پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی 10 اکتوبرکوپہلی برسی تھی۔ان کی برسی پر ان کی فیملی کی طرف سے تعزیتی ریفرنس کا اہتمام کیا گیا، تقریب کے شرکاء اور مقررین میں سے بیشتر کا تعلق ڈاکٹرخان کے ذاتی دوستوں میں سے تھا یا پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے پراجیکٹ ’’کے آر ایل ‘‘ میں کاکام کرنے والوں کا۔ تقریب میں نامور شخصیات نے ڈاکٹر خان کے ساتھ گزرے دنوں کی یادیں تازہ کیں اور ڈاکٹر خان سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ ڈا کٹر عبدلقدیر خان کی خدمات کا جہاں ذکر آتا ہے وہاں اس ایٹمی پروگرام کو حقیقت کا روپ دینے میں ذوالفقار علی بھٹو ، ضیاالحق ، نواز شریف ، غلام اسحٰق اور آغا شاہی کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ میں حیران تھاکہ اس تقریب سے دو وفاقی وزراء ، ریٹائرڈ جرنیلوں اور دفاعی و خارجہ امور کے ماہرین نے خطاب کرتے ہوئے جہاں ڈاکٹر خان ،ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل ضیا الحق اور دیگر شخصیات کی خدمات کو سراہا وہاں ’’دانستہ یا نادانستہ‘‘ بھارت کے 5دھماکوں کے مقابلے میں 6دھماکے کر کے پاکستان کو ایٹمی کلب کا رکن بنانے والے سیاست دان میاں نواز شریف کو بھلا دیا ۔کسی مقرر نے بھولے سے بھی نواز شریف کا ذکر نہیں کیا جنہوں نے امریکی صدر بل کلنٹن کی طرف سے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی صورت میں 5ارب ڈالر کی پیشکش مسترد کر دی اور اپنے اقتدار کی پروا کئے بغیر چاغی کے پہاڑ میں دھماکے کر کے پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا ببانگ دہل اعلان کیا۔ بھارت میں ڈاکٹر عبدالکلام کی وفات پر ان کی میت کے سامنے جس طرح بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ’’با ادب ‘‘ کھڑا نظر آیا اور ان کی میت کے قدم چومے، اس سے پڑوسی ملک میں قوم کے محسن کی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر خان کو سرکاری اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا لیکن ان کے جنازے میں صدر اوروزیر اعظم سمیت کسی اہم سرکاری شخصیت نے شرکت نہ کی ۔سابق وزیر اعظم عمران خان ان کی رہائش گاہ پر تعزیت کے لئے بھی نہ گئے البتہ عوام نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جس عقیدت سے رخصت کیا، اس سے ان پر20سال قبل لگائے گئے تمام الزامات دھل گئے آج وہ لوگ بھی ڈاکٹر خا ن کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہیں جو اس وقت ان پر نیوکلیئر ٹیکنالوجی برآمد کرنے اور مال کمانے کے الزامات عائد کرتے تھے۔عوام کی طرف سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے میں بھرپور شرکت نے ڈاکٹر خان کی سچائی کی گواہی دے دی۔
امریکہ نے ایران اور لیبیا کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کے لئے کارروائی شروع کی تو پرویز مشرف نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے ایران اور لیبیا کو نیوکلیر ٹیکنالوجی دینے کا الزام ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر ڈال دیا ۔ میرا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ 36سال کا تعلق رہا ۔ میں نے ان سے بارہا یہ پوچھا کہ’’ آپ نے پرویز مشرف کے دباؤ او رچوہدری شجاعت حسین کے اصرار پر کیوں یہ الزام اپنے سر لے لیا ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستان کو بچانے کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی برآمد کرنے کا الزام قبول کیا۔ مجھے کہا گیا کہ میں اگر الزام قبول نہ کرتا تو پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا۔‘‘ انہوں نے ایک ہی جملے میں ساری حقیقت بیان کر دی، ’’میں تو ایک سرکاری ملازم تھا مجھے اوپر سے جو حکم ملا ، اس پر عملدرآمد کر دیا، اس کے سوا میرا کوئی رول نہیں تھا ۔بھلا میں سینٹری فیوج مشینیں اٹھا کر دنیا میں فروخت کر سکتا تھا؟‘‘
27مئی 1998ء میری صحافتی زندگی کا اہم ترین دن تھا جب میں اور میرے ساتھی دفاعی رپورٹر سہیل عبد الناصر نے ڈاکٹر عبد القدیر خان سے ملاقات کے بعد ایک روز قبل ’’ایٹمی دھماکہ‘‘ کیے جانے کی مشترکہ ایکسکلیوزیو سٹوری فائل کی تھی۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی اس خبر کا مسودہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے 1984-85 سے یاد اللہ تھی جب انہوں نے کولڈ ٹیسٹ کے ذریعے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیا تھا۔ راقم نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کے اعزاز میں راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب میں ’’تقریب پذیرائی‘‘ منعقد کر کے ڈاکٹر خان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔ڈاکٹر عبد القدیر خان نے مجھے اور سہیل عبدالناصر کو 27مئی1998ء کی سہ پہر اپنے دفتر بلوایا اور اس بات کا انکشاف کیا کہ28مئی1998ء کو کئے جانے والے ایٹمی دھماکوں کے پیش نظر پاک بھارت سرحد پر ایٹمی وار ہیڈ نصب کر دئیےگئے ہیں، ایٹمی دھماکوں کے وقت اگراسرائیل نے بھارت کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف ’’ جارحیت‘‘ کے لئے استعمال کیا تو پاکستان اسے اپنے خلاف ایٹمی جنگ تصور کرے گا جس میں بھارت کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹ سکتا ہے۔
میں نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو اس روز جتنا مضطرب دیکھا، اتنا کبھی نہ دیکھا ۔ انہیں بتایا گیا کہ 28مئی1998ء کی سہ پہر 3بج کر42منٹ پر ایٹمی دھماکے کئے جا رہے ہیں لیکن وہ اس وقت ’’چاغی‘‘ کے اس پہاڑ میں ایٹمی توانائی کمیشن کے ان سیاست دانوں کے ہمراہ موجود نہیں ہوں گے،اس طرح ان کی ساری زندگی کی محنت کا کریڈٹ ایٹمی توانائی کمیشن کے سر تھوپنے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔ پاکستان کی عسکری قیادت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو چاغی جانے کے لئے خصوصی طیارہ فراہم کر دیا ۔ساری دنیا جانتی ہے کہ یورینیم کی95فیصد افزودگی کا سہرا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے سر ہے اگر مطلوبہ معیار کے مطابق یورینیم ہی افزودہ نہ ہوتی تو ایٹم بم کیسے بنایا جا سکتا ؟ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات غیرمعمولی ہیں جو1975ء میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست پر پاکستان آگئے اور پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا خواب شرمندۂ تعبیر بنا دیا۔ (جاری ہے)