• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک سے زائد نشستوں پر الیکشن لڑنے کے نقصانات، بھارت میں پابندی

کوئی زمانہ تھا کہ ‏مملکت خدادا پاکستان کی طرح پڑوسی ملک انڈیا میں بہت سی سیاسی خرابیاں ہوا کرتی تھیں ۔ہر طرح کا بگاڑاور” جمہوری بد معاشیاں “ان کی سیاست کا لازمی جزو تھیں ۔اور ایک عرصہ تک سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی خرافات پر فخر کرتے رہے، تاہم ان کی خوش قسمتی کہ وہاں جمہوریت چلتی رہی نہ کوئی مارشل لا لگا اور نہ ہی لاڈلے پالنے کا رواج فروغ پاسکا اور یوں مسلسل انتخابی عمل کا چھاننا “سیاسی کنکر وں” کو معاشرے سے الگ کرتا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج وہاں جمہوری نظام بہت ہی بہتر انداز میں چل رہا ہے۔ خامیاں خوبیاں اپنی جگہ لیکن جمہوری عمل قابل ذکر حد تک شفاف ہے ۔پڑوسی ملک میں بہت سی دیگر سیاسی خرابیوں کے ساتھ ایک خرابی یہ بھی تھی کہ ایک امیدوار دو چار چھ حلقوں سے بیک وقت الیکشن لڑ سکتا تھا اور یوں عوام کے ٹیکسوں پریہ “سیاسی عیاشی “کافی عرصہ چلتی رہی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جمہوری عمل کی تسلسل کی وجہ سے عوام میں سیاسی شعور بھی مستحکم ہو ا اور سوال اٹھنے لگے کہ ہمارے ٹیکسوں پر کسی شخص کو اپنی ذاتی پروجیکشن کا حق کیوں حاصل ہو؟؟جس کسی نے بھی اپنی مقبولیت ثابت کرنی ہے اپنی پارٹی کے خرچے پر کرے یا پھر اپنی جیب پر زور ڈالے ۔یہ سوال جب تمام اطراف سے اٹھنے لگا تو عوام کے اس سیاسی شعور کے سامنے الیکشن کمیشن بھی بے بس ہوگیا اور ایک وقت آیا کہ الیکشن کمیشن نے بھی عوام کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوگیا اور عوام کے اس سوال کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے کہ اگر ایک شخص ایک سے زیادہ حلقوں میں الیکشن لڑتا ہے اور جیت جاتا ہے تو ایک نشست کے علاوہ باقی سب سے تو وہ مستعفی ہوگا اب اس کی چھوڑی گئی نشستوں پر جو ضمنی انتخاب ہوگا اس کے اخراجات قومی خزانے سے کیوں ادا کیے جائیں؟ یعنی صرف ایک شخص کی خاطر پورے حلقے کے عوام کو مشقت میں کیوں ڈالا جائے، ہزاروں لوگ ڈیوٹی کرنے کیوں جائیں اور قومی خزانے پر اضافی بوجھ کس لیے؟ اور یوں عوام کی جیت ہوئی ۔پار لیمان کو نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 33میں ترمیم کرنی پڑی اور قرار دیاگیا کہ ایک آدمی صرف دو حلقوں سے الیکشن لڑ سکتا ہے بات یہاں پر بھی نہیں رکی اور عوام کا سیاسی شعور اس پر بھی مطمئن نہیں ہوا ۔سوال پھر سے اٹھا کہ خالی نشست پر دوبارہ انتخاب کیوں اور وہ بھی عوام کے ٹیکسوں پر ؟؟؟اور عوام ایک بار پھر سے جیت گئے کہ جب 2019 کے انتخابات کے بعد بھارتی الیکشن کمیشن عوام کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے سپریم کورٹ چلا گیا اور پٹیشن دائر ہوئی“ کہ یہ بھی مناسب نہیں کہ ایک آدمی دو حلقوں سے الیکشن میں حصہ لے اب الیکشن کمیشن چاہتا ہے کہ ایک امیدوار کو صرف ایک حلقے سے الیکشن لڑنے کی اجازت ہو” اور یوں عوام کے سیاسی شعور کی جیت ہوئی۔اب ذرا اپنے ملک کے انتخابی عمل کا جائزہ لیتے ہیں کہ جہاں سولہ اکتوبر کو ہونے والے قومی اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کےچیئر مین اور سابق وزیر اعظم عمران خان جنہوں نے پارلیمان کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اپنی جماعت کے تمام اراکین قومی اسمبلی کو اجتماعی استعفوں پر مجبور کیا تھا قومی اسمبلی کے آٹھ میں سے سات حلقوں پر خود امیدوار تھے ۔جن میں سے چھ پر وہ کامیاب بھی ہوگئے ہیں ۔اور اب مضحکہ خیز صورتحال یہ ہے خیر سے چھ نشستیں پھر سے خالی ہی رہیں گی کیونکہ خان صاحب نے حلف تو اٹھانا نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی قومی اسمبلی کے رکن ہیں ۔ابھی تک ان کا استعفیٰ بھی منظور نہیں ہوا اور قانون کیمطابق ایک آدمی ایک وقت میں ایک ہی نشست رکھ سکتا ہے جو ان کےپاس پہلے سے ہی موجود ہے۔یوں ان کی خالی کردہ نشستوں پر پھر سے انتخابات ہوں گے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ ایک بار پھر عمران خان صاحب ہی تمام حلقوں سے امیدوار بن جائیں۔اب یہاں پر سوال یہ ہے کہ کیا اس نظام میں اتنی سکت ہےکہ وہ اس کھیل کو روک سکے ؟؟اور یقیناً اس سوال کا جواب نفی میں ہے !!!تو پھر اس شوقیہ انتخابی عمل کے اخراجات وہ غریب قوم کیوں برداشت کرے جو پہلے سے ہی اربوں ڈالر کی مقروض ہے اور جس کا وزیراعظم ،وزیر خارجہ ، وزیر خزانہ سب بھیک مانگتے پھر رہے ہیں ، جس کا وزیراعظم کہتا ہے کہ اب تو زہر کھانے کو بھی پیسے نہیں ہیں،اور جس ملک کی ساری مشینری پورا زور لگا روزانہ کی بنیاد پر چند ارب اکٹھے کرتی ہے کہ کسی طرح آج کا دن نکل جائے ۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ایک اور دلچسپ کہانی سنیں ۔اور یہ کوئی ایک کہانی نہیں ایسی بہت سی کہانیاں ہیں ۔یہ کہانی ملتان کے ایک مشہور حلقہ کہ جس میں میرا ووٹ بھی ہے کی ہے اور وہ حلقہ ہے این اے 157،یہ کہانی عمروعیار ،چلوسک ملو سک یا پھر عمران سیریز سے کسی طرح بھی کم دلچسپ نہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ 2018کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی نے اس حلقہ سے انتخاب میں حصہ لیا جبکہ ان کے والد صاحب بھی قریبی حلقہ سے بیک وقت قومی و صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑرہے تھے دونوں باپ بیٹا قومی اسمبلی کا الیکشن جیت گئے جبکہ بڑے مخدوم صاحب صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہار گئے اور اپنی شکست کا ذمہ دار جہانگیر ترین کو ٹھہرایا خیر آگے چلتے ہیں شاہ محمود قریشی صاحب جس نشست سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہارے تھے وہ عدالتی حکم پر خالی ہوگئی اور یوں والد کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مخدوم شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیا اور صوبائی اسمبلی کی اُس نشست سے الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا جو ان کے والد صاحب ہارے تھے۔الیکشن ہوا زین قریشی جیت گئے اور یوں وہ ایم این اے سے ایم پی اے بن گئے کہانی یہاں پر بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ ہوا یوں کہ اب زین قریشی کی خالی کردہ نشست پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی بہن محترمہ مہر بانو قریشی نے الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ،الیکشن ہوا اور ان کا سامنا عاجزی و انکساری کے پیکر اور انتھک علی موسی گیلانی سے تھا ۔محترمہ شکست کھا گئیں !یوں یہ “فیمیلی سیریز “اختتام پزیر ہوئی اب یہاں ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ اس خالصتاً خاندانی “سیاسی سرکس “کے نتیجے میں ہونے والے ضمنی انتخابات کا خرچ غریب قوم کیوں برداشت کرے۔؟عمران خان اس وقت بھی رکن قومی اسمبلی ۔کیا کوئی ذمہ دار ادارہ یا پھر الیکشن کمیشن عوام کو جواب دے سکتا ہے یا پھر مطمئن کرسکتا ہے کہ ایک شخص قومی اسمبلی کا ممبر ہوتے ہوئے سات نشستوں پر الیکشن کیسے لڑا ؟؟؟ اور انتخابی ضابطےکی کونسی شق اس بات کی اجازت دیتی ہے ؟؟؟ اور متعلقہ ادارے اس بابت کیوں خاموش تماشائی بنے رہے ؟؟؟کیا آئین اور اخلاقیات کے ساتھ اس سے بڑا کھلواڑ ہوسکتا ہے ؟؟کیا کسی مہذب معاشرہ میں یہ ممکن ہے کہ ایک ایسا ملک کہ جو سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے لوگ بھوک سے مر رہے ہیں زندگی بچانے والی ادویات تک ناپید ہیں وہاں اتنی بڑی سیاسی عیاشی کی جائے ؟؟ضمنی انتخاب کوئی معمولی مشق نہیں ایک حلقے کے ضمنی انتخاب میں کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں نظام زندگی مفلوج ہوجاتا ہے سرکاری ملازمین دفاتر کا کام چھوڑ کر انتخابی ڈیوٹی دیتے ہیں ۔چلیں کسی ناگزیر صورت حال میں ضمنی انتخاب ہو تو لوگوں کو اس عمل سے گزارنے میں کوئی حرج نہیں لیکن محض ایک سیاسی حربے کے طور پر یا پھر اپنی مقبولیت دکھانے کیلئے عوام کو بار بار ایک فضول مشق سے گزارنا اور اس مشق پر کروڑوں روپے ضائع کرنا کیسی حکمت عملی ہے۔یہ کیسے لیڈر ہیں جو ایک تباہ حال معیشت کے حامل ملک پر مزید معاشی دباؤ ڈال رہے ہیں ۔ایک دن کابھی سیاسی سکون نہیں جس وجہ معیشت آئے روز زوال پزیر ہے کیا عوام اپنی سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن سے یہ مطالبہ کریں گے کہ “ایسی سیاسی عیاشیوں کے اخراجات قومی خزانے کے بجائے متعلقہ امیدوار یا اس کی جماعت سے ہی وصول کیے جائیں یا پھر یہ سیاسی عیاشی بند کی جائے۔

تازہ ترین