اعظم کو نئے کپڑے، لمبا چوڑا دسترخوان اور ذاتی مکان زیب نہیں دیتا۔